الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ترقی اور ثقافتی تجدید (حصہ اول)

 

لطفی ابو محمد۔ الجزائر

 

   انسان کے لیے ایک فکری اساس  کی تشکیل جس کو وہ  افکار اور رجحانات پر فیصلہ دیتے وقت  مرکزِ نگاہ بنائے،  نیزوہ انسان کے لیے  منفرد طرز ِزندگی وضع کرے، نشاۃِ ثانیہ )نَھضہ-Revival) کہلاتا ہے  ۔ چنانچہ کسی انسان کے بارے میں  یہ فیصلہ کہ وہ ترقی یافتہ(revived)  یا زوال سے دوچار ہونے کا فیصلہ  ،جبلی یا جسمانی خواہشات کی تکمیل کے وقت اس کے رُجحانات اور مفاہیم کے باہمی عمل سے پیدا شدہ رویے کے مطابق کیا جائے گا۔ سو ترقی  اور نشاۃ ثانیہ تک لے جانے والے راستے کی جستجو کے موضوع پر کافی زیادہ  تحقیق کی گئی ہے ،ان تمام کا مقصد ترقی (revival)اور اس  تک پہنچانے والے راستے  کی شرح وتفہیم کرنا ہے۔ ایک مسلمان کے  لیے خاص طور پریہ ایک دلچسپ موضوع کی حیثیت رکھتا ہے ، جبکہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ   امت    پسماندگی   کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے ، جس نے  فرزندانِ امت کو دیگر تہذیبوں کے ساتھ  تقابل درتقابل  اور موازنہ کرنے پر  آمادہ کردیا اور بالآخر  احساس کمتری کے شکار   ہوکر، تسلیوں اور شکست خورد گی کے باعث ان پر وَہن (کمزوری) طاری ہو گیا ۔ مغرب نے ان کی اس حالت  کا استحصال اس طرح سے کیا  کہ ان کے شکستہ خوردہ ذہنوں  پر اپنا فکری تسلط  قائم کیا۔  جبکہ دوسری طرف ، یہ ایک واضح بات ہے کہ  قانونِ  مدافعت (Law of defense)کے مطابق تہذیبوں کی باہمی کشمکش اور مزاحمت  جاری رہتی ہے ،اورتہذیب کی شکست کی کسوَٹی  گھٹنے ٹیک دینا ہے، یا بقول ابن خلدون: كل مغلوب مفتون بتقليد الغالب " ہر مغلوب قوم  غالب (آنے والی )قوم  کی پیروی  کرنے کی خواہشمندہوتی ہے"۔

   پس سرمایہ دارانہ تہذیب نے، جس کو مشرق و مغرب  میں پذیرائی حاصل ہے، زندگی کے لیے ایک جُدا تصور اپنایا ہوا ہےجس سے وہ پوری دنیا کی قیادت کرنا چاہتی ہے، ہنٹنگٹنHuntington کے بقول: "وہ خصوصیات جو معاشرے کو مغربی بناتی ہیں  خاص ہیں: کلاسیکی میراث، عیسائیت ، چرچ اور ریاست کی علیحدگی ، قانون کی حکمرانی ، سول سوسائٹی "۔  سرمایہ داریت کے خیال میں  خالقِ کائنات کا لوگوں کے اُمور چلانے سے کوئی عمل دخل نہیں،اس اساسی نظریہ سے ایسےقوانین  اخذ کیے گئے ،جنہوں نے  انسانیت کو غلط راستہ پر گامزن کردیا۔ان قوانین نے انسان کو نظر انداز کیا اور اس کو محض ایک عدد کی نظر سے دیکھا۔ سرمایہ داریت نےمال و دولت میں اضافہ اور اس میں تنوع پر توجہ دی، امیروں اور غریبوں کے درمیان خلیج کو وسیع تر کردیا اور لوٹ کھسوٹ کے لیےمختلف ناموں سےقوانین بنائے۔ تو یہ ساری سرگردانی جس میں دنیا ٹامک ٹوئیاں ماررہی ہے،یہ سرمایہ داریت کا نتیجہ ہے ، جس میں سرمایہ دارانہ افکار اور ادارے دونوں شامل ہیں۔

 

اسی وجہ سے  اب  دنیا والوں کی نظریں اسلام پر مرکوز ہیں کیونکہ اب صرف اسی کو اس قابل سمجھا جارہا ہے کہ وہ انسانیت کا ہاتھ پکڑ کر اس کو صحیح رُخ پر ڈال دے۔ اسلام کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے پاس عظیم فقہی اور تاریخی ورثہ موجود ہے جس کی بنیاد پر وہ  فطری طور پردنیا کی قیادت لے سکتا ہے۔ اسلام اور اس کے منفرد قوانین نے تاریخی  طور پر انسان اور معاشرے کی  ترقی میں اپنا لوہا منوایا  اور اپنی قابلیت ثابت کرکے دکھائی ہے۔ کیونکہ یہ قوانین ایک ایسی درست کُلی فکر کی بنیاد پر استوار کیے گئے ہیں، جس کی بدولت انسان  اس  کائنات ،انسان اور حیات کو اللہ کے آگے عاجز دیکھتا    ہے،پس ان قوانین کے نفاذ سے دنیا کے حالات ٹھیک ہوجاتے ہیں ، اور حقیقی بندگی کا تصور اُجاگر ہوجاتا ہے۔ چنانچہ  اُمتِ مسلمہ کسی دوسری قوم کی طرح ایک قوم نہیں ، بلکہ اس کے کندھوں پر اپنی اور پوری دنیا کی اقوام کی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ یہ امت ایک مہذب  آسمانی تہذیب نامہ رکھتی ہے، اسی لئے  جو کچھ پہلے ذکر ہوا، اسی بنا پر اس مضمون میں ایک فکری نقطۂ نظر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور نشاۃِ ثانیہ کے تصور ، تہذیبی تشکیلِ نو   کے ساتھ اس کے تعلق اور ان دونوں سے متعلقہ دیگر تصورات پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس مضمون میں اس مشہور  سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ  " دوسری اقوام کیوں ترقی کررہی ہیں ، اور ہم (مسلمان) کیوں پیچھے رہ گئے ؟" ۔

 

   ماہرین کے درمیان نشاۃ ثانیہ کا موضوع ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے، اس بحث کا مقصد کسی تہذیب کی نشاۃِ ثانیہ کی شروعات کو عملی طور پر سمجھنا ہے،بالخصوص  اگر اس کو ان بڑی تبدیلیوں کے تناظر میں دیکھا جائے جو  امت میں  سیاست ، معیشت  اور معاشرت  کے حوالے سے  سامنے آئی ہیں۔یہی وجہ ہے  کہ ترقی اور نشاۃ ثانیہ کا موضوع  اب کسی بھی سنجیدہ مکالمے کا ضرور  حصہ بنتا ہے۔ اس حوالے سے  مختلف جوابات سامنے آتے ہیں ؛ کچھ لوگ اس کو ٹیکنالوجی کے پہلو سے دیکھتے ہیں، کچھ اس کو اخلاقیات اور کچھ اقتصادیات وغیرہ  کے پہلو سے  دیکھتے ہیں۔  اس طرح    بے شمار بیانیے سامنے آتےہیں، جن میں تنوع  ،دیکھنے والوں کے نقطۂ نظر  کےتنوع اور مختلف زاویوں کی وجہ سےآتا ہے ۔ ترقی و خوشحالی میں نشاۃِ ثانیہ کے اہم کردار کی وجہ سے قدیم  اور جدید مؤرخین نے نشاۃ ثانیہ کی تحریکوں اور ان کے زوال  کی تشریح  کرنے کی کوششیں کی ہیں،اور آج تک اس پر کام جاری ہے۔ اس سلسلے میں وہ نشاۃ ثانیہ کو چار مراحل میں تقسیم کرتے ہیں:

 

1- قدیم تہذیبیں ؛ جو مختلف علاقوں میں پروان چڑھیں،ان تہذیبوں نے ایسے نقوش چھوڑے جن میں اکثر  اب تک زیر تحقیق ہیں، جیسے مصری تہذیب، سومری تہذیب، اشوری، بابلی، فارسی، یونانی تہذیبیں وغیرہ ۔سب سے آخرمیں رومی تہذیب آئی جو بحیرہ روم کے علاقوں میں پھیلی ، اس تہذیب نے بحیرہ روم کو رومی جھیل بنادیا، مگر اس تہذیب  کی زندگی  کا پہیہ بھی چلتے چلتے بالآخرپانچویں صدی عیسوی میں رک گیا۔

 

2- ازمنۂ وسطیٰ(Middle Ages) ؛یہ دور ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں ایک نیا اضافہ ہوجانے کی وجہ سے  ممتاز مقام   کا حامل ہے۔ یہ نیا اضافہ اسلامی تہذیب کا تھا، جو مشرق میں سورج کی طرح طلوع ہوئی ،جس کی شعاعیں  مشرق میں چین سے لے کر مغرب میں بحرِ اوقیانوس تک کرۂ ارض کے ایک بڑے حصے تک پہنچ گئیں،اور یورپ کو چیرتے  ہوئے اسپین (اندلس) کے علاقوں کو فتح کرتی فرانس کی حدود تک پہنچ گئیں۔ جبکہ اسی زمانے میں یورپ کئی صدیوں سے   گھپ اندھیروں میں زندگی گزار رہا تھااور ان  ادوار میں یورپ شدید بھوک و افلاس ، وباؤں اور فقر وغربت اور ظلم و جبر کا سامنا کرتا رہا۔ یہ حالات سولھویں صدی کے اوائل تک رہے، جب  طاقت کے پلڑے یورپ اور اس کی سرمایہ دارانہ تہذیب کے مفاد میں جھکنے لگتے ہیں، جو کلیسا اور اس وقت کے دانشوروں کے درمیان خونریز جنگ کے نتیجے میں وجود پذیر ہوا۔

 

3- اٹھارویں صدی کے آتے ہی   برطانیہ میں   شاندار انقلاب(-891688-Glorious Revolution)     کا خاتمہ ہوا، جس کے نتیجے میں بنیادی سیاسی تبدیلی رونما ہوئی،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ  جمہورت اور   سرمایہ دارانہ نظام کی داغ بیل  پڑی ، برطانیہ سے شروع ہونےاور پھر پورے یورپ اور امریکہ  کو اپنی لپیٹ میں لینے والے اس انقلاب کے دوران  صنعتی دنیا میں داخل ہونے کے لیے اقتصادی اقدامات کے منصوبے وضع کیے گئے۔ اسلامی تہذیب کا معاملہ اس سے مختلف تھا ،اس تہذیب کو سیاسی اور مالیاتی بحرانوں   کے ٹوٹ پڑنے اور یورپی ریاستوں کی طرف سے مختلف طرح کے دباؤ ڈالنے کے سبب سخت حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا،معاملہ اس نہج پر پہنچ گیا تھا کہ اسلامی ریاست کی نمائندگی کرنے والے ترک عثمانیوں کو"  یورپ کامرد بیمار "کہا جاتا تھا ۔ اس دور کی خصوصیت یہ تھی کہ یورپ میں فکری لہر اُٹھی جس میں  بہت سے سماجی تصورات  کو اپنایا گیا ،یہ تصورات  یورپی معاشرے کے لیے جدید سمجھے جاتے تھے ،جیسے ریاست کا تصور، حکمران اور رعایا کے درمیان تعلقات ،معاشرتی اقدار ، شہریت کے حقوق، ملکیتیوں کے قوانین ، تقسیم دولت اور ٹیکس کا نظام وغیرہ ۔

 

4- بیسویں صدی میں بڑی جغرافیائی سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں ،جن میں نمایاں ترین تبدیلی 1924 ء میں سلطنت عثمانیہ کا سقوط  اورکئی صدیوں پر محیط رہنے والی اسلامی تہذیب و ثقافت کا شدید زوال تھا، یہ وہ تہذیب تھی جس نے انسانوں کو ایک منفرد طرز ِزندگی پیش کیا تھا۔اس تہذیب نے باقی انسانی تہذیبوں کے بالمقابل طویل عرصے تک  اپنے تسلسل کو بر قرار رکھنے کی شاندار صلاحیت کا مظاہرہ کیا تھا ۔ لیکن زندگی کے قوانین کے    تقاضوں کے پیش ِنظر مغربی تہذیب اور اس کے سیاسی و اقتصادی منصوبوں  کا پلڑا بھاری ہوا اور جنگ عظیم دوئم کے بعد آنے والے عشروں میں  دنیا بھر میں اس کا ہی راج قائم رہا ۔ اسی دوران اشتراکیت  کے افکار نمایاں ہوئے اور پھراس کی ریاست کا ظہورہوا،لیکن  وہ سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی  کے حاملین  سے ہونے والے سیاسی مقابلے   کو برداشت نہ کر سکی اور تمام تر سیاسی مزاحمت کے باوجود  اس کی زندگی تھوڑی رہی اور بالآخر اپنا وجود کھو بیٹھی۔ سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی مسلسل حاوی رہی باوجود یکہ اس کی  فکری اساس  میں بہت کمزوریاں تھیں جنہوں نے معاشرے، انسان اور انسانی اقدار میں ایسے بحران جنم دیے جن کی نظیر انسانیت نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی ۔

 

   تہذیبوں کے اُٹھ کھڑے ہونے  اور ان کی زوال پذیری کی متعدد تشریحات کی گئی ہیں، بعض نے کہا کہ یہ ایک ناگزیر امر ہے، کیونکہ ہر ابتداء کی ایک انتہاء بھی ہوتی ہے۔ جرمن فلسفی اسپنگلر(وفات  1936ء)  اس نقطۂ نظر کے  بانیوں میں سے ہے، کہتا ہے:"ہر تہذیب  کا اپنا ذاتی انجام ہوتا ہے، اور ہر تہذیب اپنی پیدائش، عروج اور زوال کے مراحل سے گزر کر رہتی ہے۔ ان کے خیال میں مغربی تہذیب جس کا ظہور  انیسویں صدی میں یعنی سرمایہ داریت کے قیام کے دور سے ہوا، زوال کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، جبکہ جاگیرداریت کا دور اس کے عروج اور بہار کا زمانہ تھا"[1]۔ اس کے بالمقابل  برطانوی تاریخ دان و فلسفی ٹوئن بی (وفات1975ء)نے داخلی اور بیرونی چیلنجوں پر توجہ مرکوز کی، اس کی نظر میں یہ چیلنجز پیداوار کے ذرائع  کو بروئے کار لانے میں فعال کردار ادا کرتے ہیں، جومعاشرے میں  توانائی پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں،اس کی قیادت بیدار اشرافیہ کرتی ہے، اور وہ معاشرے کے عمومی مفادات کی خاطر اس سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ وہ کہتا ہے: " تاریخِ عالم   ترقی اور زوال کے بڑے بڑے مراحل  سے گزرتی ہے،یہ مراحل مختلف تہذیبوں کے مجموعی اور حتمی  نتائج ہوتے ہیں، جو انہی مراحل سے گزرتے ہیں: یعنی ان کی پیدائش ، نشو ونما، سقوط، تحلیل اوربالآخر انہدام اور تباہی"[2]۔ ٹوئن بی مزید لکھتا ہے: تہذیب کے سقوط کے پیچھے کار فرما اسباب کا خلاصہ یہ ہے کہ منتخب ٹولہ  لگا تار پیش آئے ہوئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں بے بس اور متبادل  پیش کرنے سے قاصر ہوکر بیٹھ جائے، آگے کہتا ہے:" کسی بھی معاشرے کی تاریخ میں جب تخلیق کار اقلیت  طاقت  کے بل بوتے پر مرکزِ  سلطنت پر قابض ہونے کی کوشش میں    ایک مسلط  شدہ اقلیت کے درجے تک آگرتی ہے،جبکہ یہ گروہ اس مرکز کی اہلیت سے عاری ہوتا ہے، تب حکمران عناصر کے مزاج میں یہ تباہ کن تغیرّ محنت کش طبقے( اکثریت)  کواس  طبقے سے علیحدگی ، اس کی من مانیوں سے جان چھڑانے اور اس میں گھل ملنے  اور اس کی پیروی سے پسپائی  کے لیے اُبھارتا ہے۔    یوں  ایک ہی  معاشرے میں  ،جس کا وجود  اپنی ثقافتی ترقی کے دور میں اپنی ذات میں  اس قسم کی گہری تقسیم سے بچا ہوا ہوتا ہے، مزاحمت کار طبقہ تہذیب کے سقوط  کا کام کردیتا ہے"[3]۔ جرمن فلسفی ہیگل (متوفی 1831 ء)جو انقلاب  فرانس کے دور کا آدمی تھا  ،جس کی فکری  تربیت پرڈیکارٹ  کی فرانسیسی عقلیت پسندی ، ہیوم کے برطانوی فلسفۂ تجربہ(empiricism) اورجرمن فلسفہ جیسے   فلسفیانہ مکاتب ِفکر  کی واضح چھاپ تھی،وہ اپنے فلسفی منصوبے  کے پیش کردہ افکار کے ساتھ رونما ہوا ۔اس کے فلسفیانہ منصوبے کی بنیاد اس مفروضے پر  کھڑی ہے کہ : تضاد ہی تمام  مظاہر اور اشیاء کی اصل ہے، اور یہ مقابلہ و مزاحمت ہی ہر  ترقی و فروغ کا سرچشمہ ہے"۔ پس نشاۃِثانیہ اور زوال  ایسے دو حادثے ہیں جو ایک  مجموعی فارمولا کے ضمن میں  ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتے،جہاں واقعات اور حالات کی کشمکش جاری رہتی ہے ،جس کے نتیجے میں ایک حرکت پیدا ہوتی ہےجو نئے حالات کا پیش خیمہ بنتی ہے۔

مغرب کی فلسفیانہ پیداوار پر ہیگل کا بڑا اثر ہے، بالخصوص اس کے جدلیاتی نظریہ(conflict transformation theory) کے بہت سے لوگ پیروکار ہیں، انہی میں سے جاپانی نژاد امریکی  مفکر " فرانسس فوکو یاما" بھی ہےجس نے اپنی کتاب"The End of History and the Last Man"  کی اشاعت کے بعد   شہرت  پائی، جس میں  اس نے مغربی تہذیب بالعموم اور بالخصوص امریکی تہذیب  کی ترویج کی کوشش کی ہے۔ اس کے خیال میں لبرل جمہوریت اور آزاد منڈیوں کی مغربی سرمایہ داریت کے پھیلاؤ کے بعد  انسانی تہذیب کا ارتقاء  اپنی انتہاء کو پہنچ چکا ہے اور یہ ہی انسانی حکمرانی کی حتمی شکل ہے۔ اس کے نزدیک اس کی وجہ لبرل ازم  کاترقی کی بلند ترین   سطح تک پہنچ جانا ہے ،    اس مقام پر ہوتے ہوئے لبرل ازم کو اپنے مادی و سائنسی وسائل  پر بھروسہ حاصل ہوگیا ہے،اور اسی وجہ سے باقی اقوام امریکی تجربے کو اپنانے کی مسلسل کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ پس سرمایہ دارانہ تہذیب نے، جس کی نمائندگی مغرب کررہا ہے، زندگی کے لیے متعین تصور اپنایا ہوا ہے،اوروہ پوری دنیا کو اسی تصور کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے۔ ہنٹنگٹن کے بقول "وہ خصوصیات جو معاشرے کو مغربی بناتی ہیں ، اس کے برعکس ، خاص ہیں: کلاسیکی میراث ، عیسائیت ، چرچ اور ریاست کی علیحدگی ، قانون کی حکمرانی ، سول سوسائٹی "[4]۔  یہ چند نمونے ہیں  جن پر اس اعتبار سےخاص طور سے توجہ رکھی گئی کہ یہ بیانیےتاریخ دانوں اور دانشوروں کے درمیان رائج ہیں۔ مذکورہ  بیانیوں کے حوالے سے بحث کے لیے،سب سے پہلے نشاۃِثانیہ اور اس کو جنم دینے والے اسباب کا ذکر ضروری ہے۔

 

النهضة (نشاۃِ ثانیہ) کیا ہے؟

لغوی تعریف                :

النهضة(نشاۃ ِ ثانیہ) عربی لفظ ہے اور یہ فعل نھض سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں  کھڑا ہونا اور سیدھا ہونا۔ عربی لغت کی کتاب"لسان العرب" میں ہے : کہ نھض  : نھوض سے ہے ، جس کے معنی ایک جگہ سے کھڑا ہونا کے ہیں، نَهَضَ، يَنهَضُ، نُهُوضَاً کا معنی ہے "کھڑا ہونا"۔ اسی سے انتھض القوم ہے، یعنی" لوگ جنگ کے لیے کھڑے ہوگئے"۔ النھضۃ کا معنی ہے، قوت، طاقت ۔ مکان ناھض  یعنی" اونچی جگہ"۔

 

اصطلاحی تعریف:

النھضۃ (نشاۃِ ثانیہ) کی اصطلاحی تعریف کچھ یوں کی جاتی ہے کہ یہ معاشرے کا پہلی حالت سے بہترین حالت کی طرف منتقل ہونا ہے[5]۔ یہ اصطلاحی معنی ہی  دانشوروں اور مفکرین کے درمیان عام اور مشہور ہے۔ اس سے قبل عربوں نے اس کو ان معنوں میں استعمال نہیں کیا جو  جدید دور میں اس کے معنی لیے جاتے ہیں۔ اسی بنا پر النھضۃ (نشاۃِ ثانیہ) کے بارے میں گفتگو اس کی اصطلاحی معنوں کے تناظر میں کی جاتی ہے، اس کے لغوی معنی کو صرف اس وقت ہی دیکھاجاسکتا ہے جب اس کو مراد لینے کا کوئی قرینہ پایا جائے۔

 

  النھضۃ (نشاۃِ ثانیہ) کی بحث میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ وہ معاشرے کی حالت کی تبدیلی  یا منتقلی کے کون سے عوامل  ہیں جن   کی تنفیذ سے تبدیلی یا  انتقال پیدا ہوتا ہے جو معاشرے میں النھضۃ (نشاۃِ ثانیہ) کے پائے جانے سے تعبیر ہے۔ ایک ترقی یافتہ اور زوال  یافتہ معاشرے کے درمیان کیا فرق ہے؟ اور وہ کیا پیمانہ ہے جس کی بدولت ہم درست نشاۃِ ثانیہ اور غلط نشاۃِ ثانیہ کے درمیان فرق کرسکتے ہیں؟۔ ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لیے مذکورہ اصطلاح  اور اس کی تحقیق کے بنیادی مقصد کا تجزیہ  کرنے کی ضرورت ہے۔

 

بلا شبہ النھضۃ (نشاۃِ ثانیہ) کے موضوع کی اہمیت میں انسانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ، تویہ وہ طبعی حالت ہے جواس کائنات میں ان کی فعالیت پر دلالت کرتی ہے۔ انسان اپنے معاشی حالات  کی بہتری ،سیاسی و معاشرتی استحکام اور معاشرے کو ترقی سے ہمکنار کردینے والی اقدار اپنانے  کے لیے  مسلسل کوشش و جد و جہد  میں لگے رہتے ہیں۔ چونکہ گفتگو معاشرے کی ترقی کے حوالے سے ہے ، اس لیے پہلے معاشرے کی تعریف ضروری ہے تاکہ جس کی ترقی مطلوب ہے ،اس کی حقیقت پہچان لی جائے۔ پس معاشرہ افراد کا مجموعہ ہوتا ہے جودائمی تعلقات میں بندھے ہوتے ہیں ، کیونکہ یہ معلوم ہے کہ دائمی تعلقات کے بغیر،جو ان کو مسلسل انداز میں جوڑے رکھتے ہیں، لوگوں کا مجموعہ معاشرہ کی شکل اختیار نہیں کرتا۔ انہی تعلقات کی موجودگی  ہی وہ  معیار ہے جس کی بنیاد پر کسی معاشرے کی موجودگی یا عدم موجودگی کے بارے میں فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔پس دائمی تعلقات ہی وہ   حقیقی آئینہ ہے جس کے اندر معاشرے کی حقیقت جھلکتی ہے۔حافظ صالح کے مطابق:"یہی تعلقات لوگوں کی زندگی کو منظم کرتے ہیں اور انہی تعلقات کے ذریعے رسم و رواج کو پہچانا جاتا ہے، انہی تعلقات  کے چلن ، لوگوں کےاپنے تعلقات نبھانے اور لوگوں کے مفادات سے ہی کسی معاشرے کے بارے میں ہم فیصلہ دے سکتے ہیں کہ وہ ایک صالح معاشرہ ہے"[6]۔

 

یہ تو اس معاشرے کے بارے میں جس کا تعلق دائمی تعلقات سے ہے، جہاں تک فرد کی بات ہے، تو وہ اپنے رویے کی وجہ سے ہی  الگ شناخت پاتا ہے،اور انسان کے رویے پر فیصلہ ہی وہ و احد شے ہے جس سے ترقی اور زوال کے اعتبار سے ایک فرد کی حقیقت تک  رسائی ممکن ہے۔ کسی فرد کے لیے کسی دوسرے شخص کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا صرف اس کے رویے اور ضروریا ت کی تکمیل کے لیے اس کےمجموعی  اعمال کے ذریعے  ہی ممکن ہے۔ناجح یوسف کے مطابق:" اس لیے ہم لوگوں  کے رویوں  اور اعمال  کی بنا پر ان کو ترقی  یافتہ یا انحطاط  سے دوچار کہہ سکتے ہیں، اور یہ تعریف کسی کمی بیشی کے بغیر اس کی حقیقت پر لاگو ہو گی"[7]۔اور اسی بنا پر  انسان کے رویوں کی جڑ تک پہنچنے کیلئے ان کو تشکیل  دینے والے بنیادی  محرکات اور اعمال کی بنیاد کی پہچان ایک لازمی امر تصور کیا جاتا ہے۔ عقلی طور   پر یہ معلوم ہے کہ انسان اپنے افکار کی بنیاد پر اعمال انجام دیتا ہے، اورانسان کوئی بھی کام صرف اسی وقت انجام دیتا ہے کہ جب  اس کے ذہن میں  اس کام پر ابھارنے والی سوچ پائی جائے۔کہا جاتا ہے کہ سلک الشخص مسلکاً یعنی "اس نے کام طریقے سے انجام دیا"۔ رویّہ یا برتاؤ(سلوک)  ہی انسان اور اس کے اعمال  کو چلاتا ہے۔ محمود الخالدی نے اس کی تعریف یوں کی ہے: "انسان کے اعمال  جووہ اپنی جبلتوں اور جسمانی ضرورتوں  کو پورا کرنے  کے لیے انجام دیتا ہے، سو وہ حتمی طور پر انہی رجحانات کے مطابق چلتا ہے جو تکمیلِ ضروریات کے لیے اس کے اندر موجود ہوں"۔ مزید کہا:" بلاشبہ انسان کا رویہ زندگی کے بار ے میں اس کے تصورات کے ساتھ مربوط ہے"۔ اس کا مقصود معنی یہ ہے کہ کسی مخصوص خواہش کی تکمیل کے ارادے کے وقت فرد دو بنیادی سوالات کا سامنا کرتا ہے، پہلا سوال چیزوں اور ان کی حقیقت سے متعلق ہے۔ دوسرا انسان کے رویوں اور عمل کرنے پررضامندی یا جھجک سے متعلق ہے۔

 

تو اگر ہم بھوک کی حالت کی مثال لیں، تو پہلا سوال جو کسی بھی انسان کے ذہن میں پہلے آتا ہے،خواہ وہ کوئی بھی عقیدہ رکھتا ہو ، یہ ہے کہ جو شے وہ کھانا چاہتا ہے، کیا وہ اس کی پیٹ کی بھوک مٹادے گی ؟ یہاں زندگی سے متعلق نقطہ نظرسے قطع نظر، اس سے متعلق  اکثر انسانوں کا  جواب ایک ہی ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے سوال کا جواب جو اس شے کے ذریعے اپنی بھوک ختم کرنے سے متعلق ہے، تو یہ شے کی ذات سے خارج ، ایک الگ امر ہے، اور یہ انسان کی ذات سے بھی خارج،ایک  الگ امر ہے۔ گویا اس سوال کی وجہ وہ چیز یا انسان کی ذات نہیں بلکہ  یہ کسی ایک یا متعدد قواعد کی طرف  رجوع کرنے کا تقاضا ہوتا ہے، جن کو انسان نے اپنے اعمال کے لیے کسوَٹی اور ایک پیمانے کے طور پر اپناتا ہے، یعنی  اس کام کے کرنے یا اس سے رُکنے کا فیصلہ ، اس کام کیلئے زندگی کے بارے میں نقطہ نظر کی طرف رجوع سے پیدا ہوتا ہے۔ پس  جب انسان کو پتہ چلے  کہ اس کھانے میں اس پیمانے یعنی اس کے نظریہ حیات کے خلاف کوئی بات  پائی جاتی ہے جس کی طرف اس نے رجوع کیا ہے،مثلا اسے معلوم ہوجائے کہ وہ کھانا ناپاک ہے یا خنزیر کا گوشت ہےیا اس کے مالک نے اس کو کھانے کی اجازت نہیں دی ہے، تو اس کی رغبت و خواہش کے باوجود وہ اس سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور اس میلان سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے۔

 

یہ اصول  کسی بھی چیز پر لاگو ہوسکتے ہیں،چاہے وہ جسمانی ضروریات ہوں مثلاً کھانا پینا یا جبلی ضروریات ہوں جیسے جبلتِ تدین ،جبلتِ بقا اور جبلتِ نوع۔ اس طرح ہم ایک اہم نتیجے تک پہنچتے ہیں  کہ انسان کےسب  اعمال ان پیمانوں اور قواعد کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں جن  پروہ ایمان لایا ہے اور جن کواس کا نظریۂ حیات یعنی عقیدہ متعین کرتا ہے۔ اسی طرح  زندگی کے بارے میں اس کا تصور   اس کے تمام اعمال کے کرنے یا نہ کرنے کے اعتبار سےایک رُخ متعین کرتا ہے، خواہ وہ عمل بنیادی ہو یا فروعی ، چھوٹا ہو یا بڑا ، اہم ہو یا غیر اہم۔ چنانچہ اس کا عقیدہ ہی اس کے افکار اور زندگی سے متعلق اس کے تصورات کے لیے بنیادی قاعدہ ہے، اسی سے اس کے تمام نظام ہائے حیات پھوٹتے ہیں،   اسی سے  وہ زندگی کے لیے ایک زاویہ نظر سیکھتا ہے، اسی سے  وہ ضابطے اور پیمانے لیتا ہے جن کے ذریعے وہ عمدہ اور گھٹیا یا  ردّی اور   کار آمد کے درمیان تمیز کرتا ہے۔

 

اس بنیاد پر ایک انسان   کے بارے میں  اس کے اعمال پر فیصلہ دینا ،حقیقت میں اس کے افکار   کے بارے میں فیصلہ دیناہے جن پر وہ ایمان لایا ہے اور ان پیمانوں کے بارے میں اور نظریۂ حیات کے بارے میں فیصلہ ہے جن کو اس نے اپنے لیے اختیار کیا ہے۔ ان افکار پر حکم ایسے ضابطوں اور عقلی قوائد  کا تقاضا کرتا ہے جن کو حکم جاری کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ افکار کی اصل وہ فکری بنیاد ہے جسے انسان نے اس دنیا میں اپنے امور چلانے کے لیے  اساس بنا لیا ہے۔ اس بنا پر ایک انسان کے رویے میں تبدیلی  کی رغبت ہی ان اساسی تصورات کی تبدیلی  ہے، کہ ان کو جڑ سے تبدیل کیا جائے اور اس کے جگہ دوسرے صحیح افکار رکھے جائیں۔ یہ توتھا فرد سے متعلق،   جہاں تک معاشرے کی بات ہے تو اس کی خصوصیت    دائمی تعلقات ہیں   جو افکار ، احساسات اور نظاموں  سے استوار ہوتے ہیں ،یہی تین عوامل ہیں جو اپنی  موجودگی  اور ساخت  کی بنا پر ایک منفرد معاشرے کو وجود بخشتے ہیں۔

 

پس اسلامی معاشرہ ایک انسانی وجود ہے جو  افکار، احساسات اور نظاموں پر مشتمل منفرد طرز ِزندگی  کو اپناتا ہے، اور اس  میں ہر لحاظ سے  روحانی پہلو اسلامی عقیدے کے ساتھ مربوط ہوتا ہے۔ لہٰذا فرد اور اسلامی معاشرے کی زندگی میں ہر جزوی  مسئلے کے لیے اسلام نے ایسا حل بتا یا ہے جو اطمینان بخش زندگی پر منتج ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر غربت کے مسئلے کو اسلام  کیسے حل کرتا ہے؟  اس کے لیے اسلام شرعی احکامات کا ایک مجموعہ نافذ کرتا ہے جن کے ذر یعے معاشرے میں دولت کی تقسیم سے متعلقہ امور کو منظم کیا جاتا ہے، چنانچہ  زکوٰۃ اوراوقاف کے ذریعے وسائل        کی منصفانہ تقسیم،  ذخیرہ اندوزی  کی ممانعت اور  سونے چاندی کے ساتھ کرنسی کا ربط وغیرہ      وہ احکامات ہیں  جن کے نفاذ سے ہم  غربت اور غریبوں سے خالی  معاشرہ  تشکیل دے سکتے ہیں۔ دائمی تعلقات   کے ڈھانچے میں جہاں  محافظ سیاسی نظام اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ  وہ تعلقات ایک ہی سرچشمہ سے نکلتے ہوں،ایسے دائمی تعلقات  افراد اور نظاموں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کا کام کرتے ہیں ، جیسے سب کے سب ایک ہی کشتی کے مسافر ہوں، عبد اللہ العروی نے  فطری ریاست کی تعریف کرتے ہوئے یہی تعبیر کی ہے کہ:" یہ وہ ریاست ہے جس کے افراد اور نظام ایک ہی منہج اور طریقے  پر  گامزن ہوں"۔

معاشرے کی اس حالت پرتشریح کرنا حقیقی تشریح کہلاتی ہے، تو  جب ایک معاشرے میں عرف عام اور نظام کے درمیان ہم آہنگی نظر آئے یعنی افکار اور احساسات نظام کے ہم جنس ہوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ معاشرہ ہم آہنگ معاشرہ ہے، اور اس میں حکمران اور رعایا کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے دور میں یہی کچھ ہوا جب نظام اور  لوگوں کے افکار و احساسات کے درمیان ہم آہنگی حاصل ہوئی۔ برطانیہ میں  جہاں یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے   اولین مناظر اور ابتدائی آثار کا ظہور ہوا،"مقدس انقلاب "کے بعد سب معاملات تیز تر ہوتے رہے،تو مقدس انقلاب کے آتے ہی  اس سے ایک ایسا سیاسی نظام بر آمد ہوا جس سے صنعتی انقلاب کے لیے بنیاد رکھی گئی[8]۔ اسی طرح امریکہ اور فرانس کا معاملہ تھا۔ چنانچہ  افکار، احساسات  اور نظاموں کے حوالے سے  حکمران اور رعایا کے درمیان ہم آہنگی معاشرے کو دولت کے سرچشموں کو ڈھونڈنے اور اس کو بڑھاوا دینے کا کام کرتی ہے، اس سے وہ حکمتِ عملی  وضع ہو جاتی ہے،جو    اقتصادی، معاشرتی اور تعلیمی معاملات کو چلانے  کی قابلیت رکھنے و الے بالا دست اداروں  کے قیام کے ذریعے معاشرے کو یکسر تبدیل کر دینےکے قابل بنادیتی ہے۔

 

جہاں تک  بات ہے  منتشر  تعلقات ،پراگندہ افکار،نا موافق احساسات  ،نظام سے متنفر اور اس کو  درہم برہم کرنے پر تلے ہوئے  معاشرے کی، تو ایسے معاشرے کو انارکی میں مبتلاء معاشرہ کہا جاتا ہے، کیونکہ ایسے معاشرہ حکمران اور عوام کے درمیان تنازعات کی وجہ سے ترقی کی طرف گامزن نہیں ہو سکتا ۔ اس معاشرے  کے افراد حکمرانوں سے بدکے ہوئے رہتے ہیں اور ان کے اندر انا اور خودغرضی کے جراثیم پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس بنا پرایک نشاۃِ ثانیہ پر گامزن انسان وہ ہے جس  کے رویے ایک ہی کُلی فکر سے پھوٹتے ہیں۔نشاۃِ ثانیہ پر گامزن معاشرہ وہ ہے جس کے تمام تعلقات ایک واحد فکری قیادت سے اخذ ہوتے ہیں۔ زوال کا شکار انسان وہ ہے جس کے رویوں کا ماخذ منتشر  ہے ، یہی کچھ زوال پذیر معاشرے کے بارے میں بھی کہا جائے گا۔ نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے کو نشاۃِ ثانیہ کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اس انتشار کی جگہ ایک ہی فکری سرچشمہ کو رکھا جائے یاایک ہی فکری قیادت اوربنیاد  اختیا ر کی جائے جو اس کو نشاۃِ ثانیہ کی راہ دکھائے۔ اور وہ فکری قاعدہ کیا ہے؟  وہ ایک آئیڈیالوجیکل فکر ہے جو کائنات، انسان اورحیات کی حقیقت سے متعلق جواب فراہم کرتا ہے۔کائنات ، انسان اورحیات سے متعلق  جوابات تین سے زیادہ نہیں ہوسکتے:

 

1-                 اس کائنات کا ایک خالق ہے جس نے اس کا نظام بنایا ہے۔

2-                 خالق تو ہے مگر اس کے دیے ہوئے ضابطوں کا زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔

3-                 خالق کا وجود  ہی نہیں۔

 

   ان تین جوابات  سے تین مبادی( آئیڈیالوجیز )وجود میں آئیں۔  اسلام کی آیئڈیالوجی کہتی ہے کہ  کائنات کا خالق ہی کائنات کے نظام کو چلاتا ہے۔  سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی سیکولر ازم کے ذریعے دین کی زندگی سے جدائی کا عقیدہ رکھتی ہے، جبکہ سوشلزم دین کو اقوام کے لیے افیون  قرار دیتا ہے۔

 

ان آئیڈیالوجیز پر گہری نظر رکھنے والا دیکھتا ہے کہ ان سب نے نشاۃِ ثانیہ حاصل کی ، بھلے سرمایہ داریت اور اشتراکیت(سوشلزم) کی ترقی نسبتی  ہے ،جس کی ایک بنیادی وجہ ہے کہ ان دونوں آئیڈیالوجیز نے فکری قیادت کی صحت کا التزام نہیں کیا ۔ فکری قیادت کی صحت کا مطلب کیا ہے؟ یہ کہ وہ فکر فطرت سے ہم آہنگ اور عقل کو قائل کرنے والی ہو۔ توکسی بھی نشاۃِ ثانیہ کے بارے میں صحت یا عدم صحت  کا حکم لگانے کے لیے یہ دونوں شرطیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں (یعنی فطرت سے ہم آہنگی اور عقل کو قائل کرنے والا ہونا)، اگرچہ یہ ممکن ہے کہ نشاۃِ ثانیہ حاصل تو ہو جائے لیکن درست نہ ہو ۔ جہاں تک اسلام کی بات ہے تو وہ ان تینوں آئیڈیالوجیز میں سے  ایک منفرد دین اور ائیڈیالوجی ہے جس کے پاس کائنات کی حقیقت کے حوالے سے وہ جوابات ہیں جو انسانی فطرت  اور اس کی عاجزی کے مطابق ہیں۔ اسلامی آئیڈیالوجی  انسان کی فکر پر پابندی نہیں لگاتی بلکہ یہ انسان کو فکرِ مستنیر اور نتیجہ  خیز سوچ کی کشتی میں بیٹھ کر  اپنی عقل  کے ساتھ کائنات کے سمندروں  میں تیرنے  کی راہ دکھاتا ہے، یوں وہ   امن و راحت کی ساحل پر پہنچ جاتا ہے،  یوں یہ فکر مستنیر انسان کو اور اسلامی عقیدے کو اپنانے والےمعاشرے کو  اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی تخلیق کے سبب  اور مقصد  کو  سمجھ سکے۔ اسی وجہ سے ایک فکر کی حیثیت سے اسلام مختصر عرصے میں  جزیرہ نما عرب اور دنیا کے نقشے کو تبدیل کرنے کے قابل ہوا اور کرۂ ارض کے آخری کونوں تک جا پہنچا، اور ایک ایسی تہذیب کو جنم دیا جس کی نظیر  انسانیت نے نہیں دیکھی تھی، اس کے پاس وہ فکری اورفقہی و سائنسی خزانے ہیں جن کی وجہ سے وہ ہر زمانے میں تمام ثقافتوں میں اولین رہاہے۔

جاری ہے۔۔۔

 

حوالہ جات:

 

[1] - The Philosophical Encyclopedia – on Spengler.

[2] - The Philosophical Encyclopedia – on Toynbee.

[3] - Quoted from: Imad al-Din Khalil - Islamic Interpretation of History - pg. 84.

[4] - Huntingdon, S. (1993). The Clash of Civilizations.

[5] An-Nahda - Hafiz Saleh, p. 5

[6] An-Nahda - Hafiz Saleh, p. 8

[7] Concepts of Islamic Renaissance - Sabateen, Najah Yusuf, p. 14

[8] Why nation fail p.100

Last modified onجمعرات, 14 اکتوبر 2021 20:46

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک