الأحد، 22 شوال 1446| 2025/04/20
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

رایہ شمارہ: کیا اللہ سبحانہ و تعالی ہمارے رمضان کے روزے اور راتوں میں قیام قبول فرمائیں گے؟

 

(ترجمہ)

 

اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنی شریعت میں ایسے معیارات متعین کیے ہیں جن کے مطابق ہمارے معاملات کو پرکھا جانا چاہیے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے فرض کو نفل پر فوقیت دی ہے۔ یہاں تک کہ ابن حجر عسقلانی نے کہا کہ علماء نے فرمایا:

 

مَنْ شَغَلَهُ الْفَرْضُ عَنِ النَّفْلِ فَهُوَ مَعْذُورٌ وَمَنْ شَغَلَهُ النَّفْلُ عَنِ الْفَرْضِ فَهُوَ مَغْرُورٌ

"جو شخص فرض ادا کرنے میں مشغول ہو کر نفل چھوڑ دے، وہ معذور ہے، لیکن جو نفل میں مشغول ہو کر فرض چھوڑ دے، وہ دھوکے میں ہے"۔

 

اور ہمارے سردار، ابو بکر صدیق رضي الله عنه سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:

 

أن اللهَ لا يقبلُ النافلةَ حتى تؤدَّى الفريضةُ

"اللہ سبحانہ و تعالی نفل کو قبول نہیں کرتا جب تک فرض ادا نہ کیا جائے" [شرح حديث جبريل شرح از ابن تیمیہ]۔

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ایسے شرعی فریضے کو فوقیت دیتا ہے جس کی ادائیگی وقتِ مقررہ پر لازم ہو، اس شرعی فریضے پر جس کے لیے کوئی متعین وقت مقرر نہ ہو۔ اسی طرح، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے شرعی فرائض کے درمیان بھی ترجیح قائم کی ہے، خاص طور پر جب وہ آپس میں متصادم ہو جائیں۔ اسی شرعی ضرورت کے تحت، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان لوگوں کو نماز میں تاخیر کی اجازت دی ہے جو کسی محفوظ جان کو بچانے میں مصروف ہوں۔ نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے حدیبیہ کے محاصرے کے دوران، جب کفار کا حملہ شدید ہو گیا تھا، نماز میں تاخیر کی تھی۔ لہٰذا، ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے انجام دیے گئے نیک اعمال پر غور کرے اور انہیں شرعی احکام کے مطابق ترتیب دے، نہ کہ اپنی ذاتی خواہشات اور پسند کے مطابق۔

 

گناہوں اور نافرمانیوں کے درجات ہوتے ہیں۔ ان میں بعض صغیرہ گناہ ہیں جو وضو اور نماز کو توڑ دیتے ہیں، اور بعض کبیرہ گناہ اور ہلاکت خیز نافرمانیاں ہیں۔ مزید برآں، کچھ گناہ ایسے بھی ہیں جو نیکیوں کے اجر کو ضائع کر دیتے ہیں اور گناہگار کو اس کے دعاؤں کی قبولیت سے محروم کر دیتے ہیں۔

 

ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا: «إنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ فَقَالَ تَعَالَى، (يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنْ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا)، وَقَالَ تَعَالَى، (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ) ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إلَى السَّمَاءِ: يَا رَبِّ! يَا رَبِّ! وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِّيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لَهُ؟» "اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ صرف پاک چیز ہی قبول کرتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو اس نے رسولوں کو دیا تھا، پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنْ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا) [اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو] [التین: 51]۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ) [اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دی ہیں، ان میں سے کھاؤ] [البقرہ: 172]۔ پھر آپ (ﷺ) نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، جس کے بال بکھرے ہوئے اور بدن گرد آلود ہوتا ہے، وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے: ‘اے میرے رب! اے میرے رب!’ حالانکہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام، اور وہ حرام چیزوں سے پروان چڑھا ہے، تو اس کی دعا کیسے قبول کی جائے گی؟" [مسلم]۔

 

نماز ترک کرنے کے گناہ کے بارے میں، امام بخاری نے اپنی صحیح میں بریدہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں: «بَكِّرُوا بِصَلاَةِ الْعَصْرِ فَإِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ مَنْ تَرَكَ صَلاَةَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ» "عصر کی نماز جلدی پڑھا کرو، کیونکہ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا: ‘جس نے عصر کی نماز ترک کی، اس کے تمام اعمال ضائع ہو گئے’" [بخاری]۔

 

اور رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: «أَوَّلُ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الصَّلَاةُ، فَإِنْ صَلُحَتْ صَلُحَ لَهُ سَائِرُ عَمَلِهِ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَسَدَ سَائِرُ عَمَلِهِ» "قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلا حساب نماز کا لیا جائے گا۔ اگر اس کی نماز درست ہوئی تو اس کے تمام اعمال درست ہوں گے، اور اگر اس کی نماز خراب ہوئی تو اس کے تمام اعمال خراب ہو جائیں گے" [الأوسط میں الطبرانی روایت کیا]۔

 

ان بڑے گناہوں میں سے ایک، جس کے سبب نیکیوں کے اجر سے محرومی کا خوف ہوتا ہے، خواہ وہ نیکیاں کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں، وہ یہ ہے کہ شریعت کے ایک عظیم ترین فرض کو ترک کر دیا جائے، یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شریعت کے نفاذ کے لیے کام کرنا، جس کا تقاضا یہ ہے کہ ایک حکمران امام کو قائم کیا جائے، جس کے گرد امت یکجا ہو کر ایک جماعت بن جائے۔

 

مسلم نے عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ‏ «مَنْ خَلَعَ يَداً مِنْ طَاعَةٍ لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً» "میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا: ‘جو شخص (حاکم کی) اطاعت سے ہاتھ کھینچ لے، وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت (عذر) نہ ہو گی، اور جو شخص اس حال میں مرے کہ اس کی گردن میں کسی امام کی بیعت نہ ہو، وہ جاہلیت کی موت مرے گا’" [مسلم]۔

 

اس حدیث میں ایک عظیم فرض کی خلاف ورزی پر سخت وعید موجود ہے، اور وہ فرض یہ ہے کہ پوری امت ایک امام کے پیچھے جمع ہو کر ایک جماعت بنے۔ کسی ایسے حکمران امام کی بیعت کو ترک کر دینا، جس پر بیعت کا انعقاد ہو چکا ہو اور اسے اس کا حق دیا جا چکا ہو، ایسا جرم ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والے کے پاس اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور کوئی عذر نہ ہو گا جو اسے قیامت کے دن بچا سکے، سوائے یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس پر رحم فرما دے۔

 

امام کی اطاعت اور اس پر بیعت کا انعقاد کرنے کا حکم (امر) درحقیقت اس کے قیام کا حکم ہے۔ چونکہ مطلوب فرض، امام کی نافرمانی اور اس کی اطاعت سے انکار کے سبب درہم برہم ہو جاتا ہے، اور امام کی عدم موجودگی میں یہ بالکل ناپید ہوتا ہے، لہٰذا جو شخص امام کے قیام کے فرض کو ترک کر دے، اس کی غیر موجودگی کے بعد، اور اسی نافرمانی کی حالت میں مر جائے، تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔ یہ ایک کنایہ ہے جو ایک عظیم گناہ کے وجود کو ثابت کرتا ہے۔

 

ان گناہوں میں سے جو نیکیوں کو باطل کر دیتے ہیں، ایک یہ ہے کہ مظلوم کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا جائے اور اس کی مدد کے لیے وہ ضروری اقدام نہ کیا جائے جو کرنا لازم ہو۔ نبی اکرم ﷺ کی حدیث میں آیا ہے، جسے بعض محدثین نے حسن قرار دیا ہے: «لا يَقِفَنَّ أَحَدُكُمْ مَوْقِفًا يُقْتَلُ فِيهِ رَجُلٌ ظُلْمًا، فَإِنَّ اللَّعْنَةَ تَنْزِلُ عَلَى مَنْ حَضَرَ حِينَ لَمْ يَدْفَعُوا عَنْهُ، وَلا يَقِفَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ مَوْقِفًا يُضْرَبُ فِيهِ أَحَدٌ ظُلْمًا، فَإِنَّ اللَّعْنَةَ تَنْزِلُ عَلَى مَنْ حَضَرَهُ حِينَ لَمْ يَدْفَعُوا عَنْهُ» "تم میں سے کوئی شخص ایسے مقام پر کھڑا نہ ہو جہاں کسی آدمی کو ظلم کے ساتھ قتل کیا جا رہا ہو، کیونکہ اس وقت جو لوگ موجود ہوں گے اور اس کا دفاع نہ کریں گے، ان پر لعنت نازل ہو گی۔ اور تم میں سے کوئی ایسے مقام پر کھڑا نہ ہو جہاں کسی آدمی کو ظلم کے ساتھ مارا جا رہا ہو، کیونکہ اس وقت جو لوگ موجود ہوں گے اور اس کا دفاع نہ کریں گے، ان پر لعنت نازل ہو گی"۔

 

امام احمد اور ابو داؤد نے جابر بن عبداللہ اور ابو طلحہ بن سہل انصاری رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «مَا مِنِ امْرِئٍ يَخْذُلُ امْرَأً مُسْلِماً فِي مَوْضِعٍ تُنْتَهَكُ فِيهِ حُرْمَتُهُ وَيُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ إِلَّا خَذَلَهُ اللهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ فِيهِ نُصْرَتَهُ، وَمَا مِنِ امْرِئٍ يَنْصُرُ مُسْلِماً فِي مَوْضِعٍ يُنْتَقَصُ فِيهِ مِنْ عِرْضِهِ وَيُنْتَهَكُ فِيهِ مِنْ حُرْمَتِهِ إِلَّا نَصَرَهُ اللهُ فِي مَوْطِنٍ يُحِبُّ نُصْرَتَهُ» "جو شخص کسی مسلمان کو اس مقام پر بے یار و مددگار چھوڑ دے جہاں اس کی حرمت پامال ہو رہی ہو اور اس کی عزت پر حملہ کیا جا رہا ہو، تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے اس مقام پر بے یار و مددگار چھوڑ دے گا جہاں وہ اس (اللہ کی) مدد کا محتاج ہو گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کی اس مقام پر مدد کرے جہاں اس کی عزت پر حملہ ہو رہا ہو اور اس کی حرمت پامال ہو رہی ہو، تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کی اس مقام پر مدد کرے گا جہاں وہ (اللہ کی) مدد کا محتاج ہو گا"۔

 

ہمارے آج کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہمیں تمام مسلمانوں کو اس بارے میں خبردار کرنا چاہیے کہ وہ شریعت کے ان عظیم فرائض کو ترک کرنے کو معمولی نہ سمجھیں، جیسے کہ ایک مکمل اسلامی ریاست کا قیام اور ان مسلمانوں کی مدد کرنا جن کا خون بہایا جا رہا ہے اور جو دنیا بھر میں ظلم کا شکار ہیں۔ جب ہم ان فرائض کو ترک کر دیتے ہیں، تو ہم ان اعمال پر قناعت کر لیتے ہیں جو جسمانی اور مالی لحاظ سے آسان ہوتے ہیں، اور اپنے آپ کو یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ ان اعمال کے ذریعے ہم اعلیٰ درجات حاصل کر لیں گے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قریب ہو جائیں گے۔

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کیا واقعی ہمارے رمضان کے روزے کا صیام، رات کی نماز اور دیگر عبادات کو قبول کرے گا، جبکہ ہم نے اُس کے دین کو چھوڑ دیا، اُس کی شریعت کے قوانین اور اُس کے نبی ﷺ کے حکم کو نظر انداز کر دیا، اور اُس کی ریاست کے قیام کے لیے کام کرنا ترک کر دیا، سوائے اُن لوگوں کے جن پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے؟

 

کیا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمارا رمضان کے روزے کا صیام، رات کی نماز کو قبول کرے گا، جب کہ ہم نے دنیا بھر میں مظلوم مسلمان بھائیوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا، اور صرف دعاؤں پر اکتفا کیا، اور بمباری، بے دخلی اور نسل کشی کے مناظر دیکھ کر خاموش رہے؟

 

کیا نبی اکرم ﷺ نے نہیں فرمایا: «رُبَّ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الْجُوعُ، وَرُبَّ قَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلَّا السَّهَرُ» "بہت سے روزے دار ایسے ہیں جنہیں ان کے روزے سے سوائے بھوک کے کچھ نہیں ملتا، اور بہت سے قیام کرنے والے ایسے ہیں جنہیں ان کے قیام سے صرف رات بھر جاگنے کے سوا کچھ نہیں ملتا" (ابن ماجہ)۔

 

کیا نبی اکرم ﷺ نے ان گناہوں کے بارے میں نہیں خبردار کیا جو روزے کے اجر کو ختم کر دیتے ہیں؟ «مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ للَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ» "جس نے جھوٹی بات اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا، تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانے پینے کو چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں" (بخاری)۔

 

کون سی جھوٹی بات اس سے بڑی ہو سکتی ہے کہ ہم اپنی موجودہ حالت پر راضی ہو جائیں، اپنی ناکامیوں کو جواز فراہم کریں، اور اسلامی طرزِ زندگی کو دوبارہ قائم کرنے کے فریضے سے غفلت برتیں، جو خلافتِ راشدہ کے قیام کے ذریعے ممکن ہے؟

 

کون سی جھوٹی بات اس سے بڑی ہو سکتی ہے کہ ہم شریعت کے فرائض اور اس کی ممنوعات میں ترجیحات کو الٹ پلٹ دیں، اور دین کے فروعی مسائل میں الجھ جائیں جبکہ اصولی اور زندگی و موت کے مسائل پسِ پشت ڈال دیے جائیں؟

 

کون سی جھوٹی بات اس سے بڑی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے علاوہ کسی اور حکم کو نافذ کرنے کے لیے، جھوٹے فتاویٰ کے ذریعے، مجبوری، مراحل اور تدریج کے نام پر جواز پیدا کیا جائے؟

 

پس اے مسلمانو! خبردار رہو کہ تم قیامت کے دن خالی ہاتھ نہ آؤ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر نہ ہو، جبکہ تم سمجھ رہے تھے کہ تم اچھے اعمال کر رہے ہو اور نیکیوں کے انبار لگا رہے ہو۔

 

اے امتِ اسلام! آؤ ہم شریعت کے معیاروں کی طرف لوٹ آئیں، اور ان کے مطابق اپنے اعمال کو جانچیں اور ترجیحات طے کریں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کے نیک اعمال قبول فرمائے۔ بے شک تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔

 

 

تحریر: شیخ عدنان مدین

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے رکن

Last modified onجمعہ, 04 اپریل 2025 18:05

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک