الثلاثاء، 03 جمادى الأولى 1446| 2024/11/05
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 مشہور فقیہ اور امیر حزب التحریرعطا ءبن خلیل ابو الرشتہ کا خطاب

  •  857 ہجری بمطابق 1453 عیسوی میں قسطنطنیہ کی فتح کی یاد میں

 


سب تعریفیں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے لیے ہی ہیں جس نے ہمیں نعمتوں سے نوازا ، اور  رسول اللہ ﷺ ، ان کی آل و  اصحابؓ پر اللہ کی رحمتیں ہوں اور ان لوگوں پر جنہوں نے آپ ﷺ کی پیروی کی۔۔۔امتِ  اسلامیہ کی طرف  جو  ایک  بہترین امت ہے، جسے انسانیت کی فلاح کے لیے کھڑا کیا  گیا۔۔۔اور  نیکوکار اور اچھے  داعیوں کی طرف ۔۔۔۔ اور اِس صفحے کو پڑھنے والے محترم افراد کی طرف ۔۔۔۔

 

السلام علیکم  ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 

قوموں کی تاریخ میں کچھ سنہری دن ہوتے ہیں جو اُن قوموں کے لیے باعث فخر ہوتے ہیں۔ اور اگر ان دِنوں میں  رسول اللہﷺ کی جانب سے دی جانے والی خوشخبری بھی پوری ہو ئی  ہو تو کیا ہی اعلیٰ بات ہے؟ یقیناً یہ دن آسمان پر چمکتے دمکتے ستاروں کی طرح ہیں  بلکہ سورج کی طرح ہیں جس نے  دنیا کو روشن کیا اور امت کو آسمان کی بلندیوں تک لے گئے۔۔۔ ان عظیم  سنہری دنوں میں سے  ایک دن قُسطنطنیہ کی فتح کا دن بھی ہے۔۔۔محمد  الفاتح نے 26 ربیع الاول  857 ہجری کو  قسطنطنیہ  کا محاصرہ شروع کیا اور 20 جمادی الاول 857 ہجری کو اسے مکمل طور پر فتح کرلیا یعنی یہ محاصرہ تقریباً دو مہینوں تک جاری رہا ۔ جب محمد الفاتح شہر میں ایک فاتح کی حیثیت سے  داخل ہوئے تو وہ اپنے گھوڑے سے اترے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوگئے اور اپنی فتح و کامیابی پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ اس کے بعد وہ  کلیسا"آیاصوفیہ" (چرچ)  کی جانب بڑھے جہاں پر بازنطینی سلطنت کے لوگ اور ان کے مذہبی پیشوا جمع تھے۔ الفاتح نے انہیں تحفظ فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ الفاتح  نے "آیا صوفیہ" کے کلیسا کو مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم دیا اور  مشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قبر کے مقام پر ایک مسجد کی تعمیر کا حکم دیا ۔ یہ وہ جگہ تھی کہ جہاں قسطنطنیہ کو فتح کرنے کی پہلی مہم کے لیے مسلم  فوج  جمع ہوئی تھی ،حضرت ابوایوب انصاریؓ بھی اس فوج کا حصہ تھے  اور اسی جگہ پرآپؓ کا انتقال ہوا تھا ۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ آپؓ پر رحمتیں نازل کرے اور ان سے راضی ہو۔ سلطان محمد الفاتح کا نام اس عظیم فتح کے بعد "الفاتح "پڑگیا اور انہوں نے قسطنطنیہ کا نام تبدیل کرکے "اسلام بول" رکھا جس کا مطلب ہے "اسلام کا شہر(دار الاسلام)" جو بعد میں "استنبول" کے نام سے مشہور ہوگیا۔ الفاتح  شہر میں داخل ہوئے اور "آیا صوفیہ" گئے جہاں انہوں نے نماز پڑھی اور وہ جگہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تعریف، نعمتوں اور عزت کے ساتھ مسجد میں تبدیل ہوگئی۔۔۔ اور پھر وہ مسجد ہی رہی، ایک پاکیزہ عظیم مسجد جس نے ایمان والوں کے ہاتھوں بہت ترقی کی یہاں تک کہ مجرم کمال اتا ترک کا دور آگیا جس نے وہاں پر نماز کی ادائیگی پر پابندی لگا دی ، اس کی بے حرمتی کی اور اسے ہر آنے جانے والے کے لئے عجائب گھر بنا دیا۔

 

اس طرح سے رسول اللہ ﷺ کی جانب سے دی جانے والی خوشخبری پوری ہوئی؛ عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:"جب ہم رسول اللہ ﷺ کے گرد جمع تھے اور لکھ رہے تھے تو ہم نے پوچھا کہ کونسا شہر پہلے فتح ہوگا، قسطنطنیہ یا روم؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«مَدِينَةُ هِرَقْلَ تُفْتَحُ أَوَّلاً، يَعْنِي قُسْطَنْطِينِيَّةَ»

"ھرقُل  کا شہر پہلے فتح ہوگا یعنی قسطنطنیہ"۔ 

    احمد نے اپنی مسند میں اور حاکم نے مستدرک میں اس حدیث کوروایت کیا  اور بیان کیاکہ یہ حدیث شیخین(بخاری و مسلم) کی شرط پر صحیح ہے "،امام ذھبی نے اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر (پورا اترتی )ہے "۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں جسے عبد اللہ بن بشر خثعمی نے اپنے والد سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا:

«لَتُفْتَحَنَّ الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ فَلَنِعْمَ الْأَمِيرُ أَمِيرُهَا وَلَنِعْمَ الْجَيْشُ ذَلِكَ الْجَيْشُ»

"تم ضرور بالضرور قسطنطنیہ فتح کرو گے اور کیا ہی اعلیٰ اس کا امیر  ہو گا اور کیا ہی اعلیٰ وہ لشکر ہو گا جو اسے فتح کرے گا"۔

 

انہوں نے کہا کہ مسلمہ بن عبد المالک نے مجھے بلوایا اور مجھ سے پوچھا تو میں نےاِس حدیث کا ذکر اُس کے سامنے کیا اور اِس کے بعد اس نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا۔ مجمع الزوائد میں اس حدیث پر تبصرے میں کہا گیا ہے:"اس حدیث کو احمد، بزاراور طبرانی نے روایت کیا اور اس حدیث کے راوی قابل اعتماد ہیں۔۔۔"۔

 

یہ بشارت اس نوجوان مرد محمد الفاتح کے ہاتھوں پوری ہوئی جب اس کی عمر 21 سال سے زیادہ نہیں تھی لیکن بچپن سے ہی اس کی تربیت راست بازی پر کی گئی تھی۔ ان کے والد سلطان مراد دوم ان پر  بہت توجہ دیتے تھے اور ان کی تربیت اس وقت کے بہترین استادوں نے کی تھی جس میں احمد بن اسماعیل الکورانی شامل تھے جن کے متعلق سیوطی نے بیان کیا کہ وہ محمد الفاتح کے پہلے استاد تھے اور کہا"وہ ایک فقیہ  عالم تھے، ان کے دور کے علماء نے ان کی مہارت اور فوقیت کی گواہی دی بلکہ وہ انہیں'اپنے زمانے کا ابو حنیفہ' کہتے تھے"۔    اسی طرح سے شیخ شمس الدین سنقروہ  پہلےاستاد تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی قسطنطنیہ والی حدیث بچپن سے ہی محمد الفاتح کے  ذہن میں بٹھانا شروع کی تھی۔ تویوں یہ  بچہ اس طرح سے پروان چڑھا کہ قسطنطنیہ کو فتح کرنااس کا ہدف بن گیا۔     شیخ شمس الدین سنقر نے محمد الفاتح کو قرآن ، حدیث ، سنت، فقہ اور عربی،فارسی اور ترک زبانیں سکھائیں۔  محمد الفاتح نے شیخ شمس الدین سنقر سے ریاضی، فلکیات، تاریخ  کے مضامین بھی پڑھے۔  اس کے علاوہ محمد الفاتح کو گھڑ سواری اور فنِ حرب سیکھنے کا بھی بہت شوق تھا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں عزت دی اور انہیں رسول اللہ ﷺ کی تعریف کا مستحق بنایا۔ الفاتح بہترین رہنما تھے اور ان کی فوج بہترین افواج سے بھی زبردست تھی کیونکہ ان کے دل ایمان سے لبریزتھے، انہوں نے پورے اخلاص کے ساتھ جہاد کی تیاری کی تھی، انہوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت کی اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں عظیم فتح کی صورت میں زبردست کامیابی عطا فرمائی۔

 

الفاتح ایک صاحبِ بصیرت انسان تھے جو چیزوں پر گہری نظر  رکھتے تھے ۔ جب کبھی بھی انہوں نے کسی مشکل کاسامنا کیا تو انہوں نے  اللہ کے حکم سے اسے صحیح طریقے سے حل کیا، جب کبھی کوئی رکاوٹ ان کے سامنے آئی تو انہوں نے اللہ کے حکم سے اسے ختم کیا۔ انہیں  تین رکاوٹوں کا سامنا تھاجسے انہوں نے اپنی تیز ذہانت اور باریک بینی سے حل کیا۔

 

پہلی رکاوٹ: ان کے فوجیوں نے ان سے سردی کی شکایت کی جب وہ قلعے کی دیواروں کے ساتھ کھلے میدان میں موجود تھے، لہٰذا انہوں نے اپنے فوجیوں کے لیے پناہ گاہ تعمیر کی تا کہ جب بھی ضرورت ہو تو وہ اسے آشیانے کے طور پر استعمال کرسکیں۔ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ محاصرہ طویل ہوجانے کی صورت میں ان کے سپاہی محاصرہ ختم کردیں اور قسطنطنیہ پر حملہ کرنے  والی پچھلی مسلم افواج کی طرح وہ بھی قسطنطنیہ کو فتح کیے بغیر واپس چلے جائیں۔ وہ اس وقت تک واپس نہیں جانا چاہتے تھے جب تک اللہ کے حکم سے قسطنطنیہ کو فتح نہ کرلیں۔

 

دوسری مشکل: قسطنطنیہ کے گرد قائم دیواریں درحقیقت تین دیواروں کا حصار تھا  ہر دو دیواروں کے درمیان چند میٹر کا فاصلہ تھا۔ یہ مسئلہ الفاتح کے لیے ایک بڑی  الجھن تھا۔ اُن کے دور میں زبردست تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں تھے۔ ان کے دور میں  سب سے طاقتور  ہتھیار پتھر پھینکنے والی منجنیقیں تھیں لیکن وہ پتھر اتنے بڑے نہیں  تھے کہ اس قدر مضبوط دیوار میں سوراخ کردیں۔  چونکہ محمد الفاتح دنیا میں ابھرنے والی  فوجی صلاحیتوں کی متعلق خبر رکھا کرتے  تھے ،تو انہیں پتہ چلا کہ ہنگری کے ایک  انجینئراُوربَن نے خصوصی صلاحیت کی حامل توپیں بنانے کا خیال پیش کیا ہے، جو دیواروں کو توڑسکتی ہیں اوراُوربَن نے اپنی خدمات قسطنطنیہ کے بادشاہ کو پیش کی تھیں کہ وہ ایسی توپیں تیار کرےلیکن بادشاہ  نے اس کی پیشکش کا کوئی جواب نہیں دیا تھا، لہٰذا الفاتح نے اسے خوش آمدید کہا ، اسے دولت سے نوازا  اور اسے وہ تمام سہولیات فراہم کیں جن کے ذریعے وہ توپ کے اپنے تصور کو حقیقت میں بدل دے۔

 

اُوربَن نے عثمانی انجینئرز کی مدد سے توپیں بنانا شروع کیں اور الفاتح نے بذاتِ خود اس عمل کی نگرانی کی۔ تین مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ اُوربَن  نے تین بڑی توپیں بنا لیں۔ اس توپ سے داغے جانے والے گولے کا وزن تقریباً 1500 کلو تھا۔ اس نے ان توپوں کا تجربہ قلعے کی دیواروں پر نہیں کیا کہ کہیں ان کا تجربہ ناکام ثابت نہ ہوجائے اور قسطنطنیہ والے تجربے کی ناکامی نہ دیکھ لیں جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی طاقت متاثر ہو جائے گی۔ لہٰذا  اس نے ان توپوں کا تجربہ عثمانی ریاست کے شہر ادرنہ(ایڈرِن) میں کیا  اور وہ کامیاب رہا۔ الفاتح نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ان تین توپوں کو ادرنہ سے لاکر قسطنطنیہ کی دیواروں کے پاس لاکر کھڑا کردیا تا کہ شہر کی دیواروں کو ڈھا دیا جائے اور بازنطینی  ہتھیار پھینک دیں۔

 

تیسری مشکل: ایک اور بھی مسئلہ تھا جس نے الفاتح کو پریشان کررکھا تھا ۔ الفاتح یہ جانتا تھا کہ سمندر کی جانب سے قسطنطنیہ کی دیواریں کمزور ہیں اور قسطنطنیہ والے بھی یہ بات جانتے تھے  لیکن انہیں اس بات کا یقین تھا کہ مسلمانوں کے بحری جہاز وہاں تک نہیں پہنچ سکتے کیونکہ اس سمندری خلیج کے دہانے پر ایک لوہے کی زنجیر ہے جس کی وجہ سے جہاز اس سمندری خلیج میں داخل نہیں ہوسکتے۔ لیکن الفاتح  اللہ کے حکم سے اس فیصلے پر پہنچے کہ وہ بحری جہازوں کوشہر کی دیوار کے مقابل  موجود سمندری خلیج یعنی ' گولڈن ہارن 'کے ساتھ  واقع  غلطہ کی پہاڑیوں کے اوپر سے خشکی پر کھینچتے ہوئے  لے جائیں گے۔ اُنہوں نے پہاڑی کی ہموار سطح پر لکڑی کے تختے لگوائے اور ان پر بڑے پیمانے پر تیل ڈالا اور پھر بحری جہازوں کو ان پر سے کھسکانا شروع کیا ۔ اور اس طریقہ سے صرف  ایک ہی رات میں انہوں نے 70 جہازسمندری خلیج میں اتار دیے۔ اس نئی صورتحال نے قسطنطنیہ والوںکوانتہائی حیرت اور خوف میں مبتلا کر دیا کہ جب وہ صبح سو کر اٹھے تو انہوں نے  مسلمانوں کے جہازوں کو اپنے سامنے سمندری خلیج میں پایا ۔ ان کے دل خوف سے لبریز ہوگئے۔ اس طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مدد سے کامیابی اور فتح حاصل ہوئی، یقیناً تمام تعریفیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام کائنات کا مالک ہے۔

 

محترم  بھائیو، میں آپ کو قسطنطنیہ کی فتح سے متعلق کچھ واقعات کی  یاددہانی تین وجوہات سے کراناچاہتا ہوں:

 

پہلی وجہ:     اس واقع کو یاد کرنے کی یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو نگاہ رکھتا ہے وہ اسلام اور مسلمانوں کی عظمت کا اندازہ کرلے کہ جب اسلام عملی طور پر نافذہو گا۔۔۔ کفر ناپید ہو جائے گا ، حق اور سچ باقی  اور غالب رہے گا اور اس کی آواز بلند ہو گی بالکل ویسے ہی جیسے اذان اللہ اکبر کی آواز کے ساتھ بلند ہوتی ہے۔ فارس اور بازنطینی ریاستیں اسلام اور مسلمانوں کے سامنے دم توڑ گئیں اور اللہ کے حکم سے بازینطینByzantine کی بہن، روم، بھی بہت جلد اپنے اسی انجام کو پہنچے گی جس کی خوشخبری رسول اللہ ﷺ نے دے رکھی ہے یعنی کہ روم فتح ہوگا۔

 

دوسری وجہ: اس واقع کو یاد کرنے کی یہ ہے کہ آپ کے دل اس یقین سے بھر جائیں کہ رسول اللہ ﷺ کی دیگر تین خوشخبریاں بھی بالکل ویسے ہی پوری ہوں گی جیسا کہ پہلی پوری ہوئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خوشخبری دی تھی کہ قسطنطنیہ فتح ہوگا، روم فتح ہوگا ، نبوت کے طریقے پر خلافت دوبارہ قائم ہوگی , یہود سے جنگ لڑی جائےگی اور انہیں بھر پور طریقے سے شکست ہو گی۔ ۔۔۔رسول ﷺ کا فرمایا ہواوحی کی بنیاد پر ہوتا ہے، رسول اللہ ﷺ کی جانب سے دی جانی والی باقی تین  خوشخبریاں  بھی اللہ کے حکم سے پوری ہوں گی؛ لیکن ان خوشخبریوں کو پورا کرنے کے لیے آسمان سے فرشتے نہیں اتریں گے بلکہ اللہ کی سنت یہ ہے کہ ہم اللہ( کے دین )کی مدد کریں اور وہ ہمیں  کامیابی سے ہمکنار کرے  اورہم اس کا قانون نافذ کریں اور اس کی ریاست  یعنی خلافت، کے ڈھانچے کو مستحکم کریں، اور اس کی راہ میں لڑنے کے لیے ہر اس چیز اور صلاحیت کو جمع کریں جو ہم کرسکتے ہیں۔  پھر زمین باقی تین خوشخبریوں کے پورا ہونے سے جگمگا اٹھے گی  اور خلافت کے قیام سے دنیا  ایک بار پھر منور ہوجائے گی۔

 

تیسری وجہ: اس واقع کو یاد کرنے کی یہ ہے کہ کافر مغرب ،عربوں اور ترکوں میں موجود غداروں کی مدد سے 1342 ہجری بمطابق 1924 عیسوی میں خلافت کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوگیا  اور اُس نے اِس تباہی کو قسطنطنیہ میں اپنی شکست کا بدلہ قرار دیا ، اوریوں  مغربی کفار نے وہ قوت حاصل کرلی جو وہ کھو چکے تھے۔  مغرب اب  خلافت کی واپسی کے لیے کی جانے والی جدوجہد سے پریشان ہے اور اس کی واپسی کو روکنے کی پوری کوشش کررہا ہے تا کہ وہ اس قوت سے محروم نہ ہوجائے  جو اس نے بڑی مشکل سے کئی صدیوں کی جدوجہد کے بعد حاصل کی ہے خصوصاً جب اس نے مسلم دنیا کو اپنی کالونی بنا یا ہواہے۔ وہ مسلم دنیا میں تحریکوں پر نظر رکھتا ہے  لہٰذا جب 1372 ہجری بمطابق 1953 عیسوی میں حزب التحریر کے قیام کا اعلان کیا گیا اور مغرب پر واضح ہوگیا کہ اس جماعت کا کام اور بنیادی ہدف خلافت کا دوباراقیام ہے  اور یہ جماعت اپنے کام میں انتہائی سنجیدہ ہے ، تو مغرب نے اپنے ایجنٹوں ، یعنی حکمرانوں کو یہ حکم دیا کہ اس جماعت کو کالعدم قرار دیں ، اس کے شباب کو گرفتار کریں،  پس کچھ علاقوں میں شباب  کو اس حد تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ شہید ہوگئے، انہیں طویل قید کی سزائیں دی گئیں اور دیگر علاقوں میں عمربھر کی  قید کی سزا ئیں سنائی گئیں۔۔۔ پھر انہوں نے بغیر کسی شرم و حیا کے حزب التحریر کے خلاف جھوٹ، بہتان  طرازی، حقائق کو تبدیل کرنے جیسے مکروہ  اعمال کا سہارا لیا۔۔۔اور ان بہتانوں کو پُراثر بنانے کے لیے یہ کام ان لوگوں کے سپرد کیا جن کے نام مسلمانوں جیسے ہیں اور جو ہمارے جیسا ہی لباس پہنتے ہیں، اور ان کے ساتھ کچھ وہ لوگ بھی شامل ہوگئے جو حزب التحریر کو چھوڑ گئے تھے ،یا جنہوں نے  اپنی قسم کو توڑا تھا (ناقصین)، یا جنہیں حزب نے سزا دی تھی یا جو ماضی میں حزب کا حصہ تھے۔۔۔

 

لہٰذا اس قسم کے لوگ بہتان تراشنے، جھوٹ بولنے اور حقائق کو اپنے مطلب کے مطابق بدل کر پیش کرنے میں  شریک ہو گئے اور ان میں سے ہر ایک کا مخصوص کردار ہے: کفار، منافقین اور وہ جو افواہیں پھیلاتے ہیں۔  پھر ان میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جو حزب چھوڑ گئے تھے، یا جنہیں سزا دی گئی تھی یا جنہوں نے اپنی قسم توڑی تھی، یا وہ کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے، انہوں نے حزب پر بہتان لگائے اور حزب کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے ہر موقع پر جھوٹ بولا۔ جب  وہ ایک  جھوٹ کو پھیلانے میں ناکام ہوگئے تو انہوں نے ایک اور جھوٹ گھڑ لیا، لیکن وہ یہ بھول گئے کہ حزب کے اراکین کےذہن واضح ہیں ، وہ فہم میں تیزہیں اور گہری ذہانت رکھتے  ہیں جس کی وجہ سے وہ اچھے لوگوں میں موجود برے لوگوں کو پہچان لیتے ہیں اور اس طرح وہ اپنی صفوں میں کسی بھی طرح سے جھوٹ کو داخل نہیں ہونے دیتے۔ ۔۔لہٰذا اپنے گھڑے ہوئے جھوٹوں    کے باوجود، کئی عظیم جھوٹ بولنے کے باوجود، کئی بار حقائق کو بدلنے کی کوشش کرنے کے باوجود  انہیں  حزب  کے اراکین میں سے  یا عقل مند مسلمانوں میں سے کوئی سننے والا نہیں ملا اور اس طرح انہوں نے خود کو تھکا لیا۔ اور ان پراللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہ قول صادق آتا ہے،

﴿كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئاً﴾

"ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے میدان میں چمکتی ریت کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آئے تو اسے کچھ بھی نہ پائے"(النور24:39) 

 

۔اوروہ  حزب التحریر اوراس کی قیادت کے خلاف ہر قسم کے مکروہ منصوبوں، سازشوں اور بہتان طرازی کو استعمال کر کے یہ سمجھتے تھے کہ حزب پر اثرانداز ہوجائیں گے، لیکن وہ اللہ کے حکم سے ناکام ہوئے اور مایوس ہوئے اور انہیں کوئی اچھے نتائج نہ مل سکے،باوجود یہ کہ  وہ طویل عرصے سے اپنی ان کوششوں میں مصروف تھے اور ان کےجھوٹ ، دھوکےاور سازشیں کس قدر گھناونی سطح پر پہنچ گئی تھیں،

﴿وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ﴾

"اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے۔"(فاطر35:43)  

۔اس بات سے قطع نظر کہ ان کے بہتان کس قدر شدید اور خطرناک ہیں وہ اپنے ان اعمال کے نتائج   اللہ کے پاس دیکھلیں گے،

﴿وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ

"اور انہوں نے (بڑی بڑی) تدبیریں کیں اور ان کی (سب) تدبیریں اللہ کے ہاں (لکھی ہوئی) ہیں گو وہ تدبیریں ایسی (غضب کی) تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی ٹل جائیں"(ابراہیم14:46)۔

 

خلاصہ یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے آنے والی جھوٹ  اور بہتان طرازی کی مہمات کے سامنے  شباب کا مضبوط موقف اور سچ پر پوری دلجمعی سے کھڑے رہنا ہمیں رسول اللہﷺ کے اصحابؓ کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے تمام مشکلات میں رسول اللہ ﷺ کی پیروی کی ، جن کی ذاتِ مبارک  عظیم و حکیم تھی ۔۔۔ فتنے کے دور میں آپ لوگ  جھوٹ اور بہتان طرازی سے متاثر نہ ہوئے   اور اپنے پیروں پر مضبوطی سے کھڑے رہے  جس کی وجہ سے آپ کا ارادہ مضبوط ہوا اور آپ کی آوازوں نے سچ کے جھنڈےکو بلند کیا۔ آپ دنیا کو ایک بار دیکھتے ہیں اور آخرت کو کئی بار دیکھتے ہیں ، تو ایسی حزب  کو مبارک باد کہ جس کے پاس آپ جیسے افراد ہیں اور آپ کو مبارک باد کہ آپ کے پاس ایسی حزب  ہے

﴿رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْماً تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ*لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ

" ایسے لوگ جنھیں اللہ کے ذکر اور نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے سے نہ سوداگری غافل کرتی ہے نہ خرید وفروخت۔ وہ اس دن سے جب دل (خوف اور گھبراہٹ کے سبب)الٹ جائیں گے اور آنکھیں (اوپر کو چڑھ جائیں گی) ڈرتے ہیں۔ تاکہ اللہ ان کو ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دے اور اپنے فضل سے زیادہ بھی عطا کرے۔ اور اللہ جس کو چاہتا ہے بےشمار رزق دیتا ہے"(النور، 38-37)۔

 

خلاصہ کلام ہے کہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی جانب سے دی جانے والی خوشخبریوں کو پورا فرمائے تا کہ اس امت کی خلافت واپس آجائے اور اس کے بعد القدس کو آزاد اور روم کو بھی ویسے فتح کیا جائے جیسا کہ اس کی بہن قسطنطنیہ کو فتح کیا گیا تھا اور اس طرح سے رسول اللہ ﷺ کی احادیث کی توثیق ہو جائے۔۔۔ہم اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہماری مدد فرمائے تا کہ ہم اپنے کام  میں بہتری لائیں اور اس کے ماہر بن جائیں تا کہ ہم اللہ ، العزیز الرحیم کی مدد کے حق دار بن جائیں۔

 

﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ

"اور اُس روز مومن خوش ہوجائیں گے۔ (یعنی) اللہ کی مدد سے۔ وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب (اور) مہربان ہے"(الروم، 5-4)

 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ

جمعرات، 7 جمادی الاول 1441 ہجری

2 جنوری 2020 ء

آپ کا بھائی

عطا ء بن خلیل ابو الرشتہ

امیر حزب التحریر

 

Last modified onپیر, 03 فروری 2020 23:16

Media

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک