الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال کا جواب: کس چیز نے امریکہ کو مرسی کا تختہ الٹنے پر مجبور کردیا؟

بسم الله الرحمن الرحيم


سوال:

مصر میں جو کچھ رونما ہوا اس کوبغاوت کہنے میں اب بھی امریکہ کو تردد ہےبلکہ وہ اس روڈ میپ کی پشت پناہی کر رہا ہے جس کا اعلان عبوری حکومت کر چکی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان نے یہ کہہ کر اس کی وضاحت کی ہے کہ :''اگلے مرحلے کے لیے عبوری حکومت کی جانب سے روڈ میپ کا اعلان حوصلہ افزا امر ہے''جیسا کہ الجزیرہ نیٹ نے 11/07/2013کو نقل کیا۔امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان''جین ساکی'' نے 12/07/2013 کو یہ وضاحت کی کہ معزول صدر مرسی کی حکومت''جمہوری نہیں تھی''جیساکہ مصری اخبار (الیوم السابع المصریہ)میں آیا۔اسی طرح وائٹ ہاوس کے ترجمان جے کارنی نے 11/07/2013 کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہاجس کو الجزیرہ نیٹ نے نقل کیا کہ ''ہم اس کی نگرانی کر رہے ہیں کہ اتھارٹیز کیا کر رہی ہیں اور وہ موجودہ صورت حال سے کس طرح نمٹ رہے ہیں'' جس میں 03/07/2013 کو مصر کی مسلح افواج کے سربراہ اور وزیر دفاع عبد الفتاح السیسی کی جانب سے محمد مرسی کو معزول کرنے اور آئنی عدالت کے سربراہ عدلی منصور کو عبوری صدر مقرر کرنے کی طرف اشارہ تھا۔
آخر کس چیز نے امریکہ کو مرسی کا تختہ الٹنے پر مجبور کیا حالانکہ پہلے دن سے ان کو امریکہ کی آشیر باد حاصل تھی؟جو کچھ ہوا اس کو امریکہ نے بغاوت قرار کیوں نہیں دیا اورآج کے دن تک بدستور اس کی نگرانی کر رہاہے ۔اس سب سے کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے؟

جواب :
اس کے جواب کے لیے مندرجہ ذیل نکات کا احاطہ کرنے کی ضرورت ہے:
1 ۔ گزشتہ سال جس وقت صدارتی انتخابات کا اجراء کیا گیا اس کے دو مرحلے تھے پہلہ مر حلہ 23/24 مئی 2012 کا تھا جس میں مرسی کامیابی حاصل نہیں کر سکے بلکہ ووٹ کئی امیدواروں کے درمیان تقسیم ہوگئےجبکہ دوسرا مرحلہ 16/17 جون 2012 کو اختتام پذیر ہوا جس میں احمد شفیق کے48.27% (12ملین ووٹ )کے مقابلے میں 51.73% (13ملین ووٹ) سے مرسی کو کامیاب قرار دیا گیا،جس کا یہ مطلب ہے کہ ووٹنگ میں حصہ لینے والوں میں سے تقریباً آدھوں نے مرسی کی صدارت کو قبول نہیں کیا بلکہ سابقہ حکومت، جس کے خلاف انہوں نے بغاوت کی تھے، کے ایک فرد کو ہی ترجیح دی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ صدارتی انتخابات کے نتائج کے اعلان میں تاخیر کی گئی جو پسِ پردہ ہونے والے گٹھ جوڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔اس کے بعد احمد شفیق کے مقابلے میں مرسی کی کامیابی کا اعلان کیا گیا۔یہ تب ہوا جب مرسی نے امریکیوں کو یقین دہا نی کرائی کہ وہ ان تمام معاہدوں کی پاسداری کرے گا جو سابقہ حکومت نے کیے ہیں خاص کر کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ اوریہ معاملہ امریکہ کے لیے بہت اہم تھا جو کہ انتخابات سے قبل اور بعد کی امریکی بیانات سے واضح ہے۔ امریکی سفیر نے 30/11/2012 کو کویتی اخبار الرای سے بات کرتے ہوئے کہا کہ''امریکہ ،مصر اور اسرئیل کے مابین ہونے والے امن معاہدے کا پابند ہے اور وہ اس کو خطے میں امن اوراستحکام کے لیے اہم سمجھتا ہے اورسب سے پہلے یہ مصر اور اسرائیل کی عوام کی خوشحالی کے لیے ہے۔ ہم اس معاہدے کو پورے خطے میں امن اور استحکام کے قیام کے لیے بنیاد سمجھتے ہیں۔ لہذا اس بات سے ہمیں خوشی ہوئی کہ مصر کی حکومت نے حامی بھری ہے کہ وہ مصر کے تمام بین الاقوامی معاہدات کا احترام کرے گا۔'' اس نے مزید کہا کہ : '' ہم سیناء میں امن وامان کی صورت حال اور دوسرے اہم مشترکہ مسائل کے حوالے سے مصر اور اسرئیل کی براہ راست بات چیت کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اورہم اس پر زور دے رہے ہیں کہ سیناء میں امن امان سب سے اہم اور ہر چیز پر مقدم ہے۔'' یہ تمام بیانات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ دشمن کے خلاف جہاد کی بات کرنے والی مسلح تحریک کے خلاف مصری حکومت کی جانب سے کئی مہینوں تک کی یلغار کے پیچھے امریکہ اور یہودی ریاست تھی۔
2۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے مرسی کی حمایت کی تھی اور اس کے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے کام کرتا رہا۔ اس نے سب پہلے امریکی مفادات اور یہودیوں کی حفاظت کی خاطر غزہ میں یہودی وجود اور حماس کی حکومت کے مابین جنگ بندی کروائی۔ یہ اس درجے کی عملی جنگ بندی تھی کہ جس میں حماس نے اپنے بعض عناصر کو اپنے اور یہود ی وجود کے درمیان اس لیے کھڑا کیا کہ وہ یہودی وجود کے خلاف کسی کاروائی کو یا اس پر کسی قسم کی فائرنگ کو روکیں!غزہ کے حوالے سے مرسی کے اس اقدام کی امریکہ نے زبردست تعریف کی۔
اسی طرح آئینی فیصلے کے معاملے میں بھی مرسی کو استثنی دینے کے حوالے سے اس کی حمایت کی گئی۔ اس دن امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریا نو لینڈ نے اس طرح صدر مرسی کا دفاع کیا کہ ''صدرمرسی نے عدلیہ اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تبادلہ خیال کیاہے ۔میرے خیال میں اب تک ہمیں علم نہیں کہ اس تبادلہ خیال کے کیا نتائج نکلیں گے لیکن صورتحال ایسی با لکل نہیں کہ (صدر مرسی کا موقف یہ ہوکہ ) جومیں کہوں وہی ہے ورنہ کچھ بھی نہیں'' (الشرق الاوسط نیوزایجنسی 27/11/2012 )۔
نولینڈنے احتجاج کرنے والوں کے اس دعوے کو مسترد کیا جومرسی کو ڈکٹیٹر یا مصر کا نیا فرعون کہتے تھےاورمرسی کا اور اس کے فیصلوں کا دفاع کیا۔ ملکی قیادت کو اپنے ہاتھ میں لینے کے معاملے میں بھی اس کی حمایت کی چنانچہ اس نے فوجی قیادت خاص کر وزیر دفاع اور فوج کے سربراہ حسین طنطاوی،چیف آف سٹاف سامی عنان کو ہٹادیا،اس سے متعلق ایک ائینی فیصلہ صادر کیاجس میں اس کے خلاف کوئی بڑی مخالفت بھی نہیں کی گئی۔
اس کے بعد آئین کے موضوع پر بھی مرسی کی حمایت کی۔امریکی ترجمان نولینڈ نے کہا:"محترمہ کلنٹن نے اپنے قاہرہ کے دورے اور مصر کے صدر مرسی سے ملاقات کے دوران ایسے آئین کے اجراء کی اہمیت پر بات چیت کی جو مصر کے تمام باشندوں کے تمام حقوق کی حفاظت کا ضامن ہو''۔(الشرق الاوسط 27/11/2012 )۔مرسی کی حکومت اور اس کی اپوزیشن پرامریکی سیاسی اثرو رسوخ بالکل واضح ہے۔
یوں امریکی آشیر باد سے دستور کا اجراء ہو گیاجو کہ سابقہ حکومت کے 1971 کے آئین کا'' نظر ثانی شدہ "نسخہ ہے جس کے لیے عوامی ریفرنڈم کرایا گیا جس میں%9.32نے حق رائے دہی کو استعمال کیا جو کہ ووٹ کا حق رکھنے والے کل لوگوں کا ایک تہائی حصہ بنتا ہے جبکہ دو تہائی نے اس ریفرنڈم کا بائی کاٹ کیا۔ ان ایک تہائی رائے دہندگان کی%8.63 نے اس کی حمایت کی !لہذا لوگوں کی اکثریت اس دستور،صدر اور اس کے فیصلوں سے راضی نہیں تھیں۔
3۔ امریکہ نے صورت حال کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور صدر،اس کے فیصلوں اور دستور کے حوالے سے لوگوں کو قائل کرنے کی تگ ودو کی تاکہ اس حکومت کو مستحکم کر سکے جس کو انقلاب کے بعد وہ اپنی مٹھی میں رکھنے میں کامیاب ہوا تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہ استحکام حاصل نہ ہو سکا جو مرسی اور اخوان سے نیشل پارٹی کی تحلیل کے بعد بطور سب سے بڑی منظم پارٹی کے امریکہ توقع رکھتا تھا۔ وہ یہ توقع کرتے تھے کہ اسی طرح صورت حال کو قابو کرنے کے لیے کام کریں گے جس طرح نیشنل پارٹی نے 30 سال تک معزول صدر کے ساتھ کیا۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ مصر امریکی نفوذ کے استحکام کا مرکز بن جائے۔ یہاں مطلوبہ استحکام مصرکی خاطر نہیں ہے بلکہ امریکہ خطے میں اپنے اثر ونفوذ اور منصوبوں کے لیے مستحکم پلیٹ فارم چاہتا تھا۔ تا ہم صورت حال غیرمستحکم ہی رہی۔
حالات کے بگڑنے میں صدرکی جانب سے فیصلے کرنے کے حوالے سےموجود ہچکچاہٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ وہ ایک فیصلہ کرتا اور پھر دباو میں آکر اس سے رجوع کرتا۔ اسی طرح اتحادیوں سے مشورہ کیے بغیر تن تنہا فیصلہ کرتا ان کو قائل کرنے کی بھی کوشش نہ کرتا۔ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے رائے عامہ ہموار کرنے یا رائے عامہ کو جاننے کی بھی زحمت گوارہ نہ کرتا۔ یوں صدر کے اس ایک سالہ دور کے دوران افراتفری اور اس کے خلاف انقلاب بر پا کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔
اس کے بعد 28/06/2013 کو اس کے تفصیلی خطاب کے بعد معاملات اور پیچیدہ ہوگئے۔ ڈاکٹر مرسی کی صورت حال سنگین ہوگئی اوراس نے اعتراف بھی کرلیا کہ اس نےغلطیوں کا ارتکاب کیا ہے۔ اس نے ان غلطیوں کا تعین نہیں کیا لیکن وہ 22/11/2012 کے اپنے اس دستوری اعلان کی طرف اشارہ کررہے تھے جس نے لوگوں کو اس کے خلاف بڑھکایا اور لوگ اس جانب راغب ہوئے کہ وہ اس کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے لگے۔ 02/07/2013 کو اپنے آخری خطاب میں محمد مرسی نے غلطیوں کے ارتکاب کی اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ ان سے کوتاہی ہوئی ہے اور وہ ان کا تدارک کرنے کے لیے بھی تیار ہیں،جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ کسی بھی درمیانی حل کو قبول کریں گے،یہ فوج کی طرف سے اس کو 48 گھنٹوں کا الٹی میٹم دینے کی دھمکی کے بعد تھا،جس کا مطلب یہ ہے کہ فوج کی جانب سے اور فوج کی پشت پناہ یعنی امریکہ کی جانب سے مرسی کو کرسی سے ہٹانے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ یاد رہے کہ مذکورہ تمام فیصلوں میں اس کو امریکہ کی آشیرباد حاصل تھی لیکن جس وقت ان اقدامات کے نتائج خلاف توقع نکلے تو امریکہ اس کی حمایت سے دست بردار ہوگیا اور اس کے سقوط کا تماشا دیکھنے لگا بلکہ اس کے خلاف سازشیں کرنے لگاجیسا کہ وہ اپنے ہر اس ایجنٹ کے ساتھ کرتا ہے جو عبرت حاصل نہیں کرتا!
4۔ یوں ہم نے امریکہ کی جانب سے اس سے دستبرداری اور اس کے فیصلوں سے لاتعلقی کو دیکھا، امریکی ٹی وی چینل ''CNN" نے 02/07/2013 کو اعلی امریکی عہدہ داروں کے حوالے سے یہ خبر دی کہ''مصر میں امریکی سفیر ''این پیٹرسن اوروائٹ ہاوس کے دوسرے عہدہ داروں نے کہا ہے کہ مصر کے لوگ اپنے احتجاج میں جو مطالبات پیش کر رہے ہیں وہ بڑی حد تک ان اصلاحات سے مطابقت رکھتی ہیں جن کا مطالبہ واشنگٹن اور اس کے اتحادی کئی ہفتوں سے کر رہے ہیں۔" اس کی تائید 02/07/2013 کو رائٹرز میں شائع ہونے والے وائٹ ہاوس کے اس بیان سے بھی ہو تا ہے کہ :''صدر اوباما نے صدر مرسی پر زور دیا کہ وہ ایسے اقدامات کریں کہ جن سے یہ واضح ہو کہ وہ مظاہرین کے مطالبات کو پورا کر رہا ہے۔" اوبامہ نے اس پر بھی زور دیا کہ ''موجودہ بحران کا حل صرف سیاسی عمل کے ذریعے سے ہی ممکن ہے"جس کا یہ مطلب ہے کہ امریکہ نے مرسی کے سر سے دستِ شفقت اٹھا دیا اور وہ اب نئے سیاسی عمل کا متلاشی تھا۔ اس بیان میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ مصر کے منتخب صدر کی حمایت کرتا ہے بلکہ ان سے مظاہرین کے مطالبات کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو صدرکو برطرف کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے!مصر میں مرسی کا تختہ الٹنے کے فوراً بعد اوبا مہ نے وائٹ ہاوس کے اپنے بڑے مشیروں کے ساتھ مصر میں رونما ہونے والے صورتحال کے حوالے سے میٹنگ کا اعلان کر دیا جس کے بعد اس نے کہا:''مصر کی مسلح افواج کو چاہیے کہ انتہائی ذمہ داری سے جس قدر جلد ممکن ہو سکے اقتدار کو سول حکومت کے حوالے کرے"(رائٹرز 03/07/2013 )۔ اوبامہ نے اس انقلاب کی کوئی مذمت نہیں کی بلکہ اس کو فوجی انقلاب تک قرار نہیں دیا۔ اس نے برطرفی کے بعد مرسی کی بحالی کا بھی کوئی مطالبہ نہیں کیا،نہ ہی مرسی کے وزیر اعظم کو اس کے منصب سے ہٹانے اور ایک سال قید کی مخالفت کی!بلکہ اقتدار سول حکومت کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا یعنی اقتداربرطرف حکومت کو نہیں بلکہ کسی نئی حکومت کومنتقل کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس انقلاب کو اور مرسی اور اس کی حکومت کو برطرف کرنے کے عمل کو امریکی سرپرستی حاصل تھی بلکہ امریکی انتظامیہ نے یہ کہہ کر اس پر تبصرہ کیا کہ:''مرسی نے عوام کی آواز پر کان نہیں دھرا نہ ہی اس کا جواب دیا"(مذکورہ بالا حوالہ)مصر کی عسکری قیادت نے بھی بالکل یہی بات کی کہ''صدر مرسی نے عوامی مطالبات کوپورا نہیں کیا۔" یہ سب جانتےہیں کہ مصر کی فوجی قیادت امریکہ کی جیب میں ہوتی ہے اورامریکہ کی بیشتر امداد جو سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر ہے فوج ہی کو ملتی ہے۔
5۔ مرسی اورالاخوان یہ سمجھ نہ سکے،بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر مرسی امریکہ کی پالیسیوں پر گامزن ہو کر امریکی حمایت کے بارے میں دھوکہ کھا گئے،اس کے مفادات کی نگہبانی کرتے ہوئے اور ان معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے جو مصر کی جمہوری حکومت نے کیے تھے خاص کر کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ۔پھرامریکہ نے فوج کی پرانی قیادت کو بھی ہٹادیا اور نئی قیادت لاکر ان کو مرسی کا ہمنوا بنادیاجس سے مرسی اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ امریکہ کبھی اس کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو گا۔ وہ اس بات پر مطمئن تھے کہ امریکہ نام نہاد معتدل اسلام پسندوں کو یا حالات سے سمجھوتہ کرنے والوں کو اقتدار میں لانے اور ان پر دستِ شفقت رکھنے کی پالیسی پر کاربندہے جیسا کہ ترکی میں ہوا۔ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ امریکہ اپنے کسی ایجنٹ سے استعمال کرنے کے بعد یا ناکام ہونے پر اور ملک میں مستحکم حکومت قائم کرنے میں ناکام ہونے کی صورت میں دستبردار ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ دوسرا ایجنٹ لاتا ہے،جیسا کہ مرسی کے پیش رو حسنی مبارک کے ساتھ ہوا جو امریکہ کا انتہا درجے کا وفادار تھا اور اسی خوش فہمی میں اپنے بیٹے کو اپناجانشین بنا رہا تھا۔
لیکن جب اس کے خلاف ایک عوامی تحریک برپا ہوگئی اور امریکہ نے دیکھا لیا کہ وہ اس پر قابو پانے کے قابل نہیں رہا اور یہ مصر میں امریکی مفادات کے حصول کے لیے استحکام نہیں لا سکتا تو اس کو ایک طرف کر کے اس تحریک کی لہروں پر سوار ہوکر مرسی کو لے آیا۔
مرسی کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ امریکہ نے دیکھا کہ وہ امریکی مفادات کی حفاظت کے سلسلے کو جاری رکھنے اور اس کے اثرو نفوذ کو دوام بخشنے کی خاطر مستحکم حکومت قائم نہیں کر سکتا تو اس کو بھی ایک طرف پھینک دیا۔
یہ کوئی نیا معاملہ نہیں تھا بلکہ ایک عرصے سے اس پر کام ہو رہا تھا۔''مصر کی عوامی تحریک" کی ویب سائٹ، جو کہ ایک لبرل سائٹ ہے، نے دو مہینے سے بھی زیادہ عرصے پہلے 22/04/2012 کواس عنوان سے خبردی تھی کہ "عسکری مداخلت کے بارے میں امریکی شرط یہ ہے کہ وہ فوجی انقلاب نہیں نظر آنی چاہیے! " اس سائٹ نے کہا تھا کہ ''ایک شخص ،جس کے نام کو ہم صیغہ راز میں رکھ رہے ہیں، گزشتہ دنوں امریکہ کا دورہ کر کےواپس آیاہے۔ اپنے اس دورے میں انہوں نے امریکی انتظامیہ کے چوٹی کے اہلکاروں،پینٹاگون اور قومی سلامتی کے عہدہ داروں سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا جس میں اخوانی حکومت کے حوالے سے امریکی موقف کے بارے میں بات چیت ہوئی۔" سائٹ نے یہ بھی کہا کہ''جان کیری، جو ان ملاقاتوں میں تھا، نے عوام کی طرف سے سڑکوں پر نکلتے وقت واقعات پر قابو پانے اور مختلف گروہوں کے درمیان خانہ جنگی کو روکنے کے سلسلے میں مصری فوج کے اہم کر دار کے بارے میں بات کی۔ پھر کیری نے مزید کہا:''مجھے الاخوان کی کمزوری اور بات چیت میں ان کی ناکامی دیکھ کر صدمہ ہوا،مجھے یقین ہے کہ وقت آنے پر فوج اپنا کردار ادا کرے گی۔ مذکورہ شخص نے مزید کہا کہ :بات چیت میں اخوانی حکومت کے متبادل کے موضوع پر بات ہوئی اور اس پر بھی کہ عبوری دور میں انتظامی ذمہ داری فوج کی ہو گی،سائٹ نے پینٹاگون کے ایک اعلی عہدہ دار جو کہ American Brookings Institution))کا بھی رکن ہے اور اس ملاقات میں موجود تھاکا قول نقل کیا ہے کہ :''وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ مرسی اقتدار سے الگ ہونے کا قائل بھی ہو جائے، چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے تو بھی بہر حال اس کے حامی اس بات کو قبو ل نہیں کریں گے۔ یہا ں ایک بار پھر مصر کے لوگوں کو کردار ادا کرنا ہو گا کہ وہ بڑی تعدا میں متحرک ہو کر مرسی کی برطرفی کا مطالبہ اور فوج کی حمایت کریں۔" یہ بات 22/04/ 2013 کو یعنی انقلاب کے رونما ہونے سے دو ماہ سے بھی زیادہ عرصہ پہلے افشاں ہوئی جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ ہی نے اس انقلاب کی اس دن سے ہی منصوبہ بندی کی تھی۔ اسی نے چاہا کہ معاملات اس نہج کو پہنج جائیں۔ جب 03/07/2013 کو مرسی کا تختہ الٹ دیا گیا تو اس کو انقلاب کہنے سے باز رہا،بلکہ انتہائی مبہم قسم کے بیانات دیتا رہا جیسے''ہم صورت حال کو دیکھ رہے ہیں"، "صورتحال پر مسلسل ہماری نظر ہے"، ''مرسی جمہوری نہیں تھا"، "عبوری حکومت کی جانب سے روڈ میپ مقرر کرناحوصلہ افزا امرہے" جیسا کہ سوال میں کہا گیا ہے۔
6۔ معزول صدر کے حامی احتجاج کے لیےسڑکوں پر آگئے ہیں،اگرانھوں نے اپنے احتجاج کو جاری رکھا ،اس کو آگے بڑھایا اور عوام کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ اس بات کی ضمانت ہو گی کہ وہ عسکری ادارے اور امریکہ کو پریشان کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے یوں امریکہ الاخوان تحریک کے ساتھ سودابازی پر مجبور ہوگا،خاص کر جبکہ ان کے ہاتھ فائدہ مند پتے موجود ہیں جو یہ ہیں کہ مرسی عوم کا منتخب صدر تھا،آئینی عدالت ،عسکری ادارے ،بین الاقوامی اداروں،امریکہ اور تمام ممالک کے لیے قابل قبول تھا،ان کے معیار کے لحاظ سے ایسا کوئی کام نہیں کیا تھا کہ اس کو برطرف کیا جائے۔ وہ ایسے انتخابات کے ذریعے اقتدار تک پہنچے تھے جن کی شفافیت کا اعتراف کیا گیا تھا پھر فوجی طاقت کے ذریعے برطرف کیا گیا۔ اس سے ان کے موقف کو تقویت ملے گی اور ان کو جواز ملے گا جس سے وہ دوسرے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرسکیں۔
جن لوگون نے فوجی انقلاب کی حمایت کی اور صدر کو برطرف کیا تو ان کا موقف اس لحاظ سے کمزور ہے کہ وہ فوجی حکومت کو بھی مسترد کرتے ہیں اور انتخابی عمل پر اصرار کر رہے ہیں اور ساتھ ہی وہ عسکری طریقے سے تبدیلی کی بھی حمایت کرتے ہیں! یوں الاخوان انقلاب کو ناکام بنا کر دوبارہ اقتدار میں آسکتے ہیں یا نئی صورت میں کوئی بڑا حصہ دار بن سکتے ہیں،خصوصاً جب وہ لوگوں کے جذبات کوبڑھکانے میں کامیاب ہو جائیں۔ اگر معزول صدر کے حامی مذاکرات اور پیچھے ہٹنے پر راضی ہوئے تو زبردست نقصان اٹھائیں گے جس کی وجہ سے ان کو ندامت کا سامنا ہو گا اور پھر ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا،یوں ان کی جدوجہد سیاست کے دشت و صحرا اور اس کے بارے میں بیداری نہ ہونے کی وجہ سے رائیگاں جائے گی!
7۔ ہم ایک زمینی حقیقت کے بیان کے ساتھ اس جواب کو ختم کرتے ہیں اور وہ یہ کہ جو بھی اللہ کی ناراضگی مول لے کر لوگوں کو خوش کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے ہی حوالے کرے گا،وہ مجبور ہو گا اور لوگوں کے ساتھ اس کا تعلق بھی خراب ہو گا۔ اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور یہ محسوس بھی ہو تا ہے۔ مرسی اور الاخوان نے بھی امریکہ کو راضی کرنے کی کوشش کی،اس کے منصوبوں کی حمایت کی اور کیمپ ڈیوڈ کے اس معاہدے کی پاسداری کی جو مسئلہ فلسطین اور سیناء کو کمزور کرتا ہے جوفلسطین کو غصب کرنے والی یہودی وجود کا اقرار اور اعتراف کر تا ہے۔ مرسی اپنے کئی نعروں سے بھی دستبردار ہوا اور جمہوری نظام حکومت اور سکیولر عوامی جمہوری حکومت پر راضی ہوا،جب صدر بنایا گیا اسی کے لیے حلف اٹھا یا،اسلام اور اسلام کی حکمرانی کو پس پشت ڈال دیا،یہ سب کچھ اس نےامریکہ کو راضی کر نے کے لیےکیا تاکہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر کرسی پر بیٹھا رہےلیکن آخر میں اپنا نقصان کر بیٹھاسوائے اس کے کہ اگر توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرما یا کہ ((من أرضى الناس بسخط الله وكله الله إلى الناس ومن أسخط الناس برضا الله كفاه الله مؤنة الناس)) (الترمذی)، "جو اللہ کو ناراض کر کے لوگوں کو راضی کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے حوالے کرے گا اور جواللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے شر سے بچانے کے لیے کافی ہو گا"۔
8۔ بالکل آخر میں یہ یاد دہانی کراتے ہیں کہ ہم نے اس سے پہلے مرسی کو دوبار نصیحت کی۔ دونوں بار ہم نے پمفلٹ شائع کیا پہلی بار 26/06/ 2012 کو جبکہ دوسری بار 13/08/ 2012 کو۔ پہلے پمفلٹ میں ہم نے کہا تھا:
۔۔۔۔''پھر خالص نصیحت کے ذریعے ہم مصر کے نئے صدر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں:اللہ سے ڈرو اور ایسی عوامی جمہوری ریاست کی دہائی دینے سے باز آو جو فکر اور منہج کے لحاظ سے خواہشات پر مبنی ہو۔ حق کی طرف رجوع افضل ہے،یہ اس لیے کہ کہیں تم مکمل دنیاوی نقصان نہ کر بیٹھو کیونکہ کافی نقصان تم پہلے ہی کر چکے ہو جب فوجی کونسل تمہارے اختیارات کم کر کے تمہارے پر کاٹ چکی ہے۔ اور کہیں تم امریکہ اور مغرب کو راضی کرنے کی خاطر عوامی جمہوری ریاست کا راگ الآپ کراور خلافت کے قیام اور اللہ کی شریعت کے نفاذ سے پہلو تہی کر کے امریکہ اور مغرب کےکو مالک کوناراض کر کےآخرت تباہ کر بیٹھو۔ یقیناً تم نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پڑھی ہوگی ((من أرضى الناس بسخط الله وكله الله إلى الناس ومن أسخط الناس برضا الله كفاه الله مؤنة الناس)) "جو اللہ کو ناراض کر کے لوگوں کو راضی کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے حوالے کرے گا اور جواللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کرے گا اللہ اس کو لوگوں کے شر سے بچانے کے لیے کافی ہو گا" (الترمذی) ابو نعیم نے الحلیہ میں اس کو عائشۃرضی اللہ عنھا سے روایت کیاہے۔
یہ نصیحت صرف اللہ سبحانہ وتعالی کے لیے ہے اس کے بدلے ہم تم سے کسی جزاء یا شکریے کے طلبگار نہیں،یہ ہم صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ کہیں کفار اور ان کے ایجنٹ اور تمام اسلام دشمن قہقہے لگا کر نہ ہنسیں کہ سول جمہوری ریاست کے ان کے مشن کے علمبردار خود مسلمان بن گئے، اخوان المسلمون بن گئے،انا للہ وانا الیہ راجعون"۔
دوسرے پمفلٹ میں ہم نے کہا تھا کہ" ہم اپنے بیان کومکمل کرتے ہوئےصدر محمد مرسی کو کی گئی اس نصیحت کو دہراتے ہیں اگرچہ اس نے ہماری پہلی نصیحت پر عمل نہیں کیا۔ ہم کسی مسلمان کو نصیحت کرنے سے کبھی مایوس نہیں ہوتے ،خصوصاً جب وہ حکمران ہو،اس لیے ہم پہلی نصیحت کے بعد ایک بار پھر نصیحت کرتے ہیں:اگر چہ پرانے اور نئی سیاسی میڈیم میں امریکہ کے ہاتھ پہچے ہوئے ہیں،لیکن ان بازوں کو کاٹ ڈالنا ممکن اور آسان ہے،ایک دفعہ غلطی کر کے اگلی غلطی سے پہلے اس کا تدارک کرنا غلطی کو باربار دہرانے سے بہتر ہے،امریکہ کے دست وبازو کے ساتھ محبت اور قربت کا کوئی فائدہ نہیں۔بلکہ ان کو مڑنا اور کاٹ کر پھینک دینا زیادہ بہتر ہے،ورنہ ندامت کا سامنا ہو گا اور اس وقت ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا!زمین پر اللہ کا تیر کش(مصر) ہر قسم کی قوت اور طاقت سے مالامال ہے،اس کی تاریخ اس کی شاہد ہے،جو بھی حقیقی معنوں میں اللہ کے ساتھ ہوا وہی غالب ہے،قرآن حکیم اس کے بارے میں گویا ہے،خود صدر نے بھی اپنے آخری خطاب میں اس کو دہرایا ﴿والله غالبٌ على أمره ولكن أكثر الناس لا يعلمون﴾ "اللہ ہی فیصلے میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے"۔جی ہاں اللہ نے سچ فرمایا ہے،﴿ومن أصدق من الله حديثا) "اللہ سے زیادہ سچی بات کس کی ہو سکتی ہے"۔
اے اللہ ہم نے پہنچا یا تو گواہ رہ۔۔۔۔۔اے اللہ ہم نے پہنچا یا تو گواہ رہ۔۔۔۔۔۔ اے اللہ ہم نے پہنچایا تو گواہ رہ۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک