بسم الله الرحمن الرحيم
تقریر - 4
مسلمانوں کی حرمتوں پر مغرب کی گستاخی
ڈاکٹرمحمد ابوالعین - ملائیشیا
پہلی جنگ عظیم کے دوران خلافت پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے قریب جب فرانسیسی جنرل ہینری گوراوڈ فوج سمیت دمشق میں داخل ہوا اور وہ سیدھا صلاح الدین کی قبرپر گیا اور اسے ٹھوکرمارتے ہوے اعلان کیا۔ جاگو صلاح الدین "صلیبی جنگیں اب ختم ہوئی ہیں۔ ہم واپس آگے ہیں ! یہاں ہماری موجودگی ہلال پر صلیب کی فتح کو واضح کرتا ہے!"۔ اسی طرح کی آواز ایک بار پھر گونجی جب جنرل ایڈمنڈ ایلنبی جفا گیٹ سے ہوتے ہوئےبیت المقدس میں داخل ہوا اوراعلان کیا کہ "صلیبی جنگیں اب مکمل ہوئی ہیں"۔ یہ واقعات مغرب کی مسلمانوں اور اسلام کی حرمات کے خلاف ان کی نفرت کا واضح اظہار تھا جوکہ شروع سے ہی ان کےدل ودماغ میں تھا۔ 1924 میں خلافت کا خاتمہ ریاست پر آخری زبردست دھچکا تھا جس نے ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک مسلمانوں اور اسلام کا تحفظ کیا تھا۔ اس سے ایسا لگتا ہے جیسے مغرب نے اپنا انتقام لے لیا ہو۔
لیکن نہیں، ان کی اسلام سے نفرت اور تعصب یہیں ختم نہیں ہوتا۔ خلافت کا خاتمہ مغرب کے ہاتھوں مسلمانوں اور اسلام کی حرمتوں کومزید پامال کرنے کی نشاندھی کرتا ہے اگرچے مغربی استعماریت بہت پہلے سے موجود تھی اور خلافت کے خاتمے سے پہلے ہی مسلمانوں کی زمینیں ان کے قبضے میں چلی گئ تھیں لیکن اب مغرب کومسلم علاقوں میں کسی طاقت کی مزاحمت کے بغیر مسلمانوں پر ریاستی جرائم کا ارتکاب کرنے میں کوئی مشکل باقی نہی رہی !! اور جیسے کسی زخمی کو مزید تکلیف دینے کے لیے اس کے تازہ زخم پر نمک چھڑک دیا جائے، ویسے ہی مغرب نے یہودی وجود کے قیام میں مدد کی اور مبارک سرزمین، فلسطین، اور شمالی افریقہ، انڈونیشیا، ہندوستان اور تمام مسلم علاقوں میں جواستعماریوں کےزیر قبضہ تھیں، مسلمانوں کا خون بہیا گیا ۔ اسلام میں مسلمانوں کی جان ومال اور عزت کو جو انتہای تقدیس حاصل ہے اس کو بےدردی سے لوٹا گیا۔ یہ بات ایک حدیث میں واضح طور پر نظر آتی ہے جہاں رسول اللہﷺ جب خانہ کعبہ کے گرد طواف کر رہے تھے تو انہوں نےاس کی طرف دیکھا اور کہا:
«مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ حُرْمَةً مِنْكِ مَالِهِ وَدَمِهِ وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا»
"تو کتنا عمدہ ہے، تیری خوشبو کتنی اچھی ہے، تو کتنا بڑے رتبہ والا ہے اور تیری حرمت کتنی عظیم ہے، لیکن قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، مومن کی حرمت(یعنی مومن کے جان و مال کی حرمت) اللہ تعالیٰ کے نزدیک تجھ سے بھی زیادہ ہے، اس لیے ہمیں مومن کے ساتھ حسن ظن ہی رکھنا چاہیے"
مسلمان جواس وقت کمزور ہیں اور مغربی استحصال کے خلاف کھڑے ہونے سے قاصر ہیں ، تو یہ کمزوری مغرب کو شہ دے رہی ہے کہ وہ اپنا مزموم اعتماد حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں پرہرسمت سے حملہ آور ہو۔
جب اسلام کے تحت خلافت کا قیام ہوا تو اسلامی اقدار اور حرمات کی رشک انگیز طریقے سے حفاظت کی گی تھی لیکن خلافت کےخاتمے کے بعد یہ حرمات ایک ایسے نازک دھاگے پر کھڑی ہیں جس کا سرا مغرب کے غلیظ اور خون آلود ہاتھوں میں ہے!!
یہ صورتحال ہمیں غم زدہ کرتی ہے اور مسلمانوں کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی پچھلی سو سال کی تاریخ کو دیکھیں؛ اور وہ لوگ جنہوں نے خود پر مغرب کے ہاتھوں ہونے والے مظالم دیکھیں ہیں ، تو مغرب کے ان جرائم اور اسلام کی حرمات سے مغرب کی نفرت اور ان کی پامالی کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا!!
دورے حاضر کے مسلما نو!
آج کی نسل کے مسلمان شاید مغرب کے جرائم ، گستاخی اور ماضی کی مسلم امّہ کے دکھوں کو بھول گئے ہوں یا ان کو اہمیت نہ دے رہے ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب بھی ہم مغرب کی بدترین وحشیانہ مظالم کا سامنا کررہے ہیں۔ مسلمانوں کی عزت اور املاک، اور ان کا خون مغرب کے شریر ہاتھوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ مغربی سامراجییت 'دہشت گردی کے خلاف جنگ 'کی شکل میں بے شمار اموات اور لاکھوں مسلمانوں کے مصائب کا سبب بن چکا ہے۔ عراق اور افغانستان میں جنگ، بوسنين جنگ، میانمار جیسی حکومت کے مظالم پرخاموشی اور اس کی حمایت ۔ یہ مسلمانوں کی حرمتوں کی مغرب کی طرف سے پامالی کی واضح مثالیں ہیں ۔
یہ بات ایک کھلا 'راز' ہے کہ مغربی سیاسی ڈھانچے میں "آزادیِ رائے" کا دعوی ایک دھوکہ ہے جس کا مقصد لوگوں کے ایمان خراب کرنا ہے۔ اور اگر لوگ سیکولر لبرل معاشروں اور حکومتوں کی کرپشن پر انگلی اٹھائیں تو انہیں فوری طور پر معاشرے سے کاٹ کر "انتہا پسند " قرار دے دیا جاتا ہے، اور یہ بات ان کی "آزادی" کے دعوے کی حقیقت اور منافقت کو بے نقاب کرتا ہے۔
آج کے دور میں جہاں مین اسٹریم اور سوشل میڈیا ہمہ گیر ہے، مغرب نے ہماری ثقافت اور ہمارے عقیدے کے ستون پرحملوں کی صورت میں مسلمانوں اور اسلام کی دیگر حرمتوں کو مسلسل پامال کیا ہے۔ آزادیِ تقریر اور آزادیِ اظہاررائے کی آڑ لے کر مغرب ہمارے پیارے رسول ﷺ کی شان میں گستا خی کا جواز پیش کرتا ہے۔ ہم نے اپنے معزز نبیﷺ کی توہین کے بعد توہین ہوتے دیکھی اور مغرب آزادی اظہار رائے کے نام پر انتہائی گھناؤنے حملوں اور توہین کو جائز قرار دے رہا ہے۔ 2015 میں فرانسیسی میگزین چارلی ہیبدو نے حضورﷺ کے توہین آمیز کارٹونزشائع کیے اور 2020 میں انہوں نے دوبارہ یہ شیطانی کام کیا۔ اور ہر بار فرانسیسی حکومت 'آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار' کرنے میگزین کے 'حق' کی حمایت اور پشت پناہی کرتی رہی! ہر ایک کو اس مسئلے میں مغرب کے دوہرے معیار کا احساس ہے۔ دراصل یہ ایک معروف 'راز' ہے کہ جس چیز کوآزادیِ اظہاررائے قرار دیا گیا ہے وہ ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں جو مغربی سیاسی ڈھانچےکے اندر عقائد کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس کے باوجود جب لوگ سیکولر لبرل معاشروں اور حکومتوں کی کرپشن کی طرف انگلی اٹھاتے ہیں تو انہیں فوری طور پر معاشرے سے کاٹ کر "انتہا پسند " قرار دے دیا جاتا ہے، اور یہ بات ان کی "آزادی" کے دعوے کی حقیقت اور منافقت کو بے نقاب کرتا ہے۔
رسول اللہ ۖ کی ناموس پر حملہ اور مغرب کی کھلم کھلا گستاخیوں کے علاوہ گزشتہ چند دہائیوں سے مغرب بے شمار بار حد سے آگے بڑھا ہے! اسلامو فوبیا میں اضافے کے بعد اب مغرب کے پاس ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی مدد سے وہ توہین اور حملوں کا حربہ غیر مغربی ایجنٹوں جیسا کہ بھارت، چین اور میانمار جیسی حکومتوں کو منتقل کر سکتے ہیں جہاں ان ممالک میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور اسلام کے خلاف پہلےسے ہی روایتی دشمنی موجود ہیں۔
ناموس رسالت ﷺپر حملہ ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے۔ مغرب کی گستاخیاں اس سے بھی آگے بڑھ کر ہیں ۔ قرآن کے خلاف توہین، مسلمان خواتین پر حملے، مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والی ریاستی منظور شدہ پالیسیاں، بیت المقدس کو یہودیوں کا دارالحکومت قرار دینے اور ہماری حرمتوں پر دیگر مختلف نظریاتی حملے آج تک جاری ہیں۔ اور بدقسمتی سے مسلم ممالک میں مغربی افکار و ثقافت کی زوردار تلقین نے کچھ ایسے مسلمانوں کو بھی تیار کیا ہے جنہوں نے اپنی روح مغرب کو بیچ دی ہے اور وہ اسلام کی حرمتوں پر حملہ کرنے میں گستاخی کرنے والوں کے آلہ کار بن چکے ہیں۔
اے مسلمانو!
یہاں تک کہ جب خلافت اپنے کمزور ترین مقام پرتھی ، خلیفہ نے کبھی بھی کسی کو اسلام کی حرمتوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی۔ ہم نے سلطان عبد الحمید دوم کے بارے میں سنا ہیں کہ انہوں نے حضورﷺ کی توہین کی کوشش کرنے کی گستاخی پر مغرب کے خلاف جہاد کی دھمکی دی تھی۔ ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ کس طرح اسی سلطان نے یہودیوں کی فلسطین کو اپنی ریاست بنانے کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔
اے مسلمانو!
کیا مغرب کی گستاخیاں ہمارے لئے یہ احساس کرنے کے لئے کافی نہیں کہ جب تک خلافت قائم نہیں ہوتی ہمیں مسلسل اپنی حرمتوں کی توہین اور حملوں کا سامنا رہے گا ۔
اے مسلمانو! خلافت قائم کرو!
اس کے قیام کے لئے کام کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ۔ ان لوگوں میں شامل ہو جاؤ جن کو فرشتے خوشی سے جنت کے دروازوں پر اندرآنے کی دعوت دیں گے ۔