الجمعة، 06 رجب 1447| 2025/12/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

دعوتِ دین کے علمبردار؛ صدر سیسی کی گرفت اور شریعت کےتقاضوں کے  درمیان

 

تحریر: استاد سعید فضل

(ترجمہ)

 

مصر میں حال ہی میں ملٹری اکیڈمی کے تحت دو سالہ تربیتی پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے، جس کا مقصد وزارتِ اوقاف کے ان مبلغین اور داعیانِ دین کی تربیت کرنا ہے جو ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کی ڈگری کے حامل ہیں۔ میڈیا میں اس اقدام کو "مذہبی بیانیے کی تجدید" اور "روشن خیالی" کے فروغ کی جانب ایک سنگِ میل کے طور پر پیش کیا گیا۔ ان مبلغین سے ملاقات کے دوران مصری صدر نے ایسے بیانات دیے جن میں اس امر پر زور دیا گیا کہ مبلغین "نہ صرف دین کے محافظ ہیں، بلکہ آزادی کے بھی نگہبان ہیں،" اور یہ کہ افراد کو "عقیدے کے انتخاب کی آزادی" حاصل ہے۔

 

یہ بیانات محض سرسری  نہیں ہیں بلکہ گہرے سیاسی و فکری مضمرات کے حامل ہیں۔ یہ اس واضح ڈگر کے عین مطابق ہیں جو ریاست نے برسوں سے مذہبی معاملات میں اختیار کر رکھی ہے، یعنی مذہبی بیانیے کو مٹھی میں کرنا اور عوامی شعور کو اپنے وژن اور نام نہاد "مذہبی آزادیوں" کے مغربی معیارات کے قالب میں ڈھالنا۔ واضح رہے کہ یہ مغربی معیارات، مغرب کے ساتھ تعلقات میں کلیدی سیاسی اور سفارتی شرائط میں سے ایک تصور کیے جاتے ہیں۔

 

ملٹری اکیڈمی ہی کیوں؟

 

مبلغین کے لیے کسی جامعہ یا دینی ادارے کے بجائے ایک عسکری ادارے میں دو سالہ تربیتی کورس کی شرط ایک واضح پیغام دیتی ہے: ریاست اب مبلغین کو احکامِ شریعت کے پیامبر علماء کے طور پر نہیں دیکھتی، بلکہ انہیں ایسے ملازمین کے طور پر دیکھتی ہے جن کی وفاداری اور بیانیے کو حکومتی حکمتِ عملی کی خدمت کے لیے نئے سانچے میں ڈھالا جا رہا ہے۔ یہ مندرجہ ذیل پہلوؤں سے عیاں ہے:

1.مذہبی بیانیے کی عسکری تشکیل: مبلغین کو ایک تادیبی فوجی نظام کا جُز بنا کر ان کی شخصیت کو اطاعت اور تسلیم و رضا کی بنیاد پر ازسرِ نو ترتیب دینا، تاکہ ان کے اصل دعوتی کردار کو ختم کر کے انہیں سماجی کنٹرول کے آلے میں تبدیل کیا جا سکے؛ یوں ایسے مبلغین تیار کیے جا رہے ہیں جو نصوصِ شریعت کے بجائے ریاستی پالیسیوں کے تابع ہوں۔

 

2.شرعی مرجعیت کے بجائے آمرانہ مرجعیت کا قیام: غیر شرعی اداروں کے زیرِ نگرانی دو سالہ تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ اب مبلغ کے لیے معتبر حوالہ شریعت نہیں بلکہ حکمران نظام ہو؛ یہ سب اس اقتدار کے فلسفے کے عین مطابق ہے جو دین کو محض ایک ثقافتی جزو کے طور پر دیکھتا ہے جسے سدھایا جانا ضروری ہے، نہ کہ ایک ایسا جامع الٰہی نظام جو حاکم اور محکوم دونوں پر یکساں نافذ ہوتا ہو۔

 

3.ایک نئے مذہبی شعور کی انجینئرنگ: ان نصابوں کو "ڈاکٹریٹ کی سطح کے جدید کورسز" کا عنوان دے کر حکومت اس منصوبے کو علمی لبادہ پہنانے کی کوشاں ہے۔ حالانکہ اس کا اصل مقصود مبلغین کی ایسی کھیپ تیار کرنا ہے جو ایک بے اثر اور بے ضرر مذہبی بیانیہ عام کرے؛ یہ بیانیہ ایسے تصورات پیش کرتا ہے جو سیکولرزم کے ہم آہنگ ہوں، موجودہ حالات اور ریاستی پالیسیوں کے لیے شرعی جواز فراہم کریں، اور سیاسی اطاعت کو دین کا رنگ دے کر پیش کریں۔ اس طرح مبلغ کا منصب حق کی تبلیغ کے بجائے سرکاری موقف کی پاسبانی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

 

کیا عقیدے کی آزادی اسلام کا جزو ہے؟

 

اپنے خطاب میں صدر نے اس بات پر اصرار کیا کہ انسان کو "عقیدے کے انتخاب کی آزادی" حاصل ہے اور مبلغین کو اس تصور کو ایک برتر انسانی قدر کے طور پر فروغ دینا چاہیے؛ تاہم، شرعی نقطہ نظر سے دو حقائق کے مابین امتیاز ناگزیر ہے:

1.ایمان و کفر کے مابین انتخاب کا آزادانہ ارادہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کرتا، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

﴿لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ

 

"دین میں کوئی زبردستی نہیں" [سورۃ البقرہ: 256

 

اور

 

﴿فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيُكْفُرْ

 

"تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے" [سورۃ الکہف: 29

 

 

یہ قرآنی آیات انتخاب کے ابتدائی آزاد ارادے سے متعلق ہیں، نہ کہ کفر کے انتخاب کے شرعی جواز کے بارے میں؛ انسان کفر اختیار کرنے کی قدرت تو رکھتا ہے، لیکن شریعت میں اسے ایسا کرنے کی اجازت (شرعی حق) نہیں ہے۔ کفر پر قائم رہنا اللہ کی نافرمانی اور گناہ ہے، اور کفر کا انتخاب کرنا بھی معصیت ہے، اگرچہ کسی غیر مسلم کو قبولِ اسلام پر مجبور کرنا ممنوع ہے۔

 

2.اسلامی شریعت کا نظامِ حکمرانی جو مسلم معاشرے پر لاگو ہوتا ہے: اسلام نے وہ واضح شرعی احکام وضع کیے ہیں جو امت کے عقیدے پر حملوں کی بیخ کنی کرتے ہیں، اسلامی معاشرے میں کفر کی تشہیر کو ممنوع قرار دیتے ہیں، اور ارتداد یا عقیدے کے لیے ضرر رساں افکار کی اشاعت کی ممانعت کرتے ہیں۔ دین کی حفاظت ایک بنیادی فریضہ ہے؛ اگرچہ افراد فی الواقع انتخاب کی قدرت رکھتے ہیں، لیکن نظامِ حکومت کے معاملات میں انہیں انتخاب کا شرعی حق حاصل نہیں ہے۔ وہ بیانیہ جو عقیدے کی آزادی کو ایک مطلق قدر کے طور پر پیش کرتا ہے، فطری طور پر سیکولر ہے اور اسلام اور پیغامِ حق کے علمبردار کے منصب کے منافی ہے؛ داعی کا فریضہ حق پہنچانا، وضاحت کرنا اور باطل کی تردید کرنا ہے، نہ کہ اس خیال کی تشہیر کرنا کہ ایمان محض ایک ذاتی انتخاب ہے جس پر سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔ یوں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ موجودہ نظام نصوصِ شریعت کی ایسی تعبیر کی تگ و دو کر رہا ہے جو مغربی معیارات کے مطابق ہو، نہ کہ اسلامی احکام کے۔

 

صدر سیسی مغرب کی خوشنودی کے لیے عقیدے کی آزادی پر کیوں متوجہ ہیں؟

 

گزشتہ دہائی کے دوران، مذہبی بیانیے کی اصلاح ان اہم موضوعات میں شامل ہو چکی ہے جنہیں عرب حکمران مغرب کے روبرو پیش کرتے ہیں، جس کا مقصد یہ ہے:

1.بین الاقوامی مشروعیت کا حصول: مغرب ، سیاسی اور معاشی تعاون کو مذہبی آزادیوں، مذہبی بیانیے پر ریاست کے غلبے، اور نام نہاد "فکری انتہا پسندی" کے خلاف جنگ سے مشروط کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ لہٰذا، یہ حکومت خود کو مغرب کے سامنے مذہبی اداروں کو زیر کرنے میں سب سے زیادہ جرات مند، اسلام کو مغربی اقدار کے قالب میں ڈھالنے کی اہل، اور "اسلامی خطرے" کے خلاف ایک ثقافتی حصار کے طور پر پیش کرتی ہے۔

 

2.یہ پیغام دینا کہ "ہم ایک محفوظ متبادل ہیں": جب سیسی کہتا ہے کہ مبلغین "صرف دین کے نہیں بلکہ آزادی کے بھی نگہبان ہیں،" تو وہ مقامی عوام کے بجائے دراصل مغرب کو مخاطب کر رہا ہوتا ہے؛ وہ انہیں باور کرا رہاہوتا ہے کہ "ہم ایک ایسا نیا، غیر متصادم، نظم و ضبط کا پابند اور غیر سیاسی اسلام پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو آپ کے مطلوبہ استحکام کا ضامن ہو"۔

3.دین کو داخلی و خارجی دباؤ کے حربے کے طور پر استعمال کرنا: داخلی طور پر، مذہبی بیانیے پر وزارتِ اوقاف اور الازہر کی اجارہ داری قائم کی گئی ہے تاکہ ریاست کے لیے ناگوار کوئی آواز بلند نہ ہو سکے۔ خارجی طور پر، اسی بیانیے کو ان امور پر "پیش رفت" دکھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جنہیں مغرب حساس گردانتا ہے، تاکہ سیاسی اور مالی حمایت حاصل کی جا سکے۔

 

دین کو اقتدار کی لونڈی بنانے کی کوششوں کا درست تناظر کیا ہے؟

 

اسلام کے شرعی احکام میں تحریف، انحراف کی بدترین صورتوں میں سے ایک ہے۔ ریاست کو نصوصِ شریعت کا فیصلہ ساز بنانا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حقِ قانون سازی میں مداخلت ہے، اور ائمہ کو حکمرانوں کی خوشنودی پر مامور کرنا پیغامِ حق کی تبلیغ اور امر بالمعروف کے شرعی فریضے سے روگردانی ہے۔

 

اسلام کے داعی کا منصب حق گوئی ہے، خواہ وہ حکمران کے کتنا ہی خلاف کیوں نہ ہو؛ اس کا کام ناانصافی کا سدِ باب کرنا ہے نہ کہ اس کا جواز تراشنا؛ عقیدے کی حفاظت کرنا ہے نہ کہ اسے مغربی وژن کے مطابق تبدیل کرنا؛ اور اسلام کو اس کی اصل صورت میں پھیلانا ہے، نہ کہ اس صورت میں جو حکمران یا مغرب کی منشا ہو۔ جو داعی یا امام ایسے سخت سیاسی حصار میں تیار کیا جائے جو اس پر پہلے سے طے شدہ تصورات مسلط کرے، وہ اپنی سب سے قیمتی صفت یعنی "شرعی پر مبنی خودمختاری" سے محروم ہو جاتا ہے۔

 

ملٹری اکیڈمی کا تربیتی پروگرام اور "عقیدے کے انتخاب کی آزادی" جیسے بیانات محض علمی کاوشیں یا اصلاحی اقدامات نہیں ہیں؛ بلکہ یہ مصر میں مذہبی شعور کی ازسرِ نو تشکیل کے اس جامع منصوبے کا حصہ ہیں جس کا مقصد اسے ایک نپے تلے سیکولر بیانیے میں بدلنا ہے، تاکہ اسے داخلی سطح پر معاشرتی کنٹرول اور خارجی سطح پر مغربی طاقتوں کا قرب حاصل کرنے کے لیے بروئے کار لایا جا سکے۔ یہ راستہ واضح طور پر اسلام کے شرعی احکام اور "خطابِ شرع" کی اس فطرت سے متصادم ہے جو اقتدار کے ساتھ سمجھوتے یا ایسے سیاسی نظام میں ضم ہونے کو مسترد کرتا ہے جو احکامِ الہیٰ کے مطابق حکومت نہ کرے۔ لہٰذا اسلامی امت کے لیے یہ ادراک ضروری ہے کہ دین بیرکوں میں محفوظ نہیں رہتا، مبلغین سیاسی احکامات سے تیار نہیں ہوتے، اور اسلام کوئی ایسی لچکدار شے نہیں جسے مصلحت کی بنیاد پر جب چاہیں موڑ لیں؛ بلکہ اسلام وہ وحی ہے جس کی تلاوت کی جاتی ہے، وہ شریعت ہے جسے نافذ کیا جاتا ہے، اور وہ امت ہے جس کی رہنمائی اس پر ثابت قدمی کے لیے کی جاتی ہے، نہ کہ اسے عطیہ دہندگان کی شرائط اور مغرب کی خوشنودی کے مطابق ڈھالنے کے لیے!

 

اے سرزمینِ کنانہ کے علماء! آپ سے یہ پیمان لیا گیا ہے کہ آپ حق کو آشکار کریں گے اور اسے چھپائیں گے نہیں؛ آپ حق کی پکار بنیں گے، نہ کہ جواز تراشنے کا ذریعہ۔ اقتدار کا جبر، ظلم کا خوف یا جاہ و منصب کی تمنّا آپ کو دین کے شرعی احکام مسخ کرنے یا باطل کو حق کا لبادہ پہنانے پر مجبور نہ کرے؛ آپ کی خاموشی امت کی تباہی کا پیش خیمہ ہے، جبکہ آپ کی آواز اس کی نصرت کا پہلا دروازہ ہے۔ تاریخ کے ان مخلص علماء کے نقشِ قدم پر چلیں جو حکمران کے بجائے اللہ کے حضور سربسجود ہوئے اور ملامت کرنے والوں کی پروا کیے بغیر کلمہ حق بلند کیا؛ وہی عقیدے کو تحریف سے بچاتے ہیں اور امت کی رہنمائی عظمت کی طرف کرتے ہیں، نہ کہ محکومی کی طرف۔

 

اے مصر کے غیور لوگو! اپنے دین کو مضبوطی سے تھامے رکھو، حق پر ثابت قدم رہو، اور کسی کو یہ اجازت نہ دو کہ وہ آپ کے اذہان پر قابض ہو، آپ کے دین کو اس کی روح سے محروم کرے، یا اسے محض کھوکھلے نعروں تک محدود کر دے۔

 

ولایہ مصرمیں  حزب التحریر کے میڈیا آفس کے رکن

Last modified onجمعرات, 25 دسمبر 2025 21:39
More in this category: « افواج کے بغیر قبضہ

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک