الثلاثاء، 03 جمادى الأولى 1446| 2024/11/05
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

تفسیر سورۃ البقرۃ: آیت 203

 

فقیہ اور مدبر سیاست دان ،امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل ابوالرَشتہ کی کتاب  تیسیر فی اصول التفسیرسے اقتباس

 

وَاذۡكُرُوۡا اللّٰهَ فِىۡٓ اَيَّامٍ مَّعۡدُوۡدٰتٍ‌ؕ فَمَنۡ تَعَجَّلَ فِىۡ يَوۡمَيۡنِ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَيۡهِۚ وَمَنۡ تَاَخَّرَ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَيۡه‌ِۙ لِمَنِ اتَّقٰىؕ وَاتَّقُوۡا اللّٰهَ وَاعۡلَمُوۡٓا اَنَّکُمۡ اِلَيۡهِ تُحۡشَرُوۡنَ) (203(

"گنے چنے دنوں میں اللہ کا ذکرکرو جو دو دن پہل کرے  اس پر کوئی گناہ نہیں جو دو دن تاخیر کرے اس پر کوئی گناہ نہیں  یہ اس کے لیے ہے جو تقوی اختیار کرے اللہ سے ڈرو اور یہ جان لو کہ تم اس کے پاس لوٹائے جاؤ گے"

 

اللہ سبحانہ وتعالی ان آیات میں یہ بیان فرمارہے ہیں کہ

:

1)یوم نحر(قربانی کے دن)اور ایامِ تشریق میں نمازوں کے بعد، اسی طرح ذبح کے وقت اور کنکریاں مارتے وقت ،اللہ کی تکبیرکہو۔

جہاں تک ایامِ تشریق کا تعلق ہے تو "ایام معدودات"(گنے چنے دن) کے ذریعے ان کی طرف اشارا کیا گیا ہے جیسا کہ آیت کریمہ میں ہے، وہ اس لیے کہ انہی دنوں  کے ذکر کے  بعد اللہ نے فرمایا : فَمَنۡ تَعَجَّلَ فِىۡ يَوۡمَيۡنِ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَيۡهِۚ وَمَنۡ تَاَخَّرَ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَيۡہ "جو دو دن میں پہل کرے اس پر کوئی گناہ نہیں جو دو دن تاخیر کرے اس پر کوئی گناہ نہیں"۔ رسول اللہ ﷺ سے صحیح حدیث ثابت ہے کہ آپ ﷺنے ان کو "منیٰ کے تین دن" کا نام دیا جو یوم نحر(قربانی کے دن ) کے علاوہ ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا: حج عرفہ ہے جو جمع ہونے کے دن ،رات کو طلوعِ فجر سے پہلے آئے تو اس نے منیٰ کے تین دن کو پالیا، جو جلدبازی کرے اور دو دن میں ہی چلاجائے تو کوئی گناہ نہیں جو دو دن سے زیادہ تاخیر کرے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں"۔ جمع ہونے کی رات مزدلفہ کی رات ہے (جہاں حجاج وقوفِ عرفات کے بعد پہنچتے ہیں)۔ جو طلوعِ فجر یعنی عید کا دن (یوم النحر)طلوع ہونے سے قبل مزدلفہ کی رات کو پالےتو اس نے منٰی کے تین دنوں کو پالیا، اس کا یہ مطلب ہے کہ  عید کے دن کے بعد دو دن (جو منیٰ میں قیام کے دن ہیں) کیونکہ جو حج میں تاخیر سے پہنچے مگرجمع ہونے (مزدلفہ)کی رات  طلوع فجر سے پہلے وقوف عرفہ کو پالے وہ عید کے دن کو نہیں پائے گا کیونکہ دن غروب آفتاب کے بعد رات کو ہی شروع ہوتا ہے اور یہ اس سے فوت ہوگیا، وہ رات کو عرفہ میں تھا، البتہ وہ ایام تشریق کو پالے گا جو کہ منٰی کے تین دن ہیں  جس میں عید کا دن شامل نہیں، حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا اس آیت کے بارے میں یہ فرمانے کا مطلب کہ " جو دو دن میں پہل کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو دودن سے زیادہ تاخیر کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں" اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حدیث میں منیٰ کے جن تین دنوں کا ذکر ہے وہ یہی دن ہیں جن کو آیت  میں"آیام معدودات" یعنی گنے ہوئے دن کہا گیا ہے۔

 

اسی لیے وَاذۡكُرُوۡا اللّٰهَ فِىۡٓ اَيَّامٍ مَّعۡدُوۡدٰت "گنے  ہوئے دنوں میں اللہ کا ذکر کرو" کا مطلب ایامِ تشریق میں فرض نمازوں کے بعد اللہ کی تکبیر کرو ہے۔ اسی طرح آیت وَيَذۡكُرُوۡا اسۡمَ اللّٰهِ فِىۡۤ اَيَّامٍ مَّعۡلُوۡمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمۡ مِّنۡۢ بَهِيۡمَةِ الۡاَنۡعَام(الحج28) اور وہ معلوم دنوں میں اللہ کا ذکر کریں  کہ جس نے ان کو جانوروں میں سے رزق دیا ہے" قربانی کے دن اللہ کا ذکر کرنے پر دلالت کرتی ہے جو کہ عید کا دن ہے اسی طرح ایام تشریق کے پہلے اور دوسرے دن پر بھی جیسا کہ عمر اور علی رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ  اور یہی حنفی، مالکی اور حنبلی مسلک ہے ۔

 

نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ دونوں سابقہ آیتوں میں   گنے ہوئے دن اور معلوم دن سے مراد چار دن ہیں : قربانی کا دن  جو کہ معلوم ہے مگر گنا ہوا نہیں جبکہ اس کے بعد کے دو دن معلوم اور  گنے ہوئے ہیں  اسی طرح چوتھا دن  گنا ہوا ہے مگر معلوم نہیں کیونکہ اس دن قربانی درست نہیں۔

 

جہاں تک کنکریاں مارتے وقت تکبیروں کا تعلق ہے  تو وہ رسول اللہ ﷺ کے حجۃ الوداع وارد ہے کہ " آپ ﷺ کنکری پھینکتے اور فرماتے:بسم اللہ اللہ اکبر"۔

اسی طرح قربانی کے وقت اللہ کا نام لیتے اور تکبیر کہتے جیسا کہ اس آیت میں ہے

لَنۡ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُـوۡمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـكِنۡ يَّنَالُهُ التَّقۡوٰى مِنۡكُمۡ‌ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَـكُمۡ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰٮكُمۡ‌ؕ وَبَشِّرِ الۡمُحۡسِنِيۡنَ)‏ الحج/آية 37 .

"اس قربانی کا گوشت اور خون اللہ کو نہیں ملتا بلکہ اللہ کو تقویٰ پہنچتاہے، اسی طرح اس کو تمہارے لیے مسخر کیا تاکہ تم اس بات پر اللہ کی تکبیر کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی  اور احسان کرنے والوں کو خوشخبری سناو"

یہی قربانی کی حدیث میں ہے۔

 

2)فَمَنۡ تَعَجَّلَ فِىۡ يَوۡمَيۡنِ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَيۡهِۚ وَمَنۡ تَاَخَّرَ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَيۡه‌ِۙ لِمَنِ اتَّقٰىؕ

یہ آیت دو امور کو نافذ کرتی ہے:

ا- اللہ تعالی نے اس بات کو مباح قراردیا کہ انسان ایامِ تشریق کے دوسرے دن کنکریاں مارنے کے بعد اپنے حج کو مکمل کرکے اپنے گھر لوٹے،وہ قربانی کے دن طلوع آفتاب کے بعد جمرہ عقبۃ اولیٰ کو کنکریاں مارتاہے پھر ایامِ تشریق کے پہلے دن زوال کے بعد تینوں جمرات کو کنکریاں مارتا ہے پھر ایامِ تشریق کے دوسرے دن زوال کے بعد تینوں جمرات کو کنکریاں مارتا ہے جس کے بعداپنا حج مکمل کرکے جلدی کرتے ہوئے اپنے گھر لوٹنا اس کے لیے مباح ہے اسی طرح رک کر ایام تشریق کے تیسرے دن  بھی کنکریاں مارکر طواف وداع سے اپنا حج مکمل کرکے پھر گھر روانہ ہونا بھی مباح ہے۔

 

آیت میں جو کچھ ہے وہ جلدی حاجی کو جلدی یا تاخیر کا اختیار دینے پر دلالت کرتاہے، یہ نہیں کہا جاسکتا ہے دونوں میں سے ایک کا اختیار کیسے یہ دونوں مساوی نہیں بلکہ تاخیر تو افضل ہے؟ جی ہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اختیار جس طرح مساوی چیزوں کے درمیان ہوتا ہے اسی طرح متفاضل  چیزوں میں بھی ہوتا ہے بلکہ زیادہ بہترمیں بھی جیسا کہ مسافر کو روزہ رکھنے یا نہ رکھنے دونوں باتوں کا اختیار ہے حالانکہ قادر کے لیے روزہ رکھنا افضل ہے"اور تم روزہ رکھو تو تمہارے لیے بہتر ہے"(البقرہ 184)

 

ب-یہ آیت حج کے اختتام کے حوالے سے ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ  جو ایام تشریق کے دوسرے دن کنکریاں مارنے کے بعد اپنا حج مکمل کرکے گھر روانہ ہوجائے یا پھر ایام تشریق کے تیسرے دن کنکریاں مارنے کے بعد گھر روانہ ہوجائے  دونوں درست ہیں اس پر کوئی گناہ نہیں اگر وہ متقی ہے یعنی اس کے گناہ معاف ہیں اس پر کوئی گناہ نہیں عمومی گناہ کی ہی نفی کی گئی ہے، مگر اللہ کا یہ وعدہ"متقیوں" کے لیے ہے یعنی ان کے ساتھ مخصوص ہے، یعنی حاجیوں میں سے جو بھی متقی شخص ہو اس طرح اپنا حج مکمل کرکے گناہوں سے پاک ہوکر اپنے گھر لوٹے گا جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "جس نے اس گھر کا حج کیا، اس دوران اپنی عورت کے قریب نہیں گیا ،کوئی گناہ کا کام نہیں کیا تواپنے گناہوں سے ایسا پاک ہوا جیسا کہ اپنی ماں سے پیدا ہونے کے دن تھا" اللہ کا یہ فرمانا کہ "اس پر کوئی گناہ نہیں" عام نفی اور مطلق براءت ہے چاہے جو جلدی جائے یا تاخیر کرے مگر متقین میں سے ہو یعنی اپنے حج کو اللہ سے ڈرتے ہوئے اللہ کے احکام کے مطابق ادا کیا ہو تو اس کے سارے گناہ معاف ہیں علی بن ابی طالب، ابن مسعود اور ابنِ عباس رضی اللہ عنھم کا یہی موقف ہے۔

 

یہی وجہ ہے کہ تقویٰ  پہل اور تاخیر کی شرط نہیں بلکہ یہ حاجی کے گناہوں کو بخش کر واپس لوٹنے کی شرط ہے جس پر کوئی گناہ باقی نہیں رہے گا چاہے وہ جلدی جائے یا تاخیر سے۔

 

3)وَاتَّقُوۡا اللّٰهَ وَاعۡلَمُوۡٓا اَنَّکُمۡ اِلَيۡهِ تُحۡشَرُوۡنَ "اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ تم اسی کے پاس جمع کیے جاؤ گے"

 

یعنی حاجیوں کو چاہیے کہ اپنے گھر لوٹنے کے بعد بھی تقوٰی کا دامن نہ چھوڑیں اللہ سے ڈرتے رہیں اور ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ انہوں نے مرنا ہے اور پھر اٹھائے جائیں گے اور ان سے حساب لیا جائے گا یہی چیز یعنی اللہ کے غضب اور سزا سے ڈرنا ان کو گناہوں سے روکے گی اور جنت کے حصول کی کوشش پر ابھارے گی اور ان کو حج میں ملنے والی مغفرت اور معافی  کی حفاظت کرنے پر ابھارے گی۔

 

Last modified onجمعہ, 05 جون 2020 20:14

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک