بسم الله الرحمن الرحيم
علمائے ہند کی سیاسی قیادت
علماء کی حیثیت اور ان کا کردار مسلمانوں کے درمیان واضح طور پر پہچانا اور سمجھا گیا ہے۔ سنن ابو داؤد میں روایت ہے کہ کثیر بن قیس بیان کرتے ہیں : میں ابو درداءؓ کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا، کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: "اے ابو درداء! میں آپ کے پاس رسول اللہ ﷺ کے شہر سے صرف اس لئے آیا ہوں کہ میں نے سنا ہے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث روایت کی ہے۔ میرے آنے کا اس کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں ہے"۔ ابو درداءؓ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
(مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ، وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ، وَالْحِيتَانُ فِي جَوْفِ الْمَاءِ، وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ، وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلاَ دِرْهَمًا، وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ )
"جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے کسی راستے پر چلتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستے پر چلا دیتا ہے۔ فرشتے اس طالب علم کی خوشنودی میں اپنے پَر بچھا دیتے ہیں، آسمانوں اور زمین کی مخلوق، یہاں تک کہ پانی کے اندر موجود مچھلیاں بھی اس عالم کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں۔ عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودھویں رات کا چمکتا چاند دوسرے ستاروں پر۔ علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور انبیاء نے دینار و درہم کا ورثہ نہیں چھوڑا بلکہ ترکہ میں فقط علم کو چھوڑاہے ، جس نے اسے حاصل کیا اُس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی" [سنن ابو داؤد]۔
خلافت کی تاریخ میں ہمیں متعدد ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں علماء نے وہ کردار ادا کیا جو مذکورہ بالا حدیث میں ذکر ہوا ہے۔ اور علماء کے اس کردار میں دین کی اشاعت کے ساتھ ساتھ کفری طاقتوں کے خلاف امت کی قیادت کرنا بھی شامل ہے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کردار کی بہترین مثال پیش کی، جب انہوں نے مملوک حکمرانوں اور مقامی آبادی کو منگولوں کے خلاف مزاحمت کرنے کی ترغیب دی۔ انہوں نے حملہ آور افواج کے خلاف جہاد کرنے کو ایک دینی فریضہ قرار دیا اور مصر و شام کے حکمرانوں کو دمشق کے دفاع کی دعوت دی۔ انہوں نے مسلمانوں پر منگول افواج سے لڑنے کو فرض قرار دیتے ہوئےفتاویٰ جاری کیے، دمشق کی اموی مسجد میں جہاد کے خطبے دیئے اور بذاتِ خود تلوار ہاتھ میں لے کر جنگ کی قیادت کرتے ہوئے میدانِ جنگ میں شرکت کی۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے منگول سردار غازان خان اور اس کے وزیر رشید الدین سے براہِ راست مذاکرات کیے اور کئی مسلمان اور ذمی قیدیوں کی رہائی کو ممکن بنایا جنہیں منگولوں نے قید میں لے لیا تھا۔ یوں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ابن تیمیہؒ نے نہ صرف مسلمانوں کو اکٹھا کرنے میں ایک سرگرم سیاسی کردار ادا کیا بلکہ مسلمانوں کی قیادت بھی کی۔
اسی طرح، برطانوی استعمار کے خلاف مزاحمت کرنے میں علمائے ہند نے کلیدی کردار ادا کئے۔ ہندوستان کی سیاسی قیادت میں علمائے ہند کا کردار خاصا اہمیت کا حامل ہے۔ احمد سرہندیؒ (1564-1624ء) اور شاہ ولی اللہؒ (1703-1762ء) دو بااثر علمائے کرام تھے جنہوں نے مغلیہ ہندوستان کے مذہبی اور سیاسی منظر نامے کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔ احمد سرہندیؒ نے مغلیہ عدالت کے ساتھ بنیادی طور پر خط و کتابت اور ذاتی بات چیت کے ذریعے روابط رکھے۔ انہوں نے مذہبی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے لیے مغل حکام کو متعدد خطوط لکھے، عدالت میں رائج غیر مروجہ مذہبی عقائد اور نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے باقاعدگی سے عدالتی مباحثوں میں شرکت کی۔ انہیں جہانگیر نے دو مرتبہ قید کیا، ایک بار 1618ء میں اور پھر 1622ء میں۔
شاہ ولی اللہؒ ایک غیر معمولی مفکر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عالمِ دین بھی تھے ۔ ان کی سیاسی قیادت کا اظہار اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ انہوں نے افغان حکمران احمد شاہ ابدالی کو مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ اس کے نتیجے میں 1761ء میں پانی پت کی تیسری جنگ ہوئی، جہاں ابدالی نے مرہٹوں کو شکست دی تھی۔
برصغیر میں برطانویوں کے داخلے، اقتدار سنبھالنے، استعماری طاقت بننے اور پھر برصغیر کی تقسیم کی طرف لے جانے کے دور نے علماء کے لئے شدید سیاسی چیلنجز پیدا کیے، جنہوں نے ان کے کردار کو بھی متاثر کیا۔ اور اس اثر کو آج کے دور تک علماء کے بدلتے ہوئے کردار میں واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
سنہ 1802ء میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ (1703–1762ء) کے فرزند، شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ (1746–1824) نے ہند کو دار الحرب قرار دینے کا فتویٰ دیا۔ اس فتوے میں کہا گیا:
”اس شہر (دہلی) میں امام المسلمین کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اصل اقتدار عیسائی افسران کے ہاتھ میں ہے۔ ان پر کوئی روک ٹوک نہیں؛ اور کفار کے احکام کا جاری ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انتظامیہ، عدل، قوانین، احکام، تجارت، مالیات اور محصول کی وصولی کے تمام شعبوں پر کفار کا قبضہ ہے۔ اگرچہ چند اسلامی شعائر جیسے جمعہ و عید کی نماز، اذان اور گائے کی قربانی میں وہ کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتے، لیکن ان کے نزدیک ان شعائر کی کچھ بھی اہمیت نہیں ہے۔ وہ مساجد کو بلا جھجک گرا دیتے ہیں اور کوئی مسلمان یا ذمی ان کے حکم کے بغیر شہر یا مضافات میں داخل بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ صرف ان کے ذاتی مفاد کے لئے ہی ہے کہ وہ شہر میں مسافروں اور تاجروں کی آمد پر کوئی اعتراض نہیں کرتے۔ لیکن اس کے برعکس، شجاع الملک اور ولایتی بیگم جیسی ممتاز شخصیات بھی ان کی اجازت کے بغیر شہر میں داخل ہونے کی جرأت نہیں رکھتے۔ دہلی سے کلکتہ تک عیسائیوں کو مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ اگرچہ انہوں نے حیدرآباد، رامپور، لکھنؤ وغیرہ میں مقامی حکومتوں کو انتظامی اختیارات دے رکھے ہیں، مگر یہ محض اس لیے کہ وہ ان کی جاگیرداری کو قبول کر چکے ہیں اور ان کے اختیار کو تسلیم کر چکے ہیں"۔
اس فتوے اور اس کے انداز بیان سے اس وقت کے علماء کی فکر اور نقطۂ نظر واضح ہوتا ہے۔ وہ علماء ایک ایسے حکمرانی نظام کا حصہ تھے جس کی اساس اسلام پر مبنی تھی، اور ان علماء کو مغل حکمرانوں کو فتوے دینے اور ان کا احتساب کرنے کا مکمل اختیار حاصل تھا۔ ان علماء نے سب لوگوں کے لئے سیاسی قیادت کا کردار نبھایا، جس کی نشاندہی ان کی طرف سے ہندوؤں کے لئے 'ذمی' اور برطانویوں کے لئے 'کافر' کی اصطلاح استعمال کرنے سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس فتویٰ میں واضح طور پر یہ بیان کیا گیا کہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ یا تو وہ آزادی کے لئے جہاد کریں یا پھر اس ملک سے ہجرت کر جائیں، اور اس حکم کا اطلاق صرف دہلی تک محدود نہ تھا بلکہ پورے اس علاقے پر لاگو ہوتا تھا جو انگریزوں کے زیرِ تسلط آ چکا تھا۔ فتوے کی سیاسی نوعیت ایسی تھی کہ اس نے برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کے لیے ایک شرعی جواز فراہم کیا، اور انیسویں صدی میں یہ فتویٰ رائے عامہ کو انگریزوں کے خلاف متحرک کرنے کے لیے استعمال ہوا، اور یوں یہ ہندوستان کی تحریکِ آزادی کا پیش خیمہ بن گیا۔
برطانوی حکومت اس 1802ء کے فتوے کے اثرات سے بے خبر نہ تھی، لیکن ان کا ردعمل جلد بازی یا ظالمانہ نہیں تھا، بلکہ نپا تُلا، محتاط اور کثیرجہتی حکمتِ عملی پر مبنی تھا۔ انہوں نے اس فتوے کے نظریاتی اثر کو ختم کرنے کے لیے پروپیگنڈہ اور سازباز کرنا شروع کر دیا اور ان چند مسلم علماء و قائدین سے رابطہ کیا جو برطانوی اقتدار کو قبول کرنے پر آمادہ تھے۔
یوں، جو علماء پہلے اسلامی حکمران طبقے سے وابستہ تھے، وہ وقت کے ساتھ ساتھ انگریزوں کے خلاف بغاوت کے سیاسی اور عسکری قائدین بن گئے تھے۔
اس سیاسی قیادت کا عملی طور پر مظاہرہ اس وقت ہوا جب 1857ء میں بغاوت ہوئی۔ 1857ءکی بغاوت انگریزوں کے لیے ایک دھچکا تھا۔ علماء نے امت اور ہندوؤں کو ایک زبردست سرگرم مزاحمت کے لئے اکٹھا کر لیا، جس میں ہندوؤں سے بہت کم یا کوئی اختلاف نہیں تھا۔ برطانوی حکومت کے خلاف 1857ء کے جہاد کے دوران، علمائے کرام نے مزاحمت کو متحرک کرنے اور بغاوت کو جائزحیثیت دینے کے لیے شرعی احکام جاری کرنے میں بااثر کردار ادا کیا۔ ان میں سے کچھ نمایاں شخصیات یہ تھیں:
مولانا فضل حق خیرآبادی - خیرآبادی نے مشہور فتویٰ جاری کیا جس میں انگریزوں کے خلاف جہاد کو فرض قرار دیا گیا، انہوں نے بغاوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور انگریزوں کے ہاتھوں قید ہوئے۔
مفتی صدرالدین آزردہ - دہلی کے مفتی اعظم - آزردہ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے کے فتوے پر دستخط کیے، بہادر شاہ ظفر (اس دور کے مغل بادشاہ) کے ساتھ مل کر بغاوت کے دوران مزاحمت کو تنقیدی طور پر منظم کرنے میں کام کیا۔ ان کی جائیداد اور لائبریری کو انگریزوں نے تباہ کر دیا تھا۔
مولوی احمد اللہ شاہ مدراسی - "صوفی سپاہی" اور ایک اہم منصوبہ ساز کے طور پر جانے جاتے تھے ، انہوں نے پورے ہندوستان کا سفر کیا، بغاوت کی حمایت کو متحرک کیا اور اودھ میں مزاحمت کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بغاوت کے پیغامات پھیلانے کے لیے ان کی اچھوتی "چپاتی سکیم" سمیت ان کی فوجی مہارتوں کو سراہا گیا۔
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی - ایک چشتی صوفی رہنما، جنہیں دہلی کے قریب شاملی میں مزاحمتی کوششوں کی قیادت کرنے کا امیر بنایا گیا ، اور ان کے ساتھ مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی جیسی شخصیات شامل تھیں ۔
مولوی سرفراز علی - "مجاہدین کے امام" کے طور پر جانے جاتے ہیں، وہ دہلی کے دانشور حلقوں سے گہرے جڑے ہوئے تھے جنہوں نے جہادیوں کو دہلی کی اشرافیہ کے ساتھ متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
مولانا رحمت اللہ کیرانوی - انہوں نے 1857ء کے دوران انگریز مخالف سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انہیں عیسائی مشنریوں کے ساتھ اپنے اولین مباحثوں کے لیے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
بہادر شاہ ظفر-اگرچہ آخری مغل شہنشاہ کے طور پر ایک علامتی شخصیت تھے، لیکن انہوں نے آزردہ جیسے علماء کے ساتھ مل کر بغاوت کو جائز حیثیت دی اور اس کی قیادت کی۔ اُن کا دربار بغاوت کے دوران انقلابی منصوبہ بندی کا مرکز بن گیا۔ علمائے کرام انہیں انگریزوں کے متبادل قیادت کے طور پر درجہ دیتے تھے۔
1857ء کی بغاوت میں علماء کی قیادت کے خلاف برطانوی ردعمل شدید اور سفاکانہ تھا، اور اُن علمائے کرام کو نشانہ بنایا گیا جنہوں نے استعماری حکمرانی کے خلاف بغاوت کی قیادت کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انگریزوں نے علمائے کرام کو بڑے پیمانے پر پھانسیاں دیں ، خوف پیدا کرنے اور مزید مزاحمت کو دبانے کے لیے مختلف حربے اختیار کئے گئے۔ علمائے کرام کو سرعام پھانسی پر لٹکا دیا گیا،اور ان کی لاشوں کو لٹکائے رکھا گیا تا کہ مزاحمت سے باز رکھا جائے۔ بعض علماء کو توپوں سے باندھ کر فائر کر دیا گیا، اور ان کے جسموں کے اس حد تک ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے کہ مناسب تدفین کرنا بھی ناممکن ہو گیا تھا۔ انتہائی حد تک واقعات میں، علمائے کرام کو مبینہ طور پر گرم کوئلوں پر زندہ بھون دیا گیا۔ دہلی سے مرادآباد تک کی سڑک ایک وحشت ناک نظارہ بن گئی، اس راستے پر درختوں سے لٹکا کر متعدد علمائے کرام کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ انگریزوں نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس سے مزید آگے بڑھ گئے تاکہ علمائے کرام کے تنظیمی ڈھانچے کو تباہ کیا جائے۔ دہلی کی جامع مسجد ضبط کر لی گئی۔ فتح پوری مسجد کا بڑا حصہ بیچ دیا گیا۔ اکبرآبادی مسجد کو تباہ کر دیا گیا۔ انگریزوں نے دہلی کے ان تمام مذہبی اداروں کا کنٹرول سنبھال لیا، جو دوران بغاوت علماء کے شامل ہونے پر قائم کئے گئے تھے۔
اس وقت دہلی کی آبادی 220,000 (دولاکھ بیس ہزار)کے لگ بھگ تھی، (الہند کی آبادی 180 ملین، 18 کروڑ کے لگ بھگ تھی) جبکہ اطلاعات کے مطابق، ابتدائی دور میں دہلی میں تقریباً 500-1000 علمائے کرام کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس تناسب سے ہر 220 مسلمانوں کے لئے تقریباً ایک (1) عالم موجود تھا، جس سے اس دور میں علماء کی غالب قیادت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ان پابندیوں کا مقصد اجتماعی طور پر علمائے کرام کو برطانوی حکمرانی کے خلاف مزاحمت کے ایک ذریعہ کے طور پر بے اثر کرنا تھا۔ ان پالیسیوں نے بہت سے علمائے کرام کو دیہی علاقوں میں منتقل ہونے پر مجبور کیا جس کے نتیجے میں وہاں اسلامی تعلیم کے نئے مراکز کا قیام عمل میں آیا جیسا کہ 1866ء میں محمد قاسم نانوتوی کی طرف سے دیوبند ، اس طرح علماء کی واضح سیاسی سرگرمیوں میں نمایاں کمی آئی۔ ایسی اطلاعات بھی تھیں کہ مکہ اور مدینہ، الہند کے علمائے کرام سے بھرے پڑے تھے جو انگریزوں کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے ہجرت کر گئے تھے۔ 1857ء کے بعد، انگریزوں کی ان پالیسیوں نے، جس میں علمائے کرام، مسلمانوں اور اسلام کو نشانہ بنایا گیا تھا، اس نے علمائے کرام کی سرگرمیوں کو مزید نئی شکل دی۔ ایسے بہت سے مضامین شائع ہوئے جن میں انگریز کی طرف سے علماء کو قتل کر نے کے لئے استعمال کئے جانے والے سفاکانہ طریقوں کو بیان کیا گیا تھا اور یہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان سب کا مقصد علماء کے عزم وحوصلہ کو توڑنا تھا۔
یوں، 1802ء سے قبل کے دور میں جہاں علماء اسلامی حکمران طبقے سے جڑے ہوئے تھے، وہیں 1857ء کی جنگِ آزادی تک آتے آتے وہ علماء ایسی قیادت بن گئے جو سیاسی و عسکری طور پر برطانوی قبضے کے خلاف جدوجہد کر رہی تھی۔ 1857ء کے بعد، علماء کا کردار مزید دو اہم جہتوں میں تقسیم ہو گیا: ایک طرف وہ ایک ایسی قوم کے سیاسی قائد بن گئے جو رفتہ رفتہ برطانوی نظام میں سیاسی و سماجی طور پر پسماندگی میں دھکیلی جا رہی تھی، اور دوسری طرف وہ دینِ اسلام کے محافظ بن کر ابھرے — ایسی فکری و تعلیمی مزاحمت کے ذریعے جو انہوں نے دینی مدارس کے قیام کے ذریعے منظم کی، تاکہ برطانوی نظامِ تعلیم کی طرف سے مسلط کردہ سیکولر افکار کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس دور میں دارالعلوم دیوبند جیسے ادارے اسی مقصد سے وجود میں آئے، جنہوں نے نہ صرف دینی علوم کی حفاظت کی بلکہ ایک ایسی نسل تیار کی جو فکری، دینی اور سماجی طور پر مغربی اثرات کے خلاف کھڑی ہو سکے۔ یوں علماء کا کردار صرف دینی نہیں رہا، بلکہ وہ ایک مظلوم امت کی فکری، تعلیمی اور سیاسی بقا کی جنگ میں پیش پیش رہے۔
شاہ عبدالعزیز نے انگریزوں کے خلاف فتویٰ جاری کیا، اور ان کے ہم عصروں جیسے شاہ عبدالغنی اور مملوک علی نانوتوی (1789-1851) نے فتویٰ پھیلایا۔ مؤخر الذکر کے قابل ذکر طلباء میں محمد قاسم نانوتوی (بانی دارالعلوم دیوبند 1866) رشید احمد گنگوہی (دارالعلوم دیوبند کے شریک بانی) اور محمد یعقوب نانوتوی شامل تھے۔ محمد قاسم نانوتوی اور رشید احمد گنگوہی کے شاگرد محمود الحسن دیوبندی (1851-1920) جو "شیخ الہند" کے طور پر جانے جاتے تھے، انور شاہ کشمیری (1875-1933) اور حسین احمد مدنی (1879-1957) شامل تھے۔ ایک فوجی جنگ میں شکست کھانے کے بعد بھی یہ علماء ہرگز اپنے حوصلے پست کرنے والے نہ تھے اور اب انگریزوں کے خلاف وسیع تر سیاسی جنگ میں مصروف ہو گئے۔
محمود الحسن اور حسین احمد مدنی نے بیشتر علماء کے ہمراہ ستمبر 1915ء میں مکہ مکرمہ کا سفر کیا۔ یہ سفر ایک وسیع حکمت عملی کا حصہ تھا جسے ریشمی رومال تحریک کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کا مقصد ہندوستان میں برطانوی حکومت کا تختہ الٹنا اور دیگر اسلامی ممالک کو غیر ملکی کنٹرول سے آزاد کرانا تھا۔ محمود الحسن نے جولائی 1915 میں عبید اللہ سندھی کو افغانستان روانہ کیا۔ عبید اللہ سندھی کے لئے منصوبہ یہ تھا کہ وہ افغانستان جا کر افغان امیر حبیب اللہ خان کو برطانیہ کے خلاف اعلان جنگ پر آمادہ کریں۔
اسی دوران محمود الحسن اور حسین احمد مدنی نے برطانیہ کے خلاف ایک جامع تحریک شروع کرنے کے مقصد سے مکہ مکرمہ کا سفر کیا۔ 18 اکتوبر 1915ء کو وہ مکہ مکرمہ گئے جہاں انہوں نے ترکی کے گورنر غالب پاشا اور انور پاشا سے ملاقاتیں کیں جو ترکی کے وزیر دفاع تھے۔ غالب پاشا نے انہیں مدد کا یقین دلایا۔ محمود الحسن نے شام کے گورنر جمال پاشا سے بھی ملاقات کی۔ لیکن ریشمی رومال تحریک کا منصوبہ فاش ہو گیا اور اس کے ارکان کو گرفتار کر لیا گیا۔ محمودالحسن اور ان کے ساتھیوں کو انگریز نے چار برس کے لئے مالٹا میں قید میں ڈال دیا۔
یہاں پر علماء کی بصیرت انگیز سیاسی فکر خاصی قابل توجہ ہے – وہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی سیاسی اور عسکری طاقت کا جائزہ لے رہے تھے اور یہ کہ اسے برطانوی استعماری طاقت کے خلاف کیسے استعمال کرنا ہے۔ قرب وجوار کے علاقوں میں مسلمانوں سے مدد حاصل کرنے کی فکر جہاد کے حکم سے مطابقت رکھتی ہے۔ اگر کسی علاقے پر حملہ ہوجائے اور وہ اپنا دفاع نہ کرسکے تو اس کے دفاع کی ذمہ داری ارد گرد کے علاقوں (الارض الاقرب) اور اسی طرح پھر ان سے اگلے علاقوں تک پھیل جاتی ہے۔ چنانچہ سیاسی قیادت کے طور پر انہوں نے نہ صرف فتویٰ دیا بلکہ ارد گرد کے علاقوں کی قیادت سے سیاسی تعلقات کے ذریعے اس پر عملدرآمد کے لئے سرگرم عمل بھی رہے۔ مسلمانوں کے زیر تسلط علاقوں کو انگریزوں کے خلاف بغاوتوں کے لیے استعمال کرنے کی فکر، اپنے فوجی وسائل کو وسعت دینا، مسلم دنیا کی سیاسی شخصیات تک رسائی حاصل کرنا جن کے پاس مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے وسائل تک رسائی تھی، یہ سب وہ سیاسی فکر ہے جو محمود الحسن اور حسین احمد مدنی کی فکرتھی ۔ اور واضح رہے کہ یہ فکر فقط ان کے لئے ہی خاص نہیں تھی، بلکہ اس سیاسی ماحول کا حصہ تھا جس میں وہ پروان چڑھے تھے۔ تاہم، پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کی شکست کے ساتھ، یہ منصوبے عمل پذیر نہ ہو سکے۔
یوں 1914ء کے بعد، علماء نے ایک بین الاقوامی تحریک کی قیادت سنبھالی، جس کا مقصد برطانوی استعماری طاقت کو کمزور کرنا تھا۔ تحریکِ خلافت ایک نمایاں ہمہ گیر اسلامک تحریک تھی، جو علماء نے جنگ عظیم اول کے بعد شروع کی تھی۔ اس کی قیادت محمد علی اور شوکت علی (علی برادران)، مولانا ابوالکلام آزاد، اور حکیم اجمل خان جیسے سرکردہ رہنماؤں نے کی۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد عثمانی خلافت کو اتحادی طاقتوں کے ہاتھوں ٹکڑوں میں بٹنے سے بچانا اور مسلمانوں کے مقدس مقامات پر خلافت کی اتھارٹی اور اقتدار کو برقرار رکھنا تھا۔ حتیٰ کہ برصغیر کے علماء نے خلافت کی حمایت میں مصطفیٰ کمال کو بھی ایک وفد بھیجا اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ خلافت کو ختم نہ کرے — لیکن ان کی اپیلیں رائیگاں گئیں۔ یہ خلافت موومنٹ اگرچہ اپنے جوش و جذبے اور وسعت کے باوجود زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی، اور 1924ء میں مصطفیٰ کمال کے ہاتھوں خلافت کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ تحریک بھی دم توڑ گئی۔ تاہم، اس تحریک نے یہ واضح کر دیا کہ برصغیر کے علماء کا کردار صرف مقامی نہیں، بلکہ عالمی اسلامی معاملات میں قیادت کا دعوے دار تھا۔
اس عرصہ کے دوران علماء کی سیاسی قوت کو سمجھنے کے لیے ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ گاندھی، جو ایک معروف برطانوی ایجنٹ کے طور پر جنوبی افریقہ سے واپس آئے تھے تاکہ انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت سنبھال سکیں، انہیں بھی خود اپنی سیاسی حیثیت کو جائز ثابت کرنے کے لیے تحریکِ خلافت کا ساتھ دینا پڑا۔ انہیں عوام کی نظر میں علماء کی زیر قیادت مزاحمتی تحریک کا حامی بن کر پیش آنا پڑا، کیونکہ خلافت تحریک نے عوامی حمایت اور قیادت میں نمایاں مقام حاصل کر لیا تھا۔ یہ حقیقت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ گاندھی کا خلافت تحریک میں شامل ہونا دراصل ایک برطانوی منصوبہ تھا تاکہ اس تحریک کو اندر سے کمزور کیا جا سکے، کیونکہ برطانوی حکومت علماء کی قیادت اور خلافت تحریک کے اثر کو براہِ راست ختم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ چنانچہ برطانیہ نے بڑی محنت سے اس تحریک کو تحلیل کرنے کا کام شروع کیا، اس کی اسلامی امت پر مبنی شناخت کو مٹا کر، اسے قومی و فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کر دیا گیا۔
شیخ الہند محمود الحسن رحمہ اللہ، جنہیں برطانیہ نے مالٹا سے 1920ء کے آغاز میں قید سے رہا کیا، واپس آتے ہی خلافت تحریک میں شامل ہوئے، لیکن نومبر 1920ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے بعد مولانا حسین احمد مدنی نے انگریز کے خلاف جدوجہد کو جاری رکھا، مگر اب سیاسی میدان بدل چکا تھا۔ 1857ء کے بعد سے ہی انگریزوں کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ انہیں علماء کے مقابلے میں ایک متبادل مسلم قیادت تیار کرنی ہوگی۔ چنانچہ انہوں نے شدید کوششوں سے ایک ایسی سیکولر مسلم اشرافیہ کو پروان چڑھایا، جسے انگریزوں نے خود تیار کیا تھا، اور جس کے لیے اس کے ساتھ ساتھ تحریکِ پاکستان کھڑی کی گئی تاکہ خلافت تحریک کا متبادل پیش کیا جا سکے جو کہ خلافت کے انہدام کے بعد ہی کامیاب ہو پائی تھی۔ یہ صرف ایک وقتی منصوبہ نہیں تھا، بلکہ کئی نسلوں پر محیط ایک گہری سازش تھی۔ 1857ء کے بعد سے لے کر 1920ء کی دہائی کے اختتام تک تقریباً 60 سے 70 سال لگے کہ برطانوی حکومت علماء کی مسلسل اور مؤثر سیاسی قیادت کو توڑنے اور کمزور کرنے میں کامیاب ہو سکی۔ یہ دور اس بات کا ثبوت ہے کہ علماء نہ صرف دین کے محافظ تھے، بلکہ وہ اسلامی سیاسی قیادت کا اصل مرکز بھی تھے۔
اب مولانا حسین احمد مدنی کو امت میں ایسے رہنماؤں سے نمٹنا پڑا، جو یا تو علماء میں شامل نہ تھے، یا اگر علماء تھے بھی تو مغربی افکار و نظریات کے ساتھ اسلام کو ہم آہنگ کرنے کی سوچ اپنا چکے تھے۔ سیکولر رہنما مغربی سیاسی منصوبوں سے ہم آہنگ ہو کر اسلام کی ایسی تشریحات پیش کر رہے تھے جو مغربی نظریات سے مطابقت رکھتی تھیں۔ مولانا حسین احمد مدنی اور دیگر علماء نے اس عمل کو دین کے معاملے میں علماء کا منصب چھیننے کے مترادف سمجھا، کیونکہ اسلام کی تعبیر کا حق صرف علماء کا ہے، نہ کہ ایسے سیکولر افراد کا جو دینی علم سے بے بہرہ ہیں۔ دوسری طرف، سیکولر رہنما علماء کو ان کی "دنیاوی امور سے دوری" اور "قدامت پسندی" کی وجہ سے نظر انداز کرتے تھے۔ خلافت کے خاتمے کے بعد امت اور علماء دونوں کو "قومی ریاستوں" کے عروج اور مغرب کی مادی ترقی کا سامنا تھا، جس نے مسلمانوں کی سیاسی، فکری اور تہذیبی وحدت کو توڑ کر رکھ دیا۔
ایسے ماحول میں علماء نے اپنے آپ کو ایک ایسے کردار میں ڈھال لیا، جس میں وہ سیکولر قیادت کے تحت رہتے ہوئے اسلام کی حفاظت پر توجہ دینے لگے۔ انہوں نے مدارس کے نظام کو برقرار رکھا اور علمی تسلسل کو جاری رکھا۔ ان علمی مراکز سے ایسے جلیل القدر علماء پیدا ہوئے جنہوں نے دینی روایت کو زندہ رکھا۔ ان میں انور شاہ کشمیری، شیخ الہند محمود الحسن اور مولانا حسین احمد مدنی کے شاگرد خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں: علامہ شبیر احمد عثمانی – اسلامی علوم میں گہری بصیرت کے حامل، مفتی محمد شفیع عثمانی – دارالعلوم کراچی کے بانی، مولانا محمد یوسف بنوری – دارالعلوم بنوری ٹاؤن، کراچی کے بانی، مفتی محمد حسن – جامعہ اشرفیہ لاہور کے بانی، مولانا عبدالحق – جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے بانی۔ آج ہم ان عظیم علماء کی علمی، فکری، دینی اور تنظیمی وراثت کے گواہ ہیں۔
اگر ہم برطانیہ اور علماء کے درمیان جاری دو صدیوں پر محیط کشمکش کو ایک نکتہ میں سمیٹیں، تو وہ علماء کی قیادت پر قبضے کی جنگ تھی۔ برطانوی سامراج براہ راست پورے برصغیر کے عوام کو قابو میں نہیں رکھ سکتا تھا، مگر چند سیاسی قائدین کو قابو میں رکھ کر اپنے مقاصد حاصل کرنا ممکن تھا۔ لیکن 1802ء سے لے کر 1924ء تک، وہ ایک ایسی علماء کی قیادت ڈھونڈنے میں ناکام رہے جو ان کے مفادات کے تابع ہو جائے۔ چنانچہ انگریزوں نے دوہری حکمت عملی اپنائی: ایک طرف، انہوں نے علماء کو خوف و دہشت، جبر و تشدد اور قید و بند کے ذریعے دبانے کی کوشش کی، اور دوسری طرف، ایک متبادل سیکولر مسلم قیادت کو پروان چڑھایا تاکہ علماء کی جگہ لے لی جائے۔
یہ وہ وقت تھا جب خلافت عثمانیہ کو مارچ 1924ء میں ختم کر دیا گیا اور 1945ء کے بعد، ہندوستان میں علماء خود کو بے دخل محسوس کرنے لگے۔ امت نے ان کی قیادت سے منہ موڑ لیا تھا، اور باقی اسلامی دنیا کی طرح ایک نیا نظام تشکیل پایا جس میں استعماری طاقتوں کی جانب سے مسلط کردہ سیکولر حکومتیں مسلمانوں پر حکمرانی کرنے لگیں۔ خلافت کا خاتمہ امت پر مصیبتوں کا ایسا سلسلہ لے کر آیا جس نے پچھلی صدی میں سیاسی اور معاشی مشکلات کو بے حد بڑھا دیا۔ اگرچہ اسلامی دنیا بھر میں سیکولر نظاموں کی فراوانی کے باوجود امت نے اپنے احیاء اور تحریک کی علامات دکھا دی ہیں، 9/11 کے بعد مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم، افغانستان اور عراق میں خونریز جنگیں، عرب بہار اور غزہ میں جاری نسل کشی نے امت میں موجود گہری اسلامی احساسات کو اجاگر کر دیا ہے۔
علماء ایک بے دخل اور پس پشت ڈال دی گئی سیاسی قیادت بن گئے، اس لیے نہیں کہ ان کے پاس قیادت کی صلاحیت نہیں تھی، بلکہ اس لئے کہ وہ اتنے طویل عرصے تک غالب سیاسی منظرنامے سے غائب ہو چکے تھے۔ آج امت کی تجدید اس قیادت پر منحصر ہے جو عالمی نظام کو اسلام کے اصولوں پر چیلنج کرے۔ ہم اس عمل کو بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، جہاں موجودہ استعماری طاقت — امریکہ — کو ایک ایسی امت کے ہاتھوں چیلنج کا سامنا ہے جو اسلام کو مضبوطی سے اپنانے کی خواہاں ہے۔ افغانستان میں بیس سالہ جنگ کے باوجود، امریکہ آخرکار طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگیا۔ اسی طرح، شام میں امریکہ کو ایک مضبوط خلافت تحریک کا سامنا کرنا پڑا جس نے کافر علاوی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا — وہ حکومت جو دہائیوں تک امریکی مفادات کی وفادار رہی تھی۔ ان دونوں خطوں میں، اگرچہ امریکہ نے اپنے ایجنٹوں کو برقرار رکھنے کے لیے براہ راست کردار ادا کیا، لیکن انہیں کھل کر اسلام کے حق میں قیادت کو تسلیم کرنا پڑا کیونکہ یہ امت کامطالبہ تھا۔
موجودہ حالات اور ایک صدی قبل کے حالات کے درمیان مماثلت واقعی حیرت انگیز ہے، جو مسلم دنیا کے سیاسی منظرنامے میں ایک اہم تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے۔ برطانیہ علماء کو سیکولر نہ بنا سکا تھااور اسے ایک متبادل سیکولر قیادت بنانی پڑی – اور یہ صرف اس لیے کامیاب ہوا کیونکہ امت زوال کا شکار ہو چکی تھی۔ امت کے احیاء کے نتیجے میں، امریکہ—جس کا کردار آج وہی ہے جو ایک صدی قبل برطانیہ کا تھا—کو اس اسلامی بیداری کو تسلیم کرنا اور اس کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑا ہے۔ یہ سمجھنا نہایت اہم ہے کہ یہ بیداری امت کے لیے بالکل نئے امکانات اور مواقع پیدا کر رہی ہے۔ افغانستان اور شام کی اوپر بیان کی گئی مثالیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ امریکہ، خالص اسلامی قیادتوں کے ذریعے اسلام کے نفاذ کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
امت میں موجودہ سیکولر سیاسی قیادتیں اس لیے موجود ہیں کیونکہ علماء سیاسی طور پر غائب ہیں۔ علماء کو سیاسی میدان میں واپس آنا چاہیے اور نہ صرف اپنے پیش روؤں کی وراثت پر عمل کرنا چاہیے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، بلکہ ان کے لیے جو کردار حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے وارث کے طور پر بیان کیا گیا ہے، اسے بھی اپنانا چاہیے۔ انبیاء علیہم السلام کے منہج کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ ان کی دعوت کا مقابلہ عوام سے نہیں تھا، بلکہ ان قوموں کے رہنماؤں سے تھا جن کی طرف انبیاء علیہم السلام مبعوث کئے گئے تھے۔ انبیاء علیہم السلام کی جدوجہد کے بہت سے واقعات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،
﴿فَقَالَ ٱلْمَلَؤُا۟ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟﴾
”اس کی قوم کے کافروں کے سرداروں نے جواب دیا…“ [سورۃ المؤمنون:24]
تاکہ موجودہ قیادتوں کی طرف سے دین کی دعوت کے خلاف مزاحمت کو بیان کیا جا سکے۔ آج کی سیکولر قیادتیں سرداروں کی نمائندگی کرتی ہیں، نہ صرف اسلامی احیاء کے رکاوٹوں کے طور پر، بلکہ استعماری طاقتوں، خاص طور پر امریکہ، کے آلۂ کار کے طور پر جو اپنی اجارہ داری برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ وقت کا نہ صرف یہ تقاضا ہے بلکہ فطری ضرورت بھی ہے کہ علماء اس موجودہ صورتحال کو چیلنج کریں۔ انبیاء علیہم السلام کے وارث ہونے کے ناطے، انہیں اس چیلنج کی قیادت کرنی چاہیے اور اسلامی حکومت فراہم کرنے کے لیے سیاسی میدان میں دوبارہ شامل ہونا چاہیے۔ اور اس کامیابی کو رسول اللہ ﷺ کی حدیث نے یقینی بنایا ہے، جو "نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے واپس آنے" کی بشارت دیتی ہے۔ یہ بشارت علماء کے مشن کو تحریک بھی دیتی ہے اور اس کی لامحالہ ضرورت پر بھی زور دیتی ہے۔ موجودہ طاقت کی قیادتوں کا مقابلہ کرکے اور ایک حقیقی اسلامی متبادل پیش کر کے، علماء اپنا حقیقی کردار ادا کریں گے اور اسلامی حکومت کی واپسی کے وعدے کی راہ ہموار کریں گے۔
امام احمد نے اپنی مسند میں، نعمان ابن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ
"نبوّت تم میں اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اس کے بعد خلافت نبوّت کے منہج پر قائم ہوگی، اور یہ اللہ کی مرضی کے مطابق رہے گی، پھر اللہ جب چاہے گا، اسے ختم کر دے گا۔ پھر موروثی حکومت قائم ہوگی، اور یہ بھی اللہ کی مرضی کے مطابق رہے گی، پھر اللہ جب چاہے گا، اسے ختم کر دے گا۔ پھر ظلم کی حکمرانی ہو گی، اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہیں گے۔ پھر جب اللہ چاہیں گے اسے ختم کردیں گے۔ پھر نبوت کے طریقے پر خلافت قائم ہو گی۔ اس کے بعد آپﷺ خاموش ہوگئے"۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے" [مسند احمد]۔
خالد صلاح الدین، ولایہ پاکستان