الإثنين، 23 محرّم 1446| 2024/07/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 9 جون 2017

 

- امریکی مافیا کوختم کرو: امریکی سفیر مافیا کا سربراہ ہے اور باجوہ و نواز اس کے کارندے ہیں

۔ پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم حکمرانوں کو ان کے فرائض سے بری الذمہ نہ کردے۔
- امریکی پروردہ فالس فلیگ حملوں پر سیاسی و فوجی قیادت کی مجرمانہ خاموشی
 

تفصیلات:

 

امریکی مافیا کوختم کرو: امریکی سفیر مافیا کا سربراہ ہے اور باجوہ و نواز اس کے کارندے ہیں

یکم جون 2017 کو سیاسی کرپشن کے حوالے سے جاری ڈرامے کے دوران باجوہ-نواز حکومت نے سپریم کورٹ کے جج کے بیان کی مذمت کی جس میں انہوں نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ وہ سیسلین مافیا کی نمائندگی کررہے ہیں۔ لیکن اصل بڑا خطرہ امریکی مافیا سے ہے جس کی سربراہی پاکستان میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کررہا ہے جو پورے پانامہ پیپرز کے بحران کے دوران باجوہ اور نواز سے مسلسل ملاقاتیں کرتا رہا ۔

 

پاکستان کی قیادت میں کسی بھی تبدیلی کا فیصلہ امریکہ کرتا ہے اور اس سلسلے میں وہ اپنے وائسرائے ، امریکی سفیر، پر انحصار کرتا ہے۔ کوئی تبدیلی اس وقت تک نہیں آتی جب تک امریکہ اس بات سے مطمئن ہو کہ سیاسی و فوجی قیادت میں اس کے ایجنٹ امریکی مفادات کی نگہبانی کامیابی سے کررہے ہیں۔ 1999 میں امریکی ایجنٹ جنرل مشرف کو اُس وقت اِس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ اقتدار پر قبضہ کرلے جب یہ واضح ہوگیا کہ عوام اور افواج میں نواز کے خلاف شدید غصہ ہے جس کی وجہ سے امریکی مفادات کی نگہبانی کرنے کی نواز کی صلاحیت متاثر ہو گئی ہے۔ اسی طرح جنرل مشرف کا بھی یہی حال ہوا جب عوام اور افواج میں اس کے خلاف شدید غصہ پیدا ہوگیا تو امریکی حکام نے اپنی سیاسی ایجنٹوں زرداری اور نواز کے درمیان باری باری اقتدار میں آنے کی سیاسی ڈیل کروائی، اور یہ باری باری کا تماشہ مشرف کے جانے کے بعد سے چل رہا ہے۔اور اس بات کے باجود کہ کرپشن کے الزامات کی پوری ایک لائبریری موجود ہے، نواز اقتدار میں موجود رہے گا جب تک وہ امریکی مفادات کی نگہبانی کرنے کی صلاحیت سے محروم نہیں ہوجاتا اور اس دوران اسے جنرل باجوہ سے کسی چیلنج کا سامنا بھی نہیں ہو گا کیونکہ اس کے آقا بھی واشنگٹن میں ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام امریکی ایجنٹ، چاہے وہ سیاسی ہوں یا فوجی، انہوں نے یکم جون 2017 کو موجودہ سیاسی بحران میں نواز کی حمایت کے لیے پارلیمنٹ کی مشترکہ اجلاس میں شرکت کی ۔

 

پاکستان کی سیاست اس وقت تک امریکی مفادات کو پورا کرتی رہے گی جب تک یہ غیر اسلامی نظام سے جڑی رہے گی۔ یہ وہ کرپٹ نظام ہے جو سیاسی و فوجی قیادت کو ہماری پوشیدہ باتیں امریکی سیاسی و فوجی حکام تک پہنچانے اور ان سے ہدایات لینے کی اجازت دیتا ہے۔ یہی وہ نظام ہے جو امریکی حکام کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ سیاسی و فوجی قیادت سے اپنے مطالبات کے نفاذ کا تقا ضا کریں اس بات سے قطع نظر کہ وہ مطالبات قرآن و سنت کے صریح مخالفت میں ہوتے ہیں۔ حقیقی تبدیلی کے لیے نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام ضروری ہے۔ صرف خلافت کے قیام کی صورت میں ہی حکمرانوں کو دشمن ریاستوں کے نمائیندگان سے ملنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ صرف اسی صورت میں تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق ہوں گےجو اس قانون کو ہی ختم کردے گا جس کو استعمال کر کے استعماری مفادات کو پورا کیا جاتا ہے۔ اور صرف اسی صورت میں ہم امریکی راج سے نجات حاصل کریں گے اور ایسی حکومت ہو گی جو ہمارے شدید دشمنوں کے احکامات کے سامنے نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کے سامنے جھکے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ، تم دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں"(الممتحنہ:01)

 

پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم حکمرانوں کو ان کے فرائض سے بری الذمہ نہ کردے 

رمضان میں، جب پھلوں کی استعمال میں اضافہ ہوجاتا ہے، پھلوں کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ایک قومی اتفاق رائے پیدا ہوگیا اور تین دنوں ، 2 جون سے 4 جون ، تک ان کی خریداری کی بائیکاٹ کی مہم چلانے کا فیصلہ ہوا تا کہ دکانداروں کو ان کی قیمتیں کم کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔ بائیکاٹ کی اس مہم کا محرک بننے کی وجوہات مختلف ہیں۔ کچھ لوگوں کے لیے پھلوں کی قیمتوں میں اضافہ واقعی پریشانی کی بات ہے اور وہ اس میں کمی کی خواہش رکھتے ہیں جبکہ کچھ وہ ہیں جو سوشل میڈیا سے متاثر شہری علاقوں کے سیاسی تحریک سے وابستہ لوگ ہیں جو اس مہم کے ذریعے عوامی مسائل کو اجاگر کر کے عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ لوگ بھی ہیں جو شہری علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ لوگوں میں شہری ذمہ داریوں کے حوالے سے شعور میں اضافہ ہو اور عوام کو درپیش مسائل کو اٹھایا جائے چاہے وہ خود اس سے متاثر نہ بھی ہوں۔ بارحال کوئی بھی محرک ہو، بائیکاٹ کی اس مہم کو حیرت انگیز طور پر بہت حمایت ملی۔ یہ شاید پہلا موقع ہے جس میں سوشل میڈیا نے کامیابی سے پاکستان میں ایک سیاسی مقصد کے لیے لوگوں کو متحرک کیا اور یہ بات پاکستان کی سیاست پر سوشل میڈیا کی بڑھتی طاقت اور اثرو رسوخ کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔

 

یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ امت ایک سیاسی مہم کا حصہ بنی کیونکہ سیاست کا مطلب ہی امت کے امور کی دیکھ بحال کرنا ہوتا ہے چاہے وہ معاشی مفاد ہو یا سیکیورٹی سے متعلق مفاد ہو یا حکمرانی اور معاشرت سے متعلق مفادات ہوں۔ عوام جتنا زیادہ اپنے امور کے حواےسے متحرک ہوں گے تو اتنا زیادہ اس بات کا امکان ہے کہ وہ اپنے معاشرے کو اپنی خواہشات کے مطابق تبدیل کر سکیں گے۔ لیکن یہ بات جاننا انتہائی ضروری ہے کہ امت کی آگاہی اور متحرک ہونا کہ اس کے مفادات کاتحفظ ہواور اس مقصد کے لیے ہمیشہ بڑی سیاسی مہم چلانا پڑے جس میں عوام بڑی تعداد میں شریک ہوں تو یہ ایک غلطی ہو گی۔ کیونکہ بڑی عوامی مہم روز روز نہیں چلائیں جا سکتیں اور ان میں اختلاف رائے اور انتشار پیدا ہوجاتا ہے اور انہیں اکٹھا کرنا مشکل عمل ہوتا ہے کہ اس کے لیے معاشرے کو متحرک کرنے کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ درحقیقت امت کے مفادات کے تحفظ کا طریقہ کار ایسے لوگوں کو حکمران بنانا ہوتا ہے جو امت کے امور کی دیکھ بحال کریں جہاں اگر کبھی بڑی عوامی مہم کی ضرورت بھی پڑے تو اس کا رخ حکمران کو اس کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی اور اس کی ادائیگی پر مجبور کرنے کے لیے ہو۔ یہ ہے وہ طریقہ جس کے ذریعے معاشرے چلتے ہیں۔ اور موجودہ مہم میں یہی وہ چیز ہے جو موجود نہیں ہے یعنی حکمرانوں کی ان کی ذمہ داریوں سے اجتناب پر ان کا احتساب کیا جانا۔ یہ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ رمضان میں اشیاء کی قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنائیں اور اس حوالے سے ناکامی پر ان کا شدید احتساب کیا جائے۔ اور کسی بڑی عوامی مہم کی ضرورت پڑ جائے تو اس کا رخ حکمرانوں کی جانب ہونا چاہیے۔

 

اسلام نے لوگوں کے امور کی دیکھ بحال کی ذمہ داری حکمران پر ڈالی ہے جہاں مسلمان خلیفہ کو بیعت دیتے ہیں کہ وہ لوگوں کے امور کی دیکھ بحال شریعت کے قانون کی بنیاد پر کرے گا اور شریعت کے نفاذ میں کوتاہی یا امت کے امور کی دیکھ بحال میں کوتاہی پر امت اس کا زبردست احتساب کرتی ہے۔ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

كلكم راعٍ، وكلكم مسئول عن رعيته، والأمير راعٍ، والرجل راعٍ على أهل بيته؛ والمرأة راعية على بيت زوجها وولده، فكلكم راعٍ، وكلكم مسؤول عن رعيته

"تم سب اپنی رعایا پر مسعول(نگہبان) ہو۔ حکمران مسعول ہے اپنی رعایا پر ، مرد اپنے خاندان پر، عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں پر، اور اس طرح تم سب مسعول ہو اور اپنی اپنی رعایا پر ذمہ دار ہو"(البخاری و مسلم)          

 

امریکی پروردہ فالس فلیگ حملوں پر سیاسی و فوجی قیادت کی مجرمانہ خاموشی

وزیر اعظم نواز شریف نے 7 جون 2017 کو کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کے خصوصی اجلاس  کی صدارت کی اور قومی و علاقائی سیکیورٹی معاملات پر غور کیا۔  اس اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیر اعظم کے امور خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز، چیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی  جنرل زبیر محمود حیات، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیف آف ائیر اسٹاف ائیر چیف مارشل  سہیل امان، چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل محمد ذکاء اللہ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور دیگر سنیئر فوجی و غیر فوجی حکام نے شرکت کی۔کابل میں ہونے والے خوفناک بم دھماکے، جس  میں  درجنوں افرادجاں بحق  اور سیکڑوں زخمی ہوئے،  کے بعد  یہ اجلاس منعقد ہوا اور افغانستان کی جانب سے پاکستان کو اس حملے  میں ملوث  کرنے کے حوالے سے کھلی تنقید کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ، پاکستان نہ صرف مستحکم اور پر امن افغانستان  کے حوالے سے اپنے وعدے پر قائم ہے بلکہ  اس مقصد کے حصول کے لیے علاقائی اور عالمی کوششوں کا حصہ بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اجلاس کے شرکاء نے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ پاکستان نے غیر معمولی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اس بات کے باوجود کہ افغان سرزمین اس کے خلاف دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال بھی ہوئی جس کے نتیجے میں بہت زیادہ انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔

 

یہ بات بالکل واضح نظر آرہی ہے کہ  جب بات امریکہ کے بیان کردہ "دہشت گردی" کی آتی ہے تو سیاسی و فوجی قیادت ایک ہی صفحے پر ہوتی ہے۔ سیاسی و فوجی قیادت اس معاملے کو ہماری افواج کے ذریعےقبائلی مزاحمت کو ختم کرنے کے  امریکی مطالبے کو پورا کرنے کے لیے ایک جواز کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ  یہ بات بھی اہم ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت بھارت کو "دہشت گردی" کا ذمہ دار تو ٹہراتے ہیں لیکن اسی معاملے میں امریکہ کے کردار پر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ان کا یہ عمل  اس حقیقت کے باوجود ہوتا ہے کہ پاکستان و افغانستان میں  دہشت گردی صرف بھارتی 'را' ہی نہیں کرواتی بلکہ اس میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں، سی آئی اے اور ایف بی آئی بھی ملوث ہیں۔  آئی ایس آئی کے سابق سربراہ، اسد درانی نے دہشت گردی کے حوالے سے 6 مارچ 2017  کو لکھا، "امریکہ نہ صرف  صف اول کا مجرم ہے بلکہ  اس (دہشت گردی)کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا بھی ہے"۔ جان وہ ہ ،محکمہ انصاف کا سابق وکیل اور یو سی بارکلے میں قانون کا پروفیسر ہے  اور جس نے 11/9 کے بعد کی بش کی پالیسیوں کو جواز فراہم کیا، نے 13 جولائی 2005 میں لاس انجیلس ٹائمز کے لیے لکھا کہ،" جعلی  دہشت گرد تنظیموں کو پیدا کرنے کے لیےہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں  ایک اور آلہ ہوسکتی ہیں"۔ 30 جنوری 2013 کو سابق ایف بی آئی ڈائریکٹر سبل ڈینز ایڈمنڈز نے ایف بی آئی کے "آپریشن گلیڈیو- بی" کو بے نقاب کردیا جس میں ایف بی آئی نے وسطی ایشیا میں فالس فلیگ حملے کروائے تھے۔ دہشت گردی میں امریکہ کے براہ راست ملوث ہونے کے ان کھلے ثبوتوں کے علاوہ، امریکہ بلواستہ  طور پر'را 'کے حملوں کا بھی ذمہ دار ہے کیونکہ اسی نے را کو افغانستان میں قدم رکھنے اور جمانے کی اجازت دی ۔

 

موجودہ سیاسی وفوجی قیادت  کبھی امریکہ کی مخالفت میں کھڑی نہیں ہو گی کیونکہ انھوں نے اسے اپنے آقا کے طور پر تسلیم کیا ہوا ہے۔ باجوہ-نواز حکومت کے دو بازوں کے درمیان ہونے والی کشمکش  کے باوجود دونوں امریکہ کے مجرمانہ مفادات کی تکمیل کے لیے پوری وفاداری سے کام کررہے ہیں اور اس بات کی قطعاً کوئی پروا نہیں کررہے کہ اس کے نتیجے میں ہماری افواج اور عوام کو کسی تباہی کا سامان کرنا پڑرہا ہے۔    

     

رعایا پر ، مرد اپنے خاندان پر، عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں پر، اور اس طرح تم سب مسعول ہو اور اپنی اپنی رعایا پر ذمہ دار ہو"(البخاری و مسلم)

Last modified onجمعہ, 09 جون 2017 03:02

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک