الإثنين، 23 محرّم 1446| 2024/07/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

1857 کی بغاوت ہند سے حاصل ہونے والے سبق کو بھلایا نہیں جاسکتا

تحریر: افضل قمر

 

1857 کی بغاوت ہند جسے آزادی کے بعد کے کئی تاریخ دانوں نے نے جنگ آزادی ہند کا نام دیا ہے۔ لیکن یہ دونوں نام  اس کی وجوہات کی نشاندہی نہیں کرتے جو کہ مذہبی تھی۔ تاریخ دانوں نے ہمیشہ مذہب کے کردار کو تسلیم کیا ہے جو کہ مرکزی اہمیت رکھتا تھا لیکن انہوں نے اس کو فوجی نام دیا  تو کسی نے اسے بغاوت کہا تو کسی نے اسے جنگ کہا ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ  اس کے اسباب میں سب سے اہم سبب  مقامی فوجیوں کو دیے جانے والے گولیوں کے میگزین تھے۔ ہندو فوجی یہ سمجھتے تھے کہ گائے کے چربی اس کو چکنا کرنے کے لیے استعمال کی گئی ہے  اور اس کے کناروں کو  منہ سے کاٹنے  سے وہ گناہ گار  اور ہوسکتا ہے  کہ وہ  اپنے مذہب سے ہی نکل جائیں ۔ اسی طرح مسلمان فوجی یہ سمجھتے تھے کہ اس چربی میں سور کی چربی بھی استعمال کی گئی ہے اور اگر وہ اس چربی کو منہ میں لیتے ہیں تو وہ سخت گناہ گار ہوں گے۔ ایک اور اہم سبب  برطانوی فوجیوں اور افسران میں  عیسائی ایونجلسٹ اثرات تھے اور ان میں وہ افسران بھی شامل تھے  جو مقامی  ہندو اور مسلمان فوجیوں پر افسران تھے۔  ان ایونجلسٹوں نے یہ تاثر پیدا کیا کہ اس کا مقصد تبدیلی مذہب ہے۔   اس وقت عیسائی مشنریز اسکول اور ہسپتال قائم کررہے تھے اور عیسائیت کی بھر پور تبلیغ کررہے تھے، لہٰذا یہ کوئی خیالی خوف نہیں تھا کیونکہ مشنریز کی اگرحوصلہ افزائی نہیں کی جارہی تھی تو  کم از کم ان کے کام میں مداخلت بھی نہیں کی جارہی تھی کیونکہ مقامی برطانوی انتظامیہ میں ایونجلسٹ  بھی موجود تھے۔

 

وہ تحریک جو پہلے صرف حکم نہ ماننے تک محدود تھی جلد ہی  بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی مغلیہ حکومت کی بحالی کی تحریک میں بدل گئی۔ 1737 عیسوی میں جب ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے   ہندوستان پر حملہ کیا تو دہلی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔ اس کے بعد سے مغل حقیقی معنوں میں حکمرانی کھو چکے تھے اور بہادر شاہ ظفر کو ایسی حکمرانی ملی تھی جو صرف دلّی کے لال قلعے تک محدود تھی۔  مغلیہ حکومت اس قدر کمزور ہو چکی تھی کہ برطانیہ نے بہاد ر شاہ ظفر کو بتادیا تھا کہ اس کے بعد اس کے وارثوں میں سے کسی کو بھی   دلّی کا بادشاہ تسلیم نہیں کیا جائے گا  اور اس کی موت پر ان سے لال قلعے کو خالی کرنے کو کہا جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود بغاوت برپا کرنے والے سپاہی  بہادر شاہ ظفر کی حکمرانی کی بحالی چاہتے تھے۔

 

اس کے علاوہ مسلمانوں کو ایک اور مسئلہ بھی درپیش تھا اور وہ یہ کہ جمعہ کے خطبے میں مغلیہ شہنشاہ کا نام ایک حکمران کے طور پر لیا جاتا تھا۔ جب بغاوت ختم ہوگئی اور برطانیہ نے دلّی حکومت ختم کردی، بہادر شاہ کے بیٹوں کو قتل اور اسے گرفتار کرلیا  لیکن یہ مسئلہ اور زیادہ شدت اختیار کر گیا  کیونکہ   ایسٹ انڈیا  کمپنی نے  ہندستان براہ راست برطانیہ کے حوالے کردیا۔  بظاہر یہ کوئی بڑی تبدیلی نہیں لگتی کیونکہ کمپنی نے بورڈ آف کنٹرول فار انڈیا  کی ہدایات کے مطابق کام کیا جو کہ حکومت کا ایک ادارہ تھا۔ لیکن اب تک مغل بادشاہ کا نام جمعے کے خطبے میں پڑھا جاتا تھا  اگرچہ  اس نے پنشن کے عوض  کمپنی کو حکمرانی کرنے کی اجازت دے دی ہوئی تھی، مگر اب خاندان مغلیہ کے خاتمے کے بعد یہ مسئلہ پیدا ہوگیا کہ خطبے میں کس کا نام لیا جائے۔  بہادر شاہ ظفر خود رنگون میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے لیکن اگر ان کا نام خطبے میں لیا جاتا تو یہ بغاوت کے ضمن  میں آتا۔  برطانوی وائسرائے یا بادشاہ کا نام نہیں لیا جاسکتا تھا کیونکہ وہ تو نام کے مسلمان بھی نہیں تھے۔ اگرچہ  علماء کے ایک  گروہ نے یہ کہا کہ اب یہ "اولی الامر" (اختیار والے) ہیں کیونکہ انہوں نے جمعہ کی نماز کی اجازت دی ہے، لیکن  اس  گروہ نے بھی یہ نہیں کہا کہ ملکہ کا نام جمعے کے خطبے میں لیا جائے۔

اس مسئلے کا حل شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ عبدالعزیز نے دیا۔ پورے برصغیر کے خطیبوں نے  ترک سلطان کا نام جمعے کے خطبے میں لینا شروع کردیا جو کہ خلیفہ تھے۔ اس وقت خلیفہ سلطان عبدالمجید تھے۔  یہ ایک آسان حل تھا جو کسی بھی سلطان پر لاگو کیا جاسکتا تھا۔  سلطان کا نام خطبے میں تو لیا جانے لگا لیکن اس کے نام کے سکے جاری نہیں ہوسکے جو کہ اب برطانوی راج  جاری کرتا تھا۔

 

لیکن یہ سوال کہ کس کا نام خطبے میں لیا جائے شکست کے بعد  اٹھا۔ اس سے قبل ایسا کوئی سوال نہیں اٹھا تھا اور باغی افواج چاہتی تھیں کہ ان کی سربراہی بادشاہ کرے۔ بغاوت کئی اسباب کی وجہ سے برپا ہوئی تھی لیکن جب ایک بار بغاوت شروع ہو گئی تو  باغیوں کے سامنے یہ  سوال اٹھا کہ کمپنی کی حکومت کی جگہ کسی کی حکومت قائم کی جائے۔   اور مغل بادشاہ ان کے سوال کا  فطری جواب تھا۔ اگرچہ بہادر شاہ ظفر اس وقت 82 سال کے تھے لیکن انہوں نے باغیوں کی درخواست کو قبول کرلیا۔  یہ ایک تلخ حقیقت تھی کہ بہادر شاہ بغاوت کرسکتے تھے کیونکہ  بارحال ان کے پاس ایک فوج تھی اور برطانوی راج اس کی فوج کو ہرائے بغیر اپنے راج کو جاری و ساری نہیں رکھ سکتا تھا، اور راج نے صرف برطانوی فوج ہی نہیں بلکہ مقامی لوگوں پر مشتمل اور کچھ خاص یونٹس کو بہادر شاہ ظفر کی فوج کو ہرانے کے لیے استعمال کیا۔

اس وقت کئی انفرادی شکایات تھیں جو کہ یکجا ہو گئیں کیونکہ  ان تمام شکایات کا ایک واحد حل نظر آرہا تھا  یعنی کہ برطانوی راج کا اخراج اور مغلیہ سلطنت کی بحالی۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ صرف مسلمانوں کی خواہش اور مطالبہ نہیں تھا بلکہ ہندووں کا بھی تھا۔ ہندووں میں سے جن کو راج سے شکایات تھیں ان میں جھانسی  بھی تھا جس کی قیادت  ایک رانی کررہی تھی کیونکہ 1854 میں راجہ کے انتقال کے بعد اس کے جانشین کو راج نے قبول نہیں کیا تھا۔ اسی طرح سے نانا صاحب، پشاور کی جانشین  ،ان کو بھی راج نے ماننے سے انکار کردیا تھا جب اس کے لے پالک باپ باجی راؤ کا انتقال 1851 میں ہوا۔

 

اس دور میں برطانیہ کی یہ پالیسی تھی کہ اگر کسی ریاست  کا کوئی باقاعدہ وارث نہیں ہے تو وہ  اس کا کنٹرول سنبھال لیتا تھا۔ اودھ کی مثال موجود ہے جس کے نواب واجد علی شاہ کو 1856 میں ہٹایا گیا  اور ریاست کو کلکتہ کی پریزیڈنسی میں ضم کردیا گیا۔ پھر اسے آگرہ کے صوبے کے ساتھ جوڑ دیا گیا  جو کہ یو پی (آگرہ اور اودھ) صوبے کا حصہ تھا۔

 

بغاوت کا منظر اتنا سادہ نہیں تھا جتنا کہ پیش کیا جاتا ہے، لیکن جو ایک بات سامنے آئی وہ یہ کہ تمام ہندوستانی یہ محسوس کرتے تھے  کہ وہ برطانیہ کے مقابلے میں  مغلوں کے زیر سایہ زیادہ بہتر زندگی گزارسکتے ہیں۔ یہ  بات قابل ذکر ہے نانا صاحب اور جھانسی کی رانی  دونوں  مرہٹے تھے اور شیواجی کی سربراہی میں مرہٹوں نے اورنگزیب کے خلاف مزاحمت کی تھی جس نے اورنگزیب کو 48 سال تک مصروف رکھا۔ واجد علی شاہ اودھ  کا بادشاہ تھا، اور برطانیہ راجاوں کو  "دلّی کے بادشاہ" کے مقابلے میں  یہ نام اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا تھا اور مغل بادشاہ کو یہ نام برطانیہ نے دیا تھا۔  صرف عام ہندو ہی یہ نہیں سمجھتے تھے کہ مغل بادشاہ ان کے لیے بہتر ہیں بلکہ وہ ہندو بھی یہی سمجھتے تھے جو مغل بادشاہ کی جگہ لینا چاہتے تھے۔

 

  یہاں پر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مغلوں نے شریعت کو نافذ کیا یہاں تک کہ  اکبر  اور اس کے دین الٰہی  کے دور میں بھی  شریعت ہی نافذ تھی۔   یہی وہ قانون تھا جو بہادر شاہ طفر نے دوبارہ نافذ کرنا تھا، تو ہندو بھی یہ بات اچھی طرح سے جانتے تھے  کہ وہ کونسا قانون نافذ کیا جائے گا اگر برطانیہ کو  ہٹا دیا جاتا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے   کہ سوائے اورنگزیب کے مغل کوئی بہت   مخلص مسلمان نہیں تھے لیکن  جب دین الہٰی اپنے عروج پر تھا اس وقت بھی مغلوں نے شریعت کو ریاست کا قانون رکھا تھا۔  ہندو قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تھی جو کہ ان کے ذاتی قوانین تک محدود تھا جیسا کہ شادی، وراثت اور اس سے جڑے معاملات۔  لہٰذا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندو  یہ سمجھتا تھا کہ برطانیہ کے مقابلے میں مسلمانوں کی حکمرانی میں وہ  انصاف کے ساتھ زندگی گزارسکتے ہیں۔

 

160 سال گزر جانے کے باوجود 1857 کی جنگ آزادی سے حاصل ہونے والے سبق کو بھولا نہیں جاسکتا۔ اب بھی  ہندوستان ظلم اور جبر کی تصویر پیش کررہا ہے اگرچہ اس نے برطانیہ سے 70 سال قبل آزادی حاصل کرلی تھی۔کیا اس صورتحال کہ وجہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد پاکستان اور بھارت دونوں نے برطانوی نظام کو ہی چلانے  کی کوشش کی چاہے اس کا تعلق  حکمرانی ، عدالت، تعلیم ، معیشت یا کسی بھی شعبے سے ہو؟ خلافت کے زیر سایہ صرف اسلام کا نفاذ ہی برصغیر پاک و ہند کے مسائل کو حل کرسکتا ہے۔  ان 70 سالوں میں بھارت کو ہندو ریاست بنانے کی کوشش کی گئی ۔ اس کی مذہبی اقلیتوں کی وجہ سے اس کو سیکولر ریاست کہا  گیا لیکن نتیجہ مذہبی اقلیتوں پر جبر کی صورت میں نکلا۔  بھارت کی تاریخ میں صرف مسلمانوں کےہی دور کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے جب اسلام نافذ کیا جارہا تھا  اور عوام اور اشرافیہ دونوں ہی حکومت کی جانب اپنے مسائل کے حل کے لیے رجوع کرتے تھے۔

لہٰذا یہ جاننا ضروری ہے  کہ اسلام کی حکومت کی بحالی کا مطلب  صرف مسلمانوں کی حکومت کی بحالی نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب  بغیر کسی مذہبی امتیاز کے ریاست کی تمام شہریوں کے مسائل کا حل ہے۔  اور برصغیر پاک و ہند سے زیادہ کوئی مضبوط مثال پیش نہیں کی جاسکتی جہاں آج بھی  1857 کے واقعات  اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ

"یقیناً ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل کی ہے تا کہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو آشنا کیا ہے"(النساء:105)  ۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک