بسم الله الرحمن الرحيم
بین الاقوامی معاشیات کانفرنس - کلمات افتتاحیہ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرّحیم
الحمد للّٰہ والصلاة السّلام علی رسول اللّٰہ، وعلی آلہ و صحبہ ومَن والاہ، و بعد
معزز حاضرین!
السّلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ
اس وقت آپ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ پوری دنیا ایک مالیاتی بحران کی لپیٹ میں ہے جس کی چنگاری امریکہ سے بھڑکی لیکن اس کے شعلے سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعہ ساری دنیا کو جھلسا رہے ہیں۔ اِن شعلوں کو گلوبلائزیشن سے خوب مدد مل رہی ہے اور دنیا کا کوئی بھی ملک اس کی شد ّت ِ تپش سے محفوظ نہیں ،خواہ وہ چھوٹا ملک ہو یا بڑا، خواہ وہ نزدیک کا ہو یا دور دراز خطہ میں واقع ہو۔
اسی طرح آپ حضرات کے سامنے ہے کہ اس بحران سے نمٹنے کیلئے ساری دنیا میں مختلف حل تجویز کئے جا رہے ہیں۔ کئی ملک اپنے طور پریہ حل تیار کر رہے ہیں اور بعض جگہ کئی ممالک کے اتحاد اس کام میں مشغول ہیں اور اس کیلئے اُنھوںنے سربراہی اور وزراء کانفرنسوں کا انعقاد کیا ہے جیسے یورپی اتحاد،گروپ آف 20 کی واشنگٹن میں کانفرنس،پیرو کے شہر لیما میں منعقد کردہ کانفرنس یا قطر کانفرنس۔ لیکن یہ تمام تر حل اُنھیں اس بحران سے نجات دلونے سے قاصر ہیں، زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ ایک وقتی اطمینان حاصل ہوتا ہے جو کچھ گھنٹوں یا دنوں سے زیادہ دیر باقی نہیں رہتا اور پھر اس کے بعد وہی بحران ان کے اعصاب پر پھرسوار ہوجاتاہے!
معزز حاضرین!
کوئی بھی باریک بین مبصر جو اِن ممالک کے حکمرانوں اور اِن کے اقتصادی ماہرین کا جائزہ لیتا ہے تووہ دیکھ سکتا ہے کہ یہ لوگ اپنے حل اوربحران کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے اعتبار سے دواقسام پر مشتمل ہیں:
پہلی قسم اُن لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنے سرمایہ داری نظام کے فاسد اصولوں سے ہی آنکھیں بند کرکھی ہیں جو فی الحقیقت اس بحران کا سبب ہیں۔ ان لوگوں نے کچھ حل وضع توکئے ہیں لیکن یہ حل اس بحران کی محض ظاہری علامتوں کی بنیاد پر ہیں اور انہوں نے اس بحران کی تہہ میں موجود اصل سبب کا جائزہ نہیں لیا۔ اُن کے نزدیک مرض کی تشخیص یہ ہے کہ مالیاتی اداروں(Financial Institutions) کے پاس تیار نقد(Liquidity)کی شدید کمی ہے، لہٰذا اربوں ڈالر اس میں جھونک دئے جائیں تاکہ ان اداروں کے پاس liquidity کا مسئلہ نہ رہے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ سرمایہ کاری اور مالیاتی بازار منجمد ہو گئے ہیں لہٰذا انہوں نے تجویز پیش کی کہ سود کی شرح کو کم سے کم کیا جائے تاکہ قرضوں کی حوصلہ افزائی ہو اور یوں کاروبای مارکیٹ کو stimulusملے۔ اسی طرح اُنہوں نے جب دیکھا کہ شیئرز، بانڈز اور دیگر financial instruments کی قیمت بے پناہ گرچکی ہے اور خطرے کا نشان عبور کر چکی ہے تو انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ حکومت کاروباری مارکیٹ میں مداخلت کرے اور اِن گرتے ہوئے شیئرز اور مالیاتی بانڈز کو خریدلے۔
اس طرح مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش میں اُن کی نظر ظاہری علامتوں تک محدود رہی اور وہ اس ناکام اور فاسد سرمایہ دارنہ نظام کے اصل مرض سے غافل بیٹھے رہے اور مسئلے کو جوں کا توں چھوڑ دیا۔ یا تو وہ یہ بھول گئے یاانہوں نے اس امر کو نظر انداز کر دیاکہ در حقیقت یہ نظام خود ہی اس بحران کا اصل سبب ہے،نتیجتاً اُن کے یہ تمام حل دل کو بہلاوا دینے کی حد تک تو کارگر رہے اور مرض میں ایک وقتی افاقہ تو ہو جاتا ، لیکن یہ مرض پھر لوٹ آیا اور اس نے پہلے سے زیادہ خطرناک اور مہلک شکل اختیار کر لی ۔
اِن کی مثال اُس شخص کے مانند ہے جو اپنے گھر کی دیوار میں ایک دڑار دیکھتا ہے اور فوراً اس کی مرمت کرنے کیلئے کچھ سیمنٹ اور رنگ لے آتا ہے تا کہ دڑار کو بھرکر اُس پر رنگ کردیا جائے تو وہ بدنما دڑار چھپ جائے گی۔ پھر وہ آرام سے لیٹ جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کام پورا ہو گیا! ظاہر بات ہے کچھ عرصہ بعد وہی دڑار پھر اُبھر آتی ہے ، اس میں کوئی تعجب نہیں، کیونکہ اُس شخص نے صرف دڑار کا علاج کیا تھا ، نہ کہ دیوار کی کمزوری کا جو کہ جو دڑار کا اصل سبب تھی۔
پس یہ پہلا گروہ اُن لوگوں کا ہے جو محض ظاہری علامتوں کا تدارک کر رہے ہیں۔
جہاں تک دوسرے گروہ کا تعلق ہے ،توحل کی تلاش میں ان کی نظریں سرمایہ داری کے فاسد نظام کی ناکامی سے اوجھل نہیں تھیں، لیکن اُ ن کی تلاش کا دائرہ دو ہی نظاموں کے اندر قیدتھا۔ ایک تو کمیونسٹ نظام جو ناکام ہو کر بکھر چکا ہے اور دوسرے سرمایہ داری کا نظام میں جو ناکام تو ہو گیا ہے تاہم ابھی فوت نہیں ہوا ہے۔ اِن لوگوں کے نقطۂ نظر سے سرمایہ داری کا نظام باوجود اپنی جملہ خامیوں کے، بہرحال کمیونسٹ نظام سے بہتر ہے۔ لہٰذا حل کی تلاش میں اِن لوگوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے ناقدین کی طرف رجوع کیا اور دریافت کیا کہ پھر اس کا متبادل کیا ہے؟ جبکہ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اب کوئی راہ بچی نہیں ہے اور ماہرین کسی صورت کمیونسٹ نظام کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ نہیں دیں گے جو ناکام ہوچکا ہے۔
عجیب بات ہے کہ یہ گروہ یا تو اسلام کے معاشی نظام سے ناواقف ہے یا اسے جانتے بوجھتے نظرانداز کرنا چاہتا ہے جبکہ اسلام کا معاشی نظام وہ منفرد نظام ہے جو دنیا میں ہر کسی نظام سے کہیں زیادہ طویل عرصہ رائج رہا ہے اور نہ صرف رائج ہی رہا بلکہ اس پورے عرصہ اس نے اپنے تمام شہریوں کو ایک خوشحال معاشی زندگی، پر امن حالات میں مہیا کی جو موجودہ دور کے بحرانوں اور ان کی غیر یقینی صورت ِ حال سے پاک تھی۔ اس نظام کے تحت صورتِ حال یہ تھی کہ کسی فقیر و مسکین کوبیت المال سے مدد دینے کیلئے تلاش کرنا پڑتا تھا۔ اس کے برخلاف آج دولت کی فراوانی کے دعوؤں کے درمیان بھی دنیا کے دولت مند ترین ممالک میں کروڑوں کی تعداد میں فقر زدہ لوگ موجود ہیں! یہ خباثت سے پُر کمیونسٹ یا سرمایہ دارانہ نظاموں کا براہِ راست نتیجہ ہے۔
واقعی یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ اِس گروہ نے اسلام کے عادل معاشی نظام کو نظر انداز کیا ہے جو صدیوں تک لوگوں کی خوشحال زندگی کا ضامن رہا ہے۔
یہ گروہ اس مفروضہ پر کارفرما ہے کہ دنیا میں دو ہی نظام ہیں، کمیونسٹ یا سرمایہ دارانہ نظام اور بس! اُن کی ساری کوشش و کاوش، ساری تلاش بس اسی کے گرد چکر لگا تی رہتی ہے اور اُن کے نزدیک کوئی تیسرا حل ہے ہی نہیں! وہ سمجھتے ہیں کہ یا تو ریاست ہی تمام املاک جیسے زراعت، صنعت اور تجارت پر قابض و متصرف ہو جو کہ کمیونسٹ نظام ہوا ؛ یا پھر یہ تمام املاک انفرادی ملکیت اور کمپنیوں کی تحویل میں رہیں اور مارکیٹ آزاد ہو، جہاں ریاست مالیاتی مارکیٹوں میں دخل درازی نہ کرے!
کاش کہ یہ گروہ اپنی کوتاہ نظری سے اوپر اُٹھ کر کھلے ذہن سے معاملات کو سمجھے تو معلوم ہوگا اسلام کا نظام ان سے کس قدر مختلف ہے اور اِن کے درمیان کتنا فرق ہے۔ پٹرول کے ایک کنوائیں(Oilfield) کی ملکیت یا کسی معدنیات کی کان کا مالک ہونا ایک بات ہے اور ایک گھر یا زمین کے ایک ٹکڑے کا مالک ہونا بالکل مختلف بات ہے۔ پٹرول کی Refinery کا مالک ہونا الگ چیز ہے اورمٹھائی کی دوکان یا کپڑے کے ایک کارخانے کا مالک ہونا بالکل علیحدہ بات ہے؛ایک موٹر کار کا مالک بننا ایک بات ہے اور پوری ریلوے لائن کا مالک ہونا اور ہی چیز ہے۔
اگر یہ گروہ اسلام کے معاشی نظام کا صحیح جائز ہ لے تو معلوم ہوگا کہ دولت اوراملاک کو اسلام نے اِن نظاموں کی طرح دو درجوں میں نہیں بلکہ تین جدا جدا خانوں میں تقسیم کیا ہے:
پہلی قسم: اس میں املاک ِ عامہ(Public Properties) آتی ہیں جن کی آمدن کو ، اس پر ہونے والاخرچ نکالنے کے بعد امت کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس قسم میں ہر قسم کی کانیں، خواہ وہ سونے، لوہے اور چاندی کی طرح ٹھوس معدنیا ت کی ہوں،پٹرول کی طرح سیال ہوں یا گیس ہو، شامل ہیں۔ یہ تمام ملکیت ِ عامہ کا حصہ ہیں جنہیں انفرادی ملکیت میں نہیں دیا جاسکتا، نہ کمپنیوں کی تحویل میں یہ املاک جا سکتی ہیں اور نہ ہی ریاست ان کی مالک ہوتی ہے۔ یہ تمام تو امت کی املاک ہیں جو اس ریاست ِ خلافت کے شہری ہوں اور ان املاک سے ہونے والے منافع میں تمام امت کا حصہ ہوتا ہے۔
دوسری قسم: اِس قسم میں ریاستی املاک آتی ہیں جو ملکیت ِ عامہ میں نہیں اورجنہیں ریاست اپنی صوابدید سے صَرف کرتی ہے اور اس سے ہونے والے نفع کو ریاستی اخراجات کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور زراعت، صنعت یا تجارت وغیرہ میں بھی صرف کیا جا تا ہے ۔ اسی مال کو ریاست اس مقصد کیلئے بھی خرچ کرسکتی ہے کہ معاشرے کے افراد کے درمیان توازن قائم کیا جائے جیسا کہ اسلام کے اقتصادی نظام میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔
تیسری قسم:اس قسم میں افراد کی ذاتی اور انفرادی املاک آتی ہیں جو زراعت، تجارت اور صنعت میں ہوں۔ اس میں ریاستی اور ملکیت ِ عامہ کی املاک شامل نہیں ہو سکتیں جیسا کہ نظام ِ معاشیات میں تفصیل وارد ہوئی ہے۔
اسلام نے تمام املاک کو اِن تین خانوں میں نہایت حیرت انگیز باریک بینی سے تقسیم کیا ہے۔
پہلی مثال: اسلام نے مواصلات کے مختلف وسائل کو ایک مخصوص پہلو سے تقسیم کیا ہے جیسے وہ ذرائع وسائل جو پٹریوں پر چلتے ہیں،مثلاً ریل؛ بجلی سے چلنے والے ٹرام ویز اور ٹرالی بس؛ یا عام سڑکوں پر چلنے والی موٹر گاڑیاں اور بسیں۔
اِن میں ایک قسم وہ ہوئی جن کیلئے ریل وے لائن، یا بجلی کے تاروغیرہ مخصوص (Dedicated) ہوتے ہیں جو کہ فی الحقیقت ملکیت ِ عامہ کے وسائل ہیں، ایسے تمام ذرائع ِ مواصلات دائمی طور پر صرف ملکیت ِ عامہ ہی میں رہ سکتے ہیں۔ اِن املاک کیلئے اجازت نہیں کہ اِنھیں انفرادی ملکیت میں یا کمپنیوں کی تحویل میں دے دیا جائے یا ریاست ان کی مالک بن بیٹھے۔ اس طرح ریلویز، ٹرام، بس وغیرہ ملکیت ِ عامہ کے ضمن میں ہی رہیں گی۔ اِن املاک کی نگرانی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے جو اس مدّ سے ہونی والی آمدنی کو اس پر ہونے والے اخراجات تفریق کرنے کے بعد امت پر تقسیم کر دیتی ہے۔
دوسرے وہ ذرائع وسائل ہوئے جو چلتے تو سڑکوں پرہیں جو ملکیت ِ عامہ کا حصہ ہیں،تاہم یہی سڑکیں دوسرے کام بھی آتی ہیں ، بالفاظ ِ دیگر یہ سڑکیں اِن موٹر کاروں اور بسوں کیلئے مخصوص (Dedicated) نہیں ہوتیں۔ لہٰذا ایسے مواصلاتی وسائل ہر قسم کی ملکیت میں ہو سکتے ہیں، ریاستی، ملکیت ِ عامہ اور انفرادی ملکیت۔
دوسری مثال:بجلی کا استعما ل مشینیں چلانے،انجنوں میں ایندھن کے طور پر اور روشنی کیلئے ہوتا ہے وغیرہ۔۔۔
جہاں تک بجلی کا ایندھن کے طور پر استعمال کی بات کی ہے، تو اسے حدیث میں لفظ 'نار' کہا گیا ہے، جس کے معنی آتش ہیں۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((الناس شركاء في ثلاث الماء والكلأ والنار))یعنی لوگ تین اشیاء میں حصہ دار ہیں: پانی، چراگاہیں اور آتش۔
لہٰذا آتش یا آگ میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو اس سے بمعنی ایندھن مقصود ہیں،خواہ وہ درخت اور کوئلہ سے حاصل ہوں یا وہ بجلی ہو۔۔۔یہ تمام اشیاء لفظ 'نار' کے مقصود میں شامل ہیں اور انھیں ا ملاکِ عامہ میں رکھا جائے گا جس کا کسی فرد یا کمپنیوں کومالکانہ حق نہیں ہو سکتا جو مشینوں اور صنعت میں بطور ایندھن استعمال ہوتی ہوں۔ یہ وسائل وہ ہوں گے جن پر ریاست نگراں کی حیثیت رکھے گی اور اِن سے ہونے والی آمدنی کو اُس پر ہونے والے اخراجات نکالنے کے بعد ریاست کے شہریوں پر تقسیم کرے گی۔
جہاں تک بجلی کاروشنی کیلئے استعمال کی بات ہے، تو یہ وہ زمرہ ہے جو املاک ِ عامہ میں شامل نہیں اور نہ لفظ' نار' کے مقصود میں شامل ہے۔اس حد تک اس دائرے میں ریاستی ملکیت اور انفرادی یا کمپنیوں کی ملکیت میں کوئی قباحت نہیں کہ وہ ایسے بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کے مالک بنیں، بشرطیکہ اس بجلی کا استعمال روشنی کیلئے ہی ہو اور اس کا استعمال املاک ِ عامہ کے لیے نہ ہو،ورنہ اس حالت میں یہ کارخانے ملکیت ِ عامہ میں تصو ّر کئے جائیں گے۔
اسلام نے جس باریک بینی سے اِن املاک کی تین اقسام میں تقسیم جاری کی ہے، اس کو بیان کرنے کیلئے میں صرف مندرجہ بالا مثالوں پر ہی اکتفاء کرتا ہوں۔
باوجود اس حقیقت کے کہ یہ جامع اور ہمہ گیر نظام کوئی محض فلسفیانہ مبداء نہیں ہے جو پرانی کتب کے صفحات کی غبارمیں کھو چکا ہو، بلکہ یہ ایک ایسا اقتصادی نظام ہے جوتاریخ کے متواتر اورطویل ترین عرصے تک جاری و نافذ رہا؛لیکن اس حقیقت کے باوجود سرمایہ داروں کا یہ دوسرا گروہ اس کو نظر انداز کردینا چاہتا ہے۔ اِن کی مثال اُس شخص جیسی ہے جو آنکھیں ہونے کے باوجودنظر نہیں رکھتا، اُس کی آنکھیں کھلتی ہیں ، تو بس وہ دیکھنے کیلئے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر وہ دیکھانا چاہے تو سب کچھ نہایت واضح اور مبین ہے۔
معزز حاضرین!
بے شک ریاست ِ خلافت کے تحت اسلام کا معاشی نظام ہی وہ واحد و منفرد نظام ہے جو ایک خوشحال اور شادمانی کی زندگی فراہم کرسکتا ہے جو ہر قسم کی آفات وبحرانوں سے پاک ہو، کیونکہ یہی نظام تمام مخلوقات کے خالق کا وضع کردہ اورنازل کردہ ہے جو ہر بات کا علم رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ اُس کی مخلوق کیلئے کیا صحیح ہے، ارشادِ ربانی ہے:
(اَلَا يَعۡلَمُ مَنۡ خَلَقَؕ وَهُوَ اللَّطِيۡفُ الۡخَبِيۡرُ)
"کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا،اور وہ باریک بین اور باخبر بھی ہو۔"(سورۂ ملک: 14)
والسَّلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
7 محرم،1430 ہجری
3 جنوری،2009 میلادی