السبت، 30 ربيع الثاني 1446| 2024/11/02
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

اسلامی بینکاری کے بارے میں اسلام کا پیمانہ

حمد طیب ۔ بیت المقدس

 

            عصرحاضرمیں مسلمانوں کی زندگی میں بعض مغربی اصطلاحات وعبارات مشہورہوگئی ہیں ۔ ان کی ظاہری شکل کو عام مسلمانوں کے نزدیک قبولیت دلوانے کیلئے ان کواسلامی لبادہ پہنایاگیاتاکہ ان اصطلاحات کوان کی زندگیوں ،ان کے معاملات اوران کے عمومی اورنجی تعلقات میں شرف قبولیت حاصل ہوجائے ۔ اس کے علاوہ  عصرحاضرکے بعض مفتی حضرات کی طرف سے ان کے حق میں فتاویٰ کے ذریعے انھیں خوشنماکیاگیاتاکہ لوگوں کااس پر اعتمادبڑھ جائے اوراطمینان سے ان کے ساتھ لین دین یاان کے ساتھ شامل ہوسکیں ۔

 

            اسلامک بینک ،اسلامک سٹاک ایکسچینج ، اسلامک جائنٹ سٹاک کمپنیاں اوراسلامی جمہوریت بھی انہی اصطلاحات میں سے ہیں ۔

            منظرعام پرآنے والے ان اصطلاحات میںسے خطرناک ترین اصطلاح ''اسلامی بینکاری ''کی ہے ۔ ان بینکوں کی حقیقت کیاہے ،ان کے قیام کے حقیقی ا ہداف کیا ہیں اورکیایہ صحیح ہے جیساکہ ا ن بینکوں کوچلانے والوں کودعویٰ ہے کہ ان کی بنیاداسلامی احکامات پررکھی گئی ہے ؟ان سب کے متعلق جاننے کی ضرورت ہے۔

 

            ان بینکوں کی حقیقت کو بیان کرنے ،ان کی تاسیس(قیام) اوران کے معاملات کے بارے میں اسلام کاحکم واضح کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ راہ ِراست کے بارے میں آگاہی حاصل کریں یعنی مالی معاملات کے عمومی شرعی احکامات کیا ہیں۔  جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ اسلام نے مالی معاملات سے متعلق شرعی احکامات کوواضح کرکے بیان کیا ہے چاہے یہ احکامات اموال کے امورنمٹانے والے اداروں سے متعلق ہوں یامعاشرے کے افراد کے درمیان ہونے والے لین دین کے بارے میں ہوں ۔  ان معاملات میںسے جومال کے امور اورکام کاج کے متعدد پہلوؤں پرمشتمل ہوتے ہیں وہ یہ ہیں : کرنسی کے تبادلے( ایکس چینج) کے معاملات ،قرض کے معاملات ،خرید وفروخت اوراجارہ (leases) کے تمام معاملات ،شرکت(companies)،ہبہ (gifts)،تبرعات(donations) گروی رکھنے ( mortgages)اورامانت (deposits)کے معاملات۔

 

            شریعت میں مال سے متعلق ان تمام شرعی معاملات کی نہایت باریکی سے تفصیلات بیان کی گئی ہیں اوران جیسے امورکے تمام جزئیات کے بارے میں شرعی احکامات پربحث کی گئی ہے ،ان کے بارے میں مقررہ خط مستقیم سے اُترنے والے غلط اورفاسد طریقوں کوواضح کیاگیاہے چنانچہ یہ احکامات ایک مسلمان کے رویے کواس طور پرڈھالتے ہیں کہ وہ اپنے تمام معاملات میں شرع کے مقررکردہ حدودکے اندر رہتے ہوئے مال حلال کماسکے اوروہ ان سرمایہ دارانہ معاملات سے دوررہے جن کے اندرلین دین کے طریقے میں غلطی واقع ہوتی ہے اورجوکئی دروازوں سے رِبا (سود)کے اندر لے جانے والے ہیں ۔

 

            وہ متقی مسلمان جواللہ عزوجل کی رضاوخوشنودی کاطلب گارہو، اسے حلال کمائی کی فکرلگی رہتی ہے اور مالی معاملات میں باریکی کی تلاش وجستجو میں رہتاہے۔  اس کے لئے شرعی طورپر اصل تویہ ہے کہ وہ اپنے لین دین میں اسلام کاحکم معلوم کرے اوراپنے معاملے کو صحیح شرعی اصولوں پر استوارکرے نہ کہ وہ ان مغربی اصطلاحات کی بات کرے جن کی بنیاد اللہ عزوجل کے تقویٰ کے علاوہ پررکھی گئی ہے اورپھر ان کے اوراسلام کے درمیان مطابقت پیداکرنے کی کوشش کرے ۔  یہ طریقہ اپنے اصول اورفروع ہی میں صحتمند نہیں کیونکہ اس کی اصل ہی فاسد اور خبیث ہے اوراس کاثمر بھی فساد اورخباثت ہی ہوتا ہے۔

 

              اسلامی بینکاری کی حقیقت کودیکھتے ہوئے پتہ چلتاہے کہ یہ نام مسلمانوںکی تہذیب میں سے ہے نہ ہی یہ ان کے طرز زندگی میں سے پھوٹتا ہے اور نہ ہی ان شرعی اصولوں میں سے نکلتا ہے جومال اور کام کاج کے امورسے متعلق ہیں ۔

 

            مغربی اصطلاح میں لفظ ''بینک'' کامعنی اورحقیقت ''ایک سودی ادارہ ''ہے ،جبکہ'' اسلامی'' اور''بینک''کے لفظوں کے درمیان کوئی واقعاتی یامفہومی یگانگت نہیں پائی جاتی۔لوگوں کی نظروں میں اس تصور کوخوشنمابنانے اوراس تصوراورمسلمانوں کے درمیان موجود رکاوٹوں کوتوڑنے کیلئے اسلام اوربینک کے درمیان امتزاج پیدا کرنے کاعمل ایک گمراہ کن کاروائی ہے جسے قبول کرنے کیلئے مسلمان اس لئے تیار نہیں کیونکہ صریح آیات اس کوجرم عظیم قراردیتی ہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (278) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ

''اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دواگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ہاں اگر توبہ کر لو تو تمھارا اصل مال تمھارا ہی ہے۔نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے ''(البقرہ :278-279)۔ 

 

مغربی نظاموں میں سود اوربینک کاتصوردراصل معاشی آزادیوں کی فکرسے پھوٹا ہے یعنی ملکیت اوراثاثوں میں اضافے کی آزادی کے تصور اورمکمل آزادی کے ساتھ ان ملکیتوں کے اندر لین دین اوران سے فائدہ حاصل کرنے کی فکرہ سے ۔  لہٰذاایک مغربی شخص کے نزدیک اپنے اموال کوسودی طریقے سے بڑھانے سے کوئی شے مانع ہے اورنہ ہی اس کے نزدیک سودی تصور پرقائم اداروں کے قیام سے کوئی شے مانع ہے کیونکہ اس کے نزدیک یہی اقتصادی آزادی ہے ۔  جہاں تک اسلام کاتعلق ہے تواس میں اس قسم کے بیمار تصورات پرمبنی آزادی نہیں ملتی ۔

 

            اس لفظ کواسلامی جامہ پہنانے سے یہ ہرگز اسلامی نہیں بنے گا، کیونکہ یہ اپنے اصل جوہراورابتداسے ہی فاسد ہے ۔  یہ توان معاملات کے علاوہ ہے جوان بینکوں کے اندر کئے جاتے ہیں وہ یاتوسودی ہوتے ہیں یاپھر دوسرے فاسد معاملات ہی ہوتے ہیں۔

            حقیقت یہ ہے کہ نام نہاداسلامی بینک کئی احکامات میں اسلام کے خلاف ہیں ،تاہم ہم مندرجہ ذیل امور میں اس کوبیان کرتے ہیں۔ 

            1 ۔  اس کی تاسیس (اجراء)کاطریقہ کار 

            2۔  داخلی معاملات

            3  ۔  خارجی معاملات

            4۔ معاصرعلماء کے اقوال اورفتاویٰ جو ان بینکوں اوران کے ساتھ لین دین کرنے کے متعلق ہیں ۔

 

            جہاں تک اول الذکر پہلوکاتعلق ہے، تواسلامی بینکوں کا تاسیسی طریقہ کارسرمایہ دارانہ جوائنٹ سٹاک کمپنیJoint Stocks Companies کے تصور پر قائم ہے جبکہ یہ کمپنیاںجیساکہ ہم جانتے ہیں اسلام میں کمپنی کی تشکیل کے شرعی طریقہ کار کے مخالف ہیںکیونکہ یہ کمپنیاں اموال میں ایسی پارٹنر شپ سے عبارت ہیں جوجسمانی عنصر(بدن) سے خالی ہوتی ہے اوراس کمپنی میں شیئر ہولڈرز کی بھی کوئی تمیز نہیں ہوتی اورنہ ہی دوسرے شئیرہولڈرز کوان کے بارے میں کچھ علم ہوتاہے ۔  جہاں تک ان کمپنیوں کے کنٹرول کاتعلق ہے تواس کوکمپنی کی تاسیسی کمیٹی سرانجام دیتی ہے ۔  کمپنی کی قراردادوں میںشئیر ہولڈر کا وزن اور اختیار ان کے نام سے موجودسرمایہ کے بقدرہی ہوتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔

 

            جہاں تک اس کمپنی کے سرمایہ اوران کے کام کاتعلق ہے جومستقبل میںیہ کمپنی سرانجام دینے والی ہوتی ہے توان کی بھی کوئی حد نہیں ہوتی اور یہ نئے شیئرہولڈرزکی تعداد اور تاسیسی کمیٹی کی قراردادوں کے سپرد ہوتے ہیں ۔  تو یہ کبھی شیئر ہولڈرز یاڈپازیٹرز کے ڈپازٹس کو قبول کرتی ہے ، کبھی سودی بینکوںاورکبھی جوائنٹ سٹاک ایکس چینج سے قرضہ لیتی ہے اورکبھی دوسری کمپنیوں سے سود درسودپر قرضہ لیتی ہے ۔  اس طرح اس کاسرمایہ باضابطہ نہیں ہوتا نہ ہی یہ اس طرح مشہورومعروف ہوتاہے جس سے اس سرمائے کے متعلق لاعلمی یا شبہ دور ہوجائے ۔

 

            یہ بات اسلامی بینکوںکے نام سے موسوم ان اداروں کی تاسیس کے طریقہ کارکے متعلق تھی،جہاں تک ان کے کام کاتعلق ہے تو اس کے دوقسمیں ہیں :

            پہلی  : بینک کی اپنے کسٹمر کے ساتھ ڈیلنگ۔ 

 

            دوسری :  بینک کادیگر تنظیموں اورمالیاتی اداروں سے لین دین ،جیسے بینک ،سٹاک ایکس چینج اور دوسری کمپنیاں ۔

            باقی رہے ان کے داخلی امور تویہ بہت زیادہ ہیں تاہم ان میں نمایاں ترین یہ ہیں : خرید وفروخت،قرضوں کی فراہمی ،شراکت (پارٹنر شپ)،سرمایہ کو استعمال میں لانے کیلئے ڈیپازٹس ، انعامی سکیموںاورانشورنس کی تمام اقسام ۔

            جہاں تک بینک کے ذریعے یابراہ راست خرید وفروخت کاتعلق ہے تو یہ سب کے سب باطل معاملات ہیں خواہ ان معاملات کوبیع للآمربالشراء (خریداری کا آرڈر دینے والے کو فروخت کرنے) کانام دیاجائے یا اس کومرابحہ وغیرہ کانام دیاجائے اورخواہ ان جیسے معاملات کوشریعت کاجامہ پہنانے کیلئے فتوے صادر کئے جائیں۔

 

            لہٰذا اسلامی بینکوں کے ذریعے کی جانے والی بیع میں درست بیع کے شرائط وضوابط اوربنیادی عناصر نہیں پائے جاتے یعنی بائع یا مشتری کی طرف سے ایجاب (offer)  اوران دونوںمیں سے کسی ایک کی طرف سے قبول (acceptance) ۔  نیزیہ بھی شرط ہے کہ جس چیز پر لین دین ہورہی ہووہ شرعاً جائز ہو ،نیز اس معاملہ میں تمام شرعی شرائط موجود ہوں ۔

 

            پس وہ خریدوفروخت جواسلامی بینک کی طرف سے کی جاتی ہے اس میں صحیح طورپر ایجاب وقبول نہیں پائے جاتے کیونکہ یہ ابتداء ہی میں لین دین کرنے والی فرضی شخص  ( legal body)کی طرف سے کیاجاتاہے کسی شخصِ حقیقی یا اس کے وکیل کی طرف سے نہیں کیا جا تا ہے ۔  مزیدیہ سامان کوپیش کرنے پر منحصر ہوتاہے یایہ فروخت کرنے کا محض ایک وعدہ ہوتاہے۔  نیز باوجودیکہ بینک لین دین کرچکاہوتاہے اوراس کی تحریری یاداشتوں اوراس پرگواہی اور معاملے کوقلمبند کرنے وغیرہ کی ساری کاروائی بھی مکمل ہوجاتی ہے پھر بھی کوئی صحیح معاملہ وجود میں نہیں آتا،کیونکہ سامان بینک کی ملکیت میں نہیں ہوتا،جس کے نتیجے میں ایجاب وقبول ایک نامعلوم اورناپید شے کے اوپر ہوجاتاہے ،جو کہ ظاہر ہے عقد(سودے) کے شرائط کے خلاف ہے ۔

 

            بینک کے ذریعے خرید اری کرنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ خریدار بینک کے پاس جاکر اپنے مطلوبہ سامان کے بارے میں بتاتا ہے ،پھر خریداری کے معاملے پردستخط کی جاتی ہے اور سامان کی قیمت متعین کی جاتی ہے ،اس طرح بیع کی تمام قانونی کاروائیاں مکمل کی جاتی ہیں ،جبکہ سامان بینک کی ملکیت میں نہیں ہوتا ،بینک ان ساری کاروائیوں کے بعد ہی خریدار کی طلب کی بناپرسامان خرید تاہے ،یہ سارا پس منظر اس معاملے کوشرعی طور پر اصلاًباطل کردیتاہے ،کیونکہ خریدار اور بینک نے ایک ایسی شے پر لین دین کی ہے، جو بینک کے قبضہ میں سرے سے موجود نہیں۔

 

            جہاں تک خریداری اوراس سے ملحقہ کاروائیوںکاتعلق ہے تووہ بھی باطل اور ناجائزہوتے ہیں،کیونکہ خریدارbuyerکو بینک کے پاس کچھ گروی رکھناپڑتاہے ، کہ وہ اپنے خریدے ہوئے سامان سے متعلق کسی بھی قسم کی لین دین کااس وقت مجاز نہیں ہوتاجب تک کہ ساری اقساط کی ادائیگی مکمل نہیں ہوجاتی۔  یقینا مبیع(فروخت شدہ آئیٹم) کی ملکیت حاصل کرنے میں یہ ایک بڑا خلل ہے ، یہ ایک ایسا شرط ہے جو عقد (سودے) کی ذات میں داخل ہے جس کی وجہ سے یہ عقد، ملکیت کے فائدے اورمملوکہ شے کے اندر تصرف کی اجازت سے خالی ہو جاتا ہے،جو کہ شرعاًباطل ہے ۔

 

            بینک ایک اورشرط بھی لگاتا ہے جو عقد (سودے)کے اندر داخل ہوتی ہے، اور یہ عمل بھی باطل ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ایک عقدایک ہی وقت میں دو یازیادہ عقد بن جاتے ہیں ؛اور وہ یہ کہ مقررہ وقت پر قسطوں کی ادائیگی کے قابل نہ رہنے کی صورت میںقیمت میں اضافہ کیاجائے گایا بینک سامان واپس لے لے گا،اسی لئے گروی رکھوایا جاتا ہے۔  یہ سب کچھ اجمالاًاورتفصیلاًخرید وفروخت کے معاملات میں شرعاً ممنوع ہے۔

 

            بیع کا معاملہ جب مکمل ہوجاتا ہے ،تو اس میںکسی قسم کی تبدیلی ناجائز ہوتی ہے ۔  اگریہ ایک سال کیلئے ہے تو یہ ایک سال کیلئے ہی ہے اور اگر یہ ایک مہینہ کیلئے ہے تو یہ ایک مہینہ کیلئے ہی ہے یہ کہنا کہ یہ سامان ایک سال تک تو بیس روپے کا ہے اور اگر ادائیگی میں تاخیر ہو جاتی ہے تو ہر ایک مہینہ کے بدلے دس روپے زائدلئے جائیں گے یہ باطل ہے کیونکہ اس طرح یہ ایک سے زیادہ عقد بن جاتے ہیں اور یہ معلوم نہیں کہ(اگر وہ قابل نہیں ہوگاتویہ کب ہوگا اور) دوسرا عقد کب اور سامان کی قیمت کیا ہوگی ۔  اللہ تعالیٰ نے ادائیگی سے عاجز شخص کو حق دیا ہواہے :

وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ

''اور اگر کوئی تنگی میں ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہیے اور صدقہ کرو تو تمھارے لئے بہت ہی بہتر ہے اگر تم میں علم ہو''(البقرة:280)۔ 

یہ نہیں کہ تاخیر ہوجانے پرقیمت بڑھادی جائے ۔

            عقد ِمرابحہ کاصحیح معاملہ وہ ہوتا ہے کہ خریداری کے خواہشمند اور بیچنے والے تاجر کے درمیان معاہدہ طے پائے پھر خریدنے کے خواہشمند کی طرف سے مخصوص سامان کے بارے میں تاجر کو آرڈردیاجاتا ہے اور ان دونوں کے درمیان سامان کے بیچنے اور لینے پر معاہدہ طے پاتا ہے اور یہ تب ہوتا ہے جب کہ تاجر سامان کامکمل طور پر مالک ہوتا ہے اور وہ طرفین کے درمیان طے پائے جانے والے مقررہ نفع کے ساتھ سامان کی ملکیت دینے کاذمہ دار ہوتا ہے ۔

 

            پس ان نام نہاد اسلامی بینکوں کے اندراس عقد میں شرعی ضوابط موجود نہیں ہوتے ہیں۔ یعنی

            1۔  خریداری کے خواہشمند (یعنی آرڈردینے والے ) اور تاجر کی موجودگی ۔

            2۔  آرڈر دینے والے کی طرف سے سامان کی تفصیل۔

            3۔  آرڈر دینے والے کی طرف سے تاجر کے ساتھ متعین مالیت کامنافع دینے کاوعدہ،یہ صرف وعدہ ہوتاہے ،اس کوعقد کاانعقاد نہیں کہاجائے گا۔

            4۔  کسی بھی قسم کی ڈیلنگ سے پہلے تاجر سامان کامکمل طور پر مالک ہو ۔

            5۔  آرڈر دینے والے اور تاجر کے درمیان لین دین اس کے بعد ہونا چاہئے جب تاجر مکمل طور پر سامان کامالک ہو اور اس کے قبضے میں ہو۔یہ بھی ضروری ہے کہ یہ عقد تمام شرعی شرائط پر پورا اترے کہ اس میں ثمن (دام)مجہول نہیں ہوگا ، ادائیگی کی مدت مقرر ہوگی اس طور پر کہ اسی عقدکی طے شدہ میعاد میں دوبارہ کوئی مدت مقرر نہ کی جاسکے ۔

            6۔  یہ شرط ہے کہ خریدنے والا خریداری ہوجانے کے بعد سامان کا مکمل طورپر مالک ہوجائے اور وہ اس سامان کے اندر مالک کی طرح تصرف(Dispose) کر سکے اور اسی کو گروی رکھنا جائز نہیں،نہ ہی خریداری کے لین دین کے علاوہ اس کے ساتھ اس کی ملکیت کیلئے شرائط لگائی جائیں گی۔

              7۔  جب ادائیگی کیلئے مقررہ میعاد سے زیادہ وقت گزرے تو قیمت میںاضافہ کرناجائز نہیں کیونکہ یہ پہلے معاہدے سے مختلف ایک نیا معاہدہ بن جائے گا چنانچہ یہ کہناجائز نہیں کہ اس سامان کی قیمت چھ مہینے تک تودس دینارہے اور جب وقت زیادہ گزر جائے تو ہرمہینے کے بدلے ایک دینارہوگا یہ بیع کے لین دین کے مخالف ہے اور اس طرح کا معاملہ عقدِ واحد میں عقدَین (یعنی ایک ہی وقت میں دو معاملے) سمجھا جاتا ہے جو تمام فقہاء کے نزدیک باطل ہے ۔

 

            المَعَایِیرُالشَّرعِیَّةُ،جسے(ہیئةُ المُحَاسَبَةِ وَالمُرَاجَعَاتِ لِلمُؤَسَّسَاتِ المَالِیَّةِالِاسلَامِیَّةِ، اسلامی مالیاتی اداروں کی اکاونٹنگ اورنظرثانی revisions کمیٹی) نے شائع کیاہے،میں بیان ہے کہ بیع مرابحہ میں آرڈر دینے والے کوسامان کے دام اوراس میں مخصوص منافع بھی دونوں فریقین کوبیع کے لین دین پر دستخط کرتے وقت معلوم ہوناضروری ہے اور یہ جائز نہیں کہ دام یا منافع نامعلوم حالات کی وجہ سے متردد ہو یا مستقبل میں اس کا دوبارہ تعیین کیا جاسکے۔

 

            اس طرح یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ :  بینک سامان (محل ِعقد ) کو حقیقة ً  خریدے گا جس پر شرعی آثار مرتب ہوجائیں، جیسے سامان کا بینک کی ملکیت میں داخل ہوجانا ... اور ادارے کیلئے یہ حرام ہے کہ وہ سامان کی ملکیت حاصل کرنے سے قبل اس کو مرابحہ کے ساتھ فروخت کرے چنانچہ بائعِ اول کے ساتھ سامان( جس پر مرابحہ کیاجارہاہے )کی خریداری کیلئے لین دین کرنے اور اس کوہاتھ میں لینے یا اس پر استعمال کی قدرت پاکر حقیقتاً قبضہ کر لینے سے پہلے عمیل (ایجنٹ) کے ساتھ مرابحہ کی لین دین کی دستخط کرنا صحیح نہیں۔

 

            امام شافعی  نے کتابُ الاُمّ میں ذکر کیا ہے(3/33)... وإذا رأى الرجل السلعة فقال: اشترِ هذه وأربحك فيها كذا، فاشتراها الرجل، فالشراء جائز، والذي قال: أربحك فيها بالخيار، إن شاء أحدث فيها بيعاً وإن شاء تركه، وهكذا إن قال: اشترِ لي متاعاً وأنا أربحك فيه، -فكل هذه سواء-، يجوز البيع الأول، ويكون هذا فيما أعطى من نفسه بالخيار، -وسواء هذا ما وصفت- إن كان قال: ابتعه وأشتريه منك بنقد أو دين، يجوز البيع الأول ويكونان بالخيار في البيع الآخر، فإن حدَّدَاه جاز، وإن تبايعا به على أن ألزما أنفسهما الأمر الأول- أي قبل التملك- فهذا مفسوخ من قبل شيئين: أحدهما: تبايعاه قبل أن يملكه البائع، والثاني: أنه على مخاطرة أنك إن اشتريته على كذا وأربحك فيهاجب ایک آدمی سامان کودیکھ کر یہ کہے کہ اس سامان کو خرید لو اور میں آپ سے اتنے پرمرابحہ کے ساتھ لونگا پھر وہ دوسرا آدمی اس کوخریدلے تو یہ جائز ہے اور وہ آدمی جو یہ کہے کہ اس میں آپ سے اختیاری مرابحہ کروںگا وہ چاہے تو اس کی نئی بیع کرے چاہے تو چھوڑ دے ۔  اس طرح اگر کہے کہ میرے لئے سامان خرید لو،میں پھر آپ کے ساتھ اس میں مرابحہ کرونگایہ سب ایک جیسے ہیں اورابتدائی بیع صحیح ہے، آگے اپنی طرف سے نفع دینے میں(یعنی اس کوخرید نے میں) یہ بااختیار ہوگا۔  اس طرح اگر کہے کہ اس کوخرید لو اورمیں آپ سے نقد یا ادھار پر خرید لونگا تو (جس کوحکم کیاگیا )اس کا سامان کوخرید لینا صحیح ہے اودوسری بیع میں دونوں با اختیار ہونگے (چاہے کریں یا نہ کریں) ۔  سو اگر انہوں نے (بعد میں ) نقد یا ادھارکے ساتھ بیع طے کرلی، تو یہ جائزہوگا ۔ہاں اگر انہوں نے اس طرح لین دین کی کہ دونوں نے اپنے اوپرپہلاآرڈرلازم کرلیایعنی مالک ہونے سے پہلے تو یہ بیع ختم کی جائے گی( یعنی نافذ نہیں کی جائے گی) اور اس کی دو وجہتیں ہیں  : ایک تو یہ کہ  :  ان دونوں نے بائع کی ملکیت موجود ہونے سے پہلے اس پر لین دین کی ۔  دوسرایہ کہ :  اس میں یہ خطرہ لاحق ہے کہ اگر تو اس نے اتنی قیمت کے ساتھ خریدا اورمیں نے آپ کے ساتھ مرابحہ کیا۔  یعنی اس میں یہ ممکن ہے کہ وہ اس کوخرید لے یا اس کو چھوڑ دے ،اس میں بائع کیلئے خطرہ ہے "۔

 

                اس طرح شیخ ابن باز کا فتویٰ آیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں ...جب اسلامی بینک کا عمیل (ایجنٹ)کسی مخصوص قیمت پر سامان کی خریداری کرنا چاہے اور وہ بینک کے پاس جاکر اس کی تفصیل بیان کرے ،وہ بینک کے ساتھ اس سامان کی خریداری کا مرابحہ کے ساتھ ایک سال تک مثلاً ایک سو ریال کے منافع کے ساتھ وعدہ کرے اور یہ تب ہو جب بینک اس کومالک ِ سامان سے خرید لے اور ایجنٹ پر تحریری یامذکورہ وعدے کی تنفیذ(عملدرآمد)لازم نہ ہوتو یہ جائز ہوگا ...یہی ابن عثیمین کی رائے بھی ہے انھوں نے بھی (دوسری )بیع کو لازم کرنے والی کسی بھی شرط کو باطل قراردیاہے ۔

 

              شرعی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ سامان بیچنے والے کے قبضے میں ہو یا اسے اس کے بارے میں علم ہوکہ وہ اس کودیکھ رہاہو اوراس کو اس طور پر متعین کرسکتاہو کہ مثلاً پیمانے کے ذریعے ناپی جانے والی ،گنتی کی جانے والی یاتولے جانے والی چیز میں ابہام نہ رہے...۔  موسوعہ فقہیہ کویت (١٣٢٩)میں آیاہے:''مالکیہ،شافعیہ اورحنابلہ کامذہب یہ ہے کہ کسی بھی چیز کاقبضہ اس کو روک لینے کوکہتے ہیں ،اگر وہ مکیل (ناپی جانے والی )، موزون(تولی جانے والی) یامعدود(گنتی کی جانے والی ) یا کاشت شدہ شے ہوتو اس کوتولنے،وزن کرنے یالین دین سے اس پر قبضہ کرے گا ۔

 

            یہ وہ بعض معاملات ہیں جو خرید و فروخت کے ذریعے کئے جاتے ہیں ،جہاں تک ان معاملات کاتعلق ہے جو براہ راست یا بالواسطہ بینک کے ذریعے قرضہ دینے سے متعلق ہیں،اس میں سود داخل ہو جاتا ہے ۔  ربامیں سے وہ امور بھی ہیںجوبینک یا قرض فراہم کرنے والی کمیٹی کی طرف سے ادھار کی سروس فراہم کرنے کی اجرت کے نام سے ذکر کئے جاتے ہیں تو اس قسم کے ناموںکاکوئی شرعی اصل نہیں اس میں یہ ممکن ہے کہ جب قرض پر مثلاً 2%یا3%کی نسبت سے معین منافع لگایاجائے گاتو ہزاروں دینار تک پہنچ جائیں یا جیساکہ بینک چاہے قرضہ کی فراہمی کیلئے کوئی بھی قانون وضع کرے۔

 

            ایک اور چیز بھی ہے جو یہ اسلامی بینک کرتے ہیں جسے قرضے کے خطرات کی گارنٹی کہاجاتاہے ۔  یہ بھی ایک جدید نام ہے جس کافقہ اسلامی میں کوئی وجود نہیں کیونکہ قرض کو کسی تیسرے شخص کے ہاتھ بھی فروخت کیاجا سکتاہے یااس کوحوالہ کیاجاسکتاہے۔  ضمانِ مخاطرہ کامعاملہ شرعی لحاظ سے بالکل باطل ہے اور یہ جائز نہیں ،اس میں ایک تولا عملی ہے اوردوسرے اس میں اصل رقم پر نادیدہ طریقے سے ربا داخل ہوتاہے ۔

 

            جہاں تک ان کمپنیوںکی بات ہے جسے اسلامی بینک اپنے مقروض شئیر ہولڈر زکویا دوسری کمپنیوںکوساتھ ملاکر چلاتاہے تویہ بھی باطل ہیں جائز نہیں کیونکہ بینک اکثر کمپنیوںمیں یہ شرط لگاتاہے کہ اس میں سے سرمایہ نکالاجائے گا یعنی بینک کمپنی میںسے اپنے شیئر زکی قیمت کے برابرایک محدود مدت میں نکال لے گا ،اس کو شرکت متناقصہ کہتے ہیں ۔ یہ شرعی کمپنی کی مفہوم میں جائز نہیں کیونکہ شرکت(کمپنی ) کی لین دین تو شروع ہی میں مال کے ایک مخصوص اورمعلوم مقدار پر مکمل ہوئی ہے اور جب مال میں اضافہ ہوجائے تو اس کو کمپنی کے اصل سرمایہ کے ساتھ شامل کیاجائے گااورکمپنی کے تصفیہ (خاتمہ)کے وقت اس اضافی رقم کو منافع میں سے سمجھا جائے گا اورجب پارٹنرز میں سے کوئی ایک پارٹنر اپنے سرمایہ کے کچھ حصے کولے گا تو یہ کمپنی کے پہلے عقد (لین دین)کے مخالف ہے اس کیلئے نئے سرمایہ کے ساتھ ایک نئے عقد کی ضرورت ہوگی ۔  نیز یہ شرعی کمپنی میں نفع ونقصان کے تصور کے بھی خلاف ہے ،کیونکہ کمپنی کواگرسرکل کے آخرمیں خسارہ ہوجاتاہے توسرمائے والے کا کوئی نقصان نہیں ہوتاکیونکہ اس نے تو اپنا سرمایہ کمپنی کے منافع میں سے نکالا ہوتاہے جبکہ نقصان محنت کرنے والے کے حصے میں آئے گا کہ اس کی محنت ضائع ہوجائے گی۔

 

            اسلامی بینک دوسری متعددسرمایہ کار کمپنیوں کے ساتھ مخصوص منافع یعنی ایک متعین نسبت کے ساتھ پارٹنر شپ کرلیتے ہیں ۔  یہ بھی نفع ونقصان میں درست شرکت کے خلاف ہے جیساکہ وہ ملکی اور غیر ملکی متعدد مشترکہ سرمایہ کار کمپنیوں میں بھی شئیر لیتے ہیں اوربغیرفوری قبضہ کے کرنسی ایکس چینج اورغیرموجود یعنی موہوم یا برائے نام سامان کی خرید وفروخت کی کیسزمیں Stock Exchangesسے معاملہ کرتے ہیں ۔

 

            یہ بینک مختلف بیمہ جات( انشورنسز) کے حوالے سے بھی متعددمعاملات کرتے ہیں ،خواہ یہ لائف انشورنس ہو یا پراپرٹی انشورنس یا ان جیسی دوسرے حرام انشورنس کی اقسام ۔

 

            درحقیقت اسلامی بینک کے لین دین مختلف اور متعدد ہیں یہاں تمام اقسام کو احاطہ تحریر میں لانا مشکل ہے ،اس لئے ہم نے ان کے داخلی معاملات کے چند نمونے پیش کرنے کوکافی سمجھا ۔

            جہاں تک بینک کے بیرونی معاملات کا تعلق ہے  :  یعنی بینک کاکمپنیوں اور سٹاک ایکس چینج جیسے دوسرے اداروں کے ساتھ معاملات، تو ان کی جستجو کرنے والے کو ان معاملات اور دوسرے سودی کہلائے جانے والے بینکوں کے معاملات میں کچھ زیادہ فرق دکھائی نہیں دیتا۔  یہ اسلامی بینک بھی اپنے اثاثوں کو مرکزی بینکوں میں رکھتے ہیں اورانہی بینکوں کے ذریعے متعدد سرمایہ کاری کے عمل کرتے ہیں ۔  ایسے فتاویٰ حاصل کئے گئے جو سرمایہ کاربینکوں کے راستے ان کوملنے والے اموال کے متعلق ہیں اور وہ یہ کہ ان اموال کو خیراتی کاموں میں لگایاجائے ،ان سے بینک یا اس کے کسٹمر براہ راست فائدہ حاصل نہیں کرسکتے ۔  اسی طرح اسلامی بینک بھی اسٹاک ایکس چینج کے ساتھ بناکسی قسم کے احتیاط یاپرہیز کے کئی قسم کی خرید وفروخت کے معاملات برتتے ہیں۔  چنانچہ سٹاک ایکس چینج کے ذریعے غائبانہ طورپر نقدی (کرنسی) بیچتے ہیں یعنی نقد اور ادھار کے طریقے سے ۔  اسی طرح فرضی سامان کی خرید وفروخت کرتے ہیں جیساکہ ہم نے ذکر کیا ۔  نیزStock Exchanges میں سرمایہ کاری کیلئے پیسے رکھواتے ہیںجن کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ اس میں کس قسم کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے ۔ بارہااس کو شراب ، خنزیر یامحارب فعلی ممالک کیلئے اسلحہ کی خریداری وغیرہ جیسے حرام معاملات میں استعمال کیاجاتا ہے ۔  یہ بینک ان سرمایوںپربعینہ سودی طریقے سے متعین نفع لیتے ہیں۔

 

            یہ کہاجاسکتا ہے کہ یہ بینک ایسے جوائنٹ کمپنیوں سے عبارت ہیں ،جن کا مطمع نظرنفع ہے نہ کہ لوگوں کو سودی اور حرام کاروبار سے بچالینا۔  اوران منافع خور اداروں اور ان کے معاملات پر پردہ ڈالنے کیلئے جو فتوے حاصل کئے گئے تو وہ ایسے فتوے ہیں جو کمپنیوں اور اس کے طریقہ تاسیس اور شراکت کے معاملات کی اصل کیلئے شرعی احکامات کی درست سمجھ کے خلاف ہیں۔  اس کاپتہ خرید وفروخت کی حقیقت کی سمجھ اور اس کے شرائط اور انشورنس اور اس کے اقسام سے لگایاجاسکتا ہے۔  اسی طرح سٹاک ایکس چینج اور سرمایہ کار کمپنیوں کے لین دین سے جن کی مختلف اصطلاحات ہوتی ہیں۔  نیز قرضہ کی فراہمی کے سلسلے میں یا ضرورت کے بہانے دیگر سودی اداروں کو قرض کی گارنٹی یا حاجت کو ضرورت بنالینے وغیرہ جیسی عبارات واصطلاحات جن کا شرع میں کوئی اعتبار نہیں۔

            جن فقہی اصطلاحات کو انہوں نے اسلام کالباس پہنایا جبکہ یہ اصطلاحات اس لباس سے بیزار ہیں جیسے بیع مرابحہ اور بیع مرابحہ للآمر بالشراء اور شرکت متناقصہ اور قرض کی گارنٹی وغیرہ، یہ ساری اصطلاحات وعبارات اپنی اجمال اور تفصیل میںاسلام کے مخالف ہیں۔  اسلامی فقہ میںاس موجودہ شکل کے ساتھ ان کی کوئی گنجائش نہیں جو اسلامی بینکوں میں رائج ہیں۔  یہ صرف اور رصرف الفاظ ہیں جو حرام کاموں کو اسلامی لباس پہنانے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں تاکہ متقی اور پرہیز گار مسلمانوں کی نظروںمیںجوحرام سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں ان معاملات کو قابل قبول بنایاجاسکے ۔ 

 

            اب ہم آخر میں متعددمعاصر علماء کے وہ فتاویٰ ذکر کرتے ہیں جو ان بینکوں اور ان کے لین دین کو حرام کرتے ہیں۔

            ان فتاویٰ میں سے چند یہ ہیں  :

            مجمع الفقہ الاسلامی کراچی پاکستان کافتویٰ :  بیشک منی چینجنگ،اسلامی بینکاری اپنی موجودہ حالت میں شریعت کے مخالف اور حرام ہے ۔ اور یہ بینکاری دوسرے بینکوں سے چنداں مختلف نہیں ۔ان کے ساتھ لین دین شرعاً ناجائز ہے ۔

 

              شیخ عبدالرحمٰن عدنی کہتے ہیں :  اصل میں ایسے بینکوں کاقیام جو سود اورسودی قرضوں سے پرہیز کرتے ہیں ،اچھی بات ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں اسلامی بینکوں نے مسلمانوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں کوپورا نہیں کیا بلکہ یہ بینک فاسداور حرام معاملات میں پڑ گئے ۔  آج ان اسلامی بینکوں کی اکثریتی لین دین نام نہاد بیع مرابحہ کے گرد گھومتی ہیں حالانکہ حق یہ ہے کہ یہ کھلم کھلا سودی بینکوں سے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ انسان جب ان سودی بینکوں کے ساتھ لین دین میں داخل ہوجاتا ہے تو اسے یقینی پتہ ہوتا ہے اور یہ احساس ہوتا ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کررہاہوں جبکہ ان نام نہاد اسلامی بینکوں کے ساتھ لین دین کرنے والا تو خوش ہوکر ان بینکوں کے ساتھ معاملات کرتا ہے اور یہ سوچتا ہے کہ ان بینکوں میں سرمایہ دیکر اللہ کا قرب حاصل ہوگا حالانکہ وہ رِبا،حرام اور فاسد معاملات کررہاہوتا ہے اور سمجھتا یہ ہے کہ میں ایک اچھا کام کررہاہوں۔

 

            اسی طرح علامہ ناصر الدین البانی نے ذکرکیاہے :  اسلام کے علمبردار بینکوں اور برطانوی بینک یا امریکی بینک کے درمیان مطلقاًکوئی فرق نہیں کیونکہ ان کانظام ایک ہے۔  مگر افسوس کہ جو بینک اسلامی بینک ہونے کا اعلان کرتا ہے یہ برطانیہ اور امریکہ کے بینکوں سے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ یہ بینک اسلام کے پردے میں اپنے آپ کو چھپاتے ہیں  چنانچہ ان کا کردار یہودکی طرح ہے جن کی پیروی کرنے سے ہمیں کتاب و سنت میں ڈرایاگیا ہے ۔

 

            فتاوی ٰ البانی میں لکھا ہے : '' یہ بدیہی بات ہے کہ کسی مسلمان کیلئے یہ جائز نہیں کہ سودی لین دین کرنے والے بینکوں کے ساتھ لین دین کرے پھر اس کی حرمت کی دلائل کا ذکر کیا ہے اور یہ کہاہے کہ :  سوال کے آخر میں جو آیاہے کہ کیا انٹرسٹ لئے بغیر اسلامی بینک میں امانة ً مال رکھنا  (deposits)جائز ہے؟  شیخ کہتے ہیں کہ استغفراللہ میں تو اس کو منافع کہنانہیں چاہتا کیونکہ یہ بات آپ ﷺ کے اس ارشاد کے تخت داخل ہوگی جس میں آپ ﷺ نے فرمایاکہ

ليكونن في أمتي أقوام يشربون الخمر يسمونها بغير اسمها

'' میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو شراب پئیں گے اوراس کانام دوسرارکھیں گے ، یہ اشارہ ہے اللہ کے احکامات میں حیلہ سازی کی طرف ،کہ ان حرام چیزوں کوایک اور نام کے دیکر جائز سمجھیں گے ۔''

 

            جہاں تک شیخ عثیمین کی بات ہے ،ان کی مجموعہ فتاویٰ اورمختلف مقالات میں جس کی جمع وترتیب محمد بن سعید الشویعر نے کی ہے ،آیا ہے۔  (-کتاب البیوع -   سوال  :  اس بارے میں شریعت کاحکم کیاہے کہ ملکی بینک سے قسطوں پر گاڑی لی جائے ،یہ جانتے ہوئے کہ گاڑی بینک کی ملکیت میں نہیں ہے ،پھرمیں بینک اس کی قیمت دے کرکمپنی سے خریدلیتا ہے پھرخریدنے والے کوآسان اقساط پر بیچ دیتاہے ، ملحوظ رہے کہ مجھے قسطوں پر گاڑی لینے کی شدید ضرورت بھی ہے تو کیا یہ سود کے تخت داخل ہوگا ۔ ؟

 

            شیخ عثیمین کا جواب :  جی ہاں یہ حرام ہے ،یہ قسطیں حرام ہیں ،یعنی مثلاً ایک شخص تاجر(بینک وغیرہ ) کے پاس آکرکہتا ہے کہ مجھے اس قسم کی گاڑی کی ضرورت ہے ،بینک اسے کہتاہے کہ آپ شوروم میں جائیں اورمطلوبہ گاڑی کو دیکھ آئیں ۔  وہ آکر یہ کہتاہے کہ مجھے فلاں گاڑی پسند ہے ۔  پھر ( تاجر یابینک ) شوروم جاتاہے اوراس گاڑی کوپچاس ہزارنقد قیمت پر اپنے لئے خرید لیتا ہے۔اس کے بعد پہلے شخص کو جس نے گاڑی طلب کی ہے ،قسطوں پرساٹھ ہزارپر بیچ دیتا ہے یہ حرام ہے حلال نہیں ،اور یہ کھلم کھلا سود کے لئے حیلہ ساز ی ہے کیونکہ بینک نے تو اس کیلئے خریدا اور اس کواب جو فروخت کردیاہے گویا اس کی قیمت کو کچھ اضافے کے ساتھ اسے قرض پردیاہے اوریہ حرام ہے ،یہ صرف ظاہراً لین دین ہے اگر یہ شخص گاڑی نا مانگتا توبینک اس کو نہ خریدلیتا ،اس لئے اس سے پرہیز لازم ہے،اگر چہ بعض لوگ اس کے جواز کافتویٰ دیتے ہیں لیکن انہوں نے مسئلے کو غور سے نہیں دیکھاورنہ اسے پتہ چل جاتا کہ یہ ایک واضح حیلہ ہے اور یہ یہود کے حیلے سے بھی گھناؤناحیلہ ہے کہ جب ان پراللہ نے چربی کوحرام کیا تو انہوں نے اس کو پگھلا یا اور پھر وہ گھی جیسابن گیا،پھر اس کو بیچ کر اس کی قیمت استعمال کرتے تھے ۔ آپ ﷺنے ان کو بددعادی کہ اللہ ان کوغارت کردے ۔

 

            اسی کتاب میں ایک اور سوال کاجواب دیتے ہوئے عثیمین فرماتے ہیں ، سوال :  ایک کمپنی اثاثوں اورعمارتی سامان کو خریدکردیتی ہے، چنانچہ گاہک کمپنی کے پاس جاتا ہے وہ مطلوبہ سامان یابلڈنگ میٹریل کی تفصیل بتاتاہے ،گاہک پہلی قسط خود اداکرتا ہے جیساکہ گاڑیوں کی قسطیں ہوتی ہیں ،باقی بعد میں اداکی جانے والی رقم کمپنی کو10% کی نسبت سے ماہانہ قسطوں کے طریقے سے ادا کی جاتی ہے ۔کمپنی گاہک کو سامان اٹھاکرلے جانے کاحکم دیتی ہے اور وہ جاکرخود سامان اٹھا کرلے لیتا ہے بقیہ قسطیں کمپنی اداکرتی ہے، تو اس کاحکم کیا ہے ؟

 

            جواب :  اس کمپنی کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ اثاثہ جات وغیرہ کو فروخت کرے البتہ جب بیع مکمل ہوجائے اور سامان اپنے قبضے میں لے کر اس کوبیچنے والے کی ملکیت سے کسی اورجگہ منتقل کرے تب جائز ہے۔کمپنی کواس سے پہلے بیعانہ دیناجائز نہیں اور نہ ہی کمپنی کسی شے کو اپنے قبضہ میں لینے اوراس کوبیچنے والے کی جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے سے پہلے اس کوفروخت کرسکتی ہے،اوراللہ ہی توفیق دیتاہے۔

            علامہ ابن باز کی فتاویٰ میں(سوال نمبر : 9) میں آیا ہے کہ :  آپ حضرات کی رائے میں وہ کیاضوابط ہیں جو قسطوں کے ذریعے لین دین کے دونوں فریقین (بائع اور مشتری )کے حقوق کی حفاظت کرتے ہیں جس کی بنیاد پر معاشرتی حقوق ،نظام اور سلامتی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ( یہ سوال ابن باز کی طرف سے اس جوابی خط میں آیاہے جو شیخ نے الجزیرہ میگزین کے ایڈیٹر کوارسال کیا تھا اس میں تین سوالات کا جواب دیا ہے ،آئندہ جواب ان میں سے ایک سوال کاہے ۔)

 

            جواب :  متعین مدت کیلئے بیع جائز ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ کایہ قول عام ہے تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ ''اے ایمان والو!جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرر پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو''(البقرة:182)۔  اور وقت کے بالمقابل قیمت میں اضافے سے کوئی مانع نہیں چنانچہ اس کے جواز پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جو رسول اللہا سے ثابت ہے کہ آپﷺنے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کو لشکرتیارکرنے کاحکم کیا تو وہ دواونٹ کے بدلے ایک اونٹ خریدنے لگا جسے وہ بعد میں دیگا ۔ اوراس معاملہ میں شرعی تقاضوں کو جاننا ضروری ہے تاکہ لین دین کرنے والے حرام معاملات میں نہ پڑیں کیونکہ کچھ لوگ ایسی چیز کوفروخت کردیتے ہیں جس کی ملکیت نہیں رکھتے ۔  وہ فروخت کرنے کے بعد سامان کوخرید لیتے ہیں اورپھر خرید نے والے کودیدیتے ہیں ۔  کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب سامان کوخریدلیتے ہیں تو سامان بائع کی جگہ میں ہوتے ہوئے اس کوفروخت کردیتے ہیں یعنی اس پر اس نے شرعی طورپر معتبر قبضہ نہیں کیاہوتاہے جبکہ یہ دونوں امر ناجائز ہیں ۔  اس کی دلیل نبی ﷺکی حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے حکیم بن حزام سے کہا لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ '' جو چیز تیرے پاس موجود نہیں اس کو مت بیچو''اس کواحمد، ترمذی اورابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔  آپ ﷺنے یہ بھی فرمایاکہ (لایَحِلُّ بیع ولاسَلَف ولایَحِلُّ بیعُ مَالَیسَ عِندَکَ )''بیع اور شرط لگانا حلال نہیں اور نہ ہی اس چیز کو فروخت کرنا جو تیرے پاس نہیں '' اس کواحمد، ترمذی اورنسائی نے روایت کیا ہے۔  اورآپ ﷺ نے یہ بھی فرمایاکہ مَنْ اشْتَرَى طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ ''جو شخص کھانے کی کوئی چیز خریدے تو اس کو قبضے میں لینے سے پہلے فروخت نہ کرے ''۔ابنِ عمرؓ  فرماتے ہیں کہ كنا نشتري الطعام جزافاً، فيبعث إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم من ينهانا أن نبيعه حتى ننقله إلى رحالنا ''ہم کھانے کو بغیر تول کے خرید تے ،پھر رسول اللہ ﷺ نے ہماری طرف آدمی بھیجا جس نے ہمیں اس کوفروخت کرنے سے روکایہاں تک کہ ہم اس کو اپنے قبضے میں نہ لے لیں''۔ اس کومسلم نے روایت کیا۔آپ ﷺسے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے اس بات سے منع کیا کہ , أنه نَهَى أَنْ تُبَاعَ السِّلَعُ حَيْثُ تُبْتَاعُ حَتَّى يَحُوزَهَا التُّجَّارُ إِلَى رِحَالِهِمْ سامان کو اسی جگہ فروخت کیا جائے جہاں سے وہ خریداگیا ہو البتہ جب تاجر اس کو اپنے گھر لے جائیں (توممنوع نہ ہوگا)  اس کوابوداؤد نے روایت کیا۔

            حق کے متلاشی کیلئے ان احادیث سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ مسلمان کیلئے ایسے سامان کوفروخت کرناجائز نہیں جو اس کی ملکیت میں نہ ہو کہ وہ فروخت پہلے کرے اور خریدے بعد میں ۔  بلکہ واجب ہے کہ اس کوخریدلینے اوراسکو قبضہ کرلینے کے بعد فروخت کرے ۔یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ کئی لوگ جوبائع کی جگہ سے سامان کو منتقل کرلینے سے پہلے اس کوبیچتے ہیں جائز نہیں کیونکہ اس میں سنت رسول اللہ ﷺ کی مخالفت ہے اور اس قسم کے رویے کی وجہ سے معاملات کھیل تماشہ بن جاتے ہیں نیز یہ کہ اس میں شریعت مطہرہ کی پابندی نہیں ہوتی۔

 

            حقیقت یہ ہے کہ شیخ ابن باز اور شیخ عثیمین ،جنہیں حجاز کے بڑے علماء میں شمار کیا جا تا ہے،نے جو شروط لگائے ہیں یہ شروط آج کے اسلامی بینکوں میں نہیں پائے جاتے ان بینکوں کے معاملات ان کے فتویٰ کی روشنی میں جائز نہیں بلکہ باطل ہیں ۔

 

            بحث کے آخر میںہم کہتے ہیں کہ :  مسلمانوں کے مالی امور سرانجام دینے کے لیے ان اداروں اور کمیٹیوں کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ شرعی پہلووں کو مد نظر رکھیں ۔ سب سے پہلے وہ ان اموال کی امین ہوں اور یہ کہ ان اموال کی سرمایہ کاری میں جائزشرعی طریقوںکواستعمال میں لانے کیلئے وکیل کی حیثیت سے کام کریں اورجس کانفع ان اموال کے مالکوں اورمعاشرے کوعمومی انداز میں ملے ۔تب یہ جائز ہوگا کہ کچھ اشخاص مل کر ایک ایساادارہ تشکیل دیں جو لوگوں کے اموال کو امانت رکھوانے اور اس کو مباح جگہوں میں لگانے کیلئے وکیل کاکردار اداکرے،مثلاً شرعی احکامات کے مطابق کمپنی قائم کی جائے یاایڈوائزنگ یا ان خدماتی اداروں میں اموال کی بطور امانت حفاظت کرنے وغیرہ جیسے دیگر شرعی سرمایہ کاری کے لئے ادارے قائم کئے جائیں ۔  چنانچہ وہ سودی بینکوں کے ساتھ لین دین نہ کریں اورسرمایہ دارانہ کمپنیوں کے طریقے پر نہ چلیں ،نہ خرید فروخت اور قرضہ دینے کے کسی حرام کام کوسرانجام دیں ۔  اوریہ ادارے سرمایہ کار سے ایک متعین اجرت کا مطالبہ کریں جس پر دونوں فریقین ایڈوائزنگ یاسرمایہ کوشرعی طریقوں سے استعمال کرنے کے بدلے میں متفق ہوجائیں۔ اس کیلئے نفع ونقصان کے ساتھ کسی قسم کاتعلق جائز نہیں البتہ جب اس ادارے کے کچھ اراکین یاادارہ خود اس میں بطورایک مضارب وغیرہ کے شریک ہوجائے جو شرعی شرکت کی شرائط کے مطابق ہو(تب نفع ونقصان میں شریک ہوسکتا ہے)

 

            یہاں اہم بات یہ ہے کہ ان کمیٹیوں کوتشکیل دینے کا طریقہ شرعی ہو جو سرمایہ دارانہ کمپنیوں کے طریقوں سے کوسوں دور ہوں اور مال کی سرمایہ کاری میں شرعی طریقے پر چلیں نیز حرام اداروں کے ساتھ معاملات کادروازہ نہ کھولیں جیسے بینک اور سٹاک ایکس چینج وغیرہ ۔

 

            درحقیقت اس قسم کے امور اپنی طبعی شکل میں مکمل شرعی نظام اوراسلام کے ساتھ حکومت کرنے والی ریاست میں ہی موجود ہوں گے جو تمام مالی معاملات اور اداروں کو شرعی احکامات کے تابع بنادے گی ۔یہ شرعی نظام لوگوں کے اموال کیلئے حیلہ سازی اوران کو چوری کرنے پر پابندی لگائے گا ،یہ نہیں کہ لوگوں حرام میں پڑے ہوئے ہوں اوران کو کچھ پتہ بھی نہ چلے ۔  ان کواس حوالے سے لاعلمی اور گمراہی میں رکھاجائے ،ان کو یہ دھوکہ دیا جائے کہ جوکام یہ ادارے کرتے ہیں یہ شریعت کے عین مطابق ہیں شریعت کے مخالف نہیں ۔

 

            اسی سے مسلمانوں کے اندر یہ جذبہ پیداہوگا کہ وہ اس ریاست کو قائم کرنے کیلئے عمل کریں جو ان کی زندگیوں اور ان کے امور کو اللہ اور اس کے رسول ا کی مرضی کے مطابق چلائے گی ،ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ امت مسلمہ کواس اسلامی ریاست کے سائے میں عزت دے جو پرچم اسلام کو بلند کرے گی اور مسلمانوں کے تمام اموراورمعاملات کودین اسلام کے مطابق چلائے گی ۔

آمین یارب العالمین ،والحمد للہ رب العالمین ۔      

Last modified onجمعہ, 15 جنوری 2021 13:37

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک