بسم الله الرحمن الرحيم
مسلمانوں سے نفرت کرنے والی حکومتِ سری لنکا عالمی وباء کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمان COVID-19 کے متاثرین کو جبراً نذرِ آتش کر رہی ہے تا کہ اسلام کے خلاف اپنے ایجنڈے کو سخت کر سکے
خبر:
یکم دسمبربروز منگل کو سری لنکا کی سپریم کورٹ نے اُن تمام سِول (civil) سوسائٹی درخواستوں اور عدالتی مقدمات کو مسترد کر دیا جو ملک کے مسلم اور مسیحی گھرانوں نے درج کیے تھے، جن کا مقصد گورنمنٹ کی اُس پالیسی کو چیلنج کرنا تھا جس کے تحت بغیر کسی مذہبی لحاظ کے، ہر اُس شخص کی لاش کی میت سوزی لازم قرار دی گئی تھی جس کی موت COVID-19 کے نتیجے میں واقع ہوئی ہو، یا جس پر وائرس سے متاثر ہونے کا امکان ہو۔ فرقہ وار ذینیت کے حامل، سری لنکا کی بُدھ مت قومی حکومت نے بین الاقوامی نامور میڈیکل و سائنسی ماہرین کے علاوہ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کی یدایات بھی مسترد کر دیں، جن کے مطابق COVIDمتاثرین کو محفوظ طریقے سے، اور عوام کو کسی جانی خطرے میں مبتلا کیے بغیر دفنایا جا سکتا ہے۔ بلکہ اِس حکومت نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اپنے نفرت انگیز ایجنڈے کو مزید آگے بڑھانے کے لئے اِس عالمی وباء کی صورتِ حال کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپریل میں ایک قانون جاری کرتے ہوئے بیان دیا کہ "تمام COVID-19کے متاثرین کو اُن کی موت کے 24 گھنٹے کے اندر مُردہ جَلا دیا جائے"، یہ جانتے ہوئے کہ میت سوزی (cremation)کا یہ عمل مسلمانوں کے بنیادی عقائد کی خلاف ورزی کرتا ہے، کیونکہ اِسے اسلام میں میت کی بے حرمتی سمجھا جاتا ہے۔ اس قانون کے اجراء کے بعد، 50 سے زائد مسلمان نذرِ آتش ہو چکے ہیں۔ بلکہ رپورٹوں کے مطابق اُن میں سے متعدد مسلمان وہ تھے جن کا کرونا ٹیسٹ کِیا ہی نہیں گیا تھا، اور جن کا کِیا گیا تھا تو وہ negativeنکلا تھا۔ ایک مسلمان نے اپنی والدہ کی ناحق میت سوزی کی خبر سُن کر کہا "جس دن میری والدہ کا ہسپتال میں انتقال ہوا ، وہ (ہسپتال حکام) اُن کی میت لے گئے اور بعد میں انہوں نے مجھے ایک برتن میں میری والدہ کی میت کی راکھ دے دی۔ اگلے دن انہوں نے مجھے مطلع کیا کہ میری والدہ کا ٹیسٹ negativeنکلا تھا اور انہیں جلانے میں غلطی کی گئی تھی۔ اب میں ہر رات بیدار ہو کر اپنی ماں کے انجام کے بارے میں سوچتا ہوں۔ ہم غریب ہیں اور ہمارے پاس ذرائع نہیں کہ ہم انصاف طلب کر سکیں یا عہدہ داروں کامقابلہ کر سکیں" (برطانیہ کے اخبار The Guardianسے اقتباس)۔ مزید یہ کہ سری لنکا میں حکام مسلمانوں سے میت سوزی کے خرچے کا مطالبہ تک کر رہے ہیں، جس کی قیمت ریاست نے 48’000روپے (192 پاؤنڈ) متعین کی ہے۔
تبصرہ :
سری لنکا کے مسلمان نا صرف کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے خوف میں مبتلا ہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف اُس نفرت انگیز دشمنی کے وائرس سے بھی سہمے ہوئے ہیں جسے فرقہ پرست حکومتی پارٹی نے اپنے انتہا پسند بُدھ پرست حمایتیوں کی مدد سے معاشرے میں پھیلایا ہوا ہے۔ اپنے عزیزوں کے انتقال کا غم برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ، مسلم گھرانوں کو اِس دوہری اذیت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کو رخصت کرنے سے قبل اپنی دینی رسومات پوری نہ کر سکے اور سکون سے اُن کی تدفین بھی نہ کر سکے۔ بہت سے مسلمان اپنی دیگر سنگین بیماریوں کے علاج کے لئے ہسپتال میں طبّی امداد لینے سے گریز کر رہے ہیں، اس خوف سے کہ اگر وہ ہسپتال میں انتقال کر گئے، تو ہسپتال حکام وائرس کا ٹیسٹ کیے بغیر ان کی لاشوں کو میّت سوزی (cremation)کے لیے بھیج دیں گے۔
میّت سوزی کی اِس بے بنیاد پالیسی کو عائد کرنے کے پیچھے حکومتِ سری لنکا کی مسلمانوں سے مخالفت کے علاوہ اور کوئی منطق نہیں ہے۔ سری لنکا کے ایک قلم نگار نے موزوں انداز میں درج ذیل بیان دیا ہے: "حکومت مسلم برادری کے سب سے اہم احساسات کو مجروح کرنے کی غیر معمولی کوشش کر رہی ہے۔" لیکن یہ اَمر حیران کُن نہیں ہے۔ سری لنکا میں مسلمانوں کے خلاف دشمنی کئی سالوں سے پیدا کی جا رہی ہے، جس کو ہَوا دینے میں مسلمانوں سے نفرت کرنے والی بُدھ پرست قومی جماعتیں شامل ہیں، جیسا کہ بودو بالا سینا (BBS) اورانتہا پسند بدھ پرست راہب(monks)جو میانمار میں اپنےبدھ پرست ساتھیوں سے ترغیب حاصل کرتے ہیں۔ انہیں اِس کام میں پوری آزادی حا صل ہے اور وہ یہ بیہودہ و اشتعال انگیز بیان دیتے پھر رہے ہیں کہ اِس بدھ مت اکثریت کے ملک (سری لنکا) میں سِنہالہ بدھ پرستوں کو بڑھتی ہوئی مسلم آبادی سے خطرہ لاحق ہے (حالانکہ مسلمان سری لنکا کی آبادی کی 10%شرح سے بھی کم ہیں)۔ پچھلے چند سالوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس قسم کے زہریلے اور مبالغہ آمیز بیانات عام ہو چکے ہیں، اور سیاستدان اور صحافیوں کے ذریعے ، اور سوشل میڈیا پر بھی اعلانیہ طور پر نشر ہوتے ہیں۔ مسلم برادری کئی سالوں سے اسلام پر ایسے حملوں کے سامنے محاذ آرا ہے، اور شک و بے حرمتی کی ظلمتوں میں گھِری ہوئی ہے۔ خاص کر 2019 کی Easterبمباریوں کے بعد انہیں تشدد و بدنامی کا بہت سامنا کرنا پڑا ہے۔ حجاب پہننے والی مسلم خواتین کو ہراساں کیا جا رہا ہے، اور انہیں متعدد دوکانوں، دفاتر، اور اسکول ایڈمیشن میٹنگز میں اپنا خِمار اتارنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ، نقاب پہننے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی، اور خوراک پر "حلال" کا لیبل لگانے کے خلاف مہم چلائی گئی تھی۔ مسلمانوں کو ظالمانہ گرفتاریوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اُن سے امتیازی سلوک کرتے ہوئے اسلامی مواد کی تلاش میں ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سراسر جھوٹ پھیلائے گئے ہیں اور مسجدوں، مسلم گھروں اور کاروباروں پر متعدد حملے کئے گئے ہیں۔ یقیناً راجہ پکسہ برادران (Rajapaksa brothers) کی زیرِ قیادت حالیہ قوم پرست حکومتی پارٹی، جن کے BBS (بودو بالا سینا) کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، اپنے بدھ پرست جذبات اور مسلمانوں سے دشمنی کی وجہ سے انتخابات میں زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھی ۔ ملک میں بہت سے مسلمانوں کو اب یہ خطرہ لاحق ہے کہ اُن کا بھی وہی انجام ہو گا جو میانمار میں اُن کے روہنگیا بہن بھائیوں کا ہوا تھا۔
سری لنکا کے مسلمانوں کو درپیش یہ غمگین صورتِ حال اِس اَمر کی کھری یاددہانی کراتی ہے کہ سیکولر نظام اور یقیناً انسان کا تخلیق کِیا گیا ہر نظامِ حکومت کتنا خطرناک اور غیر متوقع ثابت ہوتا ہے، جہاں عوام کے مذہبی و دیگر حقوق، خصوصاً اقلیتوں کے حقوق ہَوا کی سمت کی مانند تبدیل ہوتے رہتے ہیں، اور جہاں مظلوموں کو اُن کے خلاف درپیش نا انصافیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نظام تلے بالکل بے بس چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لہذا مسلمانوں کو اس حقیقت سے تاکید حاصل کرنی چاہیئے کہ انہیں اپنے مفادات اور حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی امید و بھروسہ انسان کے بنائے ہوئے کسی بھی جمہوری طرزِ حکومت سے نہیں باندھنے چاہئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:>>لا یلدغ المؤمن من جحر واحد مر تین<< یعنی "مسلمان ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔" مزید یہ کہ ہم پر یہ حقیقت دن و رات کے فرق کی طرح واضح ہو جانی چاہیئے کہ تمام مسلم یا غیر مسلم ممالک میں نہ تو کوئی جمہوری یا غیر جمہوری حاکم ہے، اور نہ ہی کوئی ایسی ریاست یا بین الاقوامی ادارہ موجود ہے جو سری لنکا کے مسلمانوں، یا یقیناً دنیا میں کہیں بھی بسنے والے مظلوم مسلمانوں کو سہارا دینے کے لیے مخلص سیاسی ارادے کا حامل ہو۔
لہذا ہم سری لنکا کے مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی دشوار حقیقت کا جامع حل تلاش کرنے کے لیے اپنی توجہ اور کوششیں اللہ کے نظام کے فوری قیام کی طرف مرکوز کریں، یعنی نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کا دوبارہ قیام، جو کہ وہ واحد ریاست ہے جو ان کے دین و بھلائی کی خاطر ایک حقیقی محافظ کی مانند ڈٹ جائے گی اور ان کے حقوق کی سرپرستی کرنے میں اُن تمام سیاسی، اقتصادی اور عسکری قوتوں کو بروئے کار لائے گی جو اِس نے ماضی میں مسلمانوں کے تحفظ کے لیے استعمال کی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: >>الٕاِمامُ رَاعٍ وَھُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّةِ <<"امام (یعنی خلیفہ) ایک نگہبان ہے، اور ذمہ دار ہے، اور اس سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا۔" بے شک اِس ریاست کے بغیر مسلمانوں کوعزّت کی موت بھی نصیب نہیں ہو گی۔
#StopMuslimCremation
#أوقفوا_حرق_موتى_المسلمين
#MüslümanCenazeleriYakmayaSon
تحریر کردہ برائے حزب التحریر مرکزی میڈیا آفس
ڈاکٹر نسرین نواز
ڈائریکٹر برائے شعبۂ خواتین، مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر