السبت، 21 جمادى الأولى 1446| 2024/11/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال و جواب: ریاست کےقیام کے کام میں جہاد

بسم الله الرحمن الرحيم


سوال: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حزب التحریر خلافت کے قیام کی اپنی جدو جہد میں مدنی دور پر نہیں بلکہ صرف مکی دور پر اعتمادکرتی ہے اور قتال کی کاروائیوں 'جہاد' کو خلافت کے قیام کے لیے دعوت کے مرحلے میں خلاف شرع قرار دیتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا نہیں کیا۔۔۔
کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ :خلافت کے قیام کی دلائل کو مدنی دور سے کیوں اخذ نہیں کیا جاسکتا جہاں جہاد فرض ہوچکا تھا اور جاری تھا؟
کیا اس مسئلے کا کوئی تسلی بخش جواب ہے؟اللہ آپ کو جزاء خیر دے۔

 

جواب: اس سوال میں کئی امور ہیں جن کی وضاحت کی ضرورت ہے:
1۔ دلائل خواہ کتاب اللہ سے ہوں یا سنت رسول اللہ ﷺ سے،ان پر مکمل طور سے عمل کرنا ضروری ہے،مکی آیات و احادیث اور مدنی آیات و حدیث منورہ میں کوئی فرق نہیں۔
2۔ مطلوبہ دلائل وہ ہیں جو اس مسئلہ سے متعلق ہو ں نہ کہ وہ جس کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق ہی نہ ہو:
ا۔ مثال کے طور پر اگر میں یہ جاننا چاہوںکہ وضو کس طرح کروں تو وضو کے دلائل تلاش کروں گا،خواہ یہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ منورہ میں۔پھران سے حکمِ شرعی کو اصول فقہ کے مطابق مستنبط کروں گا۔۔۔۔لیکن ایسا نہیں کر سکتا کہ وضو کے طریقہ کار کا حکم معلوم کرنے کے لیے روزے کے احکامات کی چھان بین کروں۔
ب ۔ اور مثال کے طوراگر میں حج کے احکامات جاننا چاہتا ہوں تو حج کے دلائل تلاش کروں گا ،خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں۔اور پھران سے اصول فقہ کے مطابق حکم کو مستنبط کیا جائے گا۔لیکن حج کے طریقہ کار اور اس کی ادائیگی کے احکامکا حکم معلوم کرنے کے لیے نماز کے دلائل کونہیں دیکھوں گا۔
ج ۔ اور مثال کے طور پر جب میں جہاد کے احکامات کو سمجھنا چاہوں:کہ یہ فرض عین ہے یا فرض کفایہ ہے ،یہ دفاعی ہے یا اقدامی ،فتح کی صورت میں مال غنیمت اور اسلام کوپھلاجنے کے حوالے سے کیا احکامات ہیں،کیافتح بزور طاقت ہوتی ہے یا صلح کے ذریعے وغیرہ وغیرہ میں جہاد کی دلائل کی چھان بین کروں گا خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں، اورانہی سے حکمِ شرعی کو اصول فقہ کے مطابق مستنبط کیا جائے گا۔لیکن میں جہاد کا حکم اور اس کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے زکوۃ کی دلائل کی چھان بین نہیں کروں گا۔
د ۔ ہر مسئلہ کے متعلق حکم شرعی جاننے کا یہی طریقہ کار ہے،اس سے متعلق دلائل کی چھان بین ہوگی چاہے وہ مکہ میں نازل ہوئےہوں یا مدینہ میں،اور پھر ان دلائل سے اس مئلےں کے بارے میں حکمِ شرعی مسلمہ شرعی اصول کے مطابق مستنبط کیا جائے گا۔
3 ۔ اب ہم اسلامی ریاست کے قیام کے مسئلے کی طرف آتے ہیں،اس کے دلائل کو تلاش کرتے ہیں خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں اور ان سے مسلمہ اصول کے مطابق حکمِ شرعی کا استنباط کرتے ہیں۔
اسلامی ریاست کے قیام کی دلائل ہمیں مکہ مکرمہ میں رسول اللہ ﷺکی سیرت میں بیان کیے گئے دلائل کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتے۔رسول اللہ ﷺ نے ابتداء میں غیر اعلانیہ طور پر اسلام کی طرف دعوت دی جس کے نتیجے میں مؤمنوں کی ایک صابر جماعت تیار ہوگئی۔۔۔پھر مکہ میں اور مختلف موقعوں پر اس دعوت کا کھلا اظہار کیا۔۔۔اس کے بعد اہل قوت اور اہل طاقت سے نصرت طلب کی اور اللہ نے انصار سے آپ ﷺ کو نوازا،آپﷺ ہجرت کر کے مدینہ گئے اوراسلامی ریاست قائم کی۔
ریاست کے قیام کے یہ دلائل ہیں،اس کے علاوہ ریاست کے قیام کی کوئی دلیل نہیں۔رسول اللہ ﷺنے اپنی سیرت طیبہ میں اس کو ہمارے لیے تشفی بخش انداز سے بیان کیا اورہم پر اسی سیرت کی پابندی لازمی ہے۔بات جہاد کے فرض ہونے سے پہلےمکی دور یا جہاد کے فرض ہونے کے بعد مدنی دور کی نہیں ہےبلکہ بات ریاست کے قیام کے دلائل کو سمجھنے کی ہے۔یہ دلائل ہجرت کر کے مدینہ میں ریاست کے قیام تک مکی دور میں ملتے ہیں۔
ریاست کا قیام اور جہاد دو الگ فرائض ہیں۔جیسا کہ ہم نے کہا کہ ریاست کے قیام کے دلائل اسی موضوع سے لیے جائیں گے اور جہاد کے دلائل اس کے اپنے موضوع سے اخذ کیے جائیں گے۔یہ دونوں الگ چیز یں ہیں اور یہ ایک دوسرے پر موقوف بھی نہیں ہیں۔اسی وجہ سے ریاست خلافت کی عدم موجود گی میں جہاد معطل نہیں ہو تا۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے،«وَالْجِهَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِي اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى أَنْ يُقَاتِلَ آخِرُ أُمَّتِي الدَّجَّالَ، لَا يُبْطِلُهُ جَوْرُ جَائِرٍ وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ»"جہاد اللہ کی طرف سے مجھے مبعوث کرنے کے وقت سے اس وقت تک جاری رہے گا جب میرا آخری اُمتی دجال سے لڑے گا۔ کسی ظالم کا ظلم اور کسی عادل کا انصاف اس کو باطل قرار نہیں دے سکتا"اس کو البیہقی نے السنن الکبری انس بن مالک سے روایت کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جہاد،خواہ خلافت موجود ہو یا نہ ہو، احکام شرعیہ کے مطابق جاری رہےگا۔
اسی طرح حکمرانوں کی جانب سے جہاد کو معطل کرنے کےباوجود خلافت کے قیام کی جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک خلافت قائم نہیں ہو جاتی کیونکہ استطاعت رکھنے والے مسلمانوں کا خلیفہ کی بیعت کے بغیر رہنا حرام ہے۔۔۔۔مسلم نے عبد اللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ :میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:«مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، لَقِيَ اللهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»"جس نے اطاعت سے ہاتھ کھنچا لیا وہ اللہ سے قیامت کےدن اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہو گی،جو اس حال میں مرا کہ اس کی گر دن پر خلیفہ کی بیعت نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا"۔
اس بناپر جہاد بھی جاری رہے گا اور خلافت کے قیام کی جدوجہد بھی اس کے قیام تک جاری رہے گا۔یہ دونوں ایک دوسرے پر موقوف نہیں۔یہ دونوں دوالگ الگ مسئلے ہیں۔ہر ایک مسئلے کے بارے میں اس کی اپنے شرعی دلائل کے مطابق بحث ہو گی اور اس کے ساتھ خاص حکم ِ شرعی مسلمہ اصول کے مطابق ہی اخذ کیا جائے گا۔
4 ۔یہی وجہ ہے کہ حزب،رسول اللہ ﷺ کے اس طریقے کی پابند ہے جس پر مکہ میں کاربند رہتے ہوئے مدینہ میں ریاست قائم کردی گئی۔ریاست کے قیام کے لیے دعوت کے مرحلے میں قتال سے اجتناب کیا،اس میں مکی یا مدنی دور کی بات ہی نہیںبلکہ ریاست کے قیام کی دلائل رسول اللہ ﷺ کے وہ اعمال ہیں جو مدینہ میں ریاست کے قیام تک مکہ میں انجام دیئے۔مسئلہ ریاست کے قیام کے طریقے کا ہے۔لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے اس بتائے ہوئے طریقے کے علاوہ ریاست کے قیام کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے۔
اگر مسئلہ ریاستی اعمال اور اس کے اداروں کا ہو تا تو اس کو ان دلائل سے اخذ کرتے جو رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں ان اداروں کو قائم کر کے دِکھایا کیونکہ ریاست مدینہ میں قائم ہوئی تھی۔
5 ۔ خلاصہ:
ا ۔ کسی بھی مسئلہ کے احکامات اسی مسئلے کے بارے میں وارد شدہ دلائل سے اخذ کیے جائیں گے جو اس کے بارے میں ہیں خواہ مکہ میں نازل ہوئے ہوں یا مدینہ میں۔روزے کے احکامات روزے کے دلائل سے اخذ کیے جائیں گے،نماز کے احکامات نماز کے دلائل سے لیے جائیں گے،جہاد کے احکامات جہاد کے دلائل سے ہی لیے جائیں گے اورریاست قائم کرنے کے احکامات بھی ریاست قائم کرنے کے دلائل سے ہی اخذ کیے جائیں گے۔۔۔ہر جگہ ایسا ہی ہو گا۔
ب ۔ ریاست کے قیام کے لیے رسول اللہﷺ کے اس طریقے کو جو آپﷺ نےریاست کے قیام کے لیے مکہ میں اختیار کیا تھا،اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے علاوہ ریاست کے قیام کی کوئی دلیل موجود نہیں۔۔۔۔اگر ریاست کے قیام کی کوئی دلیل مدینہ میں وارد ہوتی تو اس سے استدلال بھی لازمی تھا۔
ہم اللہ سبحانہ وتعالی سے اسلامی ریاست خلافت راشدہ کے قیام کے لیے مدد اور توفیق کے طلب گار ہیں تاکہ اسلام اور مسلمان ایک بار پھر معزز،اور کفر اور کفار ذلیل ہوں،چاردنگ عالم میں خیر کا چرچا ہو اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک