الإثنين، 21 جمادى الثانية 1446| 2024/12/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سوال کا جواب: خلافت قائم کرنے کیلئے مسلمانوں کوکتنے عرصے تک مہلت دی جائے گی

بسم الله الرحمن الرحيم

(Muafa Abu Haura کی طرف سے)

 

سوال: آپ نے میرے سوال کاجواب دیا،اللہ آپ کوجزا دے ...کیایہ ممکن ہے کہ اس گفتگو کو کھل کر سامنےلایا جائے تاکہ دوسرے مسلمان اس سے مستفید ہوسکیں اور یہ جان سکیں کہ اگر کسی فکرکی کمزوری آشکاراہوجائے تو حزب التحریر اوراس کاامیر حق وصداقت کوقبول کرنےمیں کتنے مخلص ہیں؟
پہلی فکرجس پرہم بحث کرناچاہتے ہیں، اس مدت کے تعین سے متعلق ہے، جو مسلمانوں کوخلافت قائم کرنے کے لئے دی گئی ہے۔ ایک بھائی نے، جس کانام Aang Yulius ہے، مجھے یہ مضمون لکھ کر بھیجا:
خلافت کوقائم کرنے کیلئے مسلمانوں کودی گئی مہلت کےحوالے سےحزب التحریرنے جس روایت کودلیل بنایاہے، کیاوہ صحیح ہے؟
حزب التحریر کے اختیارکردہ افکارمیں سےہے کہ تمام مسلمانوں پرخلیفہ کومقررکرنافرض ہے اور وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا تین دن سے زائد عرصہ خلیفہ کے بغیررہنا جائز نہیں ۔ اگران پرتین دن ایسے گزر جائیں کہ ان میں کسی کو خلیفہ متعین نہ کیا جائے توتمام مسلمان گناہ گار ہوں گے۔ عثمانی خلافت کے خاتمے کے بعد سے لے کر آج تک اسّی(80) برس کازمانہ ان پر ایسا بیت چکاہےکہ ان کی گردنوں پر خلیفہ کی بیعت کاطوق نہیں۔ لہٰذاہر وہ شخص جو خلافت کے قیام کے لئے جدوجہد میں حصہ نہیں لیتاوہ گناہ گار ہے ۔ حزب التحریر نے تین دن کی مدت کے تعین پراجماع صحابہ کودلیل بنایاہے، چنانچہ روایت کیا گیا ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو جب زخمی کر دیا گیا اور ان کی وفات ہونے لگی، تو انھوں نے کبار صحابہ میں سے چھ کو نامزد کیا تاکہ اُن کی وفات کے بعد باہمی مشورے سے وہ اپنے میں سے کسی شخص کو خلیفہ منتخب کریں۔ آپ رضی اللہ عنہ نےوصیت کی کہ تیسرے دن کے گزر جانے کے بعد اگر کوئی ان میں سے فیصلے کی مخالفت کرے تواسے قتل کر دیا جائے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پچاس دیگر صحابہ کو اس وصیت پر عمل کرنے کیلئے مقرر کیا۔ اکابر صحابہ کواس وصیت کے بارے میں آگاہی ہوئی، مگر ان میں سے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا، اس بات کے باوجود کہ یہ معاملہ ایسا تھا جس سے انکار کیا جا سکتا تھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خلافت کوقائم کرنے کیلئے تین دن کی مہلت کے تعین پرصحابہ کا اجماع ہے ۔ اس فکر کی بنیاد تاریخ طبری کی وہ روایت ہے جو اس طرح سے ہے کہ: (فان اجتمع خمسۃ ورضوارجلاً وابیٰ واحد فاشدخ راسہ اواضرب راسہ بالسیف وان اتفق اربعۃ فرضوارجلاً ،منھم وابیٰ اثنان فاضرب روؤسھم......) "تواگرپانچ آدمی کسی ایک شخص پرمتفق ہوجائیں، جبکہ ان میں سے ایک انکار کرے تو اس کا سر تلوار سے توڑ دو یا تلوار سے مار دو اور اگر چار متفق ہوجائیں جبکہ دو اختلاف کریں تو ان دونوں کی گردن مار دو......" یہ حزب التحریرکی باضابطہ فکرہے، جواس کی تبنی کردہ کتب میں بیان کی گئی ہے، اس کوشباب نے حزب التحریر یا اپنے ذاتی نام کے ساتھ شائع کیاہے ۔ یہی فکر کتاب 'اجھزۃ دولۃ الخلافۃ' میں 'باب المدۃ التی یمھل فیھاالمسلمون لاقامۃ الخلافۃ' صفحہ/53 پر بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح نظام الاسلام میں خلیفہ کو فائز کرنے کے طریقے کے بیان میں ذکر گیا ہے اور دیگر کتابوں میں بھی یہی فکر موجود ہے۔
یہاں جوسوال ہے وہ اس روایت کاضعیف ہونا ہے، کیونکہ اس کی سند میں 'ابو مخنف' آیا ہے جو کہ رافضی شیعہ تھا، اس کے بارے میں امامِ جرح و تعدیل ابن معین نے کہا ہے 'لیس بثقۃ' یعنی اس کاکوئی بھروسہ نہیں۔ نیزاس کی سند میں مجہول راوی ہیں، کچھ راوی مدلس ہیں، جنہوں نے 'عن' کے لفظ کے ساتھ روایت کیا ہے ۔
ایک روایت اور بھی ہے جس کا مفہوم طبری کی روایت کے مطابق ہے، لیکن سند منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابن سعد نے طبقات کبریٰ میں اسی طرح کی روایت نقل کی ہے، جس میں 'سماک ابن حرب الذُھَلی البکری' شامل ہے ،جس کو حفاظ الحدیث نے'صدوق وقد تغیر' بتلایاہے، یعنی وہ سچے ہیں مگر وہ بعد میں بدل گئے تھے اور چونکہ عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس کی ملاقات ممکن نہیں، اس لئے یہ روایت منقطع ہے۔
معنوی طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ طبری کی روایت اور اس کی مثل دیگر روایات کی تصدیق ممکن ہی نہیں کیونکہ ان کی روایات صحیح روایات کے مخالف ہیں، ہمیں مندرجہ ذیل نکات کودیکھناچاہئے :
یہ کیسے ممکن ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کبار صحابہ کو قتل کرنے کا حکم دیں اور یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کیونکر ایسی بات کرتے جبکہ وہ جانتے تھے کہ یہ آپ ﷺ کے برگزیدہ صحابہ ہیں۔
اس بنا پر یہ واضح ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے ...چنانچہ خلافت کے قیام کیلئے مسلمانوں کو تین دن کی مہلت پر اس روایت سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح ان لوگوں کاقول بھی باطل ہو جاتا ہے جو خلافت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ کے تقرر سے اختلاف کرنے والے کے قتل کاحکم دیاتھا"۔ تواس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ تسلی بخش جواب کا انتظار رہے گا۔

جواب: آپ نے سوال کی ابتداء میں چند امورکاذکر کیاہےجومیری توجہ کاباعث بنے، جن کی طرف میں جواب دینےسے پہلے اشارہ کرناچاہوں گا۔
ا۔سوال Muafa Abu Haura کی طرف سے ہے اور اس میں جس آرٹیکل کو استعمال کیا ہے وہ Aang Yulius کے نام سے ہے ۔
ب۔ آپ نے پوچھا ہے کہ کیایہ ممکن ہے کہ اس گفتگو کو کھل کر سامنےلایا جائے تاکہ دوسرے مسلمان اس سے مستفید ہوسکیں اور یہ جان سکیں کہ اگر کسی فکرکی کمزوری آشکاراہوجائے تو حزب التحریر اوراس کاامیر حق وصداقت کوقبول کرنےمیں کتنے مخلص ہیں، تو بات کیسے ہوگی جبکہ آپ حزب کی رائے کی کمزوری طے ہی کرچکے ہیں۔اور آپ گفتگو کے اختتام کاانتظار کیوں نہیں کرتے تاکہ فکرکی کمزوری اورقوت دیکھ لی جائے...کیا یہ بہتر نہیں کہ بحث کے اختتام سے قبل ہی رائے کی کمزوری کوطے نہ کیا جائے ؟
ج۔ آپ نے ہمیں السلام و علیکم نہیں کہا، ہاں ! آپ نے دعا دی ہے، وہ بھی ایسی کہ ہم جانتے ہی نہیں کہ دعا ہمارے حق میں کی جار ہی ہے یا ہمارے خلاف، آپ نے کہا ہے کہ اللہ آپ کو جزاء (بدلہ) دے...لیکن اس بدلے کی نوعیت نہیں بتائی کہ یہ اچھا ہوگا یا بُرا۔
بہرحال ان تمام باتوں کے باوجود سابقہ نکتوں کا مطلب کچھ بھی ہو، میں اس کے بارے میں یوں ہی فرض کرلیتا ہوں کہ آپ کی نیت اچھی ہوگی اور آپ کے ساتھی کے مضمون کا جواب دیتا ہوں، اور توفیق تو اللہ ہی کی طرف سے ہے:
1۔ حزب التحریر اور اس کا امیر کسی ایسی گفتگو کو مسترد نہیں کرتے جو اس لئے کی جائے کہ حق کوبیان کیا جائے اور اس کی پیروی کی جائے اور پھر اس کی بنیاد پر خلافت کے قیام کے ذریعے اسلامی زندگی کے از سرنو آغاز کیلئے کام کیا جائے جو ایک عظیم فرض ہے، یعنی مسلمانوں کیلئے جائز نہیں کہ وہ منصب خلافت کے خالی ہونے کے بعد تین دن سے زیادہ عرصے تک خلیفہ کے تعین میں سستی دکھائیں، ورنہ جو شخص اس کام کی قدرت رکھتے ہوئے بھی اس کو نہ کرے گا تو وہ گناہ گار ہوگا۔
2 ۔ مضمون لکھنے والے نے طبری کی روایت کو لیا ہے جس میں 'ابو مخنف' ہے اور اس کے بارے میں نقل کیا ہے کہ وہ غیر ثقہ ہے، پھر کچھ دیگر راویوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ مجہول ہیں کچھ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ 'عنعنہ' کے صیغے کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔
پھر طبقات ابن سعد کی ایک روایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی سند میں 'سماک بن حرب ' ہے، اس کے بارے میں کہاہے کہ 'صدوق وقدتغیر' اور یہ کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ سے نہیں ملے...
3۔ بے شک مضمون لکھنے والے نے اہم مسئلہ پربات کی ہے، لیکن اس نے ایک ہی روایت پر بات کی ہے، باوجودیکہ یہ مسئلہ "تین دن کی مہلت اور مخالف کاقتل " کوئی خفیہ کارروائی نہیں تھی بلکہ کثیر صحابہ کی موجود گی میں سب کچھ ہوا اور اس کے بارے میں اور بھی روایات آئی ہیں ...پھر اس کا یہ کہنا کہ اس روایت کے بعض راوی مجہول (نامعلوم ) ہیں، تو یہ کوئی حجت نہیں کہ وہ کسی راوی کومجہول کہہ دے کیونکہ اس سے زیادہ قوی حافظے والوں کے ہاں یہ راوی مجہول نہیں! اسی طرح 'عنعنہ' کو اس روایت کے ضعف پردلیل کے طور پر دیکھنا علم مصطلح الحدیث (The knowledge and the science of terminology of the hadeeth)سے ناواقفیت کی بین دلیل ہے،کیونکہ 'عنعنہ' کے ساتھ روایت شدہ حدیث اگر سند کی شرائط پر پوری اترتی ہوتووہ مقبول ہوتی ہے۔
4۔ حدیث کو رَد یا قبول کرنے کیلئے سمجھ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کہ علم مصطلح الحدیث کے اصول و فروع سے بھی آگاہی ہونی چاہئے، اس لئے آپ کے ساتھی کے مضمون کا جواب دینے سے پہلے چند اصولی باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں، اگر انھیں اس علم سے واقفیت ہو تو شاید وہ سمجھ پائیں گے۔
حدیث کے کچھ راوی ایسے ہیں جوبعض محدثین کے نزدیک ثقہ (بااعتماد) ہیں اور بعض کے نزدیک ثقہ نہیں، یابعض محدثین کے نزدیک مجہول ہوتے ہیں جبکہ بعض کے ہاں مشہور ہوتے ہیں ۔ اسی طرح کئی احادیث ایسی ہیں جو ایک سند سے تو صحیح نہیں ہوتی مگر دوسری سند کے ساتھ صحیح ہوتی ہیں۔ کچھ ایسی احادیث ہیں جو بعض محدثین کے نزدیک معتبر نہیں اور ان پر وہ طعن کرتے ہیں جبکہ بعض محدثین کے ہاں معتبر سمجھی جاتی ہیں اور ان کو حجت سمجھتے ہیں۔ کچھ ایسی احادیث بھی ہیں جن کومحدثین نے تو مطعون کیا ہے، لیکن عام فقہاء ان کوقبول کرتے ہیں اوران کو دلیل بناتے ہیں۔ تو کسی حدیث کوصحیح یا حسن سمجھ کر کسی ایک رائے یا تمام آراء کو لوگوں پر تھوپنا درست نہیں، یہ حدیث کے واقع کے خلاف ہے ۔ جو شخص فقہاء کے اجتہادات پر نظر ڈالے گاتو وہ دیکھے گا کہ ایک مجتہد کسی حدیث سے استدلال کرتا ہے جبکہ دوسرا اس کونہیں لیتا، کیونکہ وہی حدیث پہلے کے نزدیک صحیح اورقابل عمل ہوتی جبکہ دوسرے کے نزدیک نہیں...اس لئے حدیث پر طعن (تنقید) یا اس کی ردوقدح میں نہایت احتیاط، بصیرت، دقیقہ سنجی اور سوچ سمجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ حدیث کے رُواۃ اور احادیث کی جستجومیں مگن رہنے والا محدثین کے درمیان اس میں بہت زیادہ اختلاف پائے گا، اس کی بہت زیادہ مثالیں ملتی ہیں:
مثلاً: ((روى ابو داود عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ. يَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ، وَيُجِيرُ عَلَيْهِمْ أَقْصَاهُمْ، وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ يَرُدُّ مُشِدُّهُمْ عَلَى مُضْعِفِهِمْ، وَمُتَسَرِّيهِمْ عَلَى قَاعِدِهِم)) "ابوداؤد نے عمرو بن شعیب سے، اس نے اپنے والد سے، اس نےاپنے والد سے (یعنی عمرو کے دادا سے) روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمانوں کے خون برابر ہیں، ادنٰی مسلمان کسی کافر کو امن دے سکتا ہے اور اس کاپوراکرناضروری ہے۔ اسی طرح دورکامسلمان پناہ دے سکتاہے (اگرچہ اس سے نزدیک والاموجود ہو)، دوسروں کے مقابلے میں وہ ایک ہاتھ ہیں (اپنے مخالفین پرایک دوسرے کی مدد کریں) اورجس کی سواری تیزرفتارہووہ ان کے ساتھ رہے جس کی سواری کمزورہواورجب لشکرمیں سے کوئی ٹکڑی نکل کرمال غنیمت حاصل کرے توباقی لوگوں کوبھی اس میں شریک کرے"۔ توعمروبن شعیب جواس حدیث کاراوی ہے اور عن ابیہ عن جدہ میں مشہوربحثیں ہیں، لیکن اس کے باوجود اس کی حدیث کوبہت زیادہ لوگوں نے حجت مانا ہے ،جبکہ دوسروں نے اس کومسترد کردیاہے۔
یا جیسے دارقطنی ؒ نے حسن بن عبادہ اور انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ((مَا وُزِنَ مِثْلٌ بِمِثْلٍ إِذَا كَانَ نَوْعًا وَاحِدًا وَمَا كَيْلَ فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَإِذَا اخْتَلَفَ النَّوْعَانِ فَلَا بَأْسَ بِهِ)) "جہاں ایک قسم کی چیزوں کےدرمیان تبادلہ کیاجائے تووزن میں بھی یکسانیت ضروری ہوگی یاجوکسی خاص پیمانہ کے ساتھ تولے جائیں توبھی وزن میں برابری ضروری ہے اورجہاں دومختلف نوع ہوں وہاں برابری ضروری نہیں۔" اس حدیث کی سند میں ربیع بن صبیح ہے جس کوابوزرعہ نے ثقہ ماناہے اورایک گروہ نےاس کوضعیف قراردیاہے...اس لئے اگرکوئی اس حدیث سے یاکسی دوسری حدیث سے جس میں ربیع بن صبیح ہواستدلال کرے تو یہ شرعی دلیل سے استدلال ہوگا۔
اور جیسے احمد نے روایت کی ہے ((قال حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، مَوْلَى الْأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ، فَقَالَ: أَلَيْسَ يَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ قَالُوا: بَلَى. فَكَرِهَهُ. ورواه أبو داود بلفظ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّ زَيْدًا أَبَا عَيَّاشٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاص قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ عَنْ شِرَاءِ التَّمْرِ بِالرُّطَبِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ؟ قَالُوا نَعَمْ، فَنَهَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ)) "احمدؒ فرماتے ہیں کہ ہمیں ابن نمیر نے حدیث بیان کی، ان کومالک بن انس نے ان کوعبداللہ بن یزید مولیٰ الاسود بن سفیان نے ، وہ روایت کرتے ہیں ابی عیاش سے وہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے کہ: ایک مرتبہ کسی نے نبی ﷺ سے پوچھا کیا کہ تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنا جائز ہے؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: کیا تازہ کھجور کا خشک ہونے پر وزن گھٹ جاتا ہے، لوگوں نے عرض کیا، ایسا ہی ہے، اس پر آپﷺ نے اسے ناپسندیدہ قرار دیا۔ اسی حدیث کوابوداؤد نے یوں روایت کیاہے : ہمیں عبداللہ بن مسلمہ نے مالک سے عبداللہ بن یزید سے روایت کیا کہ زید ابو عیاش نے انہیں بتلایا: سعد بن ابی وقاص نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا جب آپﷺ سے تازہ کھجور کے بدلے خشک کھجور خریدنے کے بارےمیں پوچھا گیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایاکہ: کیا تازہ کھجور خشک ہونے پر کم رہ جاتی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ہاں، تو آپﷺ نے پوچھنے والے کواس سے منع کیا"۔
اس حدیث کو امام ترمذی نے صحیح کہا ہے اور ایک جماعت نے اس کی علت بیان کی ہے، جن میں سے طحاوی طبری ابن حزم اور عبدالحق ہیں۔ علت اس طرح بتائی ہے کہ اس کی سند میں زید ابو عیاش ہے جو کہ مجہول ہے ۔ تلخیص میں کہا ہے کہ اس کا جواب یہ ہے کہ دار قطنی نے زید کے بارے میں کہا: وہ ثقہ ہیں اور منذری نے کہا : ان سے دوثقہ راویوں نے روایت کی ہے اور مالک ؒ نے ان پر اعتماد کیا ہے باوجودیکہ وہ حدیث کی جانچ پرکھ میں حد درجہ متشدد ہیں۔ تو اگر کوئی اس حدیث کو دلیل بنائے یا زید ابو عیاش کی کسی دوسری حدیث سے استدلال کرے گا تو یہ شرعی دلیل کے ساتھ استدلال سمجھا جائے گا۔
اس بناپر متعلقہ دوسری روایات سے صرف ِنظر کرکے صرف ایک روایت سے حکم کومستنبط نہیں کیاجائے گا۔اورنہ ہی جرح وتعدیل میں تما م دیگر پہلوؤں کوچھوڑ کرفقط ایک ہی پہلوکولیناکافی ہوتاہے،بلکہ مسئلہ کےتمام پہلوؤں کومدنظر رکھناچاہئے۔
5۔ آئیے اب ان بعض پہلوؤں پر بحث کرتے ہیں جن کو مضمون والا نہ جان سکا یا جان بوجھ کر توجہ نہیں دی۔
طبری کی روایت پراس نے جووضاحت (commentary) لکھی ہے، اس میں 'ابو مخنف ' پر توجہ مرکوز رکھی ہے، لیکن ابی مخنف کے ساتھ اس روایت میں شریک راوی کو چھوڑ دیا ہے ، طبری کی روایت بتاتی ہے: ((حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ شبة، قال: حدثنا علي بن محمد، عن وَكِيعٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيِّ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عن قتادة، عن "شهر بن حوشب وابى مِخْنَفٍ"، عَنْ يُوسُفَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ وَمُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ وَيُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الأَوْدِيِّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّاب لَمَّا طُعِنَ... فَقَالَ..." )) "ہمیں عمر بن شبّہ نے، ان سے علی بن محمد نے حدیث بیان کی، وہ روایت کرتے ہیں وکیع سے، وہ اعمش سے، وہ ابراہیم اورمحمد بن عبداللہ الانصاری سے، وہ ابن ابی عروبہ سے، وہ قتادہ سے، وہ شہر بن حوشب اور ابو مخنف سے، وہ یوسف بن یزید سے، وہ عباس بن سہل اور مبارک بن فضالہ سے، وہ عبیداللہ بن عمر اور یونس بن اسحاق سے، وہ عمرو بن میمون الاَودِیّ سے کہ جب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کوزخمی کیا گیا...تو کہا...(الی آخرہ)"۔ تو مضمون میں ابو مخنف پر یہ کہہ کر توجہ مرکوز کئے رکھی کہ وہ ضعیف ہے، جب کہ شہر بن حوشب کو جو ابو مخنف کے ساتھ یوسف بن یزید سے اس روایت میں شریک ہے، کیونکہ قتادہ نے ابو مخنف اور شہر بن حوشب سے روایت کی ہے اور ان دونوں نے یوسف بن یزید سے کی ہے، مگر اس نے صرف ابو مخنف کو ذکر کیاہے ،اورشہر بن حوشب کاذکر اس لئے نہ کرسکا کہ اس کوایک جماعت نے ثقہ کہاہے۔
العجلی ؒ (متوفی 261ھ) نے اپنی کتاب "الثقات" میں کہاہے کہ : شہر بن حوشب شامی ثقہ تابعی ہیں۔
الہیثمی ؒ (متوفی807ھ ) نے شہر بن حوشب کے بارے میں "مجمع الزوائد ومنبع الفوائد" میں کئی مواضع پر بات کی ہے۔ ایک جگہ کہتے ہیں: شہر بن حوشب، اس کوثقہ کہاگیاہے۔ دوسری جگہ کہتے ہیں: شہربن حوشب، اس کے بارے میں اختلاف کیا گیا ہے، لیکن احمد، ابن معین، ابوزرعہ اور یعقوب بن شیبہ نے ان کو ثقہ کہا ہے، اسی طرح ایک اور جگہ کہتے ہیں: شہر بن حوشب، اس میں کلام کیاگیاہے، لیکن اس کوکئی لوگوں نے ثقہ کہاہے۔
ابن شاہین (متوفی385ھ) اپنی کتاب "تاريخ أسماء الثقات" میں کہتےہیں کہ شہر بن حوشب ثبت ہے، ایک اور روایت کے ذیل میں اس کے بارے میں کہتےہیں: شامی ہے، بصرہ آیا تھا، اشعریوں میں سے ہے اور ثقہ ہے۔
اس لئے قتادہ نے ابو مخنف اورشہر بن حوشب دونوں سے نقل کیا،صرف ابو مخنف سے نہیں، مگرمضمون والے نے شہر بن حوشب سے بے توجہی برتی کیونکہ اس کوبہت سے لوگوں نے ثقہ مانا ہے۔ یہ طبری کی روایت کے حوالے سے تھا۔

• ابن سعد کی طبقات میں روایت کی جہاں تک بات ہے تومضمون لکھنے والے نے طبقات کی ایک روایت کا ذکر کیا ہے جس میں سماک ہے۔
یہ روایت اس طرح ہے۔ ((قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ السَّهْمِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَاتِمُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ عَنْ سِمَاكٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ لَمَّا حُضِرَ قَالَ إِنْ أَسْتَخْلِفْ فَسُنَّةٌ وَإِلا أَسْتَخْلِفْ فَسُنَّةٌ. تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ولم يَسْتَخْلِفْ. وَتُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ فَاسْتَخْلَفَ..."، وقد ذكر صاحب المقالة أن سماك الذي وُصف "بالصدوق وقد تغير" لا يمكن اتصاله بعمر...)) "ہمیں عبداللہ بن بکرالسہمی نے حدیث بیان کی کہ ہمیں حاتم بن ابی صغیرہ نے سماک سے روایت کی کہ جب عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ وفات سےقریب ہوئے توفرمایا: اگرمیں کسی کواپناجانشین مقررکردوں توبھی سنت ہے نہ بھی کروں توبھی سنت ہے، آپ ﷺ کی وفات ا س حال میں ہوئی جب کہ کسی کو جانشین نہیں بنایا، ابوبکر کی وفات ہوئی تو اس نے اپنا جانشین بنالیا"۔ مضمون والے نے ذکر کیا ہے کہ سماک جس کو "صدوق وقد تغیر" کہا گیا ہے، کی ملاقات عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ناممکن ہے......
مگرابن حبان (المتوفی354ھ)نے اپنی کتاب "الثقات" میں سماک بن حرب کے بارے میں کہاہے : سماک بن حرب البکری کوفہ والوں میں سے ہے۔ ان سے الثوری اور شعبہ روایت کرتے ہیں، حماد بن سلمہ یہ کہتا تھا کہ سماک بن حرب نے کہا: میں نے نبیﷺ کے اسی ّ صحابہ کو پایا۔ سماک، ہشام بن عبد الملک کے دور میں جب کہ اس نے یوسف بن عمر کو عراق کا والی بنایا، وفات پا گیا۔ یہ سماک بن حرب بن اوس بن خالد بن نزار بن معاویہ بن عامر بن ذھل ہے۔
اسی طرح ابن شاہین اپنی کتاب "تاريخ أسماء الثقات" میں کہتےہیں کہ: سماک بن حرب (ثقہ )نے کہا: ہمیں عبداللہ بن محمد البغوی نے کہا: ہمیں محمد بن غیلان نے کہا: ہمیں مؤمل نے کہا وہ سلمہ سے وہ سماک بن حرب سے روایت کرتے ہیں کہ : میں نے نبیﷺ کے اسی ّ اصحاب کوپایا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سماک نے اسی صحابہ کو پایا یہ تعداد اتنی ہے کہ اگر عمر سے ان کی ملاقات نہ بھی ہوئی ہو تو کسی ایسے صحابی سے ضرورہوئی ہے جوعمر رضی اللہ عنہ سے نقل کرتا ہو اور یہ واضح ہے کہ کسی صحابی کا سند میں سے ساقط ہونے سے حدیث کی سند کی صحت پر کوئی اثرنہیں پڑتا۔

• اس کے ساتھ ابن سعد نے اس حوالے سے اور بھی روایات ذکر کی ہیں جن کے اندر سماک موجود نہیں، انہی روایات میں سے ایک روایت یہ ہے :
((قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلَ بْنِ يُونُسَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ: شَهِدْتُ عُمَرَ يَوْمَ طُعِنَ... ثُمَّ قَالَ: ادْعُوا لِي عَلِيًّا وَعُثْمَانَ وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ وَسَعْدًا... ثُمَّ قَالَ: ادْعُوا لِي صُهَيْبًا. فَدُعِيَ فَقَالَ: صَلِّ بِالنَّاسِ ثَلاثًا وَلْيَخْلُ هَؤُلاءِ الْقَوْمُ فِي بَيْتٍ فَإِذَا اجْتَمَعُوا عَلَى رَجُلٍ فَمَنْ خَالَفَهُمْ فَاضْرِبُوا رَأْسَهُ...)) "ہمیں عبید اللہ بن موسیٰ نے بتایا وہ کہتے ہیں، ہمیں اسرائیل بن یونس نے اسحاق سے عمرو بن میمون سے روایت کی وہ کہتے ہیں : جس دن عمر رضی اللہ عنہ کوزخمی کیا گیا میں اس کے پاس آیا ...پھرکہا : میرے لئے علی، عثمان، طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد کو بلا لاؤ...پھر کہا صہیب کو بلاؤ، وہ آیاتوان سے کہا کہ تین دن لوگوں کو آپ نماز پڑھائیں گے اور یہ لوگ کسی گھر میں یکسو ہو جائیں جب ان کا کسی آدمی پراتفاق ہو جائے تو جو کوئی ان کی مخالفت کرے اس کی گردن اُڑادو"۔
عمرو بن میمون نبیﷺ کے عہد مبارک میں مسلمان ہوئےتھے اور سو حج کئے تھے جبکہ ایک قول کے مطابق ستر حج کئے۔اس نے اپنی زکوٰۃ آپﷺ کو ادا کی، جیسا کہ اسد الغابہ میں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے زخمی ہوجانے کے وقت موجودتھے۔
((قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: أَرْسَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى أَبِي طَلْحَةَ الأَنْصَارِيِّ قُبَيْلَ أَنْ يَمُوتَ بِسَاعَةٍ فَقَالَ: يَا أبا طلحة كن في خمسين من قومك مِنَ الأَنْصَارِ مَعَ هَؤُلاءِ النَّفَرِ أَصْحَابِ الشُّورَى فَإِنَّهُمْ فِيمَا أَحْسِبُ سَيَجْتَمِعُونَ فِي بَيْتِ أَحَدِهِمْ. فَقُمْ عَلَى ذَلِكَ الْبَابِ بِأَصْحَابِكَ فَلا تَتْرُكْ أَحَدًا يَدْخُلُ عَلَيْهِمْ وَلا تَتْرُكْهُمْ يمضي اليوم الثالث حتى يؤمروا أحدهم. اللهم أَنْتَ خَلِيفَتِي عَلَيْهِمْ)) "ہم سےمحمد بن عمرنے کہا: مجھے محمدبن موسی ٰ نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے انس بن مالک سے، اس نے کہا: عمر بن الخطاب نے ابو طلحہ انصاری کو اپنی وفات سے کچھ دیر پہلے پیغام بھیجوایا: اے ابو طلحہ تم اپنی انصار کی قوم میں سے پچاس آدمیوں یعنی اہل شوریٰ کے لوگوں کو ساتھ لے کر آؤ، میرا خیال ہے کہ یہ لوگ کسی گھر میں اکٹھے ہونے والے ہیں تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس دروازے پر کھڑے ہو جانا، کسی کو اندر نہیں آنے دینا اور ان لوگوں کوتیسرے دن سے پہلے باہرنہ آنے دو یہاں تک کہ وہ کسی کو امیر منتخب کرلیں ۔ اے اللہ توہی میرے بعد ان کا نگہبان ہو"۔
((قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ عَنْ أَبِي الْحُوَيْرِثِ قَالَ: قَالَ عُمَرُ فِيمَا أَوْصَى بِهِ: فَإِنْ قُبِضْتُ فَلْيُصَلِّ لَكُمْ صُهَيْبٌ. ثَلاثًا. ثُمَّ أَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ فَبَايِعُوا أَحَدَكُمْ...)) "ہمیں محمد بن عمر نے بتایا وہ کہتے ہیں مجھے موسیٰ بن یعقوب نے ابو الحوریث سے بیان کیا اس نے کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی وصیت میں کہا کہ : اگر میری روح قبض کرلی جاتی ہے تو صہیب تمہیں تین دن جماعت کرائے، پھر سب اکٹھے ہو کر اپنے میں سے کسی ایک کوبیعت دیدو"۔
ان روایات سے واضح ہے کہ ابن سعد نے کئی روایات نقل کی ہیں، مگرمضمون والے نے اس روایت پرجس میں سماک ہے شبہ اٹھایا، باقی سب کو چھوڑ دیا۔ یہ ا س بات کی دلیل ہے کہ اسے حق تک رسائی کی کوئی فکر نہیں بلکہ اہل حق کو تشویش میں ڈالنا چاہتا ہے، اگرچہ وہ ایسا نہیں کر پائے گا۔

• اس سب کے علاوہ دیگر روایات بھی ہیں جو ابن شبّہ نے اپنی کتاب 'تاریخ المدينة ' میں محفوظ کیں ہیں۔ میں یہاں تین روایات نقل کرنے پر اکتفاء کرتا ہوں۔
((حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْعُلَيْمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَوْلًى لِآلِ ابْنِ عَفَّانَ: أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَمَرَ صُهَيْبًا أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ ثَلَاثًا، وَقَالَ: لَا يَأْتِينَّ عَلَيْكُمْ ثَالِثَةٌ، أَوْ لَا يَخْلُوَنَّ عَلَيْكُمْ ثَالِثَةٌ حَتَّى تُبَايِعُوا لِأَحَدِكُمْ، يَعْنِي أَهْلَ الشُّورَى، ثُمَّ اتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكِمْ، وَلَا تُشَاقُّوا وَلَا تُنَازِعُوا وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْأَمِيرَ۔۔۔)) "ابوبکر العُلیمی نے حدیث بیان کی ان کو النضر بن شمیل نے ان کو ابن المبارک نے ان سے آل ابن عفان کے آزاد کردہ ایک غلام نے کہ: عمر رضی اللہ عنہ نے صہیب کو حکم کیا کہ وہ تین دن لوگوں کونماز پڑھائے اور کہا کہ: تمہارے اوپرتیسری رات نہ آئے یا یہ کہا تمہارے اوپرتیسری رات ایسی نہ گزرے یہاں تک کہ تم کسی ایک شخص کو بیعت دیدو، یہ اہل شوریٰ سے کہا، پھر کہا کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور آپس کے تعلقات اچھی طرح نبھاؤ، آپس میں اختلاف مت کرنا، ایک دوسرے کے ساتھ نزاع مت کرنا، اللہ، اس کے رسول اورامیر کی اطاعت کرو..."
((حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، وَعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَا قَالَ: عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ طُعِنَ: لِيُصَلِّ بِكُمْ صُهَيْبٌ ثَلَاثًا، وَلْتُنْظِرُوا طَلْحَةَ، فَإِنْ جَاءَ إِلَى ذَلِكَ، وَإِلَّا فَانْظُرُوا فِي أَمْرِكُمْ، فَإِنَّ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُتْرَكُ فَوْقَ ثَلَاث سُدًى)) "ہمیں حبان بن بشیر نے روایت بیان کی، وہ کہتے ہمیں یحییٰ بن آدم نے ہمیں ابن ادریس نے طلحہ بن یحییٰ بن طلحہ سے، عیسیٰ بن طلحہ اور عروہ بن الزبیر سے، ان دونوں نے کہا کہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے، جب ان کو زخمی کیا گیا، کہا : تمہیں صہیب تین دن نمازپڑھائے اور طلحہ کوغور و فکر کا موقع دیدو، اگر وہ آئے تو ٹھیک ہے ورنہ اپنے معاملے میں سوچو، کیونکہ امت محمدیہﷺ کو تین دن سے یوں ہی بے کار نہیں چھوڑا جاتا۔
((وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ: أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ غُسِّلَ وَكُفِّنَ وَصُلِّيَ عَلَيْهِ، وَكَانَ شَهِيدًا، وَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ :إِذَا مِتُّ فَتَرَبَّصُوا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، وَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ صُهَيْبٌ، وَلَا يَأْتِيَنَّ الْيَوْمُ الرَّابِعُ إِلَّا وَعَلَيْكُمْ أَمِيرٌ مِنْكُمْ، وَيَحْضُرُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ مُشِيرًا، وَلَا شَيْءَ لَهُ فِي الْأَمْرِ، وَطَلْحَةُ شَرِيكُكُمْ فِي الْأَمْرِ، فَإِنْ قَدِمَ فِي الْأَيَّامِ الثَّلَاثَةِ فَأَحْضِرُوهُ أَمْرَكُمْ، وَإِنْ مَضَتِ الْأَيَّامُ الثَّلَاثَةُ قَبْلَ قُدُومِهِ فَاقْضُوا أَمْرَكُمْ......وَقَالَ لِلْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ :إِذَا وَضَعْتُمُونِي فِي حُفْرَتِي فَاجْمَعْ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ فِي بَيْتٍ حَتَّى يَخْتَارُوا رَجُلًا مِنْهُمْ ، وَقَالَ لِصُهَيْب :صَلِّ بِالنَّاسِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، وَأَدْخِلْ عَلِيًّا وَعُثْمَانَ وَالزُّبَيْرَ وَسَعْدًا وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ وَطَلْحَةَ إِنْ قَدِمَ، وَأَحْضِرْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، وَلَا شَيْءَ لَهُ مِنَ الْأَمْرِ، وَقُمْ عَلَى رُءُوسِهِمْ، فَإِنِ اجْتَمَعَ خَمْسَةٌ وَرَضُوا رَجُلًا وَأَبَى وَاحِدٌ فَاشْدَخْ رَأْسَهُ أَوِ اضْرِبْ رَأْسَهُ بِالسَّيْفِ، وَإِنِ اتَّفَقَ أَرْبَعَةٌ فَرَضُوا رَجُلًا مِنْهُمْ وَأَبَى اثْنَانِ فَاضْرِبْ رُءُوسُهُمَا، فَإِنْ رَضِيَ ثَلَاثَةٌ رَجُلًا مِنْهُمْ وَثَلَاثَةٌ رَجُلًا مِنْهُمْ فَحَكِّمُوا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ حَكَمَ لَهُ فَلْيَخْتَارُوا رَجُلًا مِنْهُمْ، فَإِنْ لَمْ يَرْضَوْا بِحُكْمِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فَكُونُوا مَعَ الَّذِينَ فِيهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَاقْتُلُوا الْبَاقِينَ إِنْ رَغِبُوا عَمَّا اجْتَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسُ...)) "ہمیں محمد نے حدیث بیان کی وہ کہتے ہیں ہمیں موسیٰ بن عقبہ نے ، ہمیں نافع نے بیان کیا کہ اسے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بتایاکہ عمر رضی اللہ عنہ کی تجہیز و تکفین کی گئی، اس کی نماز جنازہ پڑھی گئی اسے شہید کیا گیا تھا، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ: جب میں مر جاؤں تو تین دن انتظار کرو، صہیب لوگوں کوجماعت کرائے ، چوتھا دن ایسا نہ آئے کہ تمہارا امیر نہ ہو جو تم ہی میں سے ہو، عبداللہ بن عمر بطور مشیر آئے گا، اس کے علاوہ اس معاملے میں اس کاکوئی عمل دخل نہیں ہوگا،طلحہ اس میں شریک ہوگا اگر وہ ان تین دنوں کے اندر آیا تو اس کو اس میں شامل کر دو، اگر و ہ تین دن گزر جانے کے بعد آئے تو اپنے معاملے (امیر کے انتخاب ) کا خود فیصلہ کرو...اور مقداد بن الاسود سے کہا: جب تم لوگ مجھے اپنی قبر میں رکھ دو تواس جماعت کو کسی گھر میں اکٹھا کرو تاکہ وہ تم میں سے کسی کو چن لیں اورصہیب سے کہا: لوگوں کو تین دن نماز پڑھاؤ، علی، عثمان، زبیر، سعد اورعبدالرحمٰن بن عوف کو بلا لاؤ اور طلحہ کو بھی شامل کر لو اگر وہ آجائے، عبداللہ بن عمر کو ساتھ ملاؤ مگر ان کا حکومت کے معاملے میں کوئی عمل دخل نہیں ہوگا اور آپ ان کی نگرانی کریں، اگر (ان چھ میں سے) پانچ کا کسی ایک آدمی پر اتفاق ہو جائے اور ایک ان میں سے اختلاف کرے تو اس کا سر توڑ دو یا یہ کہا کہ اس کی گردن تلوارسے مار دو، اگر چار کا ایک شخص پر اتفاق ہو جائے دو اختلاف کریں تو ان دونوں کا سر مار دو، اگر تین آدمی ایک طرف ہوں اورتین دوسری طرف تو عبداللہ بن عمر کو حکم بناؤ وہ جس فریق کے بارے میں فیصلہ کرے تو وہ اپنے میں ایک آدمی کو منتخب کریں، اگر وہ عبداللہ بن عمر کے فیصلے سے ناخوش ہوں تو اس فریق کے ساتھ ہو جانا جس میں عبدالرحمٰن بن عوف ہو باقی حضرات اگر پھر بھی اختلاف کریں تو ان کو قتل کرو"۔

• پھر تین دن کی مہلت روایات میں مجمل ذکر کی گئی ہے، یعنی مخالف کے قتل کا ذکر نہیں،مثلاً "وہ لوگوں کوتین دن نماز پڑھائے " یا "تمہارے اوپر تیسری رات نہ آئے "، "کسی ایک کوبیعت کئے بغیرتیسرا دن نہیں گزرنا چاہئے "، "صہیب تین دن تمہیں نماز پڑھائے "، "ان پرتیسرا دن ایسا نہ گزرنے دے کہ وہ کسی کو اپنا امیر نہ بنا چکے ہوں"، "صہیب تمہیں تین دن نماز پڑھائے پھر تم سب اکٹھے ہو کر کسی ایک کو بیعت دیدو" جب کہ کچھ روایات مخالف کے قتل کے بارے میں تفصیلات بتاتی ہیں جیسے "لوگوں کوتین دن نماز پڑھاؤ ...جب وہ کسی آدمی کوچن لیں تو جو اختلاف کرے اس کو قتل کر دو"...وغیرہ ۔
اس سے پتہ چلا کہ مخالف کے قتل کے حوالے سے کچھ روایات مجمل ہیں کچھ مفصل، اب کیاوجہ ہے کہ مضمون والے نے صرف قتل کی روایات پر توجہ مرکوز کئے رکھی اورجن روایات میں قتل کا ذکر نہیں ان کو چھوڑ دیا؟ وہ یہی چاہتا ہے کہ قتل کے موضوع کو اچھالے تاکہ اس کی رائے کو ایک جذباتی قبولیت ملے، تاہم مخالف کے قتل کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ کی بات بہت زیادہ لوگوں کی موجود گی میں کی گئی جو اس بات کی دلیل ہے کہ تین دن انتہائی اہمیت کا حامل امرہے۔

• اس بنا پر مضمون لکھنے والا اور اس کا ٹولہ جیسا کہ لگتا ہے، ان کا مقصد حق کو پہچاننا اور اس پرعمل کرنا نہیں بلکہ یہ کہ اہل حق کے درمیان انتشار پھیلایا جائے اور اس عظیم فرض کی ادائیگی میں، جس کو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہﷺ کی تدفین پرمقدم کیا، اپنی کوتاہی اور بزدلی کیلئے ایک بہانہ تراش لیں ۔
مضمون کے آخر میں یہ جو کہا ہے کہ "یہ کس طرح ممکن ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کبار صحابہ کو قتل کر دینے کا حکم کریں...اورکیسے ممکن ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ ایسی بات کریں حالانکہ وہ جانتے تھے کہ یہ لوگ نبی کریمﷺ کے چیدہ صحابہ ہیں" وغیرہ وغیرہ۔۔۔ توبھئی احکام شرعیہ دلائل سے اخذ کئے جاتے ہیں نہ کہ اپنی خواہش یا فرضی باتوں سے۔
جو شخص ہماری پیش کردہ باتوں میں غور و فکر کرے گا، اس کوسمجھے گا تو وہ حق کا راستہ پا لے گا، انشاء اللہ۔ اور جو اپنے تکبر کی وجہ سے غلطی پر جما رہے اور یہی کہتا رہے کہ میں تونہیں سمجھا اور اس طرح کے مضمون لکھتا رہے تو ایسے آدمی کو جواب دینا عبث ہے اسے اس سے کچھ بھی فائدہ نہیں ہوگا، اس کو اللہ کے سپرد کریں گے،اللہ عزّوجل ہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتاہے۔
آپ کا بھائی
عطاء بن خلیل ابوالرشتہ
15شعبان 1434ھ
24جون 2013م


Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک