بسم الله الرحمن الرحيم
مسلم ممالک کی تعلیمی پالیسی:
قائدانہ اور تخلیقی صلاحیتوں کو تباہ اور تقلید کی حوصلہ افزائی کرتی ہے
ریاستیں اپنی تعلیمی پالیسی اورتعلیمی اسالیب پر گہری توجہ دیتی ہیں اور وہ اسے پوری آگاہی کے ساتھ بناتی ہیں کیونکہ اس سے انفرادی شخصیت کی تعمیر کے ساتھ ساتھ دیگر اقوام میں ریاست کے مرتبہ و مقام کی بھی پہچان بنتی ہے۔ ایک کامیاب تعلیمی پالیسی نہ صرف طالبِ علم کو علم کے زیور سے آراستہ کرتی ہے بلکہ معاشرے کے لیے بھی کام کرتی ہے جہاں اسکول اور یونیورسٹیاں، نظریات اور تخلیقی سکالرز کی پیداوارکا مرکز ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں تعلیمی نصاب اور تعلیمی اسلوب و ذرائع تعلیم کے معیار اور طلباء میں تخلیقی صلاحیتوں کو پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
مسلم دنیا کی تعلیمی پالیسی پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسی پالیسی ہے جس سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ یہ پالیسی تعلیم کی بجائے جہالت پھیلاتی ہے۔ اس کے تعلیمی طریقۂ کار سے بہت واضح ہے کہ یہ پالیسی قائدانہ اصول اور تخلیقی صلاحیتوں کی بجائے تقلید اور نقالی کے اصول کو پروان چڑھاتی ہے۔ یہ ناکام طریقے سوچنے کے عمل میں رکاوٹ بن کے طالبِ علم کی تخلیقی صلاحیت کو تباہ کر دیتے ہیں، کیونکہ یہ محض معلومات کو رَٹ لینےاور صرفمفروضوں کی تعلیم پرمبنی ہیں، اور ان کا محورمختلف معلومات کو محضحفظ کرنا ہے، نہ کہ ان معلومات کو سمجھا جائے، ان کا تجزیہ کیا جائے یا حقیقت پرانہیں لاگو کیا جائے۔ لہٰذا تصورات محض معلومات کے طور پر طلباء کے اذہان میں موجود ہوتے ہیں جنہیں وہ بغیر کسی ادراک کے دھراتے رہتے ہیں اور امتحانات میں انہیں جوں کا توں لکھ آتے ہیں۔ ان کے لیے تعلیم زندگی کے معاملات کے متعلق علم و آگاہی حاصل کر کے امت کو بلندی دلانے کا ذریعہ نہیں بلکہ محض نمبر اور ڈگریاں لینے کا نام ہے ۔
یہ ناکام تعلیمی طریقہ کار تجرباتی(سائنسی) اور غیر تجرباتی علوم میں یکساں استعمال کیا جا ریا ہے۔ غیر تجرباتی علوم جیسے تاریخ، زبان دانی، اسلامی فقہ، تفسیر، حدیث وغیرہ معلومات سے بھرپور ہیں جن کو سمجھنے سمجھانے، تقابل اور تنقید کرنے کی بنیاد پر نہیں پڑھایا جاتا بلکہ اس انداز سے پڑھایا جاتا ہے کہ یہ معلومات ہیں کہ جنہیں ذہن نشین کرنا ہے۔ کالج اور یونیورسٹیوں میں بہت سے سوالات اب بھی یوں دیے جاتے ہیں کہ فلاں کو بیان کریں، فلاں کو شمار کریں، فلاں کو ثابت کریں، اور تعلیم کا اُکتا دینے والے طریقہ اس کے علاوہ ہے۔ اگر ہم عربی زبان کی تعلیم کی مثال لیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ولولہ انگیری سے کم اور غیر لچکدار اندازسے زیادہ پڑھائی جاتی ہے، کہ جس سے طالبِ علم کی تحریری، تقریری اور ترکیب سازی کی صلاحیتیں پروان نہیں چڑھتیں۔ حتیٰ کہ عبارت نگاری جس کا مقصد یہ ہے کہ طالبِ علم لکھ سکے، اظہارِ بیان کر سکے اور اپنے اندر موجود مصنّف کو ڈھونڈ نکالے، کو کسی موضوع پر لکھنے سے ہٹا کر درسی کتاب کی کسی کہانی کو اختصار سے بیان کرنے تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ اور اگر لکھنے کو کہا بھی جائے تو ان کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ دیے گئے فریم ورک اورلگے بندھے اندازسے انحراف نہ کریں جو کہ بیان کرنے کے نئے اسالیب اور استعاروں کو دریافت کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
جہاں تک تجرباتی سائنسی علوم جیسے کیمسٹری، فزکس وغیرہ کا تعلق ہے تو وہ بھی روایتی انداز سے پڑھائے جاتے ہیں۔ ان کے لیے بھی یاداشت کا سہارا لیا جاتا ہے، نہ کہ اس طرح پڑھائے جائیں کہ تجربات اور پریکٹس کے ذریعے وہ اپنے خواس خمسہ سے خود ان کا مشاہدہ کر سکیں اور یوں معلومات طلبا کے ذہین میں پختہ ہو جائیں اور وہ کسی بھی دی گئی معلومات کو صحیح اور غلط کی بنیاد پرخود جانچ سکیں۔ اگر تعلیمی نصاب میں تحقیقی موضوعات شامل بھی ہیں، تو ان کی تحقیق کے لیے انفراسٹرکچر ہی موجود نہیں اور ایسی تجربہ گاہوں، آلات اور ریفرنس مواد کی کمی ہے کہ جو تحقیق اور ریسرچ کے لیے درکار ہیں۔ ایسے وسائل کے حامل اسکول اور یونیورسٹیاں بہت کم ہیں،کچھ غیرسرکاری اور نجی اداروں میں غیر ملکی امداد اور عطیات کی بنا پر یہ سہولیات میسر ہیں ، لیکن یہ سہولیات کچھ شرائط کے ساتھ مہیا کی جاتی ہیں اور یہ سہولیات یقیناً ایسی نہیں ہوتیں کہ سوچنے، تجزیہ کرنے اور ترقی و بلندی اور نشاۃ ِ ثانیہ حاصل کرنےمیں مددگار ہوں۔
نہ صرف یہ کہ اسلامی ممالک میں حکومتیں تعلیم اور طلباء پر توجہ نہیں دیتیں، بلکہ شعبہ ٔتعلیم سے منسلک افسران سائنسی مضامین کو کم کر کے ان کی جگہ ڈانس اور میوزک کی کلاسز کے خواہاں ہیں، جس کے باعث سائنسی ترقی اور ایجادات کے فروغ کی بجائے کرپشن اور جہالت پھیلتی ہے۔ تیونس کے وزیرِتعلیم ناجی جلول نے الحوار ٹی وی چینل کے پروگرام میں کہا، "حساب اور فزکس کم ہونی چاہیے اور ہمیں ڈانس اور میوزک سکھانے کے اوقات میں اضافہ کرنا چاہئے"۔
تعلیم کے اس طریقے سے طلباء محض معلومات کےسطحی اور تصوراتی حصول تک محدود رہتے ہیں جو طلبا میں اکتاہت پیدا کرتا ہے اور انہیں نوخیزی و سرگرمی سے دور رکھتا ہے۔ اس سے طلباء میں سیکھنے اور اسکول سے رغبت کا جذبہ نہیں اُبھرتا۔ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ اکتا دینے والے تعلیمی طریقے اور اسالیب اسکول و کالج چھوڑ دینے کی وجہ بنتے ہیں ،علاوہ ازیں یہ زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کرنے اور فیصلہ لینے کی صلاحیت پیدا کرنے میں مددگار نہیں ہیں ۔ مختصراً یہ کہ تعلیم صرف طلباکو طوطے کے طرح معلومات رَٹانے کا ذریعہ ہے جنہیں وہ ذہن نشین کرکے دُھراتے رہتے ہیں۔
ہم اس واضح فرق ، کمی اور خلاکا مشاہدہ کر سکتے ہیں جو ہمارے اور مغرب کے طالب علموں میں موجود ہوتا ہے جب ہمارے طلبا مغربی دنیا کی یونیورسٹیوں میں تعلیم کی غرض سے جاتے ہیں ، یہ اس تعلیمی طریقہ کے غلط ہونے کی بڑی دلیل ہے۔ تو پھر وہ کون سا طریقہ تعلیم ہے جو علماء اور موجد پیدا کرتا ہے؟ یہ وہ طریقہ ہے جو ذہن کو تعلیم اور سیکھنے کا ایک آلہ بناتا ہے اور اس کا انحصار ایسے طریقۂ تعلیم پر ہے کہ جہاں استاد طلبا کو فکری انداز میں مخاطب کرے اور سیکھنے والا علم کو فکری طور پر قبول کرے ، جس میں طلباتک افکار کامیابی اور تیزی سے پہنچانے کے لیے اسلوب اور ذرائع کو ضرورت کے لحاظ سے تبدیل کیا جائے ، اور مختلف انواع کے طریقے بروئے کار لائے جائیں جیسےمکالمہ ،بحث و مباحثہ، کہانی، مصنوعی ماڈل، مسائل کو حل کرنے کی پریکٹس اور تجربات کے ذریعے براہِ راست اور عملی تربیت اورتخیل کا استعمال ۔ اگر استاد طالبِ علم کو کوئی فکر دینا چاہتا ہے تو وہاظہار کے ایک یا ایک سے زائد ذرائع استعمال کرتا ہے، خصوصاً زباندانی کے ۔ اگر اس فکر کو کسی ایسی حقیقت کے ساتھ جوڑا جائےجسے طالب علم نے پہلے کبھی محسوس کیا ہو، یا اس سے ملتی جلتی حقیقت کو محسوس کیا ہو ، یا خواسِ خمسہ کے ذریعے طالب علم کو اس حقیقت کا احساس دلایا جائے تو یہ فکر طالب علم تک ایسے منتقل ہو گی جیسے وہ خود اس نتیجے پر پہنچا ہو۔ لہٰذا استاد کے لیے لاز م ہے کہ وہ افکار کے معانی و مطالب کو طلبا کے ذہن کی دسترس میں کرے ، حقیقت کے احساس کے ساتھ جوڑ کریا کسی ایسی حقیقت کے احساس کے ساتھ جوڑ کر جو اس سے ملتی جلتی ہواور جسے طالب علم محسوس کرتے ہوں، تاکہ وہ افکار حاصل کریں، نہ کہ صرف معلومات، اور اس کے لیے متعدد تعلیمی ذرائع اور طریقہ کار استعمال کیے جائیں ، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ذرائع اور اسالیب مستقل نہیں ہوتے اور استاد کو طلباء کے درمیان فرق کو سامنے رکھتے ہوئے نصاب میں موجود افکار ان تک پہنچانے کے لیے نئے ذرائع اور اسالیب تلاش کرنے چاہیے،جو مؤثر ہوں۔ مثلاً پہلے فکری تعلیم میں قلم اور کاغذ، زبانی طریقہ ٔکار،لکھ کر مشق کرنےاور ہوبہو نقل کرنے کے طریقے استعمال ہوتےتھے، جبکہ آجکل اس میں تصاویر، ویڈیوز، آڈیوز اور لیباٹریوں میں تجربے کا استعمال ہوتا ہے۔
مثلاً اگر ہم طلباء کو ایسے مادے کے متعلق سکھانا چاہتے ہیں جوحرارت اور بجلیاپنے اندر سے گزرنے دیتے ہیں اور وہ مادے جو اس ترسیل میں رکاوٹ بنتے ہیں تو بجائے اس کے کہ یہ معلومات کاغذ پر ان تک پہنچائی جائیں، اس کا درست طریقہ یہ ہے کہ طلباء ایک ایسی لیباٹری میں اس کا تجربہ کریں جس میں اس تجربے کے لیے درکار آلات موجود ہوں۔ لہٰذا طلباء اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر سکیں گے کہ کس طرح تانبے سے بجلی گزر جاتی ہوتی ہے مگر پلاسٹک سے نہیں، اور ہاتھ لگا کر محسوس کر سکیں کہ کس طرح اس سے حرارت کی ترسیل ہو سکتی ہے مگر پلاسٹک سے نہیں۔
جب ماضی کے مسلم حکمرانوں کی فتوحات اور جنگوں کو تاریخ میں پڑھانا ہو تو ہم ویڈیو، نقشے اور دیگر ذرائع استعمال کر سکتے ہیں تاکہ ان واقعات کی تصویر طلباء کے ذہن کے قریب آ جائے۔ اسلامی عقیدہ کو سکھاتے ہوئے ہمیں عقیدے سے متعلق معلومات تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ ہم بات کو یقینی بنائیں کہ طلبا پر اس عقیدہ کا اثر ہو۔وہ اللہ کی خاطر جہاد کی عظمت کومحسوس کریں اور اس بات کو جان لیں کہ جہاد لوگوں اور اقوام تک اسلام کی دعوت پہنچانے کا طریقہ ہے، اور وہ جہاد کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی، مسلمانوں پر اس کی فرضیت، اس کا اجر، اللہ کی راہ میں شہادت، قربانی اوراسلام پر فخر کے مطلب کو سمجھیں،اسی طرح شکست یافتہ جنگوں سے سیکھا ہوا سبق اور فتح کی وجوہات جیسے افکار کو ذہنوں میں پیوست کرنا چاہیے۔
جب عربی زبان اور اس کی صرف ونحو(گرامر)، خصوصیات اورفصاحت و بلاغت وغیرہ کو سکھایا جائے تو یہ معلوماتی انداز میں نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کو اسلامی عقیدہ سے جوڑ کر پڑھانا چاہیے کیونکہ یہ قرآن کی زبان ہے ،جس سے قرآن اور سنت کو سمجھا جاتا ہے، احکامِ شریعہ اخذ کیے جاتے ہیں اور قرآن کے معجزہ ہونے کومحسوس کیا جاتا ہے۔ متعدد تکنیکی طریقوںکو استعمال کرتے ہوئے طلباء کو معلومات اس طرح فراہم کی جائیں کہ وہ بحث، تحقیق اور تجزیے میں اپنے عربی کے علم کو استعمال کریں،اورزبان دانی کی تخلیقی اور تحریری صلاحیتوں کو اُجاگر کریں ۔
جب ہم ناکام تعلیمی پالیسی اور لاحاصل تعلیمی طریقۂ کار کی بات کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مسلم امت میں موجدین، سائنسدانوں اور تخلیقی افراد کی کمی ہے، بلکہ اس کے برعکس الحمداللہ اس امت میں بے پناہ صلاحیت اور استعداد چھپی ہوئی ہے اور بے شمار ذہین اور تخلیقی افراد موجود ہیں ۔ لیکن ان کو توجہ، عزت اور مالی معاونت نہیں دی جاتی، نہ ہی حکومت کی طرف سے ان کے کاماور تخلیقی صلاحیتوں کو سراہا جاتا ہے۔ کتنے ہی موجدین اور تخلیقی افراد اپنے ممالک سے جانے پر مجبور ہوئے کیونکہ ان کے ممالک میں مناسب مواقع اور سازگار حالات نہیں تھے، اور پھر بعد میں ہم نے ان کی ایجادات اور دریافتوں کے بارے میں سنا جو انہوں نے وہاں جا کر کیں جہاں وہ ہجرت کر کے گئےتھے ۔انہی افراد میں سے ایک تیونس کے انجینئر اشرف بن ثابت بھی ہیں جو جرمنی گئے اور وہاں انہوں نے پہلا k4 کیمرہ ایجاد کیا جو طب میں استعمال ہوتا ہے۔
تشویش یہ ہے کہ مسلم ممالک کی حکومتیں ان کی معاونت کررہی ہیں جن میں رقص کرنے، گانے اور کھیلنے کا "ہنر" موجود ہے، جو فضول ہے۔ وہ ان کے لیے پروگرام اور مقابلے منعقد کرواتے ہیں اور ایسے پروگراموں پر کڑوڑوں خرچ کرتے ہیں کیونکہ یہ وہ نظام ہے جو مغربی ممالک اور عالمی تنظیموں کے تعاون اور امداد سے کرپشن اور جہالت نافذ کرتا ہے۔ یہ ممالک اور تنظیمیں جان بوجھ کر ہمارے بچوں میں نصاب کے ذریعے جہالت پھیلاتی ہیں،ایسانصاب کہ جو تخلیقی صلاحیتوں کو ختم کرتا ہےاورعملی تجربے ، تنقیدی سوچ اور عقل کے استعمال سے محروم کرتا ہے ،کیونکہ اس کا انحصار طالب علموں کو معلومات ذہن نشین کرانے پر ہے،جنہیں حقیقت کے ساتھ جوڑ کر بیان نہیں کیا جاتا،ان کا فہم و ادراک پیدا نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ان کا تجزیہ کرنا سکھایا جاتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ ایسی تعلیمی پالیسیاں کسی بھی طرح تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا باعث نہیں بن سکتی اور موجودہایجنٹ حکومتیں کبھی بھی تخلیقی لوگوں کی پشت پناہی نہیں کر سکتی۔ اس کی پشت پناہی و حوصلہ افزائی صرف ایک ایسی ریاست ہی کر سکتی ہے جو تعلیم پر توجہ دے اور اس کو امت میں رہنما پیدا کرنے کا سب سے اہم ذریعہ سمجھے، جو امت اور پھر دنیا کی ذمہ داری اٹھائیں، اور وہ اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی پالیسی بنائے اوراسکولوں اور یونیورسٹیوں میں لائبریریوں، لیباٹریوں اور علم کے دیگر ذرائع کا ضروری ڈھانچہ بنائے اور تحقیق کے لیے اعلیٰ ترین وسائل مہیا کرے ۔ایسی ریاست جو سائنس اور سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کو سائنس کے میدان میںایک دوسرے سے آگے نکلنے کی حوصلہ افزائی کرے، جیسے خلیفہ مامون نے کیا جو عربی کے علاوہ کسی زبان کی کتاب کو عربی میں ترجمہ کرنے پر اس کتاب کے وزن کے برابر سونا مترجم کو انعام میں دیتا تھا۔ اور کچھ روایات کے مطابق وہ کتابیں تحریر کرنے پر بھی نوازتا تھا۔اورجیسے ہارون الرشید نے کیا جس کے زمانے کے متعلق عبداللہ بن مبارک نے کہا:"میں نے اتنے علماء، قرآن کے قاری اور نیک کاموں میں سبقت کرنے والے اور حرمت کی حفاظت کرنے والے رسول اللہﷺ، خلفاء اور صحابہ کے زمانے کے علاوہ نہیں دیکھے سوائے اس (ہارون الرشیدکے) زمانے میں۔ میں نے آٹھ سالہ بچوں کو پورا قرآن سیکھتے ہوئے دیکھا ہے اور ایسے بچے جو گہرائی سے فقہ، سائنس اور حدیث پڑھتے ہیں اور شاعری کی کتابیں لکھتے ہیں اور گیارہ سالہ بچے جو اپنے استاد سے بحث کرتے ہیں"۔ یہ صرف اس وجہ سے ممکن ہوا کہ وہ اس امرپر نہایت توجہ دیتا تھا اور چھوٹی عمر سے ہی اس کو علم، علماء اور طلباء سے لگاؤ تھا۔
ایک اعلیٰ ترین تعلیمی نظام کا نفاذصرف خلافتِ راشدہ الثانی میں ہی ممکن ہے جو نبوت کے نقشِ قدم پر قائم ہو اور امت کو اپنی پہلی حالت میں واپس لائےجہاں وہ ہر شعبے میں اول تھی، جس کے مدارس سائنسدان، سیاستدان اور مختلف شعبوں کے لیڈر پیدا کرتے تھے اور جس نے ایک مثالی اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی تھی ۔ اس ریاست نے مدبر سیاستدان، فوجی جرنیل اور فقہاء اور سکالر پیدا کیے اور دنیا کو اندھیروں سے نکال کر اسلام کی روشنی میں لے آئی اور ہم اللہ سے اس کی جلد واپسی کی دعا کرتے ہیں۔
براء مناسرا کی جانب سے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے تحریر کیا گیا۔
Latest from
- فلسطین اور غزہ کی آزادی کے لیے خلافت اور جہاد کے لیے وسیع سرگرمیاں
- اے مسلمان ممالک کی افواج! کیا تم میں کوئی صالح جواں مرد نہیں کہ وہ افواج کی قیادت کرے؟
- مسئلہ فلسطین عالمی برادری کا نہیں بلکہ امت اسلامیہ کا مسئلہ ہے۔
- عالمی سیاست کیوں اہم ہے؟!
- بے شک غزہ کلمہ گو مسلمانوں کا ایشو ہے، سینٹ کام کے ملازموں کا نہیں