الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

دہشت گردی سے لڑنے کے لیے اسلامی فوجی اتحاد غداری کا نسخہ ہے

 

اخباری اطلاعات میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف نے  پاکستان کے آرمی چیف کی حیثیت سے اپنی ریٹائرمنٹ کے صرف 45 دن بعد سعودی حکومت کی جانب سے تشکیل  دی گئی 42 اسلامی ممالک کی فوج کی کمانڈ سنبھالنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ اس بات کو محسوس کرتے ہوئے کہ مسلمان اس کے خلاف منفی ردعمل دے رہے ہیں، پاکستان کے وزیر دفاع نے 6 جنوری 2017 کو اس بات کی تصدیق کی کہ حکومت کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا گیا ہے۔ لیکن جب مزید منفی ردعمل آیا تو وزیر دفاع نے 10 جنوری 2017 کو اپنے سابقہ بیان سے پھرتے ہوئے راحیل شریف کے اقدام سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ  راحیل نے اس منصب کو قبول کرنے کے لیے حکومت سے کوئی درخواست نہیں کی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود حکومت  دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان  کی شمولیت اورسعودی علاقے کے تحفظ کےلیے مسلسل مہم چلا رہی ہے تا کہ اس اتحاد میں شمولیت کے حق میں رائے عامہ کو تبدیل کیا جائے۔

 

یہ تاثر پیدا کیا گیا ہے کہ مسلم  یکجہتی کے لیے ایک واحد فوج تشکیل دی گئی ہے لیکن اس بات پر کوئی بحث ہی نہیں کی گئی کہ اس میں شمولیت اختیار کرنے والے ممالک تو اپنی جگہ قائم و دائم ہیں جنہیں پرانی اور نئی استعماری قوتوں نے امت کو تقسیم کرکے قائم کیا تھا اور جو اب بھی اِس فوج پر اثر انداز ہوں گے۔  امت کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کی ضرورت ، امت کی یکجہتی، کو ایک مشترکہ فوجی قوت کے ذریعے پورا کیا گیا ہے۔

لیکن اس اتحاد کو بنانے والوں نے دوسرے سوال کا جواب نہیں دیا  جو کہ مشترکہ فوج بنانے کے فوراً بعد ذہنوں میں آتا ہے کہ ایک واحد حکومت  کیوں نہیں بنائی گئی جو کہ شریعت کا تقاضا بھی ہے اور 50 سے زائد قومی ریاستیں اب بھی قائم ہیں جو یورپی استعماری ممالک نے دنیا کے نقشے پر محض لکیریں کھینچ کر قائم کیں تھیں؟

 

اس اتحاد کا مقصد  واضح ہے۔ اتحاد کے نام " دہشت گردی سے لڑنے کے لیے اسلامی فوجی اتحاد" سے ہی ظاہر ہوجاتا ہے کہ یہ فوج کس کی جنگ لڑے گی۔ اس اتحاد کی تشکیل کا مقصد مسلمانوں کے مفاد میں کوئی جنگ لڑنا نہیں ہے۔ اس کا مقصد فلسطین کے مسلمانوں کو یہودی وجود کے تسلط سے آزاد کرنا نہیں، نہ ہی کشمیر کے مسلمانوں کو بھارتی تسلط سے آزادی دلانا ہے اور نہ ہی روہنگیا مسلمانوں کو برمی بدھ اکثریت کے ظلم و ستم سے نجات دلانا ہے، بلکہ اس کا مقصد دہشت گردی سے لڑنا ہے۔ باالفاظ دیگر اگر یہ اتحاد شام میں مداخلت کرتا ہے تو اس کا مقصد "دہشت گردی" سے لڑنا ہوگا نہ کہ ان مسلمانوں کی مدد کرنا جو صرف اس وجہ سے قتل کیے جارہے ہیں  کہ وہ بشار الاسد کی حکومت کی مزاحمت کررہے ہیں۔ یعنی " دہشت گردی سے لڑنے کے لیے اسلامی فوجی اتحاد" سعودیہ نے امریکی مقاصد کے حصول کے لیے بنایا ہے۔

 

" دہشت گردی سے لڑنے کے لیے اسلامی فوجی اتحاد" کو وجود میں لانے کی دو وجوہات ہیں۔  پہلی یہ کہ امریکہ فوج کی جگہ ایک مسلم فوج کو امریکی مقاصد کے لیے وہاں استعمال کیا جائے  جہاں امریکی فوج  کا استعمال امریکہ میں پسند نہیں کیا جاتا۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلم رائے عامہ کو امریکہ کا ہمنوا بنایا جائے  جنہیں اب تک یہ سبق پڑھایا گیا ہے کہ وہ تو 50 سے زائد قومی ریاستوں میں بٹے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود ایک مشترکہ فوج فراہم کرسکتے ہیں۔ لیکن " دہشت گردی سے لڑنے کے لیے اسلامی فوجی اتحاد" امت کی ضرورت کو پورا نہیں کرتا بلکہ اس کے متضاد ایک اور حقیقت کو واضح کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مشترکہ فوج کی نہیں بلکہ ایک واحد فوج کی ضرورت ہے، خلافت کی فوج۔

 

اس قسم کے فوجی اتحادوں میں ایک مسئلہ ہمیشہ موجود رہتا ہے اور وہ ہے کہ کمانڈ کا ایک ہونا۔ ان اتحادوں میں اس کی کمی ہوتی ہے کیو نکہ اس میں موجود افواج  کی وفاداری اپنی حکومتوں کے ساتھ ساتھ میدان میں موجود کمانڈر کے ساتھ بھی ہوتی ہے۔ اس مسئلہ کا ایک حل تو یہ نکالا گیا کہ اس کا کمانڈر اس ملک کا لگایا جائے جس کے سب سے زیادہ فوجی اس اتحاد میں شامل ہیں۔  اور راحیل شریف کے لیے یہ ایک مشکل ہے کہ جب تک پاکستان اس اتحادںمیں سب سے زیادہ فوجی فراہم کرنے والا ملک نہ بن جائے تو راحیل شریف اس مشترکہ فوج کی  اپنے احکامات کے ساتھ وفاداری  کو  کس طرح یقینی بنائیں گے۔

 

لیکن خلافت کی افواج کو اس قسم کے کسی حساس توازن کو برقرار رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہاں پر صرف ایک ہی حکومت ہوتی ہے۔ موجودہ فوجی اتحاد میں یہ بات واضح ہے کہ کمانڈر کا ایک اہم کام یہ ہوگا کہ وہ امت کو اس بات پر قائل کرے کہ یہ فوج ایک حقیقت ہے اور امت کی خواہشات کا مظہر ہے اگرچہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ تو پھر یہ اتحاد کسی کے مفادات کا تحفظ کرے گا؟ اور پھر یہ کہ جنرل راحیل درحقیقت کس کی خدمت کررہے ہوں گے؟

 

ایک امکان تو یہ ہے جس کی ترویج بھی کی جارہی ہے کہ اس فوجی اتحاد کا بنیادی مقصد تربیت فراہم کرنا ہے اور اس بات میں وزن بھی ہے کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی اور کامیاب انسداد دہشت گردی کی فوج کے سابق کمانڈر  کی حیثیت سے وہ خدمات فراہم کرسکتے ہیں۔ اور یہی ثبوت اس بات کے لیے کافی ہے  کہ  وہ لوگ جو دہشت گردی سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں وہ جنرل راحیل کو انسداد دہشت گردی کی فوج کے ایک  کمانڈر کی حیثیت میں دیکھتے ہیں۔ ایسا نظر آرہا ہے کہ جس فوج کی قیادت جنرل راحیل نے کرنی ہے اس کا مقصد شام میں سعودی عرب کے کردار کو بڑھانا ہے جو حلب کے سقوط کے بعد بہت  کم ہوگیا ہے۔ یمن میں پاکستان کی فوج کی موجودگی کی سعودی خواہش کو بھولنا نہیں چاہیے جسے  جنرل راحیل نے قبول نہیں کیا تھا جس کا شایدمقصد کم از کم سعودی افواج کو یمن کے محاذ سے نکال کر شام میں منتقل کرنا تھا  لیکن ایسا نہ ہونے کی وجہ سے  شام میں ایران اور روس کی بالادستی بڑھ گئی جسے سعودی حکومت نے پسند نہیں کیا ہے۔

 

اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کا تصور حلب کے سقوط سے قبل ہی سے موجود  ہے لیکن اب اس نے زیادہ اہمیت حاصل کرلی ہے کیونکہ اس کے ذریعے شام میں سعودی حکومت کی مداخلت کا موقع بنتا ہے جہاں روس اور ایران پہلے سے ہی مضبوطی کے ساتھ موجود ہیں اور امریکہ کے منصوبوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ حلب کا سقوط  اس وقت ممکن ہوا جب روس نے مداخلت کی اور ترکی امریکہ کی منظوری سے روس کے قریب ہوگیا۔ لہٰذا اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج سعودی عرب کی ایک کوشش ہے  جو وہ اپنے آقا امریکہ کی مرضی سے کررہا ہے کہ اس طرح شام میں اس کا یعنی  امریکہ کا اثرو رسوخ مزید مضبوط ہوجائے جبکہ  وہاں مخلص انقلابی خلافت کے منصوبے پر استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں۔   اسلامی ممالک کے مشترکہ فوجی اتحاد کے تحت اس وقت فوج بہت آسانی سے  فراہم کی جاسکتی ہے جب امریکہ کے لیے اپنی افواج کو مسلم دنیا میں شدید امریکہ مخالف جذبات کی وجہ سے فوج بھیجنا ممکن نہ رہے۔  تاہم جنرل راحیل نے مختلف شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی رکھی ہے کہ وہ  سعودی کمانڈ کے نیچے کام نہیں کریں گے، لیکن اس کے باوجود وہ خود کو اُس صورتحال میں دیکھیں گے  کہ وہ  اُس حکومت کو جواب دے رہیں ہوں گے جس کے سب سے زیادہ فوجی اس اتحاد میں شامل ہوں گے اور اس ملک کے پیچھے وہ طاقت ہو گی جو اس فوجی اتحاد کو اپنے اسٹریٹیجک مفادات کے لیے استعمال کررہا ہو گا یعنی کہ امریکہ۔

 

لہٰذا جنرل راحیل اپنے نام اور چیف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے کام کے ریکارڈ ، اور اپنے قابل ذکر حسب نسب کو پیش کررہے ہیں  جو کہ امریکی فلم کا ایک حصہ ہے۔  امت نے بہت طویل عرصے تک  اس امید پر انتظار کیا کہ "اسلامی ممالک کی تنظیم" او۔آئی۔سی امت کو ایک دوسرے سے قریب کرنے میں بڑا کردار ادا کرے گی اور امت کے اتحاد کی سب سے بڑی نشانی کے طور پر ایک مشترکہ فوج بنائے گی جو اب تک نہیں بنی اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف کشمیر و فلسطین کے پرانے زخموں سے اب تک خون بہہ رہا ہے بلکہ  عراق اور شام کی صورت میں امت کے جسم پر نئے شدید زخم نمودار ہو گئے ہیں۔

 

قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ یہ ایک امت ہے جو ایک عقیدے پر یکجا ہے جیسا کہ اللہ نے ہمیں بتایا ہے،

 

﴿وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُون

"یقیناً تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے اور میں تم سب کا رب ہوں ، پس تم مجھ سے ڈرتے رہو"(المومنون:52)۔

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں  انتشار کے نتائج سے خبردار کیا جو آج ہم دیکھ رہے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿وَالَّذينَ كَفَرُواْ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ

"کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اگر تم نے ایسا نہ کیا(آپس میں یکجا اور دین میں ایک دوسرے کی مدد) تو ملک میں فتنہ ہوگا اور زبردست فساد ہو جائے گا"( لانفال:73)۔

 

اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمان امت کی یہ تعریف کی کہ وہ تمام دیگر لوگوں کو چھوڑ کر آپس میں بھائی بھائی ہیں، ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾ "تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں"(الحجرات:10)۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

«اَلْمُسْلِمُ أَخُو اَلْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ، وَلَا يَخْذُلُهُ، وَلَا يَحْقِرُهُ، اَلتَّقْوَى هَا هُنَا، وَيُشِيرُ إِلَى صَدْرِهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ، بِحَسْبِ اِمْرِئٍ مِنْ اَلشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ اَلْمُسْلِمَ، كُلُّ اَلْمُسْلِمِ عَلَى اَلْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ»

"مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ وہ اس پر ظلم کرے، نہ اس (مدد کے وقت) بے سہارا چھوڑے اور نہ اسے حقیر گردانے ۔ تقویٰ یہاں پر ہے(اپنے سینے مبارک کی جانب تین بار اشارہ کیا) کسی بھی شخص کا اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھنا  شیطانیت ہے۔ ہر مسلمان کا خون، مال اور عزت کی توہین کرنا دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے"(مسلم)۔ 

 

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

«الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ يَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ وَيُرَدُّ عَلَى أَقْصَاهُمْ»

‏"ہر مسلمان کا خون برابر ہے، اور وہ اپنے مخالفوں کے لیے ایک ہاتھ کی طرح  ہیں۔ ان میں سے رتبے میں کم تر شخص بھی کسی کو امان دے سکتا ہے اور سب کو اس کی امان قبول کرنی ہوگی، اور(لشکر میں) سب سے دور والا شخص بھی مال غنیمت کا مستحق ہوگا"(ابن ماجہ)۔

 

جب رسول اللہ ﷺ نے انصار اور مہاجرین کو ایک امت کے طور پر مدینہ میں جمع کیا تو انہوں نے میثاق مدینہ میں تحریر کیا،

 

«بسم الله الرحمن الرحيم، هذا كتاب من محمد النبي -صلى الله عليه وسلم-، بين المؤمنين والمسلمين من قريش ويثرب، ومن تبعهم، فلحق بهم، وجاهد معهم، إنهم أمّة من دون الناس»

"شروع اللہ کے نام سے جو نہایت رحمان اور رحیم ہے۔  یہ دستاویز محمد ﷺ کی طرف سے قریش (مہاجرین) کے اور یثرب کے مسلمانوں (انصار مدینہ) کے اور اُن کے جنہوں نے اِن کی اتباع کی،ان کے ساتھ آکر ملے اور ساتھ جہاد کیا، کے مابین ہے، کہ یہ لوگ دوسرے لوگوں سے جدا ایک امت ہیں"۔

 

اور رسول اللہ ﷺ نے تحریر کروایا،

 

«وأن سلم المؤمنين واحدة لا يسالم مؤمن دون مؤمن في قتال في سبيل الله إلا على سواء وعدل بينهم»

"ایمان والوں کا امن ایک ہے۔پس اللہ کی راہ میں قتال کے دوران ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو چھوڑ کر دشمن سے امن نہیں کرسکتا سوائے اس کے کہ یہ برابری پر ہو"

 

یہ سب باتیں امت کا کردار اور خصوصیات کو بیان کرتی ہیں: ان کی زمین، ان کی جنگ اور ان کا امن ایک ہے۔ اسلامی فوجی اتحاد ان تمام آیات و احادیث سے متصادم ہے، اور جنرل راحیل کا اس میں شمولیت اختیار کرنا انہیں ان آیات و احادیث کی خلاف ورزی کرنے کی صورتحال میں کھڑا کردے گا۔

 

راحیل نے خود کو ایک ایسی صورتحال میں کھڑا  کردیا ہے جہاں وہ ایک امت کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کی تمام احادیث کی نافرمانی کررہے ہوں گے۔ شام کی سرزمین مسلمانوں کے لیے ویسے ہی ہے جیسے نائیجیریا یا انڈونیشیا ا ور جنرل راحیل کے لیے پاکستان۔ ان علاقوں میں فوج کون لے کر جاسکتا ہے؟ سوائے ایک اجنبی کے۔ تو پھر ایک مسلمان ایک ایسی جنگ میں کیسے حصہ لے سکتا ہے جس میں مدمقابل مسلمان ہوں۔

شام میں اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج(اور اس کے کمانڈر) کو دہشت گرد نہیں ملیں گےسوائے ان مسلمانوں کے جو اپنے جانوں کے لیے لڑرہے ہیں۔ اگر انہیں تنگ کیا جاتا ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کی تکلیف دوسرے مسلمان محسوس نہ کریں؟

 

مرکزی میڈیا آفس  حزب التحریر کے لیے افضل قمر-پاکستان نے تحریر کیا۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک