بسم الله الرحمن الرحيم
ایغور جبری مشقت کی روک تھام کا ایکٹ:
چھاج تو بولے سو بولے چھلنی بھی بولے جِس میں سو سوچھید
فاطمہ مصعب
ایغور مسلمان چین کے ہاتھوں جن خوفناک مظالم کا سامنا کررہے ہیں وہ اب کوئی خفیہ بات نہیں رہی۔ تشدد،خواتین کو بانجھ کرنا ، جبری علیحدگی اور جبری مشقت ان مظالم کی چند مثالیں ہیں۔ جبری مشقت کے حوالے سے امریکا نے ایک قانون" ایغور جبری مشقت کی روک تھام کا ایکٹ " پیش کیا ہے جس کی سینٹ سے منظوری رہتی ہے لیکن یہ قانون ستمبر 2020میں کانگریس سے 406 ووٹوں کی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور ہوچکا ہے۔ جبری مشقت کا قانون امریکی درآمدکنندگان کو کسی بھی ایسی چیز کو سنکیانگ (مشرقی ترکستان) سے منگوانے سے روکے گا جب تک وہ ایسا ثبوت پیش نہ کردیں کہ اس کی تیاری میں جبری مشقت کو استعمال نہیں کیا گیا۔ اس سے پہلے امریکی سیاسی میڈیم نے اس معاملے میں امریکی موقف کو بغیر کسی مادی منفعت کے ایک اخلاقی موقف کو طور پر پیش کرنے کی کوشش کی تھی ۔ مئی 2020 میں امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے کہا تھا کہ "اگر تجارتی مفادات کی وجہ سے امریکا چین میں انسانی حقوق کے متعلق بات نہیں کرتا، تو پھر ہم دنیا میں کہیں بھی انسانی حقوق کے حوالے سے بات کرنے کاتمام اخلاقی اختیار کھو دیں گے"۔
یہ سمجھنا بے وقوفی ہے کہ امریکہ کا یہ موقف اس وجہ سے ہے کہ وہ ایغور مسلمانوں کی حالتِ زار کے حوالے پریشان ہے۔ اس قانون کو پیش کرنے کا مقصد صرف اور صرف امریکہ کا اپنا مفاد ہے۔ اس قانون کے ذریعے امریکا چین کو محدود کرنے کی اپنی پالیسی پر بین الاقوامی برادری کی حمایت میں اضافہ کرسکے گا اور چین کو اپنا مدمقابل بننے کے خطرے کو کم سے کم کر سکے گا۔ یقیناً امریکا کی حقیقت ہمیں یہ دکھاتی ہے کہ اس کے اس فیصلے کی بنیاد اخلاقی وجہ نہیں ہے۔ امریکہ کا ہر فیصلہ مفاد پر مبنی ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک سرمایہ دارانہ ریاست ہے جہاں کسی بھی عمل کو کرنے یا نہ کرنے کا پیمانہ مادی منفعت ہوتا ہے۔ سرمایہ داریت استعماریت پر مبنی خارجہ پالیسی دیتی ہے جس میں مادی منفعت انسانی جان کے نقصان سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ امریکہ کا چین پر انگلی اٹھانا ایسے ہی ہے جیسے " چھاج تو بولے سو بولے چھلنی بھی بولے جِس میں سو سوچھید " کیونکہ چین کی طرح خود امریکہ کے اپنے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ مسلم دنیا میں امریکہ کا تاریخی طور پر جو کردار رہا ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کے فیصلوں کی بنیاد اخلاقی جواز نہیں ہوتے۔ امریکا محض اخلاقی اور انسانی حقوق کی اصطلاحات استعمال کرتا ہے تا کہ وہ اپنے فیصلوں کو قابل قبول بناسکے۔
امریکا صرف اس وقت جبری مشقت کے خلاف ہے جب وہ اس کے مفا د میں ہو
اس سال، 2020 میں، امریکا نے جبری مشقت کے حوالے سے دو قانون منظور کیے ہیں جن میں عالمی سطح پر سپلائی چینز (Supply Chains)کو نشانہ بنایا ہے۔ تیسرا اور سب سے حالیہ قانون، ایغور جبری مشقت کی روک تھام کا ایکٹ، امریکی ایوان نمائندگان سے تقریباً متفقہ طور پر منظور ہوچکا ہے۔ اگر یہ سینٹ سے بھی منظور ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکہ سنکیانگ سے آنے والی ہر چیز کو جبری مشقت سے تیار شدہ سمجھے گا جب تک امریکی' کسٹم اینڈ بارڈر پروٹیکشن 'کا کمشنر یہ نہ کہہ دے کہ ایسا نہیں ہے۔
اگرچہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس قانون کی حمایت کی ہے لیکن ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ اس قانون سازی کا مقصد صرف چین کو نشانہ بنانا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جبری مشقت کے حوالے سے چین کے اس خطے، سنکیانگ (مشرقی ترکستان)، پر توجہ دی گئی ہے جس کو چین کی معیشت میں اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکا نے یہ قانون ابھی کیوں پیش کیا؟ اس سے پہلے امریکا نے اپنے تجارتی مفادات کو یقینی بنانے کے لیے ایک ڈھیلی ڈھالی حکمت عملی اپنائی ہوئی تھی۔ امریکی ریویُو کمیشن کے مطابق 2014 سے امریکی حکام، "نفاذ کا کمزور ریکارڈ رکھتے ہیں کیونکہ کسی بھی مشتبہ سامان کو امریکا میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس پہلے مصدقہ اور براہِ راست معلومات موجود ہوں کہ ان کی تیاری میں قیدی، غلام یا جبری مشقت کو استعمال تو نہیں کیا گیا"۔ پہلے سے ہی امریکی کمپنیوں کا کارٹیل ، جس میں ایپل، نائیک اور کوکا کولا شامل ہیں جو ایک عرصے سے دُوردراز علاقوں میں جبری مشقت کا فائدہ اٹھارہے ہیں، بھر پور طریقے سے اس قانون کے خلاف مہم چلا رہا ہے تا کہ اپنی تجارتی مفادات کا تحفظ کرسکے۔ اگر مسئلہ مادی مفاد کا نہیں بلکہ اخلاقیات کا ہوتا تو امریکا جبری مشقت کے حوالے سے بہت پہلے حرکت میں آتا اور صرف چین کو نشانہ نہ بناتا ۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ اپنے طرزِ عمل میں اندرونی طور پرہم آہنگ ہے ، یعنی چین مخالف پالیسی کے حوالے سے امریکی سیاسی میڈیم میں ایک اتفاق رائے ہےاور ٹرمپ کے ری پبلکن اور بائیڈن کے ڈیموکریٹس اس حوالے سے ایک ساتھ کام کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کے دور ِ حکومت میں ان قوانین کو آگے بڑھانا باعث حیرت نہ تھا۔ ٹرمپ ایک ایسی شخصیت کا حامل ہے جس کے متعلق کوئی بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی، یہی وجہ ہے کہ وہ جس طرح براہِ راست چین ٹکرایا ہے کوئی دوسرا روائتی صدر ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ ٹرمپ نے چین سے آنے والی اشیاء پر ڈیوٹیاں عائد کردیں اور کئی دوسرے اقدامات کے ساتھ چین کی کمپنیوں کے لیے امریکی ٹیکنالوجی خریدنا مشکل بنادیا۔ آنے والا صدر جو بائیڈن بھی چین کو محدود کرنے کی اسی پالیسی پر چلے گا لیکن زیادہ محتاط انداز میں جیسا کہ اس نے کہا ہے کہ وہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کرنے میں زیادہ محتاط ہو گا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی انتظامیہ چین مخالف پالیسی کی حمایت نہیں کرے گی۔ بائیڈن عوامی سطح پر یہ کہہ چکا ہے " اس بات کو یقینی بنائیں کہ مزدور یونینیں اور ماحولیاتی گروہ کسی بھی تجارتی گفت و شنید میں میز پر ہوں اور چین کی بجائے ریاست ہائے متحدہ کو دوسرے جمہوری جمہوریتوں کے ساتھ دنیا کے تجارتی قوانین طے کرنے کے لئے زور دیں"(نیویارک ٹائمز)۔ چین کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرناامریکا کی تمام سیاسی اشرافیہ کے لیے ایک اسلوب ہے جس کےذریعے چین کے اثرورسوخ کو محدود کرنا اور اس کی معیشت کو عدم استحکام کا شکار کرنا مقصود ہے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دنیا میں امریکا کو جو رتبہ اور برتری اس وقت حاصل ہے وہ برقرار رہے۔
امریکا کیوں سنکیانگ میں جبری مشقت کے مسئلے پر سرگرم ہوا ہے
سنکیانگ بین الاقوامی کارپوریشنز کی سپلائی چین (Supply Chain)کا اہم حصہ ہے۔ یہ علاقہ مختلف قسم کی مصنوعات بناتا ہے اور چین کی کپاس کی صنعت میں مرکزی مقام رکھتا ہے۔ کپاس کی پیداوار اور ٹیکسٹائل کی مصنوعات ابھی بھی چین کی معیشت میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ چین کا شماردنیا میں بڑے پیمانے پر کپاس پیدا کرنے والا ممالک میں ہوتا ہے۔ دنیا میں کپاس کی پیداوار میں چین کا حصہ 20 فیصد ہے۔ کپاس کی پیداوار کے لحاظ سے دوسرا اہم ملک بھارت ہے جس کے بعد امریکا، پاکستان، برازیل، ازبکستان اور ترکی ہیں۔ چین کی کپاس کی پیداوار میں سنکیانگ کا حصہ" 84 فیصد ہے"(بی بی سی)۔ چین کپاس کی پیداوار کو بہت بڑے پیمانے پر برآمد کرتا ہے جو اس کی کُل ملکی پیداوار(جی ڈی پی) کو بڑھاتا ہے۔ لہٰذا اگر امریکا چین کی معیشت کو نشانہ بنانا چاہتا ہے ، جو کہ ٹرمپ کے پچھلے چار سال کے دورِ اقتدار میں کافی کھلم کھلا طور پرکیا گیا، تو سنکیانگ پر توجہ مرکوز کرنا اور اپنی کمپنیوں کو وہاں سے کاروبار کرنے سے روکنا امریکہ کے لیے ایک مناسب حکمت عملی ہے۔
اس قسم کی پابندیاں چین کی برآمدات کو محدود کرں گی اور کمپنیاں اس بات پر مجبور ہو جائیں گی کہ وہ کاروبار کے لیےدوسری جگہ تلاش کریں۔ بھارت ایک متبادل ہے، اور امریکا نے بھارت کی معیشت کو ترقی دینے میں دلچسپی کا ارادہ ظاہر کیا ہے تا کہ وہ بھارت کوچین اور خطے کے مسلمانوں کے خلاف امریکی پراکسی (proxy)کے طور پر استعمال کرسکے۔ اس کے علاوہ یہ خیال بھی ہے کہ امریکی کمپنیوں کو واپس ملک آنے پر مجبور کیا جائے جس کے نتیجے میں امریکا کی بیٹھتی ہوئی معیشت کو استحکام دینے میں مدد ملے گی۔ یہ بات اہم ہے کیونکہ محنت کشوں کی کنسورشیم کے مطابق "امریکا میں فروخت ہونے والے ہر 5 میں سے 1 کاٹن گارمنٹ کا تعلق ایغور علاقے(سنکیانگ) سے ہوتا ہے"۔ جس قسم کے مادی فوائد امریکا کو حاصل ہوسکتے ہیں اس سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ کیوں ڈیموکریٹ اور رِی پبلیکن دونوں اپنے اندرونی اختلافات کو ایک جانب رکھ کر اس معاملے پر ایک ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں یہی ایک واحد حل ہے۔ ایسا نہیں ہے:
ان خبروں کی موجودگی میں کہ نائیک جیسی بے ایمان کمپنیاں اس قانون کی منظوری کے خلاف لابنگ کررہی ہیں، انسانی حقوق کے نمائندے آگے آرہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ خطے میں جبری مشقت روکنے کا یہی واحد حل ہے۔ پیٹر اروین،(Peter Irwin) جو کہ ایغور انسانی حقوق کے پراجیکٹ کے سنیئر پروگرام آفیسر ہیں، نے بزنس انسائیڈر(Business Insider) کو بتایا کہ کوکا کولا کا موقف ظاہر کرتا ہے کہ "ان کو اندازہ نہیں ہے کہ کس مؤثر طریقے سے ایغور خطے سے منسلک جبری مشقت کو اکھاڑ پھینکا جائے۔ ایغور خطے کو مکمل طور پر ترک کر دینا ہی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اس بات کا واحد موثر طریقہ ہے"۔ حقوق کی تنظیمیں یہ دعوی کرتی ہیں کہ جب تک اہم کمپنیاں سنکیانگ کے کارخانوں اور سپلائی چینز سے تمام تعلقات ختم نہیں کرلیتے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رہیں گی۔
یہ واضح ہے کہ اس قانون کے ذریعے امریکا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، لیکن اس بات کو ایک جانب رکھتے ہوئے ہم اس کے دعویٰ کو دیکھتے ہیں۔ کیا چین میں ہونے والے مظالم ختم ہونے چاہئیں؟ یقیناً ہونے چاہئیں۔ کیا امریکا اور اس کی جانب سے منظور ہونے والے جبری مشقت کے خلاف قانون کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف مظالم ختم ہوں؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔ امریکا، چین اور دیگر تمام استعماری طاقتیں مسلمانوں پر مظالم ڈھانے کے حوالے سے مجرم ہیں۔ فرق صرف ان مظالم کی سطح کا ہے یا کسی خاص وقت میں کس معاملے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہی واحد حل ہے، لیکن ایسا ایک خاص حد تک ہے۔ ایک جانب امریکا چین میں جبری مشقت کے مسئلے کو نشانہ بنا رہا ہے لیکن دوسری جانب چین کو دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ زبردست معاشی اور سیاسی تعلقات برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ امریکا مستقبل میں چین کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے امکان پر بھی بات کررہا ہے۔ اگر یہ ایک اخلاقی معاملہ ہے، تو ایک خوفناک واقع پر فوری جواب دینا ضروری ہوتا ہے، تو کہاں ہے ایک فیصلہ کن جواب؟ کیوں اب بھی چین امریکی معیشت کو کھڑا رکھنے کے لیے اس کے قرضے خرید رہا ہے اور اس نے ڈالر کاایک بہت بڑا ذخیرہ بھی سنبھال رکھا ہے؟ چین اب بھی کیوں عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کا حصہ ہے؟ ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے۔ چوروں کے درمیان بھی کوئی عزت اور شرم و حیا ہوتی ہے۔ لیکن جہاں تک امریکا کا تعلق ہے تو اس کی تاریخ انسانوں کے خلاف مظالم سے بھری پڑی ہے۔ امریکا کے اندر امریکی اسٹبلیشمنٹ نے ریڈ انڈین امریکیوں اور افریقی امریکیوں کے خلاف موت اور غلامی کی مہم چلائی۔ امریکا سے باہر ، امریکا نے عراق میں خوفناک جنگ شروع کی تھی، اور بغیر کسی احساسِ جرم کے حال ہی میں ان پرائیوٹ ملٹری کنٹریکٹرز کو معافی دے دی جنہوں نے عراقی، مرد، عورتوں اور بچوں کا قتلِ عام کیا تھا۔ امریکا نے افغانستان میں اتنے ڈرون حملے کیے کہ افغان بچے تک جان گئے ہیں کہ صاف آسمان ڈرون حملوں کے لیے سازگار ترین موقع ہوتا ہے۔ امریکا مسلمانوں پر حملے کرتا ہے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے میں معاونت فراہم کرتا ہے جس کا واضح ثبوت اس کی جانب سے یہودی ریاست اور ہندو ریاست کی حمایت ہے۔
مسلمان استعماری طاقتوں کے درمیان ہونے والے ٹکراؤ کو ایک تماشائی کے طور پر نہیں دیکھ سکتے ۔ جب تک ہم مسلم دنیا میں حکمرانی کے نظام کو تبدیل کر کے اس کی جگہ اپنے اجتماعی امور کو وحی کی بنیاد پر حل کرنے والے نظام کو نہیں لاتے ، تو ہمارے لیے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا اس بات سے قطع نظر کہ استعماری طاقتوں کی آپس کی پنجہ آزمائی میں کون جیتتا ہے۔ صرف اسلامی ریاست کے زیر سایہ ہی ہم معاشی فوائد ایک طرف رکھ کر مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بناسکیں گے۔ لیکن موجودہ حکمران ایسا کبھی نہیں کریں گے ۔ ایک جانب یہ بات چل رہی ہیں کہ چین سی پیک سے پیچھے ہٹ رہا ہے لیکن پاکستان کے حکمران چین سے اتحاد کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور مقبوضہ مشرقی ترکستان میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر انہوں نے اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے،
إِنَّمَا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ
"اللہ ان ہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کی وجہ سے لڑائی کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔ تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں"(الممتحنہ ، 60:9)۔
پاکستان کے حکمرانوں نے معاشی فوائد کے لیے اسلام کے خلاف چین کی جنگ کی مذمت کرنے سے انکار کردیا ہے اگرچہ ان معاہدوں نے پاکستان کو مزید قرض کی دلدل میں ڈبو دیا ہے اور اس کی خودمختاری متاثر ہوئی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے بجٹ کا بڑا حصہ سود کی ادائیگیوں پر خرچ ہورہا ہے، مئی 2019 میں پی ٹی آئی کی حکومت نے بالآخر یہ بات واضح کردی کہ دس ماہ کے دوران 8.6 ارب ڈالر کے مجموعی قرضوں میں سے 6.5 ارب ڈالر چینیوں کا قرض ہے ، جس میں چینی ڈویلپمنٹ بینک کا 2.2 ارب ڈالر کا زیادہ سود پر تجارتی قرض بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایک جانب ظالم چینیوں کے ہاتھ مضبوط کیے جارہے ہیں تو دوسری جانب ان قرضوں کی نتیجے میں پاکستان کی خودمختاری کو بھی ذلت آمیز طریقے سے متاثر کرنے کی راہ پر ڈال دیا گیا ہے جیسے سری لنکا کی خودمختاری متاثر ہوئی تھی جسے پہلے قرض کی دلدل میں پھنسایا گیا اور پھر اسے اپنی خودمختاری پر مصالحت کرنے پر مجبور کیا گیا کہ اب چائنا مرچنٹ پورٹس سری لنکا کی انتہائی اہم "ہم بن ٹوٹا" بندرگاہ Hambantota Portکے 70 فیصد کی مالک بن گئی ہے۔ یہی وقت ہے کہ اسلامی خلافت قائم کی جائے۔ دوسری استعماری طاقتوں کے ساتھ چین کو بھی ایک جارح ملک تصور کیا جائے گا جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں ملوث ہے۔
Latest from
- عالمی قانون کا انہدام ...اور ان دنیا والوں کی ناامیدی...
- بچوں کو اغوا کرنے اور ان پر تجربات کرنے کی”اسرائیلی“ قبضے کی ایک لمبی داستان موجود ہے
- امریکی قیادت اور نگرانی میں: ایران کی صفوی حکومت اور یہودی وجود...
- شنگھائی تعاون تنظیم امریکن ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے
- استعماری طاقتوں کی تنظیمیں ہماری سلامتی اور خوشحالی کی ضامن نہیں ہو سکتیں