الثلاثاء، 24 شوال 1446| 2025/04/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

متحدہ عرب امارات کے حکمران اپنے انگریز آقاؤں کی خاطر امت کی دولت کو ضائع کر رہے ہیں

(ترجمہ)

 

خبر:

          امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ابوظہبی کے نائب حکمران اور متحدہ عرب امارات کے قومی سلامتی کے مشیر شیخ طہنون بن زید النہیان کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے بعد امریکہ نے جمعہ 21 مارچ 2025 کو اعلان کیا کہ متحدہ عرب امارات اگلے دس سال میں 1.4 ٹریلین(1400ارب) ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ متحدہ عرب امارات میں امریکی سفارت خانے کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ "متحدہ عرب امارات نے فخر کے ساتھ ریاست ہائے متحدہ میں 1.4 ٹریلین ڈالر کے سرمایہ کاری کے فریم ورک کا عزم کیا ہے۔ یہ نیا فریم ورک امریکی معیشت میں AI انفراسٹرکچر، سیمی کنڈکٹرز، توانائی، اور امریکی صنعتوں میں متحدہ عرب امارات کی موجودہ سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ کرے گا۔" ( ماخذ

 

 

تبصرہ:

          خلیجی ریاستیں بالعموم اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) بالخصوص برطانیہ کے لیے پیٹرول پمپ سے زیادہ کچھ نہیں، جیسا کہ برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے کہا۔ یہ حقیقت انگریزوں کو ان ریاستوں کو اس حیثیت میں استعمال کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے، اور کچھ نہیں۔ جو کوئی بھی یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ امریکہ میں اماراتی سرمایہ کاری کے پیچھے کیا ہے، اسے اس بات کی تحقیق کرنی چاہیے کہ برطانیہ اس معاہدے سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات کسی بھی مبصر کے ذہن میں نہیں آنی چاہیے کہ متحدہ عرب امارات، اور روائیبادہ، اس پر حکمرانی کرنے والے ادنیٰ حکمران، اپنے کسی بھی اقدام میں ذاتی، یا "قومی" دلچسپی رکھتے ہیں، چاہے وہ علاقائی ہو یا بین الاقوامی۔

 

          متحدہ عرب امارات (یو اے ای)اسلامی دنیا میں ایک برطانوی استعماری اڈے سے زیادہ کچھ نہیں ہے، جہاں سے تمام برائیوں کی ماں، برطانیہ، عالم اسلام میں تباہی پھیلانے، امریکی تسلط کا مقابلہ کرنے، بین الاقوامی حیثیت اور اثر و رسوخ کے لیے امریکا سے مقابلہ کرنے، اور عوام کی دولت کو لوٹنے اور محکوم بنانے کی مہم چلاتا ہے۔ یہ وہ سیاسی تصور ہے جس سے ہمیں تجزیہ کرنا اور سمجھنا چاہیے کہ برطانیہ کے خادم کی طرف سے اس سرمایہ کاری کے پیچھے کیا مقاصد ہیں،جبکہ برطانیہ سب سے زیادہ نفرت امریکہ سے کرتا ہے۔

 

          1964 میں سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان، خروشیف اور کینیڈی کی ثالثی میں دنیا کو دو کیمپوں میں تقسیم کرنے کے بعد سے، امریکہ نے اپنی دولت ، اور زیادہ سیاسی اور نظریاتی نوعیت کے پیش نظر، دنیا میں، خاص طور پر دنیا کے اسلامی خطوں میں، برطانیہ کے اثر و رسوخ اور نوآبادیات پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکہ اس مقصد کو حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو چکا ہے، برطانیہ کو اس سلطنت سے جس پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا، دوسرے درجہ کی طاقت میں تبدیل کر دیا ہے۔

 

          لیکن برطانیہ نے اپنی کمزوری اور اس کمزوری سے آگاہ ہونے کے باوجود امریکی کاؤ بوائے کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے، جو اسے بین الاقوامی تنازعات میں امریکہ کا سر توڑ مقابلہ کرنے سے روکتی ہے۔ اس لیے اس نے امریکی دیو کے سائے میں چلنے اور جب بھی موقع ملے، اسے زخم لگانے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔

 

          اس کی ایک مثال سوڈان میں جاری تنازعہ میں متحدہ عرب امارات کی مداخلت ہے جہاں دونوں لڑنے والی گروہوں کی قیادت امریکہ کے ایجنٹوں، برہان اور ہمدتی، کے ہاتھ میں ہے۔ برطانیہ نے امارات کے ذریعے ان میں سے ایک، ہمدتی کی حمایت کی، تا کہ برطانویہ کو سوڈان میں اور متحارب فریقوں کے درمیان میں قدم جمانے کا موقع مل سکے ۔ برطانیہ نے یہ اس لیے کیا تا کہ وہ سوڈان میں ہونے والے واقعات اور ان کے نتائج پر اثر انداز ہو سکے، اور کم از کم دودھ میں میگنیاں ڈال کر امریکہ کے منصوبوں کو خراب کر سکے۔

 

          اس کی ایک اور مثال یو اے ای کی جانب سے آزاد ہونے والےشام میں سرمایہ کاری کے بہانے قدم جمانے کی کوششیں ہیں۔ اسی طرح یمن میں اپنےتجربہ کار ایجنٹ علی عبداللہ صالح کی معزولی کے بعد برطانیہ کی مداخلت ، وہاں اپنے اثر و رسوخ کے زیادہ سے زیادہ حصے کو محفوظ رکھنے کے لیے ہے۔

 

          برطانیہ، جس نے امریکی تسلط کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا، امریکہ اور یہودی ریاست کے اندر بھی ایسا ہی کرنے کا خواب دیکھتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اپنے دشمن کے پیٹ میں اپنے ایجنٹ کی سرمایہ کاری کے ذریعے یہ امریکی درندے کے دل میں صحیح وقت پر وار کر سکتا ہے۔ تاہم، امریکہ اس حقیقت سے واقف ہے، اور تاجر اور امریکی صدر، ڈونلڈ جے ٹرمپ کا خیال ہے کہ وہ ان گیمز پر قابو پانے، کنٹرول کرنے اور ان سرمایہ کاری سے فوری فائدہ اٹھانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ٹرمپ کو یقین نہیں ہے کہ اگر برطانیہ چاہے تو اس کے پیٹ میں چھرا گھونپ سکتا ہے، خاص طور پر چونکہ برطانیہ ، امریکہ کے قریبی نگرانی اور کنٹرول میں ہیں۔

 

          سوال یہ ہے کہ کیا برطانیہ امریکہ کو دھوکہ دے سکتا ہے یا نہیں؟ کیا برطانیہ واقعی امریکی کنٹرول میں رہے گا اور امریکہ کو ان سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دے گا، بغیر کسی زہریلے اثرات کے؟ یہ سوال دوسرے کے حوالے سے ہر لومڑی کی چوکسی سے مشروط ہے۔ تاہم ایسا نہیں لگتا کہ برطانیہ دھوکہ دینے کے قابل ہو گا۔ اس کے باوجود، کوشش کرنے کا "اعزاز" اس کے پاس ہے، خاص طور پر چونکہ اس نے اپنے خزانے سے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا، اور وہ یہ کام اپنے آخری ایجنٹوں کے ذریعے کرنے کی کوشش کررہا ہے جبکہ غالب امکان ہے کہ اس کوشش میں وہ زخمی بھی نہیں ہوگا۔

 

          جہاں تک یہودی ریاست میں متحدہ عرب امارات کی سرمایہ کاری، اس کے ساتھ اس کا تعلقات معمول پر لانا، ابراہیمی معاہدوں کو اپنانا، اور اس کا فلسطین اور غزہ کے لوگوں کے خلاف یہودیوں کی حمایت کا تعلق ہے، تو یہ تمام گھناؤنے کام محض مشرق وسطیٰ کے سب سے زیادہ گرم تنازعہ میں اپنے آقا، برطانیہ کے لیے قدم جمانے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔

 

          نیویارک میں مقیم امریکہ نواز یہودی انتہا پسندوں کے ہاتھوں رابن کے قتل کے بعد یہودی وجود میں برطانوی اثر و رسوخ کمزور یا تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے رابن اور پیریز نے اوسلو معاہدے کے لیے ہونے والی کوششوں میں امریکہ کو دور رکھا تھا، اور برطانیہ نے یہ کام برطانوی ایجنٹ، یہودی لیبر پارٹی کے سربراہ، پیریز اور سب سے بڑے غدار، برطانوی ایجنٹ یاسر عرفات کے ساتھ مل کر کیا تھا۔

 

          جس وجہ سے متحدہ عرب امارات ان تمام گھناؤنے جرائم اور گھناؤنے کاموں کا ارتکاب کر رہا ہے، وہ یہ ہے کہ کسی طرح یہودی وجود کے اندر برطانوی اثر و رسوخ کو بحال کرسکے ، یا کم از کم، امریکہ اور خطے میں اس کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کی کوشش میں رکاوٹ ڈال سکے ۔

 

          دنیا میں کفریہ قوتوں کے درمیان بالخصوص مغربی کیمپ کے ارکان کے درمیان تنازعات اس وقت تک ختم نہیں ہوں گے جب تک ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو ختم اور تباہ نہ کر دے۔ یہ مغربی سرمایہ دارانہ استعماری ذہنیت ہے، جو تعاون، اشتراک اور باہمی افہام و تفہیم کو مسترد کرتی ہے۔ ایک روٹی صرف وہی کھاتا ہے جو باقی سب کو مار دیتا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظریہ ہے جو وائٹ ہاؤس میں امریکی تاجر صدر کے کردار میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔

 

          تاہم جو چیز روح پر بھاری ہے وہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان کے لیے لائی گئی بہترین امت اور اس کی دولت اس غلیظ تصادم کا ایندھن بن گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو چیز روح کو تسلی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ حقیقتیں، چالیں اور اوزار امت پر آشکار ہو چکے ہیں۔ امت اپنے دشمن اور اس کی خیانت اور صلاحیتوں کو جان چکی ہے اور اس سے خود کو آزاد کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔

 

          بلاشبہ یہ بہت جلد ہو گا، ان شاء اللہ، اسلام کے تہذیبی متبادل کے بارے میں امت کی بیداری کے ذریعے، جس کی نمائندگی نبوت کے نقش قدم پر قائم ہونے والی ریاست خلافت کرے گی، جو جلد ہی امت کی طاقت سے قائم ہو گی، انشاء اللہ، اور اس کے وفادار بیٹے اسےقائم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ رمضان کےان مبارک ایام میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ عالم اسلام کے اہل قوت کے دل کھول دے کہ وہ اسلام کے لیے نصرۃ (مادی حمایت) عطا فرمائیں، اس کی ریاست قائم کریں، اور مسلمانوں کے لیے ایک خلیفہ کی بیعت کرے... اے اللہ! آمین

 

مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر کے ریڈیو براڈکاسٹ کے لیے لکھا گیا۔

 

بلال المہاجر – ولایہ پاکستان

 

Last modified onہفتہ, 29 مارچ 2025 05:03

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک