بسم الله الرحمن الرحيم
یورپی-امریکی تنازعہ خلافت کی جلد واپسی کا پیش خیمہ ہوگا
ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ یورپی یونین کے ممالک کے ساتھ ویسا ہی سلوک کر رہا ہے جیسا کہ وہ تیسری دنیا کے ممالک کے ساتھ کرتا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ یورپ نئی امریکی پالیسیوں کو تسلیم کرے جو مندرجہ ذیل احکامات پر مبنی ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی پہلی میعاد کے دوران اس پالیسی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اب مفت کی روٹیاں توڑنے کا دور ختم ہو چکا ہے۔ یورپی ممالک، جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے امریکی سرپرستی میں زندگی گزارنا قبول کیا تھا، انہیں سات دہائیوں تک حاصل رہنے والے اس تحفظ کی قیمت چکانی ہوگی۔ امریکہ نے بین الاقوامی قوانین، تنظیمیں، مالیاتی و اقتصادی اور عسکری ادارے اس طرح تشکیل دیے ہیں کہ یورپی ممالک سمیت باقی دنیا پر اسکی برتری کو قائم رکھا جا سکے۔ اب، امریکہ اپنی بالادستی کو ایسے مسلط کرنا چاہتا ہے جو اس کی انفرادیت برقرار رکھے، چاہے اس کے لیے اسے یورپی یونین کے ممالک کے ساتھ سخت ترین مقابلہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ ٹرمپ نے یوکرین کے صدر زیلنسکی کے سامنے جو تکبر دکھایا، وہ یورپی ممالک کے لیے محض ایک پیغام تھا، اور یہی وہ لب و لہجہ ہے جسے امریکہ پوری دنیا کے ساتھ اختیار کرے گا۔
دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد سے، امریکہ بلا مقابلہ دنیا کا حاکم بنا رہا ہے۔ اس نے دنیا کو اس انداز میں ڈھالا ہے کہ اس کی فوجی، سیاسی اور اقتصادی برتری ہر صورت برقرار رہے۔ اس نے اپنی معاشی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور ورلڈ بینک جیسے ادارے بنائے۔ اسی طرح اس سے پہلے اس نے ڈالر کو سونے سے بدلنے کا وعدہ کیا لیکن جب اسے احساس ہوا کہ اس کے غلبہ کو بین الاقوامی سطح پر قبول کر لیا جائے گا تو اس نے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کر دی۔ تقریباً دو سال بعد، اس نے تیل کی قیمت کو ڈالر سے جوڑ دیا، جس کے بعد دنیا ڈالر کے حصول اور اپنی اقتصادی طاقت کے دفاع کے لیے فکرمند ہوگئی۔ عسکری سطح پر، اس نے نیٹو قائم کیا، جو بظاہر روس اور اس کے سوشلسٹ بلاک کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، مگر حقیقت میں اس نے یورپ کو اپنی فوجی بالادستی میں رکھا، خاص طور پر جب یورپ نے مارشل پلان کو قبول کر لیا۔ جس کے اثر کے تحت، دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کی تعمیرِ نو کے نام پر، یورپ نے امریکی سرپرستی میں داخل ہونا قبول کر لیا۔
یوں، امریکہ نے یورپ پر اپنی اقتصادی اور عسکری گرفت مضبوط کر لی، یہاں تک کہ تیسری صدی کے آغاز میں، خاص طور پر سب پرائم مارگیج (subprime mortgage crisis) بحران کے دوران، یہ ظاہر ہو گیا کہ امریکہ کی پوری عالمی معیشت پر مضبوط پکڑ ہے۔ یہ جان لینا ہی کافی ہے کہ SWIFT مالیاتی ترسیل کا نظام، جسے امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے، دنیا بھر میں ہونے والی تمام مالیاتی منتقلیوں پر اس کی نگرانی کو یقینی بناتا ہے۔ اگر اس کے ساتھ ہم یورپ میں موجود امریکی فوجی اڈوں کی تعداد اور وسعت کو بھی مدنظر رکھیں، تو ہمیں بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ بالادستی کہاں تک پھیلی ہوئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اب بھی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے، اور مغربی ممالک کی مخالفت محض علامتی ہے، حقیقی تصادم کی حد تک نہیں جاتی، کیونکہ تمام حساس امور—صرف یوکرین، مشرق وسطیٰ اور فلسطین کے مسائل ہی نہیں بلکہ ہر اہم معاملہ—اسی کے کنٹرول میں ہے۔ تاہم، جو چیز اب واضح ہو چکی ہے، وہ یہ ہے کہ امریکہ اب اپنے ایجنٹوں اور اتحادیوں کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب امریکہ نے عالمی قیادت سنبھالی، تو وہ پسِ پردہ رہ کر معاملات چلاتا اور اپنی پالیسیاں خفیہ طور پر نافذ کرتا رہا، بغیر یہ ظاہر کیے کہ وہ اپنے مقاصد کس طرح حاصل کر رہا ہے۔ وہ بغاوتوں اور حکومتوں کی تبدیلیوں کو اس مہارت سے ترتیب دیتا کہ کوئی اس کے منصوبوں اور عزائم کو بھانپ نہ پاتا۔ تاہم، اس کا تکبر اور گھمنڈ اس وقت کھل کر سامنے آیا جب بش کے والد اور پھر بیٹے کی انتظامیہ برسرِ اقتدار آئی—تب امریکہ نے عراق و افغانستان پر قبضہ کیا اور صومالیہ کو نشانہ بنایا۔ کہا جا سکتا ہے کہ پچھلی صدی کی نوے کی دہائی کے آغاز سے، امریکہ نے اپنا وہ اصلی چہرہ چھپانا چھوڑ دیا ہے، جسے اس کے بانی رہنماؤں اور بڑے سیاستدانوں نے طویل عرصے تک پردے میں رکھا تھا۔
ٹرمپ کی قیادت میں، امریکہ اور یورپ کے درمیان کشمکش اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہی۔ وہ یورپی حکمرانوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کرنے پر مُصر ہے، جو وہ مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کے ساتھ روا رکھتا ہے۔ یورپ، اپنی طویل استعماری تاریخ کے ساتھ، بخوبی جانتا ہے کہ امریکہ کو خوش کرنا شاید اب ایک ناقابلِ حصول ہدف بن چکا ہے، اور اس کے پاس واحد راستہ اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرنا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یوکرین میں جاری یہ آزمائشی مرحلہ شاید آخری نہ ہو۔
سیاسی سطح پر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ مسئلہ روس کو مسئلہِ چین سے الگ کرنا چاہتا ہے۔ سابق وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر کسنجر نے بھی یہی بیان میں کہا تھا کہ امریکہ اپنا پہلا دشمن روس کو نہیں چین کو سمجھتا ہے حالانکہ روس بھی اس کا دشمن ہے۔ اسے احساس ہے کہ روس کے اپنے علاقے سے باہر کوئی عزائم نہیں ہیں اور یہ کہ یوکرین بھی اسی کا حصہ ہے۔ اس لیے امریکہ یوکرین کے مسئلہ کو یورپ کی قیمت پر حل کرنا چاہتا ہے۔ یورپی اس سے بخوبی واقف ہیں تاہم وہ اتحاد کا اور یوکرین کے ساتھ کھڑے ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ امکان ہے کہ یوکرین کے مسئلہ کا حل یورپ اور یوکرین کی قیمت پر ہو گا؛ جس کے ذریعہ روس کو خوش کر کے چین پر امریکہ کی اجارہ داری قائم رکھی جائیگی۔ اس طرح امریکہ نے چین کو روس سے الگ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور اس نے روس کو ایک خوف کی علامت بنا کر رکھا ہے، تاکہ یورپ اس کے رحم و کرم پر رہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی فطرت ہی ذاتی مفاد پر مبنی ہے، اور یہ دو کے درمیان بھی بانٹا نہیں جا سکتا، چہ جائیکہ تین یا چار فریقوں کے درمیان۔ یہی وجہ ہے کہ مفاد پرست بے اصول لڑائی ان کی فطری حالت ہے جس کی بنا پر پہلی اور دوسری عالمی جنگیں لڑی گئیں۔ یہ نظام اقدار یا اخلاقیات کو اہمیت نہیں دیتا، بلکہ اس کا خدا ذاتی مفاد ہے۔ امریکہ اب خود کو اپنی بالادستی مسلط کرنے اور پوری دنیا پر جیسے چاہے حکم جمانے کے قابل سمجھتا ہے۔ یہی کیفیت اس کے زوال اور ایک نئے عالمی نظام کے ظہور کو جلا بخش رہی ہے، جو کہ اسلام کا نظام ہے۔ صرف اسلام ہی قانون سازی اور اقدار کا ایک ایسا نظام رکھتا ہے جو دنیا کو ذاتی ملکیت یا جانوروں کے ریوڑ کے طور پر نہیں دیکھتا، بلکہ سب کے مفادات کا خیال رکھتا ہے اور پوری دنیا میں بھلائی پھیلاتا ہے۔ اسلام میں سیاسی نظام، جو کہ خلافت ہے، وہ واحد نظام ہے جو عدل کو پھیلانے اور قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ انسانوں کے خالق کی طرف سے ہے، اور تمام تعریف اسی خالق کی ہے۔
تحریر: استاد ابو المعتز باللہ العشر