عالمِ جلیل ،امیر حزب التحریر،عطا بن خلیل کا رمضان کے موقع پر پیغام
بسم الله الرحمن الرحيم
ان مخلص بھائیوں کی طرف جو اسلام کی دعوت کے علمبردار ہیں ...
اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف...
السلام علیکم
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ)''اے ایمان والو!تم پر روزے رکھنا لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھا گیا تھا، تا کہ تم تقوی اختیار کرو‘‘(البقرة:183)۔ اور اللہ بزرگ و برتر نے فرمایا کہ ( فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہ)''تم میں سے جو شخص ا س (رمضان کے)مہینے کو پائے اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے‘‘(البقرة:185)۔ اوربخاری نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :((صومو ا لرؤیتہ و افطروا لرؤیتہ فان غبی علیکم فاکملوا عدة شعبان ثلا ثین یوماً )) ''اس ( چاند ) کے دیکھے جانے پر روزہ رکھو اور اس ( چاند ) کے دیکھے جانے پر روزے رکھناختم کرو۔ اوراگرآسمان ابر آلود ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کر لو‘‘ (بخاری)۔ اور مسلم نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ((صوموا لرؤیتہ و افطروا لرؤیتہ فان غبی علیکم فاکملوا العدد)) '' اس ( چاند ) کے دیکھے جانے پر روزہ رکھو اور اس ( چاند ) کے دیکھے جانے پر روزے ختم کرواور اگر آسمان پر بادل ہوں تو تیس دن پورے کر لو‘‘۔''
اس سال منگل کی رات کو ماہِ رمضان المبارک کے چاند کو دیکھنے اور تلاش کرنے کی کوشش کی گئی اور شریعت کے بتائے ہوئے طریقہ کار کے مطابق کوئی شہادت موصول نہیں ہوئی لہٰذا منگل کا دن انشأ اللہ شعبان کے مہینے کا ہی تسلسل ہے اور بدھ رمضان المبارک کا پہلا دن ہے۔ ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ مسلمانوں کے روزے اور راتوں کا قیام قبول فرمائے اور اللہ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے ۔ بخاری و مسلم نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ((من صام رمضان ایمانا واحتسباً، غفر لہ ما تقدم من ذنبہً))''جس کسی نے ماہِ رمضان میں ایمان کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے روزے رکھے تو اللہ اس کے پچھلے گناہ معاف فرمادیں گے‘‘۔ اور ابو ہریرہ ایک اور روایت میں رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ((من قام رمضان ایماناً واحتسباً، غفر لہ ما تقدم من ذنبہ))''جس کسی نے ماہِ رمضان میں ایمان کے ساتھ اللہ کی رضا کے لیے راتوں کو قیام کیا تو اللہ اس کے پچھلے گناہ معاف فرمادیں گے‘‘۔
محترم بھائیو ،سن دو ہجری سے اللہ سبحانہ و تعالی نے رمضان کے مہینے میں روزے رکھنافرض کیا۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا (شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ)''رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ، جو لوگو ں کے لیے ہدایت ہے اوراس میں حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں۔‘‘(البقرة:185)
یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس امت کو زبردست فتوحات اور کامیابیوں کے ذریعے عزت بخشی۔ 17رمضان المبارک کو بدر کے میدان میںمشرکین مکہ کو شکستِ فاش ہوئی ۔ دیگرکئی اہم جنگیں بھی اسی مہینے میں لڑیں گئیں ۔ مکہ سن 8ہجری میں رمضان کی 20تاریخ کوفتح ہوا۔ بویب کی جنگ میں اللہ نے مسلمانوں کو مثنہ کی قیادت میں 31ہجری میںفتح یاب کیا اور یہ رمضان کی 14تاریخ تھی۔ یہ جنگ موجودہ کوفہ کے قریب لڑی گئی جو کہ ُاس وقت سلطنتِ فارس کا حصہ تھا۔ عموریا کی جنگ معتصم کی قیادت میں 17رمضان213ہجری میں لڑی گئی۔ اور مسلمانوں نے تاتاریوں کوعین جالوت کی جنگ میں 25رمضان658ہجری میں شکست دی ۔ اس طرح اللہ نے رمضان کے مہینے میں مسلمانوں کوکئی کامیابیاں عطا فرمائیں۔
روزوں کا ذکر قرآن کے ساتھ کیا گیا کہ جس میں باطل کبھی بھی داخل نہیں ہو سکتا.....اور روزوں کا تعلق زبردست فتوحات اور کامیابیوںکے ساتھ بھی ہے......اور روزوں کاذکر جہاد کے ساتھ کیا گیا ہے......اور روزوں کا ذکر اللہ کے قوانین کے نفاذ کے ساتھ کیا گیاہے.......اور جو شخص بھی غور کرتاہے وہ یہ جان جاتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کے قوانین کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا ،چاہے ان کا تعلق عبادات سے ہو یا جہاد سے ، معاملات سے ہو یا اخلاقیات سے، جرائم سے ہو یا سزاؤں سے۔ یہ تمام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے مسائل ہیں اور جو کوئی قرآن کی آیات پر غور و فکر کرتا ہے وہ یہ جان لیتا ہے کہ یہ بات قرآن کی آیات سے واضح ہے۔ اسی طرح روزوں سے متعلق آیات اور جو کچھ ان سے پہلے اور بعد میں بیان کیا گیا ہے ، اس سے یہ واضح ہے کہ:
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے روزے کے متعلق آیات سورة بقرة میںنازل کیں جن کی ابتدأ اللہ سبحانہ و تعالی کے اس فرمان سے ہوتی ہے کہ:( لَّیْْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاَخِرِ وَالْمَلآئِکَةِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ)''ساری اچھائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں، بلکہ حقیقتاً اچھا شخص وہ ہے جو اللہ تعالی پر ،قیامت کے دن پر ،فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو...‘‘۔(البقرة:177) یہاں تک کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا کہ (اُولَئِکَ لَہُمْ نَصِیْب مِّمَّا کَسَبُوْا وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ)''یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے ان کے اعمال کا حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔‘‘(البقرة:202)
ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان آیات(یعنی البقرة:177-202) میں تقوی ، ایمانیات، روزوں، دعاؤں کے متعلق احکامات بیان کیے گئے ہیں، اوران آیات میں حکمرانوں اور حرام مال کے متعلق احکامات بھی ہیں اور اللہ کی راہ میں لڑائی یعنی جہاد اور حج کے متعلق احکامات بھی۔ اللہ کے تمام قوانین کو ایک ساتھ ہی قبول کیا جاتا ہے اور کوئی ایک قانون کسی دوسرے قانون سے یا کوئی ایک فرض کسی دوسرے فرض سے مختلف نہیں ، کیونکہ ان تمام احکامات کو نازل کرنے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی ہے ۔ وہی ذات ہے کہ جس نے معاملات، سزاؤں،سیاست،جہاد ، اخلاقیات ،کھانے پینے اور لباس غرض یہ کہ ہر چیز کے متعلق قوانین نازل کیے ہیں۔ اور ان تمام قوانین کا نفاذ اور ان پر عمل لازم ہے۔ عبادت کرنے کی فرضیت با لکل ویسے ہی ہے جیسا کہ معاملات کی، سزاوں پر عمل درآمد کی فرضیت بھی ویسے ہی ہے جیسا کہ خلیفہ کو بیعت دینے کی اور جہاد اور دیگر احکام کی ۔ اس بات کی بالکل اجازت نہیں کہ ہم ان احکامات میں تفریق کریں کیونکہ اسلام ایک کُل ہے جس کو الگ الگ نہیں کیا جاسکتااور اسلام کی دعوت بھی ایک ہی ہے کہ اسلام کو ریاست، انسانی زندگی اور معاشرے میں ایک کُل کے طور پر نافذ کیا جائے۔ لہٰذا جو کوئی بھی اللہ کی آیات میں فرق کرتا ہے اور دین و دنیا کی جدائی کی دعوت دیتا ہے یا دین اور سیاست کی جدائی کی بات کرتا ہے ،وہ ایک بڑا گناہ اور جرم کرتا ہے ،جو اُس کے لیے اس دنیا میں رسوائی اور آخرت میں سخت عذاب کا باعث بنے گا۔
اور پھر اللہ نے سورة بقرہ کی روزوں سے متعلق آیات کے درمیان دعا کا ذکر کیا اور فرمایا (وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْب اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ)''جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ،میں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے،قبول کرتا ہوں، تو لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں ،یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔‘‘(البقرة:186)
یہاں اللہ سبحانہ و تعالی نے پہلے روزے رکھنے کا حکم دیا ،پھر دعا کا حکم دیا اور اس کے بعد پھر روزوں کا تذکرہ کیا، تا کہ دعا کی اہمیت کو واضح کر دیاجائے۔ لہٰذ ا ہمیں چاہئے کہ ہم رمضان میں اپنی دعاؤں میں اضافہ کریں کہ رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((ثلاثة لا ترد دعوتھم الامام العادل و الصائم حتی یفطر و دعوة المظلوم تحمل علی الغمام، و تفتح لھا ابواب السماوات، ویقول الرب عز و جل : و عزتی لانصرنک و لو بعد حین)) '' تین لوگوں کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں: افطار کے وقت روزہ دار کی دعا، عادل حکمران اور مظلوم کی دعا۔ اللہ ان کی دعاؤں کو بادلوں سے اوپر اٹھا تا ہے اور ان دعائوں کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اللہ فرماتاہے ،مجھے میری شان کی قسم!میںضرورتمھاری مدد کروں گا اگرچہ اس میں کچھ تاخیر ہی ہو‘‘۔ (امام احمد بن حنبل نے ابوہریرہ سے روایت کیا)۔ روزے سے متعلق آیات کے درمیان دعا کو ذکر کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی اس ماہ میں دعاؤں کو بڑھانے کی تاکید فرمارہے ہیں اور ان آیات میں یہ بیان کیا گیا کہ اللہ سنتا ہے کیونکہ وہ قریب ہے اور اپنے بندوں کے سوال کا جواب دیتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے روزوں کی حفاظت کرنی ہے تا کہ اللہ سبحانہ و تعالی ہم سے راضی ہوجائیں اور ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے ۔ ہمیں خلافتِ راشدہ کے قیام کے لیے سنجیدہ اور شدید جدوجہد کرنی ہے،کہ جس کے قیام کے بغیر اسلامی طرزِ زندگی کا دوبارا آغاز نہیں ہو سکتا، تا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے 'العقاب' یعنی کلمہ طیبہ والے جھنڈے کے سائے تلے اللہ کے قوانین کو نفاذکیا جائے اور ہمیں نہ صرف دنیا میں کامیابی حاصل ہو بلکہ ہم اس دن بھی سرخروہو سکیں کہ جس دن اللہ کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا ۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اس بابرکت مہینے میں ہمارے روزوں کو قبول فرمائے جس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے۔ اور جب اگلا رمضان آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلنے والی خلافتِ راشدہ موجود ہو ،جو ہمیں عزت بخشے گی اور اس امت کو باقی تما م امتوں سے ممتاز اور برتر بنا دے گی، جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس امت کے متعلق بیان کیا ہے:(کُنْتُمْ خَیْْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ) ''تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے واسطے پیدا کیے گئے ہو، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘(آل عمران:110)۔
اور اس خلافت کا حکمران خلیفہ ایسا ہو گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((انَّمَاالاِمَامُ جُنَّة یُقَاتَلُ مِن وَّرَائہِ وَیُتَّقٰی بِہ)) ''بے شک خلیفہ ایک ڈھال کی مانند ہے، جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتاہے اور اسی کے ذریعے تحفظ حاصل ہو تاہے ‘‘(مسلم نے ابو ہریرہ سے روایت کیا)۔ وہ خلیفہ شام کی سرزمین سے جابروں کو اکھاڑ پھینکے گا اوراس کے مسلمانوں ، بچوں ،بوڑھوں اور عورتوں کو ظالموں سے نجات دلائے گا.......اور ہم اس خلیفہ کی حفاظت میں اسلام کی سرزمین سے جابروں کا خاتمہ کریں گے اور اسلام کے قوانین کو نافذ کریں گے۔ تا کہ مصر اور باقی مسلم دنیا میں اللہ کے قوانین کے عدم نفاذ کی وجہ سے جو بد امنی اور فساد برپاہے ،اس کا خاتمہ ہو....اور پھر وہ خلیفہ فلسطین کی آزادی اور یہودی ریاست کی غلاظت کے خاتمے میں ہماری قیادت کرے گا اوراسرأ و معراج کی سرزمین کی عزت و عظمت کو اسلام اور اس کی افواج کے ذریعے بحال کرے گا........اور ہم اس کے پیچھے رہ کر کشمیر اور تمام مقبوضہ مسلم علاقوں کی آزادی کے لیے استعماری کفار سے جہاد کریں گے یہاں تک کہ اسلامی سرزمین کا ایک انچ بھی اسلام کے سائے سے محروم نہیں رہے گا۔
( وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ ۚ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ)
''اس روز مسلمان اللہ کی مدد و نصرت سے شادمان ہوں گے۔ وہ جسے چاہتا ہے فتح عطا کرتا ہے ۔ وہی غالب ہے اور بڑا مہربان ہے‘‘(الروم:4-5)
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
آپ کا بھائی،
عطا بن خلیل ابو رَشتہ، امیر حزب التحریر