بسم الله الرحمن الرحيم
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (153) وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لاَ تَشْعُرُونَ (154) وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنْ الأَمْوالِ وَالأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرْ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (156) أُوْلَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُوْلَئِكَ هُمْ الْمُهْتَدُونَ (157).
"اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے(153) اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوں ، ان کو مردہ نہ کہو۔دراصل وہ زندہ ہیں مگر تم کو ان کی زندگی کا احساس نہیں ہوتا(154) اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور،( کبھی) خوف سے ، کبھی بھوک سے، (کبھی) مال وجان اور پھلوں میں کمی کرکے۔ اور جو لوگ ( ایسے حالات) میں صبر سے کام لیں ، اُن کو خوشخبری سنادو (155) یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ " ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے (156) یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں اور رحمت۔ اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں" (157)۔ (البقرۃ: 157-153)
ان آیات میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مندرجہ ذیل امور بیان فرمائے:
1- پچھلی آیات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے ہم میں سے پیغمبر بھیجا جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی آیات ہمیں پڑھ کر سناتے ہیں، ہمیں شرک و بت پرستی سے پاک کرتے ہیں اور وہ تمام عقائد اور احکامات سکھاتے ہیں جن کو اپنانا ہم پر لازم ہے، ہمیں بتایا کہ ہم اللہ کو یاد کریں اور اسلام کی طرف لوگوں کو بلائیں ،اب مذکورہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں صبر اور نماز کے ذریعے مدد وقوت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے ۔
اس آیت کے مفہوم سے اشارۃًاس بات کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ اسلام کی طرف دعوت اور اللہ کی شریعت کی پابندی ایک بھاری ذمہ داری ہے جس میں مشقت اٹھانی پڑتی ہے، نیز یہ کہ مسلمان کے لیے یہ ضروری ہے کہ شرعی احکامات پر عمل کے نتیجے میں اس پر آنے والے مصائب کے باوجود ان احکامات پر ثابت قدمی دکھاتے ہوئے اسے دو چیزوں سے آراستہ ہونا چاہئے، صبر اور نماز۔
2- اس کے بعد اللہ سبحانہ آزمائش کے مختلف انواع کا ذکر فرمایا جو اسلام کو لے کر اٹھنے والو ں اور اس کی طرف دعوت دینے والوں کو پیش آتی ہیں، اور اس اجر کا بھی تذکرہ فرمایا جو حق پر ڈٹ جانے والے صابرین کے لیے تیار کیا گیا ہے ، جو مصیبت کے وقت کہتے ہیں :﴿إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ﴾"ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور اسی کی جانب ہمیں واپس جانا ہے"۔ جن مشقتوں اور پریشانیوں کا تذکرہ ان آیات کے اندر کیا گیا ہے اور ان کو برداشت کرنے والوں کے واسطے جو نعمتیں تیار کی گئیں ہیں، وہ یہ ہیں :
ا۔ اللہ کے راستے میں قتل ، یعنی اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنے کی خاطر اللہ کے دشمنوں سے لڑتے ہوئے ایک مسلمان قتل ہوجائے، جبکہ اس نے کفار پر حملہ کیا ہو ، وہ معرکۂ کارزار میں ڈٹ کرکھڑا ہو ،نہ کہ پیٹھ دے کر بھاگتے ہوئے قتل ہوجائے، ا یسے شخص کو یہ اعزاز دیا گیا ہے کہ اللہ کے ہاں وہ زندوں میں سے ہے ، مگر چونکہ یہ معاملہ ظاہر ی نگاہوں سے اوجھل ہے، اس لیےانسانوں کو اس کا احساس نہیں ہوتا،ان کی زندگی عمدہ اور پاکیزہ ہے ، جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہے(( من قاتل لإعلاء كلمة الله مقبلا غير مدبر فهو في سـبيل الله))" جو کوئی پیٹھ دکھائے بغیر آگے بڑھتے ہوئے لڑے تو وہ اللہ کے راستے میں لڑا"(النسائی 3104، احمد417/4،392، الدرامی 2305) ایک اور حدیث میں آیا ہے(إن أرواح الشـهـداء عند الله في حواصـل طيور خضـر تسـرح في أنهـار الجنة حيث شاءت ) " بے شک شہدا کی ارواح اللہ کے نزدیک سبز پرندوں کے پوٹوں میں ہوتے ہیں ، وہ جنت کی نہروں پر سے جہاں چاہے پھرتے رہتے ہیں۔"(مسلم 3500، ترمذی 2937، ابن ماجہ 3791، الدرامی2303، احمد386/3)
ب۔ خوف ، بھوک ، مال وجان اور پھلوں کے نقصان کی صورت میں تکلیف اور مصیبت کی مختلف اقسام میں سے مؤمن کو جو بھی صورت پیش آئے، آزمائش کہلاتی ہے۔ خوف ایک آزمائش ہے ، بد امنی آزمائش ہے ، فقر وفاقہ اور بھوک پیاس اور خسارے کی وجہ سے مال میں کمی یا بیماریوں اور اموات کی وجہ سے جانی نقصانات اور آفتیں پڑنے پرپھلوں کی کمی وغیرہ سب آزمائش کی شکلیں ہیں ۔ اس آیت کے اندر اللہ سبحانہ نے﴿بِشَيْءٍ﴾ 'کسی نہ کسی' کا ذکر کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ آزمائش جیسی بھی ہو ، چھوٹی ہو بڑی ہو، آزمائش ہی ہے اور اس پر صبر کے نتیجے میں بہت بڑے اجر کا وعدہ ہے ۔ ایک دفعہ نبی ﷺ نے چراغ بجُھ جانے پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا،صحابہ کے استفسار پر ارشاد فرمایا :
((كلّ ما يؤذي المؤمن فهو مصيبة وله أجر))
"کوئی بھی چیز جس سے مومن کو تکلیف پہنچے ، وہ مصیبت ہے اور اسے اس کا اجر ملتا ہے"(درالمختار380/2، تفسیر البیضاوی 125/1)۔
آپ ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے:
((ما من مسـلم يشاك شوكةً فما فوقها إلا رفعه الله بها درجةً وحط عنه بها خطيئةً))
" کوئی مسلمان جس کو کانٹا چبھ جائے یا اس سے بڑھ کر کوئی تکلیف پہنچ جائے ، اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند فرماتے ہیں اور اس کا ایک گناہ معاف کردیتے ہیں۔"( مسلم، بخاری)
ج۔ اللہ سبحانہ نے بیان کیا ہے کہ جب ایک مسلمان ابتلا اور آزمائش کے وقت صبر کرتا ہے اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتا ہے تو اس پر اسے اجر عظیم ملتا ہے اور وہ یہ کہ
(أُوْلَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُوْلَئِكَ هُمْ الْمُهْتَدُونَ)
"یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں اور رحمت۔ اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں۔"
مسلم ؒ نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے حدیث نقل کی ہے ، وہ فرماتی ہے : میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ فرماتے ہوئے سنا :
«ما من عبد تصيبه مصيبة فيقول إنا لله وإنا إليه راجعون اللهم أجرني في مصيبتي واخلف لي خيرا منها، إلا آجره الله تعالى في مصيبته وأخلف له خيرا منها» "کسی بندے کو جب مصیبت پہنچے اور وہ اس پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتا ہے اور یہ پڑھتا ہے کہاللهم أجرني في مصيبتي واخلف لي خيرا منها۔ اللہ سبحانہ ضرور اس کی مصیبت پر اس کو بدلہ دیں گے اور اس سے بہتر حالات لائیں گے۔وہ فرماتی ہے کہ پھر جب ابو سلمہ( ام سلمہ کے پہلا شوہر) کی وفات ہوئی تو میں نے وہی کچھ پڑھا جو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا ، تو اللہ تعالیٰ نے ابو سلمہ سے بہتر عطا کیا ، اور رسول ﷺ کے ساتھ میرا نکاح ہوگیا۔ "(بخاری5324، مسلم1525، ترمذی3433، ابو داود2712)
3- اللہ سبحانہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم اسلام کی دعوت لے کر چلنے کے دوران اور اس میں حق پر ثابت قدم رہنے کے لیےصبر اور نماز کے ذریعے مدد حاصل کریں، رسول اللہ ﷺ سے صحیح حدیث میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ جب آپ ﷺ کو کوئی معاملہ درپیش ہوجاتا تو نماز کی طرف دوڑتے، نماز ہی مؤمن کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ، اسی کے ذریعے وہ اپنے رب سے ملاقات کرتا ہے اور نماز ادا کرکے اس کا دل سکون و اطمینان کے خوشگوار کیفیات سے لبریز ہوجاتا ہے۔ایک حدیث میں ارشاد ہے:
(حُبِۤبَ إليّ من دنياكم ثلاث: الطيب والنساء، وجعلت قرة عيني في الصلاة)
" میرے دل میں تمہاری دنیا میں سے تین چیزوں کی محبت ڈال دی گئی ہے؛ خوشبو، عورتیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔"(النسائی3878، احمد128/3، 285)
ظلم اور ظالموں کے ساتھ مقابلے میں مؤمن کو نماز سےقوت اور سہاراملتا ہے، حق پر ڈٹے رہنے میں عزم وہمت بندھتی ہے ، وہ ایک سچا مؤمن ہوکر نہ تو ڈگمگاتا ہے نہ ہی ہمت ہارتا ہے۔ آیت میں صبر کی اہمیت جتانے کے لیے اس کا ذکر نماز سے پہلے کیا گیاہے ، نماز بندے اور رب کے درمیان تعلق کا مظہر ہے اور صبر بندے اور اس کی اپنے من اور دیگر لوگوں کے ساتھ اس کے تعلق کا مظہر ہے ، صبر ایک کسوٹی اور پیمانہ ہے ، اس کے ذریعے سختی اور مصائب یا ناگوارحالات میں ثابت قدمی کو پرکھا جاتا ہے ۔
صبر کے فوائد:
آیئے تھوڑی دیر کے لیے صبر کے مفہوم پر غور کریں کیونکہ بعض مسلمانوں کے ہاں اس کی حقیقت اور مدلول میں جو گنجلک پائی جاتی ہے ، اس کا ازالہ کیا جائے۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک آدمی برائیوں اور برے لوگوں سے الگ تھلگ ہوکر اپنے آپ میں مگن رہے ،تو ایسے شخص کو صابر کہا جاسکتا ہے ، خواہ اس کے سامنے محرمات کو پامال کیا جائے، حدود اللہ معطل ہوں ، جہاد پر پابندی ہو، مگر اس حوالے سے اس کا کوئی موقف نہ ہو، بلکہ وہ ان جیسے امور سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہواور نہی عن المنکر کو چھوڑا ہوا ہے،تو لوگ اس کو بھی صابر سمجھتے ہیں۔
کچھ لوگ اپنے آپ کو تکلیف اور اذیت سے بچانے کی جد وجہد میں، اور اس ڈر کی وجہ سے کہ دشمنوں کی طرف سے پیچھا کرنے پر اس کو نقصان پہنچے گا ، کلمہ حق بلند کرنے یا اللہ کو راضی کرنے والے اعمال کی جسارت کرنا چھوڑکر کسی گوشے میں سر چھپا کر گونگا بہرہ بن کر بیٹھ جاتے ہیں، اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو صابرین میں سے سمجھتا ہے۔حالانکہ اس کوصبر نہیں کہتے، یہ وہ صبر نہیں جس کے بدلے میں جنات النعیم آراستہ کردیے جاتے ہیں اور جس پر بے حساب اجر کا وعدہ کیا گیا ہے
(إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ)
"بے شک صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا بے شمار اجر دیا جاتا ہے( الزمر:10) ۔
بلکہ یہ تو ہو بہو وہی کمزوری ہے جس سے آپ ﷺ پناہ مانگا کرتے تھے:
((أعـوذ بالله من العجـز والكسل والجبن والبخل والهم والحزن وغلبة الدين وقهر الرجال))
" میں بے بسی ، سستی ، بزدلی ، کنجوسی ، پریشانی، غم ، قرض کے زیادہ ہونے اور لوگوں کی زبردستی سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔"(بخاری 5894، مسلم 4908)
صبر یہ ہوتا ہے کہ آپ حق بات کہیں ، حق کام کریں ،پھر اس کے نتیجے میں پہنچنے والی اذیتوں کو برابر برداشت کرتے جائیں ،ان اذیتوں کی وجہ سے نہ تو آپ اپنے موقف کو چھوڑنے کے لیے تیار ہوں نہ ہی آپ کا حوصلہ کمزور یاپست ہو، بلکہ استقامت کے ساتھ اپنے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہوں۔
صبر کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے کلام میں بتایا ہے کہ یہ تقویٰ سے جنم لیتا ہے
(إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ )
" حقیقت یہ ہے کہ جوشخص تقوٰی اور صبر سے کام لیتا ہے تو اللہ ( ایسے) اچھے کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا"( یوسف: 90)۔
صبر کو مجاہدین کے صفات میں سے بتلایا ہے، ارشاد ہے :
(وَكَأَيِّنْ مِنْ نَبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ)
"کتنے سارے پیغمبر ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے اللہ والوں نے جنگ کی! نتیجتاً انہیں اللہ کے راستے میں جو تکلیفیں پہنچیں ان کی وجہ سے نہ انہوں نے ہمت ہاری، نہ کمزور پڑے اور نہ انہوں نے اپنے آپ کو جھکایا۔ اللہ ایسے ثابت قدم لوگوں سے محبت کرتا ہے۔"(آل عمران:146)۔
صبر آزمائشوں پر ہوتا ہے ، قضا پر ہوتا ہے ،جو انسان کو ثابت قدمی کی طرف لے کر جاتا ہے ،نہ کہ ڈانوا ڈول ہونے کی طرف ۔صبر تو انسان کی قرآن پر عمل پیرا ہونے کی طرف رہنمائی کرتا ہے ، صبر یہ نہیں سکھاتا کہ مصیبت پہنچنے پر ناگواری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرآن کو جھٹک دے، صبر سے تو رب تعالیٰ کی قربت میں اضافہ ہونے کی کیفیت نصیب ہوتی ہے، نہ کہ اس سے دوری۔ جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں قرآن میں آیا ہے
(فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنْ الظَّالِمِينَ)
"پھر انہوں نے اندھیریوں میں سے آواز لگائی کہ:"(یا اللہ) تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو ہر عیب سے پاک ہے ، بے شک میں قصور وار ہوں۔"(الأنبياء:87)
صبر سے حوصلوں کو مہمیزملتا ہے اور جنت کا راستہ قریب کردیتا ہے ، بلال کا صبرتھا ، خباب کا صبر اور آل یاسر کا صبر تھا جس کے بارے میں آپ ﷺ نے انہیں خوشخبری دی:
((صبرا آل ياسر إن موعدكم الجنة))
" اے آل یاسر، صبر کرو، تمہارا ٹھکانہ جنت ہے۔"(المستدرک383/3، المطالب ال عالیہ4.34، الحلیہ 140/1)
صبرتو خبیب اور زید رضی اللہ عنہما کا تھا " اللہ کی قسم ! مجھے اتنی سی بات بھی پسند نہیں کہ محمد ﷺ جہاں تشریف فرما ہیں ، وہیں ان کو کوئی کانٹا چبھ جائے جس سے آپ ﷺ کو تکلیف ہورہی ہو اور میں اپنے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ آرام و سکون سے بیٹھا رہوں۔"( سیرت ابن ہشام 181/3)
صبر تو ان لوگوں کا ہوتا ہے جو لوگوں کے لعن طعن اور ملامت کو خاطر میں لائے بغیر ظالم کا ہاتھ روکتے ہیں ،جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہے:
((كلا والله لتأخذن على يد الظالم ولتأطرنه على الحق أطرا ولتقصرنه على الحق قصرا أو ليضربن الله قلوب بعضكم ببعض وليلعنكم كما لعن بني إسرائيل))
" خبر دار، اللہ کی قسم ! تم ضرور ظالم کا ہاتھ روکو گے اور اس کو حق کی طرف موڑوگے اور حق ہی کے اندر اس کو بندھا ہوا رکھو گے، نہیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کو ایک دوسرے سے ٹکرا دے گا اور بنی اسرائیل کی طرح تم پر لعنت کردے گا۔"(ترمذی 2974، ابو داود 3774، ابن ماجہ 3996)
صبر تو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کا تھا، صبر تو ان کا تھا جنہوں نے قریش کے معاہدے کی دستاویز پھاڑ کے ٹکڑے کیے تھے، جنہوں نے ابی طالب کی گھاٹی میں قوم کے ساتھ بائیکاٹ کے سخت ترین دن گزارے، جنہوں نے حبشہ کی ہجرت کی اور "ہمارا رب اللہ ہے" کہنے پر جن کا پیچھا کیا گیا۔
صبر تو مہاجرین اور انصار کا تھا ،جنہوں نے مشرکین ، فارسی مجوسیوں اور اہلِ روم کے ساتھ جنگیں کیں۔۔۔ عبد اللہ ابن ابی حذافہ رضی اللہ عنہ کی جماعت کا صبر جنہیں قید کیا گیا اور ظلم وستم ڈھایا گیا۔۔۔ مومن اور راست باز مجاہدین کا صبر ۔
صبر یہ کہ امر بالمعروف کریں ، نہی عن المنکر کریں اور اس راستے کی تکالیف کے سامنے ہمت نہ ہاریں ۔صبر یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی فوج میں بھرتی ہوکر دشمنان خدا کے خلاف جنگ کے لیے نکل کھڑا ہوا جائے۔صبروہ کہلاتا کہ آدمی اللہ تعالیٰ کے اس قول کا مصداق بنے
(لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنْ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنْ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الأُمُورِ)
" ( مسلمانو! ) تمہیں اپنے مال و دولت اور جانوروں کے معاملے میں ( اور ) آزمایا جائے گا، اور تم اہلِ کتاب اور مشرکین دونوں سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنوگے۔ اور اگر تم نے صبراورتقویٰ سے کام لیا تو یقیناً یہی کام بڑی ہمت کے ہیں( جو تمہیں اختیار کرنے ہیں)"( آل عمران: 186)۔
اسی طرح اللہ سبحانہ کا یہ ارشاد:
(وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ)
" اور ہم ضرور تمہیں آزمائش میں ڈالیں گے تاکہ ہم یہ دیکھ لیں کہ تم میں سے کون ہیں جو مجاہد اور ثابت قدم رہنے والے ہیں، اور تاکہ تمہارے حالات کی جانچ پڑتال کر لیں ۔"(محمد:31)۔
صبر کا یہی مضمون سورۃ البقرۃ کی مذکورہ بالا آیات میں بیان کیا گیا ہے
(وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنْ الأَمْوالِ وَالأَنفُسِِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرْ الصَّابِرِينَ ط الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ط أُوْلَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُوْلَئِكَ هُمْ الْمُهْتَدُونَ)
"اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور،( کبھی) خوف سے ، کبھی بھوک سے، (کبھی) مال وجان اور پھلوں میں کمی کرکے۔ اور جو لوگ ( ایسے حالات) میں صبر سے کام لیں ، اُن کو خوشخبری سنادو یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ " ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں اور رحمت۔ اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں" ۔ (البقرۃ: 157-153)