الأربعاء، 25 جمادى الأولى 1446| 2024/11/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

  • خبر اور تبصرہ 
  • ماورائے عدالت قتل جمہوریت کا شاخسانہ ہے جو استعماری مفادات کا تحفظ کرتی ہے

خبر:

16 فروری 2018 بروز جمعہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق ایس ایس پی ملیر کراچی راؤ انوار کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جب وہ نقیب اللہ محسود کے مقدمہ قتل میں حفاظتی ضمانت ملنے کے باوجود عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ جنوری کے مہینے میں کراچی میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان کی پولیس فائرنگ میں ہلاکت  کے حوالے سے  پچھلی سوموٹو سماعت پر چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے راؤ انوار سے یہ کہا تھا کہ وہ جمعہ تک خودکو عدالت کے سامنے پیش کردے۔  

   

تبصرہ: 

27 سالہ نقیب اللہ محسود، جو جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین سے تعلق رکھتا تھا، کو 16 جنوری 2018 کو کراچی میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔ اس واقع کے بعد ایس ایس پی راؤ انوار نے یہ دعوی کیا تھا کہ نقیب اللہ طالبان پاکستان کا رکن تھا جو سیکیورٹی اداروں سے تعلق رکھنے والے کئی افراد پر حملوں میں ملوث تھا۔ لیکن نقیب اللہ کے خاندان اور دوستوں نے اس دعوی کومکمل طور پر مسترد کردیا  اور جلد ہی اس کی فیس بک  پر تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں جس نے اس واقع کے خلاف پہلے سوشل میڈیا پراور پھر میڈیا میں ایک طوفان برپاکردیا۔  محسود قبیلے نے راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے دھرنا دیا۔ پولیس کی ابتدائی تحقیق اور تفتیش میں راؤ انوار کواس جرم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اس کی گرفتاری کی تجویز دی گئی جس کے بعد راؤ انوار منظر سے غائب ہوگیا اور سپریم کورٹ کے سو موٹو ایکشن لینے کے باوجود اب تک  غائب ہے۔ 

راؤ انوار ایک مشہورو معروف "انکاونٹر اسپیشلسٹ"ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق اس کے سر پر پچھلے پانچ سال کے دوران 700 سے زائد پولیس مقابلوں میں تقریباً 450 لوگوں کومارنے کا "سہرا" سجا ہے۔ جب پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنا قرار دیا، جودرحقیقت اسلام کے خلاف جنگ ہے،  تو راؤ انوار اس جنگ کاآلہ کار بن کر سامنے آیا جسے پختون قبائل کے خلاف بے رحمی سے استعمال کیا گیا جو افغانستان میں امریکی قبضے کی مزاحمت کررہے تھے۔المیہ یہ ہے کہ ریاست کا ہر ادارہ  یعنی مقننہ (پارلیمنٹ)، ایگزیکیٹو (حکومت، بیوروکریسی، پولیس، فوج، سول اور فوجی انٹیلی جنس)اور عدلیہ  سب ہی راؤ انوار اور اس جیسے دوسرے کرداروں  اور ان کے "کام"سے بخوبی آگاہ تھے اور یہ کہ وہ "دہشت گردی کے خلاف ج" کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کر کے لوگوں کا قتل عام اور اپنی کرپشن اور دیگر جرائم پر پردہ ڈال رہا تھا۔  لیکن اس کے باوجود کسی ادارے  نے راؤ انوار کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ اشرافیہ کی جانب سےنام نہاد "دہشت گردی" کے خلاف جنگ  پر عمل درآمد کے حوالے سے اتفاق رائے نے جمہوریت کے نقص کو بے نقاب کردیا  ہےجو یہ دعوی کرتی ہے کہ ریاستی اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم حکمرانوں کے احتساب کو یقینی بناتی ہے اور ریاستی اداروں کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکنے کا باعث بنتی ہے۔ 

 

یہ تصور ہی اپنی بنیاد سے غلط ہے کہ اختیارات کی تقسیم حکمرانوں کے اختیارات پر قدغن لگاتی اور ان کے احتساب کا باعث بنتی ہے کیونکہ  اشرافیہ کے درمیان کسی بات پراتفاق ہوجانے اور  اس اشرافیہ کا ریاست کے مختلف اداروں پر کنٹرول  ہونے کی وجہ سے طاقت اور اختیار ایک چھوٹے سے حکمران  گروہ میں محدود  رہتا ہے جو اس طاقت  کو خود کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے جبکہ عوام  کو ان کے حقوق سے محروم کردیا جاتا ہے اور وہ اشرافیہ کے مظالم کا سامنا  کرتے ہیں  اور اشرافیہ اپنے اراکین کےمفادات کا تحفظ کرتی ہے جیسا کہ راؤ انوار کی مثال سے واضح ہے۔

اسلام کے نظام حکمرانی ، خلافت میں  اختیارات کی تقسیم کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی  کیونکہ خلیفہ، عدلیہ، مجلس امت اور فوج سمیت ریاست کے تمام ادارے  اسلام کےمطابق   عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں کیونکہ ریاست کا قانون صرف اور صرف قرآن و سنت ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر ریاست کے تمام ادارے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے اکٹھے بھی ہونا چاہیں تو وہ نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ اسلام سے ہٹ کر کوئی قانون اور پالیسی بنا ہی نہیں سکتے۔ ریاستِ خلافت میں  ایک خاص قاضی ہوتا ہے جسے قاضی مظالم کہاجاتا ہے جو صرف خلیفہ اور کسی بھی دوسرے حکمران یا ریاستی اہلکار کے خلاف شکایات سنتا ہے اور اس کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اگرشکایت کے خاتمے کے لیے خلیفہ کو برطرف کرنا ضروری سمجھے تو وہ خلیفہ کو اس کے عہدے سے برخاست کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ماضی میں یہ دیکھا کہ بدترین خلفاء بھی قاضیوں سے ڈرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ ان کے احکامات کی بنیاد فتویٰ  ہو تا کہ ان کی حکمرانی  اسلامی قوانین  کی پابندہو ۔ حزب التحریر نے نبوت کے طریقے پر آنے والی خلافت کے لیے مرتب کیے گئے آئین کی دفعہ 90 میں تحریر کیا ہے کہ، "محکمہ مظالم کو ریاست کے کسی بھی حکمران یاملازم کوبرطرف کرنے کا حق حاصل ہے جیسا کہ خلیفہ کو معزول کرنے کا حق ہے اور یہ اس وقت ہوگا جب کسی ظلم کے ازالے کا تقاضا ہو"۔   

       

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا

شہزاد شیخ  

ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک