الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

''سبقت لے جانے والے لوگ''

 

تحریر: مصعب عمیر، پاکستان

دنیا اس وقت ایک عظیم تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے کیونکہ کفر اور اسلام کے درمیان کشمکش اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ کفر اور اس کے لوگوں کا   غرور و تکبر  بہت پکا ہوچکا ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ابتدائی ایگزیکیٹو احکام نے  امریکہ کی مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ  کو ثابت اور مزید  مستحکم بھی کیا ہے۔ جہاں تک مسلم دنیا پر حکمرانی کرنے والے امریکی ایجنٹوں کا تعلق ہے، تو انہوں نے امریکہ کی ہی پیروی کی اور اسلام کو بزور قوت کچلنے کے اپنے عزم کا  اعادہ کیا۔ لیکن اس بات کا بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ مسلمانوں نے ظلم و جبر کے سامنے جھکنے کی جگہ رہنمائی اور مدد کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب رجوع کیا ہے ۔ جیسے جیسے دشمن آگے بڑھ رہے ہیں ویسے ویسے مسلمانوں میں اپنے امور سے متعلق آگاہی اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ  اور اس کے رسول ﷺ سے وفاداری بھی بڑھ رہی ہے جس کو پوری مسلم دنیا  اور باقی دنیا  میں بھی  محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اور جبکہ دنیا اس کشمکش کے نتیجے کا انتظار کررہی ہے، تو اس صورتحال میں  ہمارے کندھوں  پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہمیں اپنا سختی سے محاسبہ کرنا ہے اور دیکھنا ہے کہ اس کشمکش میں ہمارا کتنا حصہ ہے تا کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کے عبادت گزار اور  برگزیدہ بندوں کی پہلی صف میں ہمارا شمار ہو اور اس کشمکش کا نتیجہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں سامنے آئے۔     

 

اے مسلمانو! ا ِس وقت اور اِس موقع پر ہمارے کندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری ہے۔  ہمیں اسلامی ریاستِ خلافت کے ذریعے کتاب اللہ کے مطابق حکومت کو دوبارہ قائم کرنا ہے۔  نہ صرف اِس ریاست کا قیام ہم پر لازم ہے جوکسی بھی ایسی ریاست ہی کی طرح کی ہوگی جِسے جدید دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہے، بلکہ مزید برآں یہ ریاست فقط عثمانی خلافت  جیسی صرف کوئی ریاستِ خلافت  نہیں ہوگی بلکہ یہ نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت  ہوگی جو اللہ کے حکم سے ظالم حکمرانوں کی حکمرانی ہمیشہ کے لیے ختم کردے گی۔  جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

 

يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ

'' پھرجابرانہ حکومت کا دور ہو گا جو(اس وقت تک) رہے گا جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ اسے ختم کرنا چاہے گا تو اسے ختم کر دے گا ۔  پھرنبوت کے نقشِ قدم پر خلافت  قائم ہو گی۔پھر آپ ﷺ خاموش ہوگئے"۔

 

اے مسلمانو! اللہ کے رسول ﷺ نے یہ خوشخبری دی تھی کہ جب خلافت دوبارہ لوٹے گی تو یہ پہلی خلافت  ، جو نبوت کے نقشِ قدم پر تھی، کی طرح ہی ہوگی، یعنی یہ ابو بکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہ کی خلافت  کے طرح ہی ہوگی۔  چنانچہ ایسی اعلیٰ پائے کی خلافت  کے لیے اعلیٰ اقدار کے حامل افراد کی ضرورت ہے جووالی، مجلس شوریٰ کے اراکین، افواج کے کمانڈرز، قاضی اور اِس جیسی دوسری ذمہ داریوں کواپنے کندھوں پر اٹھا سکیں۔  لیکن یہ سب ہمارے دور میں کیسے ممکن ہے؟ کیونکہ ہماری موجودہ نسل رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی طرح نہیں ہے وہ اصحاب جو سب سے بہتر تھے۔  رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:خَيرُ القُرُونِ قَرنِي "سب سے بہتر دور میرا دور ہے"۔یہاں ہمیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ان الفاظ پر یقین کرنا چاہیے کہ ہماری موجودہ نسل میں بھی کچھ ، اگر چہ پہلوں کے مقابلے میں بہت ہی کم ، مگر ایسے لوگ  ہونگے جو بھلائی میں سبقت لے جانے والے ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

وَالسَّـبِقُونَ السَّـبِقُونَ- أُوْلَـئِكَ الْمُقَرَّبُونَ-فِى جَنَّـتِ النَّعِيمِ-ثُلَّةٌ مِّنَ الاٌّوَّلِينَ -وَقَلِيلٌ مِّنَ الاٌّخِرِينَ

"سبقت لے جانے والے تو سبقت لے جانے والے ہیں۔  وہی تو مقرب لوگ ہیں۔  نعمت بھری جنتوں میں رہیں گے۔اگلوں میں سے بہت ہونگے اور پچھلوں میں سے کم"(الواقع:14-10)

 

اے مسلمانو! یہ سبقت لے جانے والے کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو دا ہنی طرف کے لوگوں یعنی جنت کے مکینوں میں سے اعلیٰ مرتبہ و مقام کے حامل اور اللہ کے سب سے زیادہ نزدیک ہونگے ۔  یہ داہنی طرف کے لوگوں کے سردارہیں ،اِن لوگوں میں رسول، نبی، سچے مومنین اور شہداء شامل ہونگے۔  یہ جنت کے بلند ترین مقاموں کے مکین ہونگے۔  سبقت لے جانے والے کا مطلب ہے کہ وہ نیک اعمال کرنے والوں میں سبقت لے جانے والے تھے۔  جیسا کہ اللہ سبحانہ و  تعالیٰ نے اُنہیں حکم دیا :

 

وَسَارِعُواْإِلَىمَغْفِرَةٍمِّنرَّبِّكُمْوَجَنَّةٍعَرْضُهَاالسَّمَـوَتُوَالاٌّرْضُ

"لپکو اُس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے"(آل عمران:133)،

 

 

سَابِقُواْإِلَىمَغْفِرَةٍمِّنرَّبِّكُمْوَجَنَّةٍعَرْضُهَاكَعَرْضِالسَّمَآءِوَالاٌّرْضِ

"دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان وزمین جیسی ہے"(الحدید:21)۔

 

چنانچہ وہ لوگ جو اِس دنیا میں اللہ سبحانہ و  تعالیٰ کی تابعداری کی طرف جلد ی کرتے ہیں اور نیک اعمال سرانجام دینے میں سبقت لے جاتے ہیں، وہ سبقت لے جانے والے مومنین کے ساتھ ہونگے، آخرت کے روز عزت سے نوازے جائیں گے اور اِس زندگی میں اللہ کی طرف سے فتح ونصرت کے وعدے کے حق دار ہونگے۔

 

اے مسلمانو! ہمیں اسلام کے آغاز کے وقت کے داعیوں کے طرح داعی ہونا چاہیے، پس جو چاہتا ہے کہ وہ سبقت لے جانے والوں میں شمار کیا جائے اُسے دعوت کے رستے میں آنے والی مشقتوں کو اٹھانا ہے اور اللہ کے رستے میں جہاد اور شہادت کی راہ کو اپنانا ہے۔  یہی وہ لوگ ہونگے جو لوگوں کے درمیان ہدایت کو پھیلائیں گے، ظالموں کے قلعوں کو ملیا میٹ کریں گے، لوگوں کی گردنوں کو کفر قوانین کے طوق سے آزاد کرائیں گے اور دین کے نفاذ کو یقینی بنائیں گے۔   کیا ہم یہ نہیں دیکھتے کہ مسلمان حاملین دعوت کے چھوٹے چھوٹے لشکروں کے لیے شاید یہ ممکن نہ تھا کہ وہ فقط اپنے بل بوتے پراِن وسیع وعریض علاقوں کو آزاد کراسکتے اور انہیں دارالکفر سے دارالاسلام میں تبدیل کرسکتے اور وہاں کے لوگوں کو کافر سے مسلمان بنادیتے۔  بلکہ یہ اُن کا پختہ ایمان اور اخلاص ہی تھا کہ جس نے اُنہیں اللہ سبحانہ و  تعالیٰ کی مدد کا حقدار بنا دیا، ایک ایسی مدد جس نے اُن کے وسائل اور صلاحیتوں کو کئی گنا بڑھا دیا ، یہاں تک کہ کفار بھی یہ محسوس کرتے تھے کہ اِن مسلمانوں کو غیب سے مدد مل رہی ہے۔

 

حاملِ دعوت اسلام کی طرف دعوت کے فریضے کو تمام فرائض پرترجیح دینے کے اللہ کے حکم کو اپنے دل ودماغ میں بٹھالیتا ہے ، اِس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ وہ دوسرے فرائض سے غفلت نہ برتے۔  اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

قُلْ إِن كَانَ ءَابَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَنُكُمْ وَأَزْوَجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَلٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَـرَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَـكِنُ تَرْضَوْنَهَآ أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِىَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لاَ يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَـسِقِينَ

"(اے نبی) کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیزواقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرویہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا''  (التوبہ:24)۔

 

 پس اگرچہ یہ سچ ہے کہ ایک مسلمان پر اُس کے والدین، بیوی بچوں، بھائیوں، رشتے داروں ، اُس کی تجارت اور مال ودولت سے متعلق اللہ سبحانہ تعالیٰ کی جانب سے فرائض عائد ہیں، چنانچہ وہ اُن کے لیے وقت نکالے گا اور اُن کے لیے محنت  کرے گا، اِس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ وہ اُن سے غفلت نہ برتتے ہوئے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے لیے جتنا ممکن ہے وقت نکالے گا۔

 

اے مسلمانو! آج کا حامل دعوت بھی ماضی کے حامل دعوت کی طرح بننے کا متمنی ہے۔  اُس کے پاس بھی وہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اسلامی سرزمینوں میں اسلام کی حکومت کا احیاء کرسکے اور اور اسلام کی دعوت کو پوری دنیا کی طرف لے کر جاسکے۔  چنانچہ یہ یاد رکھیں کہ ماضی میں ایک حامل دعوت اسلام کے افکار کے تحت ہی زندگی گزارتا تھا ، وہ صرف اسلام کی خاطر زندہ رہنا چاہتا تھا اور وہ کبھی دعوت کی ذمہ داریوں کو ادا کیے بغیر مطمئن ہوکر نہیں بیٹھا۔  اسے اس وقت تک اطمینان نہیں ہوتا جب تک وہ اُنہیں انجام نہ دے لے۔  اس نے کسی تجارتی یا گھریلو بندھن کواپنی دعوت پر حاوی نہیں ہونے دیا، بالکل اُسی طرح جیسے اُس نے اِن بندھنوں کو اللہ کی یاد پر کبھی حاوی نہیں ہونے دیا۔  اُن حاملین دعوت نے اپنا گھر بار چھوڑ کر افریقہ،انڈونیشیا، چین اور جاپان جیسے ملکوں کے تجارتی سفر کئے، اور ہمیشہ اسلام کی دعوت کو مادی تجارت سے آگے رکھا، لاکھوں لوگوں کو اسلام کی راہِ ہدایت دکھائی اور تجارتی فائدے کے ساتھ ساتھ اللہ کی خوشنودی کو حاصل کیا۔  اُن کے نزدیک آخرت میں جنت کی خوشیوں، کہ جس کا وعدہ اللہ سبحانہ و  تعالیٰ نے کیا ہے ،اور وہاں کے ساتھیوں کے مقابلے میں خونی رشتے اور دنیاوی فائدے سب بے وقعت تھے۔

 

آئیے اُن لوگوں کو یاد کریں جنہوں نے سب سے پہلے نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کو قائم کیا تھا، وہ لوگ جو روئے زمین پر سب لوگوں سے بہتر تھے اور جن کی وجہ سے قرآن کی آیات نازل ہوئیں۔اے مسلمان! ابو عبیدہ الجراح  کے اُس وقت کو یاد کریں جب اُنہیں اسلام اور اپنے خونی رشتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔  الحافظ البہقی روایت کرتے ہیں کہ بدرکے موقع پر ابو عبیدہ بن الجراح کے سامنے اُن کا والد مسلسل اپنے بتوں کی تعریف کررہا تھااور ابو عبیدہ اُسے نظرانداز کررہے تھے۔  جب اُن کے والد نے بار بار اُن الفاظ کو دہرایا تو ابو عبیدہ اُس کی طرف لپکے اور اُسے قتل کردیا۔  اِس موقع پر اللہ سبحانہ و  تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

 

لاَّ تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الاٌّخِرِ يُوَآدُّونَ مَنْ حَآدَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ

"اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دین پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہر گز نہ پائیں گے"(المجادلہ:22)

 

اے مسلمانو! سعد بن ابی وقاص   رضہ اللہ عنہ کی مثال کو یاد کریں۔  جو فرماتے ہیں کہ یہ آیت اُن کے متعلق نازل ہوئی ہے:

 

وَإِن جَـهَدَاكَ عَلَى أَن تُشْرِكَ بِى مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلاَ تُطِعْهُمَا

"لیکن اگر وہ  دونوں تجھ پر اس بات کا  دباؤ ڈالیں کہ تو  میرے ساتھ  شریک کرے ، تو ان کا کہنا نہ ماننا"(لقمان:15)

 

۔سعد فرماتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کی بہت عزت کرتا تھالیکن جب میں مسلمان ہوگیا تو میری والدہ نے مجھے کہا کہ"اے سعد ! یہ نئی چیز کیا ہے؟  میں یا تو تمہیں اپنا یہ دین(یعنی اسلام) چھوڑتے ہوئے دیکھوں یا پھر میں نہ کچھ کھاؤ گی اور نہ کچھ پیئوں گی یہاں تک کہ مجھے موت آلے اور لوگ یہ کہیں گے کہ تمہیں اپنی ماں کے ساتھ کئے جانے والے عمل پر شرم آنی چاہیے اور وہ یہ بھی کہیں گے کہ تم نے اپنی ماں کو قتل کردیا" ۔ اِس پر میں نے کہا کہ "اے والدہ محترمہ ایسا نہ کریں کیونکہ میں کسی صورت اپنا یہ دین نہیں چھوڑوں گا"۔   وہ ایک دن اور ایک رات بغیر کھائے پیئے رہیں یہاں تک کہ بھوک پیاس سے نڈھال ہوگئیں، مگر اگلے دن اور اگلی رات پھر بھوکی پیاسی رہیں اور اُن کی حالت انتہائی بُری ہوگئی۔  جب میں نے ایسا دیکھا تو میں نے کہا کہ ''اے والدہ محترمہ اللہ کی قسم ! اگر آپ کے پاس ایک سو زندگیاں ہوں اور وہ ایک ایک کرکے ختم ہوتی جائیں، میں پھر بھی کسی صورت اپنے اِس دین کو نہیں چھوڑوں گاچنانچہ آپ کی مرضی ہے کھا ئیں  یا نہ کھائیں۔  اِس پر انہوں نے کھانا کھا لیا"۔

 

اے مسلمانو!  صہیب ابن سنان الرومی رضی اللہ عنہ  کی مثال کو یا دکریں کہ جن کے متعلق اللہ سبحانہ و  تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

 

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ

"اور بعض لوگ وہ بھی ہیں کہ اللہ کی رضا مندی کی طلب میں اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں"(البقرۃ:207)۔

 

ابنِ عباس، انس، سعد بن مسیب، ابو عثمان النہدی، عکرمہ اور کئی دوسرے علماء نے کہا ہے کہ یہ آیت صہیب بن سنان الرومی کے متعلق ہی نازل ہوئی ہے۔  جب صہیب مکہ میں مسلمان ہوگئے اور اُنہوں نے ہجرت کا ارادہ کیاتو قریش کے لوگوں نے انہیں اپنی دولت کے ساتھ ہجرت کرنے سے روک دیا۔  یہ وہ دولت تھی جِسے اُنہوں نے کئی سال کی محنت کے بعد جمع کیا تھا۔  قریش کے لوگوں نے کہا کہ اگر وہ اپنی دولت چھوڑدے تو وہ انہیں ہجرت کرنے دیں گے۔  صہیب نے اپنی دولت چھوڑدی اور ہجرت کو ترجیح دی، اِس پر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی۔  عمر بن خطاب اور کئی دوسرے صحابہ صہیب کو مدینہ کے نزدیک الحرہ کے مقام پر ملے تو اُنہوں نے صہیب سے کہاکہ"آپ کی تجارت کامیاب رہی'' اِس پر صہیب نے جواب دیاکہ ''آپ کی بھی، اللہ کرے کہ آپ کی تجارت بھی ناکامی سے دوچار نہ ہو۔  لیکن معاملہ کیا ہے؟"  عمر  نے اُن سے کہا کہ اللہ سبحانہ و  تعالیٰ نے اُن سے متعلق یہ آیت نازل کی ہے۔  یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ رَبِحَ البَيْعُ أَبَا يَحْيَى "اے ابو یحیی (صہیب)! تمہاری تجارت کامیاب رہی"۔

 

اے مسلمانو!  اللہ اور اُس کے رسول کے کام کو ہمیشہ ترجیح دینے کا یہ فیصلہ کوئی سالانہ یا ماہانہ اور پھر ہفتہ وار بنیادوں پر نہیں ہوا کرتا بلکہ اسے تو روزانہ، ہر گھنٹے اور ہر لمحے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔  ایک حامل دعوت اُس عظیم اَجر سے آگاہ ہوتا ہے جودعوت کے کاموں کے پھیلاؤ اور اُس کی حفاظت کے صلےمیں ملتا ہے۔  وہ یہ سوچ کر کانپ اُٹھتا ہے کہ اگر غفلت برتی گئی اور دنیا کی خاطر وہ راہِ راست سے ہٹ گیا تو اُس کے اور اِ س امت کے ساتھ کیا ہوگا؟  بے شک یہ حقیقت ہے کہ جب حاملینِ دعوت سست پڑگئے اور اپنی حاصل کردہ خوشحالی کے اندر مگن ہوگئے، تواُس وقت اسلام کے دشمن جیت گئے اور مسلمان شکست خوردہ ہوکر پیچھے ہٹ گئے ، یہ اِس وجہ سے نہ تھا کہ اُن کے پاس اسلحہ کی کمی تھی بلکہ ایسا اُن کے ایمان کی کمی اور عقیدے کے اندر کمزوری کے باعث ہوا تھا۔  بخاری، امام احمد اور ابودائود نے یہ حدیث روایت کی ہے کہ عمر نے فرمایا(اوریہ الفاظ ابو داؤد کے ہیں):

 

إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ وَأَخَذْتُمْ بِأَذْنَابِ الْبَقَرِ وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ، وَتَرَكْتُمُ الْجِهَادَ سَلَّطَ اللهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُم

"اگر تم نے لیان(سود کی ایک قسم) میں کاروبار شروع کردیا، گائیوں کی دموں کے پیچھے لگ گئے(یعنی کھیتی باڑی شروع کردی)، زراعت پر قناعت کرکے بیٹھ گئے اور جہاد کو ترک کردیا تو اللہ سبحانہ و  تعالیٰ تم پر ذلت نازل کرے گااور وہ اُس وقت تک تم سے نہیں ہٹے گی جب تک تم دوبارہ اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ"۔

 

 

پس اللہ کی طرف سے کامیابی، اُس کی رضا اور اُس کی جنت کے حق دار بننے کے لیے دن رات ایک کردو۔  کم سے کم سطح ہی پر مطمئن نہ ہوکر بیٹھے رہوبلکہ انتھک محنت کروتاکہ ہمارا شمار بھی اللہ کے غلاموں میں سبقت لے جانے والوں میں ہو۔  آئیے اپنے اعمال کو اِس قدر بلند کریں کہ اللہ سبحانہ و  تعالیٰ ہم پر مسکرائیں اور ہماری عرق ریزی کو تسکین بخشے اور ہماری آنکھوں کو فتح و نصرت کی ٹھنڈک سے نوازے۔  آئیے وہ انتھک محنت کریں یہاں تک کہ ہم اُن لوگوں میں شامل ہوجائیں جودوسری خلافت  راشدہ کے قیام کے ذریعے اسلام کا دوبارہ نفاذ کریں گے، اور جو روم کو فتح اور یہودیوں کو مغلوب کریں گے، جن کی وجہ سے پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہوگا اور صلیب ٹوٹ جائے گی اور روئے زمین پر کوئی علاقہ ایسا نہ ہوگا جہاں سے جزیہ لینا باقی ہو۔

Last modified onجمعہ, 10 فروری 2017 22:30

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک