بسم الله الرحمن الرحيم
﴿ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوْ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ﴾
" بے شک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں اس لیے جس نے بھی حج کیا یا عمرہ کیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کا طواف کرے اور جس نے اپنی مرضی سے نیکی کی تو اللہ قدر دان اور علم والا ہے"(البقرۃ:158)
ان آیات میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مندرجہ ذیل امور کی وضاحت کی ہے:
1۔ جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بیت الحرام (کعبہ)کا ذکر کیا اور یہ کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کو مسلمانوں کے لیے قبلہ مقرر کیا ہے،اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بتایا کہ اُن کی نظر میں کعبہ کا کیا مقام ہے اوروہ حج اور عمرہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کا بھی ذکر کیا کیونکہ مسلمان اس عمل کے انجام دہی میں حرج محسوس کر رہے تھے اور اللہ نے کس طرح ان سے حرج کو اٹھا دیا اور یہ کہ ان کی جانب سے اللہ کے امر کی اطاعت ایسا عمل ہے کہ جس پر اجر عظیم مرتب ہوتا ہے۔
یہ سب نئے قبلہ ،اسلام کی دعوت اور اللہ کے دائمی ذکر کے حوالے سے سابقہ آیات کے سیاق میں ہے، پھر اللہ کے اوامر کی تنفیذ چاہے اس میں مشقت ہو یا اللہ کی راہ میں اذیت کا سامنا ہو، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی راہ میں اذیت پر صبر اور اس پر اجر عظیم کا بیان ہے جس کو اللہ نے اطاعت گزار اور ہر حال میں شریعت کی پابندی کرنے والے بندوں کے لیے تیار کر رکھا ہے چاہے یہ کتنا ہی بھاری یاپرمشقت اور مشکل ہو اور یہ کہ اچھا انجام متقیوں کے لیے ہے۔
اسی سیاق میں یہ آیت کریمہ وارد ہوئی کیونکہ مسلمانوں کو صفا اور مروہ کے درمیان سعی میں حرج نظر آرہا تھا اور ان کو خوف تھا کہ کہیں یہ سعی گناہ نہ ہوں کیونکہ جاہلیت میں دونوں بت ان دونوں پہاڑیوں پر ہی رکھے ہوتے تھے: صفا پر جو بت رکھا ہوا ہوتا تھا وہ ایک مرد کی شکل کا ہوتا تھا جس کو(اساف) کہا جاتا تھا اور مروہ پر جو بت رکھا ہوا ہوتا تھا وہ عورت کی شکل کا ہوتا تھا جس کو (نائلہ) کہا جاتا تھا اور جاہلیت کے زمانے کے لوگ جب ان کے درمیان سعی کرتے تو ان دونوں کو چھومتے تھے۔ جب اسلام آیا اور سارے بت توڑ دئیے گئے تو مسلمانوں نے ان دوبتوں کی وجہ سے ان کے درمیان سعی کرنے میں حرج محسوس کیا جس پر مذکورہ آیت کریمہ نازل ہوئی جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسلمانوں کو یہ خوف تھا کہ ان دونوں بتوں کی وجہ سے جو جاہلیت میں ان دو پہاڑیوں کے اوپر رکھے ہوئے تھےکہیں صفا اور مروہ کے درمیان سعی سے وہ گناہ کے مرتکب نہ ہوں، جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اس میں کوئی گناہ نہیں۔
إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ :
" بے شک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں"۔
اصل میں ﴿الصَّفَا﴾ لغت میں اس پتھر کو کہتے ہیں جس پر مٹی نہ ہو اور﴿الْمَرْوَةَ﴾ سفید پتھر کو کہتے ہیں۔ عرفی حقیقت میں مکہ میں بیت الحرام کے پاس ان دو چھوٹی پہاڑیوں کو کہا جاتا ہے ﴿الصَّفَاوَالْمَرْوَةَ﴾(صفا اور مروہ) اور شرع نے اسی عرفی حقیقت کے لیے ان کو استعمال کیا ہے۔
﴿شَعَائِرِاللَّهِ﴾ " اللہ کے شعائر " یہ شعیرہ کی جمع ہے یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے حج کرنے کی نشانیاں (علامات)، شعائر حج کے دوران عبادات یعنی مناسک حج کو کہتے ہیں ۔ وہ علامات جن کو اللہ نے حج کے دوران بندوں کے لیے بیت اللہ کے طواف، سعی اور وقوف وغیرہ کے لیے مقرر کیا ہے۔
فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا " تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کا طواف کرے "
یعنی حج اور عمرہ کرنے والوں کے لیے ان دونوں کے درمیان سعی کرنے میں کوئی حرج نہیں؛ چونکہ مسلمان ان دونوں کے درمیان سعی کرنے میں حرج محسوس کرتے تھے جیسا کہ ہم بیان کیا اس لیے اللہ نے ان کے درمیان سعی کرنے میں حرج کو رفع کیا۔
﴿فَلاَجُنَاحَ﴾ "کوئی گناہ نہیں" کا یہ معنی نہیں کہ طواف کرنے یا نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں کیونکہ یہ طواف سے حرج کو رفع کرنے کے بارے میں وارد ہے، طواف نہ کرنے کے بارے میں حرج کو رفع کرنے کے لیے وارد نہیں، بلکہ یہ یوں ہے: ان کے درمیان طواف کرنے کے بارے میں اللہ کے حکم کی تعمیل کرو اور اس میں تم پر کوئی حرج نہیں۔ ھشام بن عروۃ نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ : " میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا سے کہا اور اس وقت میں کم عمر بھی تھا: اللہ عزو جل کے اس فرمان کے بارے میں کیا خیال ہے
(إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوْ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا) "بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے اس لیے جو حج یا عمرہ کرے تو ان دونوں کے درمیان طواف کرنے میں اس کے لیے کوئی حرج نہیں"، اور کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ ان کے درمیان طواف نہ کرنے والے پر کوئی گناہ ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا: ہر گز یہ بات نہیں اگر ایسی بات ہوتی جیسا تم کہہ رہے ہو تو یوں ہوتا ﴿فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا﴾"طواف نہ کرنے میں اس پر کوئی گناہ نہیں"۔
﴿أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا﴾ "کے درمیان طواف"یعنی یتطوف میں 'ت' کو 'ط 'میں مدغم کیا گیا ہے، طواف کسی چیز کے گرد چلنے کو کہتے ہیں یہاں اس سے مراد ان کے درمیان سعی ہے۔
اس لیے آیت کا معنی اللہ کی جانب سے مسلمانوں کو خطاب ہو گا یعنی تم میں سےجس نے بیت اللہ کا حج کیا یا عمرہ کیا تو اس کو صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا چاہیے کیونکہ یہ دونوں اللہ کے شعائر ہیں، اب یہ جاہلیت کی علامات نہیں رہے، حرج محسوس مت کرو یا ان دونوں کے درمیان سعی کرتے ہوئے جاہلیت کےدنوں میں ان دو پہاڑیوں پر موجود بتوں کے سبب گناہ میں مبتلا ہونے کا خوف مت کرو، وہ معاملہ ختم ہو چکا، اللہ نے تم سے حرج اور گناہ کو ختم کردیا ہے، تم اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ان دونوں کے درمیان سعی کرو۔
رہی بات صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی تویہ حج و عمرہ کا فرض رکن ہے جس کے مندرجہ ذیل دلائل ہیں:
ا۔ آیت کی نص ہے کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی حج کے مناسک ہیں﴿شَعَائِرِ اللَّهِ﴾ "اللہ کے شعائر"۔
ب۔ رسول اللہ ﷺ کے حج (حجۃ الوداع) کے بارے میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث : رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان کہ لِتَأْخُذُوا مَنَاسِكَكُمْ فَإِنِّي لاَ أَدْرِي لَعَلِّي لاَ أَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِي هَذِهِ " مجھ سے اپنے مناسک سیکھو کیونکہ میں نہیں جانتا کہ شاید میں اپنےاس حج کے بعد حج نہ کرسکوں"(مسلم2286،نسائی 3012، ابو داود 1680، احمد 3/318، 337)۔ اس قول میں رسول اللہ ﷺ کی جانب سے حج کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ یہ فرض ہے، یوں صفا اور مروہ کے درمیان سعی فرض ہے کیونکہ بیان اس چیز کا حکم ہے جس کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔
اس لیے حج اور عمرہ میں صفا و مروہ کے درمیان سعی فرض ہے یہاں یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ سابقہ استدلال حج میں سعی کے بارے میں ہےعمرے میں نہیں، جی یہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوْ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا " جس نے بھی حج کیا یا عمرہ کیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کا طواف کرے "میں حکم شرعی حج اور عمرہ دونوں میں سعی کے بارے میں ہے۔
چونکہ سعی فرض اور سعی حج اور عمرہ کا جزو ہے اور حکم کے جزو کا فرض ہونے کا معنی یہ ہے کہ یہ اس حکم کا رکن ہے جیسے نماز میں رکوع یا سجدہ، یوں حج او رعمرے میں سعی رکن ہے۔
2۔ اللہ تعالی آیت کا اختتام اپنے اس قول سے فرماتا ہے وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ " اور جو اپنی رضا سے نیکی کرے تو اللہ قدر دان اور خبردار ہے" اورخَيْرًا یہاں نکرہ مطلق ہے، یعنی اللہ سبحانہ قدردان او رہر بھلائی اور اللہ کی قربت حاصل کرنے والے کے بارے میں خبردار ہے چاہے یہ بھلائی عمرے میں ہو یا حج میں جیسا کہ آیت کے سیاق میں ہے یا خیر کو مطلق کرنے سے جیسا کہ معلوم ہوتا ہے۔
﴿وَمَنْ تَطَوَّعَ﴾'' اور جو اپنی رضا سے "یعنی جس نفل کے ذریعے قربت حاصل کی او ر اس کا مقصد مسلمانوں کو صرف فرض پراکتفا نہ کرنے بلکہ اس کے بعد نوافل کا اہتمام کرنے کی ترغیب ہے جس میں اللہ کی قربت ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ "أحـب ما تقـرب به إليّ عبدي ما افتـرضته عليه، ولا يزال عبدي يتقرب إليّ بالنوافل حتى..." "مجھے سب سے زیادہ پسند اور جس سے بندہ میرے قریب ہوتا ہے وہ ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ہے، اور میرا بندہ نوافل سے مسلسل میرے قریب ہو تا جاتا ہے یہاں تک کہ۔۔۔"(بخاری 6021) ۔
﴿شَاكِرٌ عَلِيمٌ﴾ " قدر دان اور خبردار ہے "یعنی ان کی اطاعت پران کو بدلہ دینے والا، اور ان کے چھوٹے او ر بڑے عمل کو جاننے والا اور اس پر ان کو جزاء دے گا چاہے ان کی اطاعت کی مقدار جتنی بھی ہو، اللہ کے ہاں ذرہ برابر عمل بھی ضائع نہیں ہو تا فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ * وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ " جو بھی ذرہ برابر نیکی کرے گا اس کو دیکھے گا اور جو بھی ذرہ برابر بھی برائی کرے گا اس کو دیکھے گا"(الزلزلہ:8-7)۔