الثلاثاء، 24 محرّم 1446| 2024/07/30
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

مشکلات کے دوران کس طرح بہادر ابھر کر سامنے آتے ہیں!

 

ایک مسلمان کے لیے بہادری  کی صفت حاصل  کرنا قابل عزت صفات میں سے ہے، چاہے وہ خلافت کا داعی ہو ، اسلا می طرز زندگی کے احیاء کے لیے جدوجہد کررہا ہو، یا فوج کا مخلص افسر ہو جو نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ دینے والا ہو۔بہادری طاقت کی نشانی ہے اور امت کے کھوئے ہوئے عزت و مرتبے کو بحال کرنے کا انحصار اسی صفت پر ہے۔  بہادری ان لوگوں کی صفت ہوتی ہے جو مضبوط ہوتے ہیں اور  جو دوسرے لوگوں یا صورتحال سے متاثر نہیں ہوتے، وہ جو کمزور نہیں ہوتے نا ہی تذبذب کا شکار ہوتے ہیں، اور وہ جو مال و دولت اور جان کے جانے سے نہیں ڈرتے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَلاَ تَعْجِزْ فَإِنْ أَصَابَكَ شَىْءٌ فَلاَ تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَذَا وَكَذَا،‏ وَلَكِنْ قُلْ قَدَّرَ اللَّهُ وَمَا شَاءَ فَعَلَ فَإِنَّ ‏"‏لَوْ"‏ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ

"مضبوط ایمان والا بہتر ہے اور اللہ کو زیادہ پیارا ہے بنسبت کمزور ایمان والے کے اگرچہ دونوں ہی اچھے ہیں۔  اس چیز کے لیے کوشش کرو جو تمہیں نفع پہنچائے گی، اللہ کی مدد طلب کرو، اور بے یارو مددگار تصور نہ کرو۔ اگر تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ نہ کہوں: اگر میں نے یہ یا وہ کیا ہوتا، بلکہ کہو: اللہ کا حکم ہے اور وہ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ اگر کہنا شیطانی اعمال کا دروازہ کھول دیتا ہے"

(ابن ماجہ)۔

 

یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ مسلمان امت کی موجودہ صورتحال پر افسوس و پریشانی کا اظہار کرتے ہیں لیکن چونکہ وہ بہادر نہیں ہوتے اس لیے اپنی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے وہ مشکلات اورمصائب کا سامنا  نہیں کرسکتے۔ لہٰذا وہ وہی کھڑے رہتے ہیں اور امت کی بری صورتحال پر پریشانی کا ہی اظہار کرتے رہتے ہیں اور ایسا مضبوط اور مستحکم قدم نہیں اٹھاتے جو صورتحال کو تبدیل کردے جس کا امت کو ایک عرصے سے انتظار ہے۔ لیکن بہادر مسلمان  مسکراتے چہرے کے ساتھ مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں جب وہ یہ دیکھتے ہیں  کہ امت ایک اہم دوراہے پر کھڑی ہے۔  وہ  اس بات سے قطعی نہیں گھبراتے کہ ہدف کتنا مشکل اور بڑا ہے، صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر ہی توکل کرتے ہیں اور اللہ کی مدد سے راستہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ روزمرہ کی عام زندگی سے بے زار ہوتے ہیں  اور خطرات سے پُر ایسے  منصوبے بناتے ہیں کہ جس سے وہ اپنی منزل پر جلد از جلد پہنچ سکیں۔ وہ مسلسل اپنا احتساب کرتے  اور خود میں مزید بہتری لانے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ تبدیلی لانے میں وہ زیادہ بہتر کردار ادا کرسکیں۔ اور تمام انسانیت کے لیے بہادری  کی سب اعلیٰ اور بے داغ مثال رسول اللہ ﷺ کی ہے۔

   خلافت کے داعیوں کے لیے جو آج کے جابروں کے خلاف ایک شدید جدوجہد کررہے ہیں بہترین مثال رسول اللہ ﷺ کی ہے جنہوں نے نتائج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے  بہادری کے ساتھ کھلے عام عوام تک اور اثرورسوخ رکھنے والے لوگوں تک ان کی نجی محفلوں میں اس پیغام کو پہنچایا۔ ابن حبان اور ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں طارق المھریبی سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کو زیل ماجاز کے بازار سے گزرتے دیکھا  کہ انہوں نے لال رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور لوگوں سے کہہ رہے ہیں:"اے لوگو!  کہو کہ کوئی رب نہیں سوائے اللہ کے  اور تم کامیاب ہو جاؤ گے"۔  ایک شخص جو آپ ﷺ کا پیچھا کررہا تھا اس نے آپ ﷺ پر پتھر پھینکنا شروع کردیے کہ جس کی وجہ سے آپ ﷺ کے ٹخنوں اور رانوں سے خون بہنے لگا۔ اس نے لوگوں سے کہا : اے لوگو اس کی نہ سنو کہ یہ جھوٹا ہے۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں  نے کہا : عبدالمطلب کے قبیلے کا بیٹا ہے۔ میں کہا: یہ کون ہے جو ان کا پیچھا کررہا ہے؟ لوگوں نے کہا: عبدالعزا، ابو لہب۔ الحاکم نے المسدرک میں روایت کی ہے اور کہا ہے کہ اس کی اسناد صحیح مسلم کی شرائط کے مطابق  درست ہے ،التلخیص کے مصنف نے اس سے اتفاق کیا ہے، کہ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: "وہ اللہ کے نبی کو اس وقت تک مارتے کہ وہ بے ہوش ہوجاتے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور چلانے لگے اور کہا: تم پر افسوس ہے! کیا تم کسی  آدمی کو اس لیے قتل کرو گے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے؟ انہوں نے کہا: یہ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ ابو قحافہ، پاگل آدمی کا بیٹا ہے"۔

اور خلافت کے داعیوں کے لیے بہترین مثال رسول اللہ ﷺ کی بہادری ہے  کہ جب جابر وں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ انہیں قتل کردیں کیونکہ ان کے تمام پچھلی کاوشیں ناکام ہو گئی اور اس دعوت کی کامیابی انہیں نظر آنے لگی تو بھی رسول اللہ ﷺ نے ان کا سامنا انتہائی صبر اور پُرسکون طریقے سے کیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَـكِرِينَ

"اور اس واقع کا بھی ذکر کیجئے! جبکہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کرلیں یا آپ کو قتل کرڈالیں یا آپ کو خارج وطن کر دیں، اور وہ تو اپنی تدبیریں کرہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کررہا تھا اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے"(الانفال:30) ۔

 

  لہٰذا قریش کے جابر وں نے منصوبہ بنایا کہ وہ تمام قبائل سے  نوجوانوں کا ایک دستہ بنائیں گے  اور وہ ایک ساتھ محمد ﷺ پر حملہ کریں گے اور اس طرح تمام قبائل مل کر انہیں قتل کردیں گے۔ بنی ہاشم جب یہ دیکھیں گے کہ تمام قبائل نے مل کر یہ کام کیا ہے تو وہ تمام قبائل کے خلاف جنگ نہیں کرسکیں گے اور خون بہا قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ اس طرح وہ مشکل ختم ہو جائے گی جس نے  قریش کے سرداروں کو بے آرام اور ان کے اقتدار کو خطرہ لاحق کررکھا ہے۔

 

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس یقینی اور واضح خطرے کے باوجود رسول اللہ ﷺ پُرسکون تھے اور قطعی نہیں ڈرے تھے اور پوری استقامت کے ساتھ وہ قدم اٹھاتے چلے گئے  جس کے ذریعے انصار سے ملنے والی نصرۃ کے بعد مدینے میں اسلام کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جبریل ؑ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے  اور ان سے کہا وہ اُس رات اپنے بستر پر نہ سوئیں اور انہیں کفار کے منصوبے سے آگاہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ اُس رات اپنے گھر میں نہیں سوئے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہجرت کرنے کی اجازت دی  اور رسول اللہ ﷺ نے ہجرت ذہانت کے ساتھ  پرسکون اور باوقار طریقے سے کی۔ اور ہجرت کے دوران بھی جب کفار نے تقریباً آپ ﷺ کو پکڑ ہی لیا تھا  تو بھی آپ کی بہادری واضح تھی۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،

 

قُلْتُ قَدْ آنَ الرَّحِيلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ قَالَ ‏«بَلَى‏» فَارْتَحَلْنَا وَالْقَوْمُ يَطْلُبُونَا، فَلَمْ يُدْرِكْنَا أَحَدٌ مِنْهُمْ غَيْرُ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ عَلَى فَرَسٍ لَهُ‏.‏ فَقُلْتُ هَذَا الطَّلَبُ قَدْ لَحِقَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ فَقَالَ: ‏«لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا»

"پھر میں نے کہا، اب وقت آگیا ہے کہ ہم چل پڑیں اے اللہ کے رسول ﷺ! انہوں نے کہا: ہاں۔ لہٰذا ہم نکل پڑے جبکہ لوگ (قریش) ہمیں ڈھونڈ رہے تھے لیکن ہمیں کوئی نہ ڈھونڈ سکا سوائے سورۃ بن مالک بن جوشوم جو اپنے گھوڑے پر سوار تھا۔ میں نے کہا، یہ ہمیں تلاش کرنے والے ہیں  اور انہوں نے ہمیں ڈھونڈ لیا ہے اے اللہ کے رسول۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پریشان مت ہو کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے"(بخاری)۔

اور اسلام کا ایک ریاست کی صورت میں قیام کے بعد رسول اللہ ﷺ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اپنی بہادری کے ذریعے لوگوں کا خوف دور کیا۔ انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، 

 

كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَحْسَنَ النَّاسِ وَأَجْوَدَ النَّاسِ وَأَشْجَعَ النَّاسِ، وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَانْطَلَقَ النَّاسُ قِبَلَ الصَّوْتِ، فَاسْتَقْبَلَهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَدْ سَبَقَ النَّاسَ إِلَى الصَّوْتِ وَهْوَ يَقُولُ ‏«لَنْ تُرَاعُوا، لَنْ تُرَاعُوا»

"رسول اللہ تمام لوگوں میں ( شکل وصورت اور کردار کے لحاظ سے) بہترین تھے اور سب سے بڑھ کر سخی تھے اور سب سے بڑھ کر بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ کے لوگ خوفزدہ ہوگئے(ایک آواز کی وجہ سے)، لہٰذا  لوگ اس آواز کی جانب بھاگ کھڑے ہوئے لیکن لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جگہ آپﷺ پہنچ چکے تھے اور کہہ رہے تھے: ڈرو مت، ڈرو مت" (بخاری)

 

جہاں تک افواج کے افسران کا تعلق ہے، تو  ایک ایسے وقت میں جب موجودہ حکمران اس خوف کا شکار ہیں کہ ان کا قتدار کسی بھی وقت ختم ہوسکتا ہے اور اس کو ٹالنے کے لیے وہ دنیا کا مال و دولت رشوت کے طور پر دیتے ہیں  تا کہ ان کے خلاف کوئی حرکت میں نہ آئے، تو رسول اللہ ﷺ ان کے لیے بہترین مثال ہیں کہ وہ ان سے  سبق اور حوصلہ حاصل کریں۔  رسول اللہ ﷺ بہادر تھے، اس وقت بھی وہ قطعی خوفزدہ نہ ہوئے جب دشمن نے ان پر  تلوار تان لی  جبکہ آپ ﷺ غیر مسلح تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ سے روایت ہے کہ ،

 

كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِذَاتِ الرِّقَاعِ، فَإِذَا أَتَيْنَا عَلَى شَجَرَةٍ ظَلِيلَةٍ تَرَكْنَاهَا لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَسَيْفُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مُعَلَّقٌ بِالشَّجَرَةِ فَاخْتَرَطَهُ فَقَالَ تَخَافُنِي قَالَ ‏"لاَ"‏‏.‏ قَالَ فَمَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي قَالَ ‏"اللَّهُ"‏‏.‏ فَتَهَدَّدَهُ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم

"ہم الرقہ کی جنگ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، ہم ایک سایہ دار درخت کے پاس پہنچے اور ہم نے اسے رسول اللہ ﷺ کے لیے چھوڑ دیا( کہ وہ اس کے سائے میں آرام کرلیں)۔  مشرکین  میں سے ایک شخص آیا جب رسول اللہ کی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی۔ اس نے خاموشی سے تلوار نیام سے نکالی اور کہا (رسول اللہ ﷺ سے)،  کیا تم مجھ سے ڈر رہے ہو؟  رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا ، نہیں۔ اس نے کہا، کون آپ کو مجھ سے بچا سکتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،اللہ"(بخاری)۔

ریاض اوس صلاھین میں جابر نے بتایا ہے کہ اس بہادری کے نتیجے میں مشرک نے تلوار پھینک دی۔

 

جہاں تک افواج کے سینئر ترین افسران ، جنرلز،کا تعلق ہے، جو نصرۃ نہ دینے کے لیےاپنی عمر کا بہانہ بناتے ہیں، تو انہیں رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے آخری سالوں کا غور سے جائزہ لینا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ 8 ہجری میں ہونے والے غزوہ حنین میں ساٹھ سال سے زائد عمر کے ہوچکے تھے۔ روایت ہے کہ،

 

فَأَقْبَلَ الْقَوْمُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ يَقُودُ بِهِ بَغْلَتَهُ فَنَزَلَ وَدَعَا وَاسْتَنْصَرَ وَهُوَ يَقُولُ «أَنَا النَّبِيُّ لاَ كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ اللَّهُمَّ نَزِّلْ نَصْرَكَ»‏.‏ قَالَ الْبَرَاءُ كُنَّا وَاللَّهِ إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ نَتَّقِي بِهِ وَإِنَّ الشُّجَاعَ مِنَّا لَلَّذِي يُحَاذِي بِهِ ‏.‏ يَعْنِي النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم ‏.

"لوگ رسول اللہ ﷺ کی جانب مڑے۔ ابوسفیان بن الحارت آپ ﷺ کے  گدھے کو کھینچ رہے تھے ۔ آپ ﷺ  نیچے اترے، نماز پڑھی اور اللہ سے مدد طلب کی۔ آپ ﷺ نے کہا: میں نبی ہوں۔یہ جھوٹ نہیں ہے۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ اے اللہ اپنی مدد بھیج۔ البراء نے کہا: جب جنگ شدید ہو گئی،  اللہ کی قسم ہم  ان کے وجود سے تحفظ حاصل کررہے تھے، اور ہمارے درمیان سب سے زیادہ بہادر آپ ﷺ تھے  جنہوں نے شدید حملے  کا سامنا کیا اور وہ نبی ﷺ تھے "(مسلم)۔

 

اے خلافت کے داعیوں! افواج میں موجود مخلص افسران! ہمارے پیارے رسول اللہ ﷺ ہی ہمارے لیے واحد مثال ہیں، اس دنیا میں بہترین مثال اور آخرت میں جن کا ساتھ ہم چاہتے ہیں۔  بہادروں کو سبق لینا چاہیے اس سے پہلے کہ وہ  کمزور پڑ جائیں اور خود کو گرا لیں۔ اور ہمیں اس بات کا یقین رکھنا چاہیے کہ وہ جو پہلے بزدل تھے  اب خود کو بدل کر بہادر بن جائیں۔ رسول اللہ ﷺ  فرمایا:

إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيمِ

"ایک شخص ہوسکتا ہے جہنمی لوگوں کے اعمال کرے لیکن وہ جنتی لوگوں میں سے ہوگا، اور ہوسکتا  ہے کہ وہ جنتی لوگوں کے اعمال کرے لیکن وہ جہنمی لوگوں میں سے ہو، اور یقیناً  اعمال پر اجر کا فیصلہ آخری اعمال پر ہوتا ہے(یعنی خاتمہ کس عمل پر ہوا ہے) "(بخاری)۔

اٹھو  بھائیوں ، بہادری کے ساتھ  کہ تمہارا وقت قریب آرہا ہے!

حزب التحریرکے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

مصعب عمیر -  پاکستان

Last modified onاتوار, 11 جون 2017 05:43

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک