الجمعة، 09 شوال 1445| 2024/04/19
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

خلافت کی فرضیت کے متعلق

خلیل مصعب ، پاکستان

 

تعارف: خلافت کی فرضیت شرعی دلائل سے ثابت شدہ ہے۔

کابل کی آزادی کے بعد ، خطے میں خلافت کی ضرورت کے حوالے سے بحث شروع ہو گئی ہے تاکہ موجودہ ریاستوں کو ایک ریاست کے طور پر ضم کیا جا سکے۔ یہ درحقیقت دینِ اسلام میں ایک انتہائی ضروری بحث ہے جو ایک عظیم فرض سے متعلق ہے،جس سے غفلت برتنا گناہ ہے۔

 

معزز مولانا محمد علی جوہر ، جو برصغیر پاک و ہند کی تاریخی تحریکِ خلافت  کی ایک اہم شخصیت تھے ، انھوں نے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے حوالے سے لکھا: "ترکی جس کے بارے میں یورپ نے ہمیں مشورہ دیا کہ اسے کے حصے بخرے کر دیے جائیں، ہمارے ذیلی شعور میں ایک خاص رگ کو چھو گیا ہے ، جو کہ مذہب کی رگ ہے؛ کیونکہ ترکی کا حکمران دراصل خلیفہ یعنی نبیﷺ کا جانشین اور امیر المومنین تھا اور خلافت بنیادی طور پر ہمارا مذہبی معاملہ تھا جیسا کہ قرآن یا سنت نبوی ﷺ ہے"۔

 

اس بات کو کثرت سے واضح کرنا چاہیے کہ خلافت ہمارے دین سے باہر کا معاملہ نہیں ہے۔ جیسا کہ مولانا نے صحیح کہا ہے ، یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ جسے اتنی ہی مذہبی تشویش پیدا کرنی چاہیے جتنا کوئی بھی دوسرا فرض، جو قرآن کریم اور سنت کی طرف سے عائد ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے جو کچھ نازل کیا ہے اس کے مطابق حکمرانی کرنا فرض ہے۔ لہٰذا خلافت کے قیام کے بغیر دین مکمل طور پر نافذ نہیں ہو سکتا۔

 

اس بات کو رسول اللہ ﷺ کے عظیم صحابہؓ نے سمجھا جو رسول اللہﷺ کے وصال پر مومنین کے لیے خلیفہ کے چناؤکے لیے لپکے۔  اس کے بعداگلے 1300 سال تک علم اور اختیار والے خلافت کی مرکزیت سے آگاہ رہے۔

تاہم ، جب اتحادی طاقتوں اور ان کے ایجنٹ 1924ء میں خلافت عثمانیہ کوختم کرنے میں کامیاب ہو گئے ، تو انہوں نے عربوں اور ترکوں میں موجود غداروں کے ساتھ مل کر مسلم دنیا کو سیکولر کرنے اور امت کو خلافت کے قیام کی ذمہ داری بھلا دینے کی حکمت عملی پر عمل شروع کیا۔

 

اس حقیقت کے باوجود آج ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ خلافت فرض نہیں ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل غلط ہےکہ خلافت کا معاملہ امت کی مرضی کے تابع ہے کہ وہ اسے اختیار کرنا چاہتی ہے یا نہیں۔ جو لوگ ایسا موقف رکھتے ہیں وہ خلافت کی فرضیت کے حوالے سے موجود دلائل کا درست فہم نہیں رکھتے۔ لہذا ، اس معاملے کو حل کرنے کے لیے ، اور یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ خلافت واقعی ایک فرض ہے ، شرعی دلائل کا جائزہ لیا جانا چاہیے ، جو قرآنِ کریم، مبارک سنت نبوی ﷺ ، اور اجماع صحابہؓ میں موجود ہیں۔

 

اللہ کی عظیم کتاب قرآنِ مجید سے دلائل:

سورۃالمائدہ ، آیت 44 میں ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کا ارشاد ہے ، وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ "اور جو بھی اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا ، تو ایسے لوگ ہی کافر ہیں"۔ ابنِ کثیر نے اس آیت کے بارے میں اپنی تفسیر میں تبصرہ کیا: وقال علی بن أبی طلحة عن ابن عباس قولہ: (وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ) قال: ومن أقر به ولم يحكم فهو ظالم فاسق. رواہ ابن جریر،"علی بن ابی طلحہ نے یہ بھی بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اللہ کے اس قول کے متعلق بیان کیا ، وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ، 'اور جو بھی اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا ، وہ کافر ہیں' کہ جو شخص اللہ کے نازل کردہ احکامات کا انکار کرتا ہے اس نے کفر کیا  ، اور جو کوئی اللہ کی نازل کردہ چیز کی تصدیق کرتا ہے ، لیکن اس کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا ، وہ ظالم اور فاسق اور گناہ گار ہے۔ اسے ابن جریر نے روایت کیا"۔

 

یہ مفروضہ کہ دین صرف زندگی کے بعض شعبوں تک محدود ہے بالکل غلط ہے۔ دین مسجد کی دہلیز پر شروع اور ختم نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ نجی اور عوامی دونوں معاملات کو گھیرے ہوئے ہے۔ یہ دراصل زندگی کے تمام معاملات کے لیے مکمل اور بہترین رہنمائی ہے۔ لہذا، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں نہ صرف عبادات کا حکم دیا ، بلکہ ہمیں معاملات ، جہاد، حدود اور بہت کچھ کا بھی حکم دیا جن کے دلائل موجود ہیں۔ معاشرے میں چوری کرنے والے کی سزا کے لیے ، سورہالمائدۃ ، آیت 38 میں ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ " جہاں تک مرد اور عورت چوروں کا تعلق ہے ، ان دونوں کاہاتھ کاٹ دو، یہ ان کے اعمال کی سزا ہے، اور اللہ غالب حکمت والا ہے"۔ تمام معاشرتی لین دین میں سود کی ممانعت کے لیے ، سورۃ البقرہ کی آیت 275 ہے: وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا "… اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام کر دیا ہے…"۔ اور ایسے بہت سے احکامات ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ  نے ہمیں معاشرے میں نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔ جو ان صریح احکامات کو نہ مانے اس نے دراصل اپنے رب کی طرف سے عائد ہونے والے واضح فرض کا انکارکیا اور یہی کفر ہے۔

 

ایک بار پھر اللہ تعالیٰ نے سورۃالمائدہ ، آیت 48 میں مومنین کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے معاملات کو وحی کے مطابق ترتیب دیں: فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ " پس آپ ﷺ ان کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے نازل کیا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئے گا، اس حق کے مقابلے میں جوآپ کے پاس آیا ہے"۔یہاں "ان کی خواہشات" سے مراد کافروں کی خواہشات ہیں۔ وہ اسلام کے مطابق حکومت نہیں کرتے اور اللہ کے قوانین کی بجائے ان کے بنائے ہوئے قوانین کو قبول کرنا سنگین گناہ ہے۔

 

پس خلافت کا ہونا ضروری ہے ، کیونکہ یہی وہ ریاست ہے جو اللہ کے قوانین کے نفاذ کو یقینی بنائے گی ، مسلمانوں کو ایک خلیفہ کے تحت متحد کرے گی اور اپنے رب کی طرف سےہم پر عائد فرائض کو پورا کرے گی۔ ایسی ریاست کی قیادت ایک مقرر کردہ حکمران کرے گا جس کی اطاعت کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ اس کی دلیل سورۃ نساء ، آیت 59 ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ

" اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ کی اطاعت کرو اور رسولﷺ کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے صاحبِ اقتدار ہیں۔ اور اگر تم کسی چیز میں تنازعہ کرو تو اسے اللہ اور رسولﷺ کی طرف لوٹا دو "۔

 

حکمران کی تقرری کے ذریعے ہی تنازعات کو حل کیا جا سکتا ہے اور ریاست کے معاملات کو سنبھالا جا سکتا ہے۔ امام ماوردی نے الاحکام سلطانیہ (حکمرانی کے احکامات) میں لکھا: الإمامةُ موضوعةٌ لخِلافة النبوَّة في حراسة الدِّين وسياسة الدنيا ، وعَقْدُها لِمَن يقوم بہا في الأمَّة واجبٌ بالإجماع " امامت (قیادت) دین کی سرپرستی اور دنیا کی سیاست میں نبوت کی (جانشینی) کا معاملہ ہے ۔ جو امت میں اس ذمہ داری کو انجام دے سکتا ہےاس کے ساتھ خلافت کا عقد کرنا ، اجماع کی بنیاد پر واجب ہے"۔

 

یہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام تنازعات میں اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی طرف رجوع کرتے ہوئے حکمرانوں کو اللہ کے احکامات کے مطابق حکمرانی کرنے پر پابند رکھیں۔ جیسا کہ امام غزالی نے اپنی کتاب احیا علوم الدین  میں بیان کیا ہے کہ: فساد الرعایا بفساد الملوک ، وفساد الملوک بفساد العلماء ، وفساد العلماء باستیلاء حب المال والجاه، ومن استولى علی حب الدنيا ، لم الدرض على الأسلام فكيف على الملوك والأكابر"رعایا کا بگڑ جانا حکمرانوں کے بگاڑکےنتیجے میں ہوتاہے ، اورحکمرانوں کا بگڑ جاناعلماء کے بگڑ جانے کی وجہ سے ہوتا ہے اور علماء کا بگڑناپیسے اور وقار کی محبت غالب آنے سے ہوتا ہے۔ اور جو دنیا کی محبت سے مغلوب ہو ، وہ ادنیٰ کا محاسبہ نہیں کر سکتا ، تو وہ حکمرانوں اور سرداروں کامحاسبہ کیسے کرے گا؟"۔ امام غزالی نے کہا:، فهذه كانت سيرة العلماء وعادتهم في الأمر بالمعروف والني عن المنكر ، وقلة مبالاتهم بسطوة السلاطين لكونم اتكلوا على فضل الله تعالى ين يحرسهم ، ورضوا بحكم الله تعالى أن يرزقهم الشهادة، فلما أخلصوا لله النية أثَّر كلامهم في القلوب القاسية فليَّنها وأزال قساوتها "یہ علماء کی سیرت اور روایت  رہی ہے کہ وہ بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے تھے ، اور حکمرانوں کی طاقت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے؛ کیونکہ انہوں نے اللہ کے فضل پر انحصار کیا کہ وہ ان کی حفاظت کرے گا ، اور اللہ کے حکم پر راضی تھے کہ وہ انہیں شہادت دےدے۔ تو جب انہوں نے اللہ کی خاطر اپنی نیتوں کو خالص کیا توان کی باتوں نے سخت دلوں کو بھی کو متاثر کیا ، چنانچہ اللہ نے ان سخت دل(حکمرانوں) کو نرم کیا اور ان کی سختی کو دور کیا"۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ سے دلائل

ہر ریاست کو ایک حاکم کی ضرورت ہوتی ہے اور خلافت کا حکمران خلیفہ ہوتا ہے۔ یہ وہ لقب ہے جسے رسول اللہﷺ نے ان لوگوں کے لیے منتخب کیا جو ان کے بعد حکمرانی میں آئیں گے ،اگرچہ خلیفہ کو دوسرے القابات جیسے امام یا سلطان یا امیر سے بھی جانا جاسکتا ہے۔ یہ یہی قائد ، یہی امام اور یہی خلیفہ ہوگا جو دین کے صحیح نفاذ کو یقینی بنائے گا۔ متعدد احادیث میں ، نبی ﷺ نے خلفاء کے بارے میں بات کی جو ان کے بعد مومنین کی قیادت کریں گے۔ ان  میں سے ایک ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء كلما هلك نبي خلفه نبي وإنه لا نبي بعدي وستكون خلفاء فتكثر. قالوا فما تأمرنا قال فوا ببيعة الأول فالأول وأعطوهم حقهم فإن الله سائلهم عما استرعاهم "بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کرتے تھے۔جب کوئی نبی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتا،جبکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے، بلکہ بڑی کثرت سے خلفاء ہوں گے۔صحابہؓ نے پوچھا:  آپ ﷺ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟  آپ ﷺ نے فرمایا:  ’تم ایک کے بعد ایک کی بیعت کو پوراکرنا اور انہیں ان کا حق اداکرنا۔ پس اللہ تعالیٰ ان سے ان کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا،جو اللہ نے انہیں دی"(مسلم)۔

 

پس جس شخص کو مسلمانوں کے معاملات سپرد کیے جاتے ہیں اس کی بیعت اور اطاعت لازم ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر فرد کو خلیفہ کو بیعت دینا لازم ہے بلکہ یہ مومنین پر فرضِ کفایہ ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بیعت کا معاہدہ قائم ہو جائے۔ جہاں خلیفہ کی اطاعت ہر مسلمان پر واجب ہے ، وہاں خلیفہ کا انعقاد ان میں سے ایک گروہ کی طرف سے فرض کفایہ کے طور پر ادا ہوتا ہے۔ امام نووی نے صحیح مسلم کی اپنی شرح میں کہا ہے : وأجمعوا على انعقاد الخلافة بالاستخلاف وعلى انعقادها بعقد أهل الحل والعقد لإنسان إذا لم يستخلف الخليفة وأجمعوا على جواز جعل الخليفة الأمر شورى بين جماعة كما فعل عمر بالستة وأجمعوا على أنه يجب على المسلمين نصب خليفة وَوُجُوبُهُ بِالشَّرْعِ لَا بِالْعَقْلِ "وہ (علماء) خلافت کے معاہدے پر جانشینی سے متفق ہیں اوراس پر کہ اگر خلیفہ کو مقرر نہیں کیا جاتا تو  اہلِ حل و عقد اس شخص کا انعقاد کریں۔ اور انہوں نے خلیفہ کو شوریٰ (مشاورت) کے ذریعے منتخب کرنے پر بھی اتفاق کیا ، جیسا کہ عمر ؓ نے چھ افراد کو (مشاورت کے لیے) مقرر کیا اور وہ اس بات پر متفق تھے کہ خلیفہ مقرر کرنا مسلمانوں پر واجب ہے اور یہ ذمہ داری شریعت سے ہے نہ کہ انسانی عقل سے"۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ماضی میں بیعت کا عقد  اہلِ حل و عقد قائم کرتے تھے۔

 

اجماعِ صحابہ

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم امت کی قیادت کرنے اور دین کو نافذ کرنے کے لیے کسی حاکم کا تقررکرنے کی فرضیت کو مکمل طور پر سمجھتے تھے،یہاں تک کہ اس کی وجہ سے انہوں نے رسول اللہﷺ کی تدفین میں تاخیر کی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ میت کی تدفین ایک فرض ہے اور اسی طرح بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تدفین میں تاخیر کرنا اور اس کی جگہ کسی حکمران کی تقرری میں مشغول ہو جانا اور باقیوں کا اس پر خاموش رہنا، کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اسے رسول اللہﷺ کی طرف سے ایک بڑا فرض سمجھا۔

 

ابنِ خلدون نے المقدمہ میں کہا: نصب الإمام واجب قد عرف وجوبه في الشرع بإجماع الصحابة والتابعين ؛ لأن أصحاب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم عند وفاته بادروا إلى بيعة أبي بكر رضي الله عنه وتسليم النظر إليه في ورمورهم ، وكذا في كل عصر من بعد ذلك ولم يترك الناس فوضى في عصر من الأعصار ، واستقم صلعم. "امام کی تقرری واجب ہے ، جس پر صحابہ کرام ؓاور تابعین کا مکمل اتفاق ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین آپ  ﷺ کی رحلت کے وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بیعت دینے کے لیے لپکے اور خلافت کی ذمہ داری ان کے حوالے کی تاکہ وہ خلافت کے معاملات سنبھالیں۔ آنے والی کئی صدیوں میں بھی یہی معاملہ تھا ، کیونکہ لوگوں (مسلمانوں) نے اس معاملے کو نظر انداز نہیں کیا ، جس سے وہ انتشار سے بچے رہے۔ لہذا ، اس سے خلیفہ کی تقرری کے معاملے میں اجماع واضح ہو جاتا ہے"۔

 

نتیجہ: آئیے خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کے ساتھ مل کر کام کریں

اس تمام تر بیان سے ہمارے لیے اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ خلیفہ کا تقرر اور خلافت کا قیام فرض ہے۔ وحی کے ذریعے حکومت کرنے اور خلیفہ مقرر کرنے کا حکم تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ اس لیے یہ ایک اجتماعی فرض ہے۔ اور جب تک یہ فرض پورا نہیں ہو جاتا، تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اس کی تکمیل کے لیے کام کریں۔

 

جہاں تک اس کام کو ادا کرنے کے طریقہ کار کا تعلق ہے ، یہ ایک ایسے گروہ کے قیام کے ذریعے ہے جو امت کے اندر نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے تاکہ اسلامی حکومت کے قیام کو یقینی بنایا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورہ آل ​​عمران آیت 104 میں فرمایا: وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ " اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چا ہیے جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے، یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں "۔ ابنِ کثیر کی تفسیر سے: والمقصود من هذه الآية تن تكون فرقة من الأمة متصدية لهذا الشأن "اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ اس امت میں ایک گروہ ہونا چاہیے جو اس کام کو پورا کرے"۔ تو آئیے ہم  اللہ کی خاطر، حزب التحریر کے ساتھ مل کر خلافت کے قیام اور اپنے دین کے مکمل نفاذ کے لیے کام کریں۔

 

Last modified onپیر, 25 اکتوبر 2021 12:32

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک