بسم الله الرحمن الرحيم
موجودہ حکمرانوں کے شرعاً جواز پر تفصیلی بحث
ابو نزار الشامی
تمام تعریفیں اس ذات عالی کے لیے ہیں جس کے حکم ہی کی اطاعت کی جاتی ہے، اور صرف اسی کی شریعت کی پیروی کی جاتی ہے، صرف اسی کے دوستوں اور ولیوں اور برگزیدہ لوگوں کے ساتھ وفاداری برتی جاتی ہے،دُرود و سلام ہو اولین ولی الامر اور کامل ترین شریعت والےمحمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر۔
جب سے اسلامی ریاست کا سقوط ہوا،اور مغرب نے اسے پارہ پارہ کرکے اس کے ٹکڑوں کی حدود متعین کرنے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے کر اس کو باغی و سرکش حکمرانوں کے سپرد کیا، جنہوں نے کرۂ ارضی پر ظلم و جبر کی بد ترین تاریخ رقم کی اور نہایت بھونڈے طریقے سے اُمت پر جابرانہ حکومت کی بنیادوں کو گہرے سے گہرا کردیا، اس حد تک کہ امت کی حالت جاہلیت اولیٰ کے زمانے کا منظر پیش کرنے لگی،تب سے اولو الامر کی اطاعت پر بہت زیادہ بحث ہو رہی ہے۔
لیکن زیادہ قابل تعجب بات یہ تھی کہ ان اندوہناک حالات میں امت اورحاملینِ دعوت کے راستے میں مسلمانوں میں سے ہی ایک گروہ آکھڑا ہوا ،یہ لوگ علماء کے بھیس میں اور ان ہی کی وضع قطع اپنا کر ،بجائے جلادوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے،اس مظلوم و مقہور اور ستم رسیدہ امت پر دھاڑنے لگے کہ صبر سے کام لینا چاہیے ، اطاعت اختیار کیے رکھو اور اس ظلم و زیادتی کو خاموشی سے سہتے رہو، کفریہ حکمرانی کوبرداشت کرتے رہو، اپنی کمر پر کوڑے کھانا قبول کرتے رہو، اگرکوڑے مارنے والا اولو الامر میں سے ہو!!!! گویا ان بادشاہوں کا ظلم نا کافی تھا،اوریہ مٹھی بھر گروہ بھی ان کو سہارا دینے اور ان کی خدمت کے لیے سامنے آگیا۔
محمد امان الجامی کی طرف منسوب الجامیہ پارٹی ہو یا ربیع بن الہادی المدخلی کی المداخلہ ہو، یا پھر مصر کی رسلانی جماعت ہو جس کی نسبت محمد سعید رُسلان کی طرف کی جاتی ہے،اور ان جیسی دیگر بہت ساری جماعتیں ہیں،جن کے نام اتنے خاصے اہم نہیں،اہم چیزیہ ہے کہ ان ناموں اور عنوانوں سے رسول اللہ ﷺ کی سنت کے اندر کیا کیا آمیزشیں اور گڑبڑ کی گئی۔
سلف کے نام کو استعمال کرنے والے اس گروہ کی دعوت کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
1- حکمرانوں کی بحیثیت حکمران پُرجوش وفاداری، ان کا دفاع، ان کے جرائم کا جواز ڈھونڈنا اور ان کے خلاف خروج حتیٰ کہ ان کے سامنے کھڑ ے ہونے کو بھی حرام کہنا ، بلکہ ان کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے کو خوارج اور جہنم والوں کے کتے جیسے القابات دے کر ان کے قتل کی راہ نکالنا، خواہ یہ لوگ نیک اور پاک طینت علماء ہی کیوں نہ ہو۔
2- ان حکمرانوں کی موجودگی کے جواز پر زور دینا، خواہ وہ غاصبانہ اقتدار پر قبضہ کرنے والے اور امت سے اس کی اتھارٹی سلب کرنے والے ہوں۔
3- حکمرانوں کی مطلقا ًاطاعت ، خواہ وہ زیادتیاں کرتے ہوں، اللہ سے بغاوت کریں یا زمین میں فساد مچائیں، بلکہ تب بھی جب حکمران کفر سے حکمرانی کریں ،اور اللہ کے دشمنوں کے وفادار بنے ہوئے ہوں، بعض تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ حکمران خواہ کفار ہی کیوں نہ ہوں ان کی اطاعت کی جائے گی۔
البتہ ان میں سے وہ لوگ جو غلو نہیں کرتے ان کا اتفاق ہے کہ پانچ شرائط پورے ہونے پر حکمران کے خلاف خروج جائز ہے، وہ پانچ شرائط یہ ہیں:
1-حکمران جس خلافِ شرع امر کا مرتکب ہو جائے،اس فعل کے ذاتی مشاہدہ یعنی آنکھوں دیکھا ہونا ضروری ہے ، سنی سنائی باتوں پر بھروسہ نہ کیا جائے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں عبادۃ بن الصامتؓ کی حدیث میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتاہے،انہوں نے رسول کریم ﷺ سے نقل کیا کہ آپ ﷺ فرمایا:(( إلَّا أن ترَوا كفرًا بَواحًا عندكم من الله فيه برهان)) " مگر یہ کہ تم واضح کفر دیکھ لو جس ( کے کفر ہونے ) پر تمہارے پاس کوئی قطعی دلیل موجود ہو "( بخاری)۔
2-یہ کہ حکمران سے سرزد ہونے والا کام مسلمانوں کی نظر میں کفر ہو، یعنی صرف فسق یا گناہ کی حد تک نہ ہوجس کا ارتکاب کرکے دین سے خروج لازم نہ آتا ہو۔ مثلاً حکمران کو بت کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا جائے، یا اللہ و رسول ﷺکو گالیاں بکتے ہوئےسنا جائے(معاذ اللہ)، وغیرہ جیسے کفریہ امور۔
3-ان کا کفر، کفر بواح یعنی واضح کفر ہو، جیساکہ حدیث مبارک میں ہے، بواح کے معنی صریح اور واضح کے ہیں جس میں کسی تاویل کی گنجائش ہی نہ ہو، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ امام احمد بن حنبلؒ کے دور میں رونما ہوا تو انہوں نے اسے کفر قرار دیا تھا ، مگر مسلمانوں کے حکمران "المامون" کو کافر قرار نہیں دیا جس کا یہی عقیدہ تھا کیونکہ وہ اس میں تاویل کرتا تھا۔
4-مسلمانوں کے پاس حکمران کے کفر پرقطعی اور بے غبار دلیل موجود ہو۔
5-حکمران کے خلاف خروج اس کے حکمران رہنے کے شر سے بڑے شر اور فساد کا پیش خیمہ نہ بنے۔
اس قسم کے تصورات رکھنے والوں کو دوسروں کے مقابلے میں جو چیز ممتاز بناتی ہے، وہ ہے قرآن و سنت کی قابل قدر اور متعدد نصوص شریفہ سے ان کا لیس ہونا،اور امت کے سابقہ اکابر علماء اور سلف صالحین کے اقوال کے ذخیرے کا ان کے پاس جمع ہونا، جن کو وہ اپنے مخالفین یا کسی بھی ایسے شخص کے سامنے جو ان کی باتوں پر کسی قسم کی حیرانگی کا اظہار کرے، بے دھڑک پیش کرنے کی قدرت رکھتے ہیں،یہ لوگ ایک طرف تو مسلمانوں پر سختی اور جرات کے روادار ہیں ، تو دوسری طرف بڑے سرکشوں کے حق میں نرمی اور برداشت کا رویہ اپنانے کو بھی ضروری خیال کرتے ہیں۔
وہ نصوص جن سے و ہ استدلال کرتے ہیں، ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي ٱلۡأَمۡرِ مِنكُمۡۖ فَإِن تَنَٰزَعۡتُمۡ فِي شَيۡءٖ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنتُمۡ تُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِۚ ذَٰلِكَ خَيۡرٞ وَأَحۡسَنُ تَأۡوِيلًا﴾.
" اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول( ﷺ )کی اطاعت کرواور تم میں سے جو صاحب اختیار ہوں،اُن کی بھی، پھر اگر کسی چیز میں اختلاف ہو جائے تو اگر واقعی تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ اور رسول (ﷺ) کے حوالے کردو، یہی طریقہ بہترین ہے اور اس کا انجام بھی سب سے بہتر ہے"(النساء:59)۔
دوسرے یہ کہ ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((عليك بالطاعة، في منشطك ومكرهك، وعسرك ويسرك، وأثرة عليك))" اطاعت کو لازم پکڑو ،خوشی اور ناگواری ، تنگی اور فراخی کی حالت میں اور اس وقت بھی جب تم پر کسی اور کو ترجیح دی جائے"۔ یہ حدیث نسائی و احمد نے روایت کی ہے،اور نہایت درجہ صحیح ہے۔
ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :(( من أطاعني فقد أطاع الله، ومن عصاني فقد عصى الله، ومن أطاع أميري فقد أطاعني، ومن عصى أميري فقد عصاني)) " جس نے میری اطاعت کی ،تحقیق اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی تحقیق اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرےامیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی"۔ ایک روایت میں " امیری" کی جگہ" الامیر" اور ایک میں" الامام" کا لفظ آیا ہے، یہ حدیث بھی انتہائی صحیح ہے۔ یہ متفق علیہ ہے ، ابن ماجہ ،مسند احمد اورسنن نسائی میں بھی ایسا ہی روایت کیا گیا ہے۔
ابن عباس ؓ سے روایت ہے : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((من رأى من أميره شيئًا يكرهه فليصبر عليه، فإنه من فارق الجماعة شبرًا فمات إلا مات ميتة جاهلية))" جو شخص اپنے امیر کے کسی ناپسندیدہ کام کو دیکھے تو اس پر صبر کرے، کیونکہ جس نے بھی جماعت سے بالشت برابر علیحدگی اختیار کی اور اسی حالت میں مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا"۔ یہ صحیح حدیث ہے ،اس کی صحت پر محدثین کا اتفاق ہے۔ مسلم کی روایت میں ہے :(( فإنه من خرج من السلطان شبرًا: مات ميتة جاهلية)) " کیونکہ جس نے بھی سلطان( امیر) کی اطاعت سے بالشت بھر خروج کیا وہ جاہلیت کی موت مرے گا"۔ اس سے ملتی جلتی حدیث امام احمد نے روایت کی ہے،جس کی سند غایت درجہ صحیح ہے۔
((يكون بعدي أئمة لا يهتدون بهداي، ولا يستنون بسنتي، وسيقوم فيهم رجال قلوبهم قلوب الشياطين في جثمان إنس!"، قال: قلت: كيف أصنع يا رسول الله إن أدركت ذلك؟!، قال: "تسمع وتطيع للأمير، وإن ضرب ظهرك وأخذ مالك، فاسمع وأطع))"میرے بعد ایسے امام ہوں گے جو میری ہدایت سے رہنمائی حاصل نہیں کریں گے اور نہ میری سنت کو اپنائیں گے اور عنقریب تم میں سے ایسے لوگ کھڑے ہوں گے کہ ان کے دل انسانی جسموں میں شیاطین کے دل ہوں گے۔ میں( خذیفہ) نے سوال کیا: اے اللہ کے رسولﷺ اگر میں اس زمانے کو پاؤں تو کیا کروں؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: امیر کی بات سنو اور اطاعت کرو خواہ تمہاری پیٹھ پر مارا جائے یا تمہارا مال غصب کر لیا جائے پھر بھی اسکی بات سنو اور اطاعت کرو"۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ منہاج السنہ میں فرماتے ہیں: "اور اسی وجہ سے اہلِ سنت کا مشہور مذہب یہ ہے کہ وہ حکمرانوں کے خلاف خروج اور تلوار کے ساتھ ان سے جنگ کو جائز نہیں سمجھتے، خواہ وہ ظلم کریں، اس پر نبی ﷺ کی صحیح اور مشہور احادیث دلالت کرتی ہیں، کیونکہ جنگ و جدال کا فساد اور فتنہ ان کے ظلم سے پیدا ہونے والے فساد سے کہیں زیادہ ہے،کم از کم ان کی طرف سے کیے جانے والےظلم میں عمومی قتال اور فتنہ نہیں ہوتا۔ شاید ہی کوئی ایسا گروہ ہو،جس نے کسی صاحبِ اقتدار کے خلاف خروج کیا ،جس کی وجہ سے اس کے پھیلائے ہوئے فساد سے بڑا فساد برپا نہ ہوا۔ بلکہ جس فساد کو ہٹانے کا اس گروہ نے ارادہ کیا تھا اس سے زیادہ بڑا فساد حکمرانوں کے خلاف جنگ سے ہی واقع ہوا"۔
اپنی دعوت میں وہ اسی قسم کا بے مہارانداز اپناتے اور بحث میں بد خُلقی کا مظاہرہ کرتے ہیں، مسلمانوں کی فکری انحطاط اوراسلامی تصورات سے بیگانگی بالخصوص شرعی سیاست سے متعلقہ مفاہیم سے امت کی اجنبیت کی وجہ سے ان لوگوں کو شہ ملی ،چنانچہ یہ لوگ اس صورتحال سے بھر پور فائدہ اُٹھا رہے ہیں،اور اپنے بے تکے شبہات پھیلانے کے لیے انہیں بہترین فضا اور زرخیز زمین میسر ہے۔
ان صریح نصوص کوسُن کر،جنہیں یہ لوگ اپنے مخالفین کے مقابلے میں بطور دلیل پیش کرتے ہیں ،ایک مسلمان حیرت اور پریشانی کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے۔ حیران اس لیے کہ موجودہ سرکش حکمرانوں کی چیرہ دستیوں اور ظلم و ستم کو خاموشی اور اطاعت سے کیسے برداشت کیا جائے اس طرح تو اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ایسا کرنے سے یہ سلسلہ مزید بڑھتا اور بڑا ہوتاجائے گا۔ حیران اس لیے بھی کہ اس کے دل میں اسلام نے عزت وسربلندی اور سر اٹھا کر جینے کا جو بیج بویا ہے، وہ اسے غیر اللہ کے آگے جھکنے اور اللہ کی نافرمانیوں پر خاموش نہیں رہنے دیتا،وہ کیونکر ایسا کرسکتا ہے، جبکہ وہ سیرت مصطفی ٰﷺ کا مطالعہ کرتا ہے جو باطل سرداروں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوئے تھے اوران کے آگے جھکنے سے انکار کیا تھا۔ یہ بات بالکل بعید از سمجھ ہے کہ وہی اللہ سبحانہ اور اس کے رسولﷺ ہمیں اپنے دشمنوں کے آگے جھکنے کا حکم دیں۔؟ افسوس کہ وہ یہ صحیح نصوص سن کر کنفیوژ ہو جاتا ہے کہ وہ نہ توانہیں مسترد کرسکتا ہے، نہ ہی غلط ٹھہرا سکتا ہے۔
ان نصوص کا ایسا استعمال تبدیلی لانے کی قوت وخواہش کو ٹھنڈا کردیتی ہے ، حرام کی تبدیلی بجائے خود حرام ٹھہر جاتی ہے، اور اللہ کی اطاعت کی جگہ اُلٹا اس کے دشمنوں کی اطاعت لازم بن جاتی ہے!!! اور دبدبہ وشوکت کا وہ کنڈل بکھر جاتا ہے جو عظیم بہادر شہسوار ربعی بن عامرؓکے اس یادگارجملے میں جھلکتا نظر آتا ہے:إن الله ابتعثنا لإخراج من شاء من عبادة العباد إلى عبادة رب العباد!!!"اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھیجا ہے تاکہ جس کے لیے و ہ چاہے ،اسے بندوں کی بندگی سے نکال کر بندوں کے رب کی بندگی میں لے آئے!!!"۔
یہاں ایک اہم چیز کی طرف اشارہ ضروری ہے، کہ ہم نص اور سند والی امت ہیں، اس لیے یہ حکمت کے خلاف ہے کہ ہم اپنےابتدائی جواب میں ا ن لوگوں کی طرف سے پیش کی جانے والی نصوص اور مستند احادیث پر ان کے شبہات کو مکمل طور پر کمزور ثابت کرنے سے قبل ،ان کو بے وقوف ہونے کا طعنہ دیں یا حکومت کے ساتھ ان کے مشتبہ تعلقات کو بے نقاب کریں،اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جھوٹ کی پیروی کرنے والے اکثر ان نصوص کے احترام کے جذبے سے ہی ان کی باتوں میں آجاتے ہیں، خواہ یہ سب ان کے خواہشات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے یہ طریقہ ٹھیک نہیں کہ قرآنی آیات اور نصوص کو پڑھے بغیراور ان کے مدلولات کو ڈھونڈے بغیر ان سے بات چیت کی جائے، ہم نہیں چاہتے کہ ہم انہیں یہ ڈھنڈورا پیٹنے کا موقع دیں کہ وحی کی پابندی کرنے میں وہ ان لوگوں سےزیادہ سخت ہیں جو ان کو ناپسند کرتے ہیں اور عقل کو دلیل پر مقدم رکھتے ہیں!!
جن نصوص اور مسائل کی بنیاد پر یہ لوگ اپنے شبہات تراشتے ہیں ،اگر ہم ان کو سامنے رکھیں تو ان کا محور مندرجہ ذیل دو امور ہیں:
1) وہ نصوص جو اُولو الاَمر کی اطاعت کو واجب قرار دیتی ہیں۔ ان کا ذکر ماقبل میں ہو چکا ہے۔
2) احادیث منازعہ: بخاری نے حضرت عبادۃ بن الصامتؓ کی حدیث روایت کی ہے : " ہم نے رسول اللہ ﷺ سے پسند اور نا پسند ( دونوں حالتوں میں ) سننے اور اطاعت کرنے پربیعت کی۔ اور اس بات پر کہ ہم اُولو الامر کے ساتھ اس کے منصب میں نزاع نہیں کریں گے، مگر جب تک کہ تم ان سے کفر بواح( واضح کفر ) نہ دیکھ لو ،جس کے بارےمیں اللہ کی طرف سے آئی ہوئی کوئی واضح دلیل تمہارے پاس ہواور ہم حق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے ، یا حق بات کہیں گے جس حالت میں بھی ہوں گے۔ اور اللہ کے معاملے میں ملامتیوں کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے" ( اخرجہ بخاری و مسلم و احمد و طبرانی و غیرھم)۔
حالانکہ یہ لوگ (کفرا بواحًا ۔۔۔۔۔ کا مطلب و معنی سمجھتے ہیں، یعنی حکمران کا کفر )
3) احادیث مُنابَذہ: صحیح مسلم میں عوف بن مالکؓ سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث نقل کی گئی ہے، ارشادفرمایا :" تمہارے بہترین امام وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں۔ و ہ تمہارے لیے دعائیں کریں اور تم ان کے لیے دعائیں کرو۔ اور تمہارے بد ترین امام وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں۔ تم ان پر لعنتیں بھیجو اور وہ تم پر لعنتیں بھیجیں"۔
4)سلطان متغلب کی اطاعت کا مسئلہ
جب میں نے نصوص کے استعمال سے متعلق ان کا طریقہ کار معلوم کرنے کی جستجو کی اور امکانی غلطی تک رسائی حاصل کرنے کی غرض سےاس تاریک شبہ کی تہہ تک پہنچنےکے لیے غور و فکر کیا تو اللہ کی توفیق سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ فقہی اجتہاد کے تینوں مراحل میں غلطی کر رہے ہیں:
فہم الواقع (حقیقت حال کا درست علم )،یا جس کو تحقیقُ المناط کہتے ہیں۔
متعلقہ نصوص کا استحضار۔یعنی اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے متعلقہ نصوص کا مطالعہ کرنا کہ ان میں کوئی تعارض (Contradiction) تو نہیں،نیز تعارض کے وقت اصول الفقہ کا استعمال۔
واقع پر نصوص کو منطبق کرنا۔
اب ہم ایک ایک نکتے پر بات کرتے ہیں۔
تحقیق المناط یا فہم ِ واقع میں غلطی:
شاید تحقیق المناط ہی سب سے زیادہ پُر خطر مرحلہ ہوتاہے، اور فقط اس معاملے میں غلطی کی نشاندہی ان کے شبہات کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے کافی ہے۔
وہ اولو الامرکون ہیں کہ جن کی اطاعت فرض ہے؟
اولو الامرکے شرعی معنی:
اولامر سے مراد امت کے امور میں اختیار کے حامل لوگ ہیں ، جو شرعی طور پر پوری امت کے امور سنبھالتےہیں، اور امت کی قیادت ان کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔
اولوالامر کی اصطلاح اسلامی شریعت میں استعمال ہوئی ہےجیسا کہ ایک صحیح حدیث میں ہے:((ثلاث خصال، لايغل عليهن قلب مسلم أبدًا: إخلاص العمل لله، ومناصحة ولاة الأمر، ولزوم الجماعة)) " تین خصلتیں ایسی ہیں جن میں مسلمان کا دل کبھی بھی خیانت نہیں کرتا؛خالص اللہ کے لیے عمل کرنا، اہل اقتدار(ولاۃ الامر) کی خیر خواہی کرنا اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ لگا رہنا"۔
اس اصطلاح کے معانی قبیلہ بنی عامر پر رسول اللہ ﷺ کے اپنے آپ کو پیش کرنے کے واقعے سے صاف ظاہر ہیں ، ابن ہشام کے مطابق قبیلہ بنی عامر بنی صعصہ کے ایک آدمی بیحرۃ بن فراس نے کہا:(أرأيت إن نحن بايعناك على أمرك ، ثمأظهرك الله على من خالفك، أيكون لنا الأمر من بعدك؟ قال: "الأمر إلى الله يضعه حيث يشاء"، قال: فقال له: أفتهدف نحورنا للعرب دونك، فإذا أظهرك الله كان الأمر لغيرنا، لا حاجة لنا بأمرك، فأبوا عليه.) "آپ کیا کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کے ' امر'( حکومت) پر آپ کی بیعت کرلیں،اور پھر اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے مخالفوں پر فتح عطا فرمادے تو کیا آپ کے بعد یہ 'امر'( یعنی حکومت) ہمیں ملے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا:"'امر' ( حکمرانی) اللہ تعالیٰ کی ہے وہ جسے چاہے اسے سونپ دے۔ اس پر اس شخص نے کہا: کیا ہم آپ کے لیے عربوں کے تیروں سے اپنے سینے چھلنی کرائیں اور پھر جب آپ کامیاب ہوجائیں تو حکمرانی ہمارے علاوہ کسی اور کو ملے؟ نہیں ہمیں آپ کے 'امر' کی کوئی ضرورت نہیں"۔ چنانچہ بیعت دینے سے انکار کیا۔ یہ معلوم ہے کہ اس روایت میں امر سے مراد حکومت و اقتدار ہی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ بنی عامر کے انکار کے بعد انصار نے اس امارت کو بغیر کسی شرط کے قبول کرلیا، مثلاً مدینہ میں اس کا قیام ہونا چاہیے ، ایسی کوئی شرط عائد نہیں کی۔
یہ بات اس حدیث سے میں بھی واضح ہے جس میں بڑی خوشخبر ی دی گئی ہے((ليبلغنَّ هذا الأمر ما بلغ الليل والنهار، ولا يترك اللهُ بيتَ مَدَرٍ ولا وَبَرٍ، إلا أدخَله الله هذا الدين بعزِّ عزيز أو بذلِّ ذليلٍ، عزًّا يُعِزُّ الله به الإسلامَ، وذلًّا يُذِلُّ الله به الكفر))"یہ امر ( دین) وہاں تک پہنچے گا جہاں تک رات اور دن پہنچتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کسی مٹی کے گھر یا اون کے خیمے کو ایسا نہیں چھوڑے گا جس میں اس کو داخل نہ کردے، عزت والے کی عزت اور ذلت والے کی ذلت کے ساتھ، عزت اسلام کو ملے گی اور ذلت و رسوائی کفر کو ملےگی "۔(اس کو امام احمد، طبرانی اوربیہقی نے روایت کیا ہے اور الحاکم اور علامہ البانی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے)
اور اللہ تعالیٰ کا قول: ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي ٱلۡأَمۡرِ مِنكُمۡۖ﴾" اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول( ﷺ )کی بھی اطاعت کرواور تم میں سے جو صاحب اختیار ہوں،اُن کی بھی"(النساء:59)، ابو ہریرہ اور ابن عباس ؓکے بشمول سلف کے مجموعے کامذہب یہ ہے کہ آیت میں الوالامر سے مراد اُمراء ہی ہیں، اسی کو امام طبری اور النووی نے ترجیح دی ہے،یہی جمہور سلف و خلف کا قول ہے۔
بعض اہلِ علم اس طرف گئے ہیں کہ اولو الامر سے مراد علماء ہیں، مگر باریک نظر سے دیکھاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عالم کی اطاعت نہیں کی جاتی ہے بلکہ اتباع یا تقلید کی جاتی ہے، اور اس کی اطاعت اس طرح لازم نہیں جس طرح اختیارکردہ احکام یا جاری کردہ قوانین میں امیر( اسلامی حکمران) کی اطاعت لازم ہوتی ہے۔
اس بنا پر مسلمانوں کے اولو الامر جن کی اطاعت فرض ہے وہ ہیں جن کو مسلمانوں کے دین کا معاملہ سپرد کیا جائے؛کیونکہ دین ہی مسلمانوں کا کام ہے،ان کا دین کے سوا کوئی اور کام ہے ہی نہیں، اسی دین کی وجہ سے وہ تما م لوگوں سے الگ ایک امت بنتے ہیں، اسی بنیاد پر ان کی تہذیبی تشخص کو وجود ملا ہے ، اور اسی کے ذریعے ان کا سیاسی وجود ابھراہے ۔ جبکہ کسی اور معاملے کے اختیارات رکھنے والے مثلاً سیکولر آئینی نظام کے ذریعے حکمرانی کرنے والا ، یا مغربی لبرل جمہوری نظام کے ذریعے حکمرانی کرنے والا، یا قومی اشتراکی افکار کی بنیاد پر حکومت کرنے والا غرض اسلامی نظام کے علاوہ کسی بھی نظام کے ذریعے حکومت کرنے والا، جو بھی ہو وہ اپنے معاملے کا سرپرست ہے، مسلمانوں کے معاملے کا سرپرست نہیں ،یہ بھی اللہ تعالیٰ کے اس قول کے تحت داخل ہے:
﴿وَمَن يُشَاقِقِ ٱلرَّسُولَ مِنۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلۡهُدَىٰ وَيَتَّبِعۡ غَيۡرَ سَبِيلِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ نُوَلِّهِۦ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصۡلِهِۦ جَهَنَّمَۖ وَسَآءَتۡ مَصِيرًا ﴾
" اور جو شخص ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے، اور مومنوں کے راستے کےسوا کسی اور راستے کی پیروی کرے، اس کو ہم اسی راہ کے حوالے کردیں گے، جو اس نے خود اپنایا ہے اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے"(النساء:115)۔
ان کو کس طرح امتِ مسلمہ کا ولی الامر سمجھا جائے جبکہ کام وہ کسی اور کا کرتے ہیں۔
یہاں سے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ یا اس کارسول ﷺ یا معتمد اور ثقہ فقہا ء جب" ولی الامر"، "امام "یا "خلیفہ"یا اس سے ملتے جلتے ناموں کا اطلاق کریں تو اس سے مراد امیر اور شرعی امام ہوتا ہے جس میں شرعی صفات کامل طور پر موجود ہوں۔ یہ جائز نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر یہ گمان کیا جائے کہ ان الفاظ سے جب یہ مطلق بولے جائیں، ان کی مراد کفر کے امام ، فاسق و فاجر اور بدکار سلاطین یا اتھارٹی کو غصب کرنے والےیا دیگر مجرمین ہیں۔جہاں تک ان شرعی صفات کا تعلق ہے جو مسلمانوں کا امام یا شرعی امیر بننے کے لیے ایک حکمران کے اندر پورے کے پورے موجود ہونا ضروری ہے، وہ دو ہیں:
1- حاکم کا شرعی حاکم ہونا: یہ اس طرح ہوتا ہے کہ حکمران کے اندر انعقاد کے مطلوبہ شرائط پائی جاتی ہوں، یعنی وہ مرد،مسلمان، بالغ،عاقل آزاد اور عادل ہو،اس کے ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے رضامندی اور بغیر کسی مجبوری کے اس کو شرعی بیعت دی جائے۔
اگر ان شرائط میں کوئی خلل ہو یا حکمران کفریہ نظام کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرےیا خالص جمہوری انتخابات کی بنیاد پر یا نظام تو اسلامی ہو مگر وہ غاصبانہ طریقے سے اتھارٹی چھین لے،ایسا حاکم غیر شرعی ہوگا۔
2-نظام کاشرعی ہونا، یہ اس طرح ہوتا ہے کہ نظام اسلامی ہو جس کے ذریعے ریاست کے اندر شرع کو نافذ کیا جائے یعنی نظام شرع کی بالادستی اور حاکمیت ثابت کرتا ہو۔اسی طرح ریاست کے اندر حکمرانی اور اتھارٹی مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہواور عالمی تعلقات میں اسلام اور مسلمانوں کی عزت کی ضمانت دے۔یعنی اسلامی ریاست ایک خود مختار ریاست ہو جو عالمی معنی کے اعتبار سے اتھارٹی کی حامل ہو یعنی مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ہو، پس یہ جائز نہیں کہ اسلامی ریاست استعماری کالونی بنی رہےیا کفار کی طرف سے اس کو تحفظ دیا گیا ہو یا اس جیسے اختیار کے منافی امور، حاصل یہ کہ "دار " کا دارالاسلام ہونا ضروری ہے اور یہ ہرگز جائز نہیں کہ یہ دار الکفر ہو یا دارالکفر کا پہلو لیے ہوئے ہو۔
ان شرائط کا ہونا تحقیق المناط کہلاتا ہے،آج کے حکمرانوں کے حوالے سے تحقیق المناط کی جانکاری سے بنا کسی شک و شبہے کے واضح ہوتا ہے کہ آج کے حکمران:
- طاقت کے بل بوتے پر یاوراثت کی بنیاد پرحکومت پر تسلط حاصل کرتے ہیں، باوجودیکہ ان کے خلاف عواماپنے غیظ و غضب کا مظاہرہ کر تے ہیں۔
- جس کا انتخاب ہوجائے یا بیعت بھیہوجائے تو یہ بیعت مروجہ دستور کی پابندی پر طے ہوتی ہے۔
- یہ حکمران انسانی قوانین کے ذریعے فیصلے کرتے ہیں جن کی رو سے اسلام بھی ایک سرچشمۂ قانون کی حیثیت رکھتا ہے، نہ کہ واحد سرچشمہ قانون۔ یہ قانون سازیاں کفر بواح ہیں ، اس کے ساتھ وہ عالمی قوانین کے ذریعے بھی فیصلے کرواتے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں یا شرع کے خلاف ہیں ، جیسے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل۔
- آج کے تمام حکمران فاسق یا کافر ہیں چنانچہ عادل ہونے کی شرطپر پورا نہیں اترتے،اس لیے ان کی بیعت منعقد ہی نہیں ہوتی۔
اس بنا پر ولی الامر کی اطاعت والے نصوص تک اونچی چھلانگ مارنے سے قبل اولاً اس کی تحقیق ضروری ہے کہ کیا ہمارے آج کے حکمران اس منصب کے اہل بھی ہیں یا نہیں؟
حکمران کے شرعی ہونے کی جو شرائط ماقبل میں ذکر کیے گئے ، ان کی بنا پر آج روئے زمین پر مطلقاً کوئی شرعی ولی الامر موجود ہی نہیں، ہاں سرکش اور احمق قسم کے انسان ہی ہیں جنہوں نے اللہ کی شریعت کو معطل کیے رکھا ہے اور وہ جاہلیت کے قوانین کے ذریعے فیصلے کرتے ہیں۔
لہٰذا ا ولی الامر کی اطاعت سے متعلقہ نصوص سے استدلال اور انہیں آج کے حکمرانوں پر لاگو کرنے کی کوشش کرنا ایسا ہے جیسے کوئی شخص زانی و زانیہ پر میاں بیوی کے احکام لاگو کرنے کی کوشش کرے۔
چنانچہ ان کی اطاعت کا کوئی بھی حکم دینا معصیت کا حکم دینا اور باطل قانون سازی ہے،کفر کی حکومت کی نصرت ہے اور گناہ و بغاوت میں تعاون کے زمرے میں آتا ہے، ایسا کرنا الٰہی احکامات کا تمسخر ہے، امت کے ساتھ خیانت ہے اور بغیر سمجھ کے اللہ پر افترا کرنا ہے۔
صرف یہی بحث (ولی الامر کی تحقیق المناط) اس شبہے کو اوندھا کردینے کے لیے کافی ہے، بلکہ اسی سے ان لوگوں کی کج روی اور اللہ کے مقابلے میں جرات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جس میں حکمرانوں اور ان سرکش پیشواؤں کو مقدس ماننے والے یہ شدت پسند گرے پڑئے ہیں۔