بسم الله الرحمن الرحيم
مسلم حکمران یہود کے ساتھ تو تعلقات کو معمول پر لا رہے ہیں
لیکن فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ نہیں
خبر:
23 دسمبر2020کومراکش کےبادشاہ محمدششم نےتصدیق کی کہ ان کی ریاست کی نظرمیں مسئلہ فلسطین کی حیثیت مراکشی صحاراجیسی ہے۔انہوں نےکہا کہ "مراکش اپنے لوگوں کے استحکام کے لیے کام کرتا ہے لیکن یہ عمل فلسطینیوں کے اپنے جائز حقوق کی جدوجہد کی قیمت پر نہ کیا گیا اور نہ کیا جائے گا "۔ انہوں نےاس بات کی طرف اشارہ بھی دیاکہ وہ "مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اورپائیدارامن کیلئے اپنی تعمیری سرگرمیوں کوجاری رکھیں گے"۔مراکش نےتصدیق کی کہ 'اسرائیل' کےساتھ اس کےتعلقات پرانے ہیں اور وہ ان تعلقات کا بالکل شروع سےآغازکرنےکےبجائےتجدیدنوکرےگااورتعلقات میں تسلسل بھی قائم کیا جائےگا۔مراکش کےوزیرخارجہ ناصربوریٹانے23 دسمبر2020 کوامریکی ویب سائیٹ (Axios) کوانٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مراکش خطے کےمسلمانوں اوریہودیوں کےدرمیان پل کاکرداراداکرناچاہتاہے۔ اور'اسرائیل'- فلسطین امن عمل میں بھی مددکاخواہاں ہے۔
تبصرہ:
ہم دیکھتے ہیں کہ خلیجی ریاستوں، مراکش اورسوڈان کےیہودی وجودکےساتھ تعلقات معمول پرآنےکےساتھ ہی ان ریاستوں کےدارالحکومتوں میں یہودیوں کی آمدورفت شروع ہوگئی ہے، اوربعض جگہوں پرتوویزےکی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی، یہاں تک کہ دبئی اسکائی لائن پریہودیوں کیلئےایک دیوارگریہ بھی کھول دی گئی۔ دوسری طرف کچھ خلیجی 'معززین' جنہیں ان کےعوام مستردکرچکےہیں، مقبوضہ بیت المقدس میں، جو کہ اس وقت یہودیوں کے قبضے میں ہے، سرمایہ کاری کرتےہوئےاسلامی ممالک کی حکومتوں اوریہودی وجودکےدرمیان تعلقات کی گرمجوشی اورقربت کااظہارکررہےہیں۔ اس سے مسلم دنیا کے حکمرانوں کی یہودی وجود کےساتھ گرمجوشی اور قربت کی تصدیق ہوتی ہے۔ اس سے ان حکمرانوں کی یہودیت نوازی اور یہودیوں کے ساتھ ان کی مکمل وفاداری کی تصدیق ہوتی ہے۔ اس سےنہ صرف مقبوضہ بیت المقدس کےبارے میں ان کےجھوٹ اورمنافقت کاپردہ چاک ہوتاہےبلکہ مقبوضہ بیت المقدس کا حق ملکیت یہودیوں کومنتقل کرنےکےحوالے سےان کےعزائم کا بھی اظہارہوتاہے۔
1948 عیسوی میں غاصب یہودی وجودکےقیام کےبعدسےفلسطینی پناہ گزینوں نےہمسایہ ریاستوں خصوصاً اردن، مصراورلبنان کی طرف ہجرت شروع کردی۔ اُس وقت سےان ممالک میں موجود نسل پرست حکومتوں کی وجہ سےبھوک اورمحرومی فلسطینی پناہ گزینوں کی زندگیوں کاحصہ بن گئی ہے۔ ان کونہ انسان سمجھاگیااورنہ ہی اس بات کااحساس کیاگیاکہ وہ کتنےبڑےصدمہ سےدوچارہیں بلکہ ان کےساتھ ایسےاجنبیوں والاسلوک کیاگیاجوہمیشہ سےہی ناپسندیدہ ہوں۔ انہیں نہ صرف انسانی حقوق کےکم سےکم معیارسےبھی محروم رکھاگیابلکہ ایک مسلمان ہونےکےناطےسےبھائی اورپڑوسی والےحقوق بھی نہیں دئیےگئے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کوایسے پناہ گزین کیمپوں میں ٹھونسا گیا جہاں ان کی دیکھ بھال کاکوئی خاطرخواہ انتظام نہ تھا۔ اورانہیں اس استعماری ادارے اقوام متحدہ کےرحم وکرم پرچھوڑدیاگیاجس نےالقدس میں یہودی غاصب وجودکوقابض ہونےمیں مدد فراہم کی تھی۔ جہاں تک خلیجی ریاستوں کی صورتحال ہےتو انہوں نےکبھی کسی فلسطینی پناہ گزین کوقبول نہیں کیابلکہ محدودوقت کیلئے یا روزگار کےحصول کیلئے آنےوالے فلسطینیوں پربھی ویزہ کی پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ ان ویزوں کوبھی اچھےطرزعمل اورسلوک سےمشروط کیاجاتاہے۔ ویزہ کےحصول کے خواہشمندافرادکیلئےسب سےاہم شرط یہ ہوتی ہےکہ وہ یہودی وجودکےخلاف کسی بھی قسم کی سرگرمی میں ملوث نہیں ہوں گے۔
جہاں تک اردن کی حکومت کاتعلق ہےتویہاں کی حکومت کسی بھی ایسےفلسطینی کو،جویہودی وجود کےخلاف جدوجہدمیں شامل ہے یا اسلام کا متحرک داعی ہے ،اردن سےگزرکرکسی اورملک میں جانے کیلئے راہداری ویزہ بھی جاری نہیں کرتی چاہے وہ حج یاعمرہ کے لیےسفرحجازکاہی خواہشمندکیوں نہ ہو۔ اسی طرح طیب اردوان کی ترک حکومت بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یہاں کوئی بھی یہودی غاصب بغیرکسی ویزہ کےکسی بھی ترک ایئرپورٹ پراترسکتاہے۔ اسےنہ صرف ترکی بھرمیں آزادانہ گھومنےپھرنےکی اجازت ہےبلکہ وہ کسی بھی علاقے میں بغیرکسی روک ٹوک کاروباریاملازمت کرسکتاہےگویاکہ وہ ترک شہری ہو۔ اس کےبرعکس فلسطینیوں کوترکی میں بغیرویزہ داخلےکی اجازت نہیں ہے، یہاں تک کہ علاج معالجےکے لیےآنےوالےفلسطینی شہری بھی یہودی وجودمیں موجودترک قونصل خانے میں کاغذات کےایک پلندےکےساتھ دوسوڈالر ہر بار جانے کیلئے جمع کرانےکےپابندہیں۔اسی طرح مراکش جانابھی فلسطینیوں کیلئےایک خواب سےکم نہیں ہے۔ مراکش جانےکےخواہشمندفلسطینی اپنےدورہ مراکش کی وجوہات بتانےکےپابندہیں۔ وجوہات بیان کرنےکی اس شرط کوبنایاہی اس لئےگیاہےکہ ویزہ کےحصول کومشکل تربنادیاجائے۔ پھران وجوہات کواردن میں موجودمراکشی سفارتخانےمیں جمع کرادیاجاتاہےاورپھرفلسطینی ایک لمبےعرصہ تک ہاں یاناں کےمنتظررہتےہیں۔
القدس، اس کےعلاقوں اورلوگوں کےخلاف عرب حکمرانوں کےان نفرت انگیزاقدامات نےان کی "معقول" زبان اور "ہمدردانہ" لب ولہجےکاپردہ چاک کردیاہے۔ دراصل یہ حکمران دوچہروں والےمنافق ہیں۔ ان کے یہ معقول الفاظ محض یہودی وجودکےحقوق تک ہی محدودہیں۔ جبکہ فلسطین کی مبارک سرزمین اوروہاں کےلوگوں کے لیےان کےالفاظ کی حیثیت جھوٹ اورمکروفریب سےکچھ زیادہ نہیں۔ یہ حکمران اس معقول زبان کااستعمال اس لیے کرتےہیں تاکہ فلسطین کی بابرکت سرزمین کےخلاف غداری اوران لوگوں سےتعلقات کی بہتری کوجوازفراہم کرسکیں جن پراللہ سبحانہ وتعالیٰ نےغضب کیاہے۔ اس طرح یہ حکمران ان مسلمانوں کوبھی راضی کرنےکی کوشش کرتےہیں جویہودیوں سےلڑنےاورمرنےکےدن کےبیتابی سےمنتظرہیں۔
حالیہ دنوں میں اب یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ یہودی وجوداور فلسطینی صدرمحمودعباس سمیت مسلم دنیا کے حکمران فلسطینیوں کوروزگار اورآمدورفت کےمسائل میں ہی الجھادیناچاہتےہیں تاکہ وہ مسئلہ فلسطین کےکسی بھی حل کوقبول کرنےپرمجبورہوجائیں، خواہ یہ حل ایک ایسی ریاست کاقیام ہوجوان کی اپنی سرزمین کےبیس فیصدسےبھی کم حصےپرمشتمل ہوجیساکہ دھوکہ دہی پرمبنی اوسلومعاہدےمیں طےکیاگیاہے۔ یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ یہ سب مل کرفلسطینی عوام کویاتوختم کرناچاہتےہیں یاپھرانہیں ان کی سرزمین سےبےدخل کرناچاہتےہیں تاکہ یہ بابرکت سرزمین یہودیوں کےحوالے کردی جائے۔ شایدیہ ان حکومتوں اوران کےحکمرانوں کی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کےحوالے سےبےیقینی ہی ہےجوانہیں شیطان اوراس کی فوج کی طرف مائل کررہی ہے۔یقیناًمحض اللہ سبحانہ وتعالیٰ کےحکم سے پلک جھپکنےسےبھی کم وقت میں یہ امت اپنےدورزوال سےنکل کر ان منافقین کی حکومتوں کےتختےالٹ سکتی ہیں اورنبوت کی طرزپرایک ایسی خلافت قائم ہوسکتی ہے جس کی افواج یہودیوں کوقتل کرنےاورفلسطینیوں کوان کی غلاظت سےآزادکرنےکے لیےروانہ کیا جائے۔عبداللہ بن عمرؓ سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا،
تَقْتَتِلُونَ أَنْتُمْ وَيَهُودُ حَتَّى يَقُولَ الْحَجَرُ يَا مُسْلِمُ هَذَا يَهُودِيٌّ وَرَائِي تَعَالَ فَاقْتُلْهُ
"تم اوریہود آپس میں جنگ کرو گے، یہاں تک کہ پتھرکہے گاکہ اےمسلمان! یہ میرےپیچھے ایک یہودی ہے، آگے بڑھاور اسے قتل کردے "۔( مسلم)
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے یہ مضمون لکھا گیا
بلال المہاجر - پاکستان