الثلاثاء، 24 محرّم 1446| 2024/07/30
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 16 جون 2017

 

- اسلامی سیاست انسانوں کی خواہشات اور مفادات کے مطابق نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کے مطابق ہوتی ہے

- صرف اسلامی عدلیہ ہی کرپشن کا خاتمہ کرسکتی ہے کیونکہ وہ قرآن و سنت سے فیصلے کرتی ہے

- امریکہ کے ہاتھوں ہماری خودمختاری کی خلاف ورزی کا باجوہ نے منہ توڑ نہیں بلکہ کمزور جواب دیا ہے

 

تفصیلات:

 

اسلامی سیاست انسانوں کی خواہشات اور مفادات کے مطابق نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کے مطابق ہوتی ہے

 

13 جون 2017 کو تحریک انصاف کے ترجمان نے پارٹی انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا جس میں عمران خان بہت واضح برتری سے تحریک انصاف کے چیرمین منتخب ہوگئے۔ پی ٹی آئی کے حمایتیوں نے سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کے انتخاب کےمسئلے کو بحث کا موضوع بنایا اور اس بات کی نشان دہی کی کہ دوسری دو اہم سیاسی جماعتوں، یعنی پی پی پی اور پی ایم یل-ن میں بل ترتیب بھٹو اور شریف خاندان قیادت پر برجمان ہیں ۔ لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں موجود مسائل اس سے کہیں زیادہ وسیع ہیں کہ آیا ان کی قیادت منتخب ہے یا خاندانی ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ تین اہم سیاسی جماعتوں کے منشور قرآن و سنت سے اخذ شدہ نہیں ہیں۔ لہٰذا ان کے منشور غیر اسلامی جمہوری نظام اور اس کی استحصالی سرمایہ دارانہ معیشت کے علمبردار ہیں۔ وہ موجودہ آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں جس کی کسی دفعہ کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تین اہم سیاسی جماعتیں ہمیشہ مسلمانوں کو مایوس کرتی ہیں کیونکہ وہ ایسے قوانین بناتی ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ قوانین اسلام سے متصادم ہوتے ہیں۔

 

اس کے برخلاف پاکستان میں حزب التحریر وہ واحد جماعت ہے جو مکمل طور پر اسلام کی بنیاد پر قائم ہے۔ یہ اس چیز کی جانب لوگوں کو پکارتی ہے جس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے معروف یعنی حق و سچ قرار دیا ہے اور اس بات سے روکتی ہے جسے انہوں نے منکر یعنی غلط قرار دیا ہے۔ حزب التحریر نے 191 دفعات پر مشتمل ایک مکمل آئین بنایا ہے جس کی ہر دفعہ قرآن و سنت سے اخذ شدہ ہے یہاں تک کہ سیاسی جماعتوں کے قیام کے حق میں شرعی دلائل بھی پیش کیے ہیں۔ حزب التحریر نے مقدمہ الدستور کی دفعہ 21 میں قرار دیا ہے کہ "حکام کے احتساب یا امت کے ذریعے حکومت تک پہنچنے کے لیےسیاسی جماعتیں بنانے کا حق مسلمانوں کو حاصل ہے، بشرطیہ کہ ان جماعتوں کی بنیاد اسلامی عقیدہ ہو اور یہ جماعتیں جن احکامات کی تبنی کرتی ہوں وہ اسلامی احکامات ہوں۔ کوئی جماعت بنانے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں ، ہاں ہر وہ جماعت ممنوع ہو گی جس کے اساس اسلام نہ ہو۔ اس دفعہ کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:

 

وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

'اور تم میں سے ایک جماعت ضرور ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں'(آل عمران:104)۔

 

سیاسی جماعت بنانے کے حوالے سے اس آیت سے استدلال کی وجہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو خیر یعنی اسلام کی طرف دعوت دے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے۔۔۔۔

 

 

صرف اسلامی عدلیہ ہی کرپشن کا خاتمہ کرسکتی ہے کیونکہ وہ قرآن و سنت سے فیصلے کرتی ہے

 

14 جون 2017 کو تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی جس میں یہ الزام لگا یا گیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے ایماء پر اس عدالت ، عدلیہ اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے خلاف " حقارت آمیز اور اہانت آمیز مہم" چلائی جارہی ہے جو شریف خاندان سے تحقیق کررہی ہے۔ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر حزب اختلاف عوام کی اس نظام سے امیدیں باندھ رہی ہے جو کرپٹ کو کرپشن کرنے کی کھلی اجازت دیتا ہے۔ یہ عدالت اور عدلیہ اسلام کی بنیاد پر نہ تو مقدمے سنتی ہیں اور نہ اسلام کی بنیاد پر فیصلے دیتی ہیں ، اور اگر وہ ایسا کرتے تو مالیاتی کرپشن کو کرپشن کے پہاڑ کا ایک چھوٹا سا حصہ سمجھتے۔ حکمران صرف مالیاتی کرپشن میں ہی ملوث نہیں ہیں بلکہ وہ ایسے قوانین نافذ کرتے ہیں جو اسلامی نہیں ہیں، مسلمانوں کے حقوق کا انکار کرتے ہیں جو اسلام نے انہیں دیے ہیں اور استعماری طاقتوں کو مسلمانوں پر مسلط اور ان کے امور پر اختیار دیتے ہیں۔ اسلامی عدلیہ کو اس قسم کے مقدمات کا فیصلہ کرنے میں چند گھنٹے لگتے ہیں نہ کہ کئی کئی مہینے۔

 

مسلمانوں کو اس کرپٹ نظام اور اس کی عدلیہ کو مسترد کرنے کی جانب متوجہ کرنا چاہیے۔ انہیں نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی جدوجہد میں حصہ لینےکے لیے پکارنا چاہیے۔ صرف خلافت کے قیام کی صورت میں ہی مسلمانوں کو ایسی عدلیہ ملے گی جو حکمرانوں کا احتساب اسلام سے کرے گی۔ اسلام حکمرانوں کے احتساب کے لیے مظالم کی عدلیہ قائم کرتا ہے جو حکمرانوں اور عوام کے درمیان ہونے والے معاملات کی تحقیقی کرتا ہے۔ المعجم الاوسط میں الطبرانی کی روایت میں فضل ابن عباس نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، فمَنْ كنتُ جلدتُ لهُ ظهراً فهذا ظهري فليَسْتَقِدْ منه، ومَنْ كنتُ شتمتُ لهُ عِرضاً فهذا عِرضي فليَسْتَقِدْ منه، ومن كنتُ أخذتُ لهُ مالاً، فهذا مالي فلْيَسْتَقِدْ منه "اگر میں نے کسی کی پیٹھ پہ کوڑے مارے ہوں تو یہ میری پیٹھ ہے اپنا بدلہ لے لے، اگر میں نے کسی کو گالی دے کر بے عزتی کی ہو تو آئے اور اپنا بدلہ لے، اگر میں نے کسی کا مال لیا ہو تو یہ میرا مال ہے اس سے اپنا بدلہ لے"۔ اسلام حکمران کے احتساب کی بنیاد اس بات کو بناتا ہے کہ اس نے اسلام نافذ کیا یا نہیں۔ اگر کوئی کسی بھی معاملے پر حکمران سے شریعت کی بنیاد پراختلاف کرتا ہے تو اس معاملے کو مظالم کے عدالت کی جانب بھیج دیا جاتا ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ

"اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اطاعت کرو رسول ﷺ کی اور تم سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹا دو اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول ﷺ کی طرف"(النساء: 59)

 

 امریکہ کے ہاتھوں ہماری خودمختاری کی خلاف ورزی کا باجوہ نے منہ توڑ نہیں بلکہ کمزور جواب دیا ہے

 

15 جون 2017 کو پشاور میں ہونے والے والی کورپس کمانڈر کے اجلاس میں ایک دن قبل ہونے والے امریکی ڈرون حملے کے حوالے سے باجوہ نے کہا کہ،" ڈرون حملوں  جیسی یک طرفہ کارروائیوں کے منفی اثرات ہوتے ہیں۔۔۔۔پاکستان مسلسل انٹیلی جنس شیئرنگ کررہا ہے۔ پاک آرمی کسی بھی معلومات پر ایکشن لینے کے لیے بھر پور تیار ہے"۔  غیر ملکی طاقت کے ہاتھوں ایک بار پھر پاکستان کی خودمختاری  کی سنگین خلاف ورزی  کی گئی  لیکن باجوہ حرکت میں نہیں آئے۔  اس بات کے باجود کہ رمضان وہ مہینہ ہے جب ہماری افواج کا ایمان مزید بڑھ جاتا ہے کیونکہ  وہ جانتے ہیں کہ دو ہجری میں ہونے والے غزوہ بدر میں مسلمانوں نے اپنے سے تین گنا بڑی اور زیادہ  بہتر اسلحے سے مزین طاقت  پر  شاندار کامیابی حاصل کی تھی لیکن پھر بھی باجوہ  اس سنگین خلاف ورزی کے خلاف حرکت میں نہیں آئے۔  اگرچہ دفاع کے لیے سالانہ بجٹ میں 920 ارب روپے سے زائد رقم رکھی گئی تا کہ باجوہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ملک  کو درپیش کسی بھی خطرے کا سامنا کرنے کے لیے ہماری افواج جدید ٹیکنالوجی اورا سلحے سے مسلح ہو  اور صلیبیوں اور ہندو مشرکین کے خلاف کسی بھی بہادارنہ ایکشن کے لیےپاکستان کے مسلمان اپنی افواج کی بھر پور حمایت کریں لیکن اس کے باوجود باجوہ حرکت میں نہیں آئے۔ ہماری مشرقی سرحدوں پر ہندو ریاست نے کئی بار جارحیت کی  جبکہ امریکہ نے ہماری مغربی سرحد پر کئی یک طرفہ ڈرون حملے کیے لیکن باجوہ حرکت میں نہیں آئے۔  اور باجوہ اس لیے حرکت میں نہیں آئے  کیونکہ وہ بھی سیاسی قیادت کی طرح امریکہ کے  وفادار ایجنٹ ہیں  جو اپنے آقا اور اس کے اتحادیوں یعنی بھارت کی جارحیت کے خلاف منہ توڑ جواب دینے کی  کبھی ہمت  نہیں کریں گے۔

 

اسلام کے دشمن آگے بڑھ بڑھ کرمسلمانوں پر حملے کرر ہے ہیں کیونکہ موجودہ حکمران دشمنوں کے خلاف کمزور اور ان کے سامنے جھکنے والے ہیں۔ صرف نبوت کے طریقے پر قائم خلافت ہی ہوگی جو  دشمنوں سے مسلمانوں کے خون کی حرمت کی حفاظت کرے گی۔ امت کی ڈھال خلافت  کو بحال کرنے کے لیے مسلمانوں کو لازمی حرمت میں آنا چاہیے کیونکہ صرف وہی  خونِ مسلم کی حرمت کی حفاظت کرے گی۔ ابن ماجہ سے روایت ہے کہ عبداللہ ابن عمر نے کہا ، " میں نے رسول اللہ کو کعبہ کا طواف کرتے دیکھا  اور وہ کہہ رہے تھے:

 

مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ حُرْمَةً مِنْكِ مَالِهِ وَدَمِهِ وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلاَّ خَيْرًا،

'کتنے اچھے ہو تم اور کتنی اچھی ہے تمہاری خوش بو؛  کتنے عظیم ہو تم  اور کتنی عظیم ہے تمہاری حرمت۔  قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، اللہ کے نزدیک مسلمان، اس کے خون اور مال  کی حرمت تمہاری حرمت سے بڑھ کر ہے، اور اس کے متعلق صرف اچھا ہی سوچنا چاہیے'"۔

Last modified onہفتہ, 17 جون 2017 06:54

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک