بسم الله الرحمن الرحيم
ازدواجی ہم آہنگی
یوسف احمد بدرانی کی کتاب "العائلۃ قلعۃ" (خاندان ایک قلعہ ہے) سے ماخوذ
ابنِ عمرؓ سے روایت فرمان نبوی ﷺ ہے:
ألا كلّكم راعٍ وكلّكم مسؤول عن رعيّته فالأمير الذي على الناس راعٍ وهو مسؤول عن رعيّته والرجل راعٍ على أهل بيته وهو مسؤول عنهم والمرأة راعية على بيت بعلها وولده وهي مسؤولة عنهم والعبد راعٍ على مال سيّده وهو مسؤول عنه ألا فكلّكم راعٍ وكلّكم مسؤول عن رعيّته،
"جان لو !تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے، پس لوگوں پر جوسردار ہے وہ اپنی رعیت کا نگران ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔ مرد اپنے اہل خانہ کا نگران ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے اور ان کی نسبت اس سے سوال کیا جائے گا، غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے، اور وہ اس بارے میں جواب دہ ہے، پس تم میں سے ہر ایک نگہبان بھی ہے اور ہر ایک اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ بھی ہے"(متفق علیہ)۔
اس حدیث میں مرد و عورت سمیت ہر فرد پر اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے اور زندگی میں اس کے لیے مناسب ترین لائحہ عمل اختیار کرنے کی براہ راست ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ چنانچہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنے ہر قول و عمل کیلئے جواب دہ ہو گا کہ اس نے اپنے اعمال کس طرح انجام دیے، کیونکہ لفظ ’’راع‘‘ کا معنیٰ ہے چرواہا، اور یہاں اس سے سرپرست اور نگہبان مراد ہے۔ جس طرح چرواہے پر اس کے ریوڑ کے امور مثلا جانوروں کو پانی پلانا، چرانا اور ان کی دیکھ بھال کرنا لازمی ہوتے ہیں اسی طرح سرپرست پر بھی اپنے متعلقہ لوگوں کی ذمہ داریاں لازم ہوتی ہیں کہ انھیں جتنا خوبی سے ممکن ہو سکے نبھائے۔ تو اس اعتبار سے مرد اپنے گھر، اعمال اور اپنے معاشرے سے متعلق ذمہ داریوں پر ذمہ دار ہے، اور عورت اپنے اور شوہر کے گھر کی ذمہ دار ہے۔ بہرحال انسان جہاں بھی ہو اس پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ سر پرستی (الرعایۃ) کا اصول یہ ہے کہ اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو اچھے طریقے سے نبھایا جائے ۔ بالکل یہی اصول ایک نیک گھرانے کا بھی ہے جس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے شوہر اور بیوی پر ایک دوسرے سے متعلق بہت سی ذمہ داریاں ڈالی ہیں۔لہٰذاایک نیک گھرانے کے اصول میں اچھا طرزِ عمل اور تعلق ہی دراصل اللہ سبحانہ وتعالی کے حکم کے مطابق ہے، یعنی ایک دوسرے کا خیال رکھنا اور ساتھ دینا۔یہ انسانیت کے تمام روابط میں سے مضبوط ترین، قریب ترین اور اہم ترین رابطہ ہے۔ کوئی بھی تعلق زوجین کے تعلق سے زیادہ قریب نہیں ۔
چنانچہ اس احتساب پر مبنی نگہبانی کے اصول کی حیثیت سے میاں اور بیوی دونوں پر لازم ہے کہ ہر ایک اپنی ذمہ داری بخوبی سر انجام دے اور اس کا پورا حق ادا کرے جو اس کے رب نے اس پر عائد کیا ہے، یعنی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری کے سبب مرد کو بیوی کے ساتھ اچھا تعلق اور ساتھ نبھانا چاہیے اور عورت کو اس کی فرمانبرداری کر کے بہترین بدلہ دینا چاہیے تاکہ ان میں محبت اور دوستی ہمیشہ قائم رہے۔ لہذا جب حدیث پاک میں ہر انسان کو اپنے فرائض اور ذمہ داریاں اچھے طریقے سے ادا کرنے کا پابند کیا گیا ہے تو میاں بیوی کے مابین اچھا برتاؤ اور مکمل دوستی ضروری ہو جاتی ہے۔
اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ نے انسان کو اس معاملے میں خاص طور پر حکم دیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا﴾.
" اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو، پھر اگر تم انھیں ناپسند کرو تو ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور الله اس میں بہت بھلائی رکھ دے"(النساء:19)۔
پس زندگی میں میاں بیوی کا باہم حسنِ سلوک لازم ہے، اگر چہ بغاوت اور غیر اخلاقی برتاؤ کا ارتکاب کیے بغیر غربت،بڑی عمر، بدصورتی، بیماری، ناپسندیدہ عادات کے سبب وہ بیوی کو نا پسند ہی کیوں نہ کرتا ہو، تب بھی زندگی میں باہم حسن سلوک اور اچھائی ناگزیر ہے، کیوں کہ نا پسندیدگی باہمی تعلقات کی خرابی کا سبب نہیں ہے۔اچھے گھریلو تعلقات کو ختم کرنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ اگر بیوی نافرمانی کرے، غیر اخلاقی برتاؤ کا ارتکاب کرے، زبان درازی کرے، قول و عمل میں گستاخی کرے، بے حیائی پر اتر آئے، تب مرد کے لیے جائز ہے کہ اس سے بستر علیحدہ کر لے یا شرعی حکم کے موافق اس کی ہلکی سرزنش کرے۔ اس کے بعد بھی بیوی ان افعال سے باز نہ آئے تب طلاق دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کے علاوہ کسی صورت میں اس کے ساتھ برا سلوک کرنا درست نہیں، خصوصاً جب اس کے ساتھ اچھے گھریلو تعلقات رکھنا ایک اجر والا عمل ہے۔ایسا ممکن ہے کہ ایک انسان اپنی بیوی میں جو ناپسند کرتا ہو ، اس میں اس کیلئے خیر ہو جو صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ یقیناً ایسا ہوسکتا ہے کہ انسان کسی چیز کو ناپسند کرتا ہے اور اسی چیز میں اس کی بھلائی کا راز چھپا ہوتا ہے جسے صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک صحیح حدیث میں ارشاد فرمایا: لا يفرَك مؤمنٌ مؤمنةً إن سخِطَ منْها خُلقًا رضِيَ منْها آخرَ"کوئی مومن مرد اپنی مومنہ بیوی سے نہیں اُکتاتا، اگر اسے اس کی کوئی ایک عادت ناگوار گزرتی ہے تو وہ اس کی کسی دوسری عادت سے خوش ہو جاتا ہے"(تفسیر ابنِ کثیر)۔ یعنی مرد کو چاہیے کہ وہ اسے ناپسند نہ کرے اور اس بنا پر اسے چھوڑ نہ دے، یہ درست نہیں۔ بلکہ مرد کو اس کی برائیوں کو نظر انداز کر کے اس کی خوبیوں کو سراہنا چاہیے۔اسے اس میں جو پسند ہے، اس کی وجہ سے ناپسند یدگی کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ نے اچھے اخلاق اور احسان و نیکی کے ساتھ سماجی زندگی گزارنے پر ابھارا ہے اور صدقہ کرنے کے برابر اس کا ثواب بتلایا ہے۔چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:كلُّ معروفِ صدقةٌ وإنَّ من المعروفِ أن تلقَى أخاكَ بوجهٍ طلقٍ"ہر نیکی صدقہ ہے اور اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا بھی صدقہ ہے"(ترمذی، کتاب27، حدیث76)۔ اس حدیث سے لفظ ’’معروف‘‘ کا مطلب بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ مکمل اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض کو پورا کرنا معروف کہلاتا ہے۔ مثلاً اگر والد اپنے بیٹے سے پانی طلب کرے اور بیٹا پانی لا کر خاموشی سے اس کے سامنے میز پر رکھ دے تو اگر چہ باپ کو پانی کے بارے میں علم نہیں ہوا کہ پانی آ چکا ہے مگر بیٹے کا یہ عمل والد کی اطاعت ہی کہلائے گا، اس سے نافرمانی اور گناہ نہیں ہوتا۔ لیکن اگر بیٹا پانی لائے اور اچھے سے انداز میں اپنے ہاتھوں سے والد کو پینے کے لیے پیش کرے اور انتظار کرے، اور پھر جب باپ اس سے پانی کا گلاس وصول کر لے یا اسے خود میز پر رکھنے کا کہہ دے تو بیٹے کا یہ عمل معروف (بہترین نیکی) ہے۔ چنانچہ معروف یعنی احسن انداز سے عمل کرنا فرض سے اعلیٰ درجے میں ہے، لیکن معروف خود فرض یا واجب نہیں بلکہ یہ مستحب ہے، جو اس پر عمل کرے گا،اسے اجر ملے گا اور اس پر عمل پیرا نہ ہونے والے پر کوئی گناہ نہیں۔
مستحب ادا کرنے والے کا درجہ فرض ادا کرنے سے اعلیٰ ہے کیونکہ جو کوئی بھی اس دنیا میں مندوبات ادا کرنے کا خواہشمند ہو گا، وہ فرائض کی ادائیگی میں بھی آگے آگے ہی ہو گا۔ لہٰذا کوئی بھی شخص جو دنیا میں فرائض کی طرح مستحبات پر بھی عمل کرتا ہے، اس کے عمل کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتا ہےکہ جنت میں بہت سارے درجات ہیں اور صرف فرائض پر عمل کرنے والے لوگ جنت کے ان اعلیٰ درجات کو نہیں حاصل کر سکیں گے۔ ان اعلیٰ درجات پر وہی لوگ فائز ہوں گے جنہوں نے فرائض و واجبات کی طرح مستحبات پر بھی پابندی سے عمل کیا ہوگا۔ پس مستحبات کو بجا لانے سے روح و جان کو ترقی ملتی ہے، اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے، اسی لیے حشر میں اللہ تعالیٰ مستحبات پر چلنے والوں کو باقی لوگوں سے ممتاز کریں گے اور وہی لوگ احسان و بھلائی کرنے والے ہوں گے۔ اسی کے متعلق نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:وأوَّلُ مَن يدخُلُ الجنَّةَ أهلُ المعروفِ" سب سے پہلے جو جنت میں داخل ہوں گے وہ معروف کرنے والوں میں سے ہوں گے "(طبرانی، المعجم الاوسط)۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مردوں کو یہ حکم دیا کہ ﴿وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾"انھیں اچھے طریقے سے بساؤ"(النساء:19)۔مردوں کو اس بات کی تعلیم ہے کہ وہ بیوی کی دیکھ بھال کے معاملات اچھے طریقے، اچھے اخلاق اور بہتر انداز میں نبھاتے ہوئے ان کے متعلق اپنا حق استعمال کریں ۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا ایک بہانہ ہے تاکہ وہ اپنے بندوں کو جنت کے اعلیٰ درجات پر فائز کرے اور یہی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ازدواجی زندگی کی دیکھ بھال میں بہتری کی رغبت ہے۔ چنانچہ جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ اچھی طرح سے تعلق نبھاتا ہے اور اس کے تمام معاملات کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتا ہے اس کا اجر اس شخص سے کہیں بڑھ کر ہے جو اپنی بیوی کے حقوق کو صرف فرائض کی حد تک پورا کرتا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مردوں کو یہ حکم دیا کہ ﴿وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾"انھیں(اپنی بیویوں کو) اچھے طریقے سے بساؤ"(النساء:19)۔اسی کی مناسبت سے ایک جگہ یہ بھی فرمایا:
﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾
"عورتوں کیلئے بھی وہی حقوق ہیں جو اچھائی میں (مردوں کےحقوق) ان پر ہیں "(البقرۃ:228)۔
نکاح ایک اہم ذمہ داری ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں ،مردوں اور عورتوں کو سونپی ہے اور ہر انسان پر یہ لازم ہے کہ وہ جس طرح ہر پیش آنے والے معاملے پر اپنی کامیابی کے لیے توقف اور سوچ بچار کرتا ہے ،اسی طرح نکاح کے معاملے پر بھی اسے چاہیے کہ وہ اپنے اوپر آنے والی ذمہ داریوں کے بارے میں کامیابی کا فکرمند ہو۔ تاہم مسلمان ہر حکم کی ادائیگی کے طریقہ کار کیلئے اس معاملے میں اللہ کے بتائے طریقہ کار کی طرف رجوع کرتا ہے ۔لہٰذا ایک مسلمان اپنے معاملے کیلئے کوئی نیا طریقہ ایجاد نہیں کرتا بلکہ وہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول ﷺ میں سے یہ طریقہ کار ڈھونڈتا ہے اور پھر اسی پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ اور کسی مسلمان کے لیے یہ کام یعنی پیش آنے والے معاملات میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم معلوم کرنا ایمان کا تقاضا ہے جیسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی فرضیت ایمان کا تقاضا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ ءَامَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ﴾
"تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے علم حاصل کیا اللہ ان کے درجے بلند کرتا ہے"(المجادلۃ:11)۔
کیونکہ ایمان حکم شرعی پر عمل کا تقاضا کرتا ہے اور عمل حکم شرعی کے معلوم ہونےکا تقاضا کرتا ہے۔ پس شرعی احکامات کا فقط جان لینا اور ان پر عمل نہ کرنا ایمان کے لیے معتبر نہیں۔ لہٰذا میاں بیوی کا اچھے اخلاق و کردار کے ساتھ باہمی زندگی گزارنا اللہ کی طرف سے وہ حق ہے جو اللہ نے بیوی کا شوہر پر رکھا ہے۔ یہ حق اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے بیوی کو شوہر کے حوالے سے بھی بار بار یاد دلایا گیا ہے۔
جیسے اچھی گھریلو زندگی دونوں میں سے ہر ایک کا دوسرے پر حق ہے اور اس کا ادا کرنا واجب ہے ،تو شوہر کے لیے ناگزیر ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ باہمی تعاون کی سطح کو معروف (یعنی اچھے برتاؤ اور باہم حسن سلوک) کی حد تک بڑھانے میں پہل کرے، اور بیوی جس سطح کا معاملہ یا برتاؤ کرتی ہے اس کی پرواہ نہ کرے۔ یہ مرد پر پہلے فرض ہے اوربیوی کے اچھا برتاؤ نہ کرنے کی صورت میں اس پر سے یہ فرض ساقط نہیں ہوتا کیونکہ یہ بیوی کا حق اور مرد پر فرض ہے۔ مرد کا اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے رہنا اسے گناہوں سے بری کرنے کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح بیوی کی طرف سے اچھا سلوک اور برتاؤ نہ ملنے پر صبر کرنا مرد کے لیے اجر عظیم کا باعث ہے۔ یہی اصول خاتونِ خانہ کے لیے بھی ہے کہ شوہر کے ساتھ باہمی تعاون اور حسن سلوک سے پیش آنے میں ہمیشہ پہل کرنے کی کوشش کرے تاکہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کر سکے، اور اگر شوہر کی طرف سے اس کو اپنے حقوق نہ ملیں تو یہ اسے اس کی ذمہ داریاں پوری کرنے سے نہ روکے۔اگر اس پر وہ صبر کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے تو اس کے لیے بھی اجر عظیم کا وعدہ ہے جیسے اللہ سبحانہ وتعالی نے مرد سے وعدہ کیا ہے۔
اسلام نے معاشرت کے جو طریقے اور اصول بنائے ہیں وہ میاں بیوی کو تاکید کرتے ہیں کہ وہ آپس میں اچھے برتاؤ اور نیکی میں سبقت کرنے کا طریقہ اپنائیں ۔ یہ احکامات ازدواجی زندگی کو اچھائی کے کاموں میں ایک مستقل اور اہم ترین مقابلے کی طرح بنا دیتے ہیں جس میں ہر وقت اپنی ذمہ داری پر نظر رہتی ہے، اور اس معاملے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں بھی لگے رہتے ہیں، تاکہ روز ِقیامت انہیں اپنی نیکیوں کی کثرت پر فخر ہو۔ اس طرح اسلام میں ازدواجی زندگی گزارنے کا طریقہ کسی بھی قوم، قبیلے یا مذہب سے بالکل ممتاز ہو جاتا ہے اور اس طرح اسلام کی یہ شرط بھی پوری ہو جاتی ہے کہ ازدواجی زندگی مؤمن کی زندگی کا ہی ایک حصہ ہونا چاہیے جسے وہ اعلیٰ درجے اور خوشی کے ساتھ ایسے گزارے جس کی بناء پر وہ دیگر انسانوں سے ممتاز ہو جائے۔
مؤمن کا طرز عمل اور کردار ایک مستحکم طریقہ ہے جس میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور تردد نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ اس کے تمام اعمال شریعت کے مطابق ہوتے ہیں جن میں ذاتی آرا، رجحانات وغیرہ کا لحاظ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کسی بیرونی اثر و رسوخ سے متاثر ہوتا ہے جو اسے حکم شرعی پر عمل سے روک سکے۔پس مؤمن زمانے کی روش پر نہیں چلتا بلکہ زمانے کو شریعت کے فیصلوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے کوشاں رہتا ہے، کیونکہ ایمان مکمل زندگی گزارنے کے ایک طریقے کا نام ہے، یہ دنیا میں کسی خاص فکر یا مقصدیا ہدف کے ساتھ اتفاقیہ تعلق کا نام نہیں۔
چنانچہ ایک مخلص مؤمن جب تک زندہ رہتا ہے، زندگی کے تمام معاملات، مسائل اور حالات کا سامنا ایمان کی پختگی اور احکامِ شرعیہ کی روشنی میں کرتا ہے ۔ حذیفہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لاَ تَكُونُوا إِمَّعَةً تَقُولُونَ إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَحْسَنَّا وَإِنْ ظَلَمُوا ظَلَمْنَا وَلَكِنْ وَطِّنُوا أَنْفُسَكُمْ إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوا وَإِنْ أَسَاءُوا فَلاَ تَظْلِمُوا
"تم ایسے نیچ لوگ مت بنو جو کہیں: اگر ہمارے ساتھ کوئی اچھائی کرے گا تو تب اس کے ساتھ اچھائی کریں گے، اور جو برائی کرے تو ہم بھی اس کے ساتھ برائی کریں گے، بلکہ تم اپنے نفس میں ٹھہراؤ پیدا کرو، جو تمہارے ساتھ اچھائی کرے اس کے ساتھ اچھائی کرو اور جو تمہارے ساتھ برائی کرے تم اس کے ساتھ برائی کرنے سے خود کو بچاؤ"(بخاری)۔
مؤمن مرد و عورت کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ناپسندیدہ اور طبیعت کے ناموافق امور پر صبر کرنے سے اجر ملتا ہے اور گناہ دُھلتے ہیں۔ اس بارے میں بے شمار احادیث وارد ہوئی ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْمُؤْمِنِ أَوِ الْمُؤْمِنَةِ فِي نَفْسِهِ وَمَالِهِ وَوَلَدِهِ حَتَّى يَلْقَى اللَّهَ تَعَالَى وَمَا عَلَيْهِ مِنْ خَطِيئَةٍ
"مؤمن مرد اور عورت اپنے نفس، اولاد اور مال پر آنے والی مصیبتوں پر صبر کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ایسی حالت میں ملاقات کرتے ہیں کہ ان پر کوئی گناہ نہیں ہوتا"(ترمذی)۔
لہذا اگر شوہر اپنی بیوی کی طرف سے ناپسندیدہ امور پر صبر کرتا ہے اور اسی طرح بیوی اپنے شوہر کی جانب سے نا پسندیدہ امور کے پیش آنے پر صبر کرتی ہے تو یہ ان دونوں کے گناہ مٹنے کا باعث ہو جائے گا ان شاء اللہ۔ امت کے علماء، صالحین اور نیک لوگوں نے اس حقیقت کا ادراک کیا اور اسی طریقے سے زندگی گزاری۔
چنانچہ ابوبکر محمد بن عبداللہ ابن العربی فرماتے ہیں کہ ابو القاسم بن حبیب (بالمحدیہ) نے ان سے کہا کہ انھوں نے عبد القاسم السوری سے، انھوں نے ابو بکر بن عبداللہ سے سنا:شیخ ابو محمد بن ابی زید علم و آگاہی میں بہت اونچے مرتبے پر فائز تھے مگر ان کی بیوی بڑی بری صحبت والی تھی اور ان کے حقوق ادا کرنے میں بہت کوتاہی برتتی تھی، اور زبان درازی کرتی تھی۔ لوگ انہیں اس عورت کی وجہ سے طرح طرح کی باتیں کہتے اور اس کے افعال پر صبر کرنے پر انہیں ملامت کرتے تھے، تو وہ جواب میں فرماتے تھے :' اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت، نعمت اور مال و دولت جیسی نعمتوں سے نوازا ہے تو شاید اس عورت کے ذریعے مجھے میرے گناہوں کے کفارے کی مہلت دی ہوئی ہے، پس میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے اس عورت سے جدائی کر لی تو اس سے زیادہ بڑے اور سخت عذاب میں گرفتار نہ ہو جاؤں'۔
ازدواجی ہم آہنگی کی بنیاد مرد اور عورت میں سے ہر ایک کا زندگی میں رضامندی کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا ہے، ان خصوصیات اور صلاحیتوں کے لحاظ سے جو اللہ تعالیٰ نے ان میں ودیعت کی ہیں۔ پس جو بھی نفس کی سرکشی پر قائم رہا، یا اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے اُکتانے لگا تو وہی خوشگوار زندگی اور کامل مفاہمت کے دھارے سے انحراف کا جواز پیش کرنے کا سبب ہو گا، کیونکہ ازدواجی زندگی کی کامیابی کی ذمہ داری اکیلے مرد یا عورت پر نہیں ہے بلکہ دونوں کے اپنے اپنے کردار ادا کرنے پر ہے۔ شادی میں معاشرت کا مطلب ہے زوجین کے جسموں کا ملنا، ان کے احساسات کا ملنا، ان کے افکار کا ملنا ، یہاں تک کہ ان کی روحوں کا ایک دوسرے سے تعلق جوڑ لینا ، اسی چیز کو مرد کے فرائض و حقوق اور بیوی کے فرائض و حقوق میں ایک ضابطے اور وضاحت سے منظم کیا جا سکتا ہے۔ اس موضوع پر قرآنی آیات اور احادیثِ نبوی ﷺ کو دیکھنے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نکاح سے وجود میں آنے والے خاندانی نظامِ زندگی کے متعلق ہر چھوٹا بڑا مسئلہ تفصیل سے بیان کیا ہے ،بالکل اسی طرح جیسے اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کیا، کہ اس میں ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیز کو اس کی تخلیق میں کامل کر دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آدمی پر اپنی بیوی کے زندگی کے امور کے انتظام کی ذمہ داری عائد کر دی ہے جس میں اس کا نفقہ، صحبت، کھانا پینا، لباس، رہائش، تحفظ اور علاج وغیرہ کو اچھے اور باہمی تعاون کے ساتھ ادا کرنا لازم ہے۔یہ سب اچھے تعلقات کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالی نے بیوی پر یہ لازم کیا کہ اپنے شوہر کی فرمانبرداری کرے اور اور اپنے اوپر عائد ہونے والی تمام ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے ادا کرے۔ چنانچہ یہ اس پر لازم ہے کہ شوہر کے کھانے پینے کا انتظام کرے، گھر کو صاف ستھرا رکھے، بچوں کی صفائی و ستھرائی پر توجہ دے، شوہر کے مال کی حفاظت کرے، اس کی عدم موجودگی میں اس کے گھر اور آبرو کی حفاظت کرے، اس کے رازوں پر سے پردہ نہ ہٹنے دے، گھر میں کسی کو اس کی اجازت کے بغیر داخل نہ ہونے دے، اور نہ ہی بلا اجازت خاوند کے گھر سے خود باہر نکلے، بنیادی اشیاء میں بھی بہت زیادہ مطالبات نہ کرے، بلا اجازت شوہر کا مال بلکہ کھانا تک کسی کو نہ دے، اخراجات بھی اسی کی اجازت سے کرے، نہ بلا اجازت نفلی روزے رکھے، کسی بھی معاملے میں اس کی نافرمانی نہ کرے، جب وہ موجود نہ ہو تب بھی اس کے احکامات کی پابندی کرے، نہ اس کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کرے، اس کے ساتھ بدتمیزی اور بدمزاجی سے پیش نہ آئے۔ اسی طرح بدکلامی اور بدتمیزی بھی نہ کرے، جب بھی وہ اسے بلائے فوراً حاضر ہو جائے، اور اس کی رضا و راحت کے لیے ہر ممکن کوشاں رہے۔ اور مرد کو چاہیے کہ بیوی کو سرکشی اور من مانی وغیرہ سے روکے، جب کہ عورت کی ذمہ داری ہے کہ جو کچھ بھی ہو اسی پر قناعت کرے۔یہ تمام معاملات احکامِ شریعہ ہیں جن پر عمل کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر عظیم کا باعث ہے۔ اسلام نے خوشگورا زندگی گزارنے کی حوصلہ افزائی کی ہے تاکہ میاں بیوی اچھی زندگی سے لطف اندوز ہوں کیونکہ شادی کا مقصد زندگی میں نیکی وبھلائی اور مکمل خوشی حاصل کرنا ہے۔
اللہ عزوجل نے ازدواجی زندگی میں سے ناکامی کو نکال دیا ہے تاکہ کسی شخص کے بارے میں یہ نہ کہا جائے کہ وہ زندگی بھر ازدواجی تعلق میں غمزدہ ہے۔ البتہ اگر معاملہ طلاق تک پہنچ رہا ہو تو اللہ عزوجل نے میاں اور بیوی کو حکم دیا ہے کہ ناکامی کے ازالے کی لیے ٹھوس اقدامات کو اختیار کریں۔ چنانچہ مرد کو حکم دیا کہ بیوی کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئے اور اس کی کج روی کے باوجود اس سے لطف کا معاملہ رکھے، چاہے مصنوعی طور پر ہی کیوں نہ ہو، اور عورت کو حکم دیا کہ اپنے شوہر کی مکمل فرماں برداری کرے۔ اگر شوہر ناراض ہو جائے تو اسے راضی کرنے کی کوشش کرے، اگر وہ راضی ہو گیا تو بیوی کے لیے اجر ہے اور اگر راضی نہ ہوا تو اللہ کے ہاں اس کا عذر قبول ہو گا ان شاء اللہ۔ اگر خاوند مشتعل ہو جائے، یعنی اپنی بیوی کو ناپسند کرنے لگے اور اس کی صحبت سے کنارہ کش رہنے لگے تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ نے بیوی کو ہدایت کی ہے کہ وہ حتی الامکان دست برداری اور علیحدگی سے اجتناب کرے تاکہ وہ ، جیسے بھی ممکن ہو، مرد کی نگہبانی میں بیوی بن کر رہے ۔ اگر عورت بغاوت پر اتر آئے یا فحاشی کا ارتکاب کر بیٹھے تو مرد کو چاہیے کہ اسے وعظ و نصیحت کرے اور اسے اللہ سبحانہ وتعالی کے احکامات اور اس پر شریعت کی جانب سے عائد ذمہ داریوں کی یاد دہانی کروائے تاکہ وہ گناہ، برائیوں اور بدزبانی سے باز آ جائے اور اسی طرح اسے نافرمانی اور بدکلامی پر اللہ کے عذاب سے ڈرائے۔ پس اگر وہ باز نہ آئے تو اسے اکیلا چھوڑ دے اور اس سے نہ ملے اور نہ اسے طلب کرے یہاں تک کہ وہ اپنے برے افعال سے رک جائے اور اگر وہ پھر بھی نہ رکے تو شوہر کو اسے ہلکی مار مارنے کا حق ہے جو اس کے لیے اذیت رسانی کا باعث نہ بنے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کی آیت ﴿وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ﴾"مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے"(البقرۃ:228)، کی تفسیر میں فرماتے ہیں :'مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہونے میں مرد کو اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ وہ حسن سلوک اور عورتوں کے لیے خرچ اور اخلاقیات میں وسعت کا مظاہرہ کریں، یعنی آدمی کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ تمام تر مشکلات و صعوبتیں اپنے نفس پر اٹھا رکھے'۔ یہی فضیلت ہے جو مرد کا زیادہ سے زیادہ ذمہ داریاں نبھانے کا سبب ہے، یہ فضیلت اس لیے نہیں کہ مرد جیسے چاہے ظلم و زیادتی پر اتر آئے۔ عام طور پر دین سے لاعلم طبقے کی خواتین کا خیال یہی ہوتا ہے کہ مرد ظلم و زیادتی اپنی فضیلت کی وجہ سے روا رکھتا ہےلیکن ایسا ہرگز نہیں۔ جو خواتین اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرتی ہیں اور ازدواجی زندگی میں عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو رضامندی و خوش اسلوبی سے ادا کرتی ہیں ان کا اجر اللہ سبحانہ وتعالی نے شہداء کے اجر کے برابر رکھا ہے۔
چنانچہ حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لائیں جب کہ آپ ﷺ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے درمیان تشریف فرما تھے۔ حضرت اسماء ؓنے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں آپ کے پاس عورتوں کی طرف سے قاصد بن کر آئی ہوں ۔ اللہ عزوجل نے آپ کو تمام کے تمام مردوں اور عورتوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے اور ہم آپ پر اور اللہ پر ایمان لائے، لیکن ہم عورتیں تو گھروں کی چوکھٹوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں، اور مردوں کو ہم پر بہت سی فضیلتیں حاصل ہو گئی ہیں، مثلاً وہ جمعہ کی باجماعت نماز میں شریک ہوتے ہیں، مریضوں کی عیادت کرتے ہیں، نماز جنازہ کی ادائیگی اور اکیلے حج وغیرہ کر لیتے ہیں، اور تو اور، اس سے بھی بڑھ کر وہ جہاد فی سبیل اللہ بھی کرتے ہیں۔جب وہ جہاد یا حج وغیرہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں تو ان کے گھروں میں پیچھے ہم ہی ان کے گھر بار کی دیکھ بھال کرتی ہیں، ان کے بچوں کی تربیت کرتی ہیں، ان کے کپڑے سیتی ہیں، تو کیا ہمارے لیے کوئی گنجائش ہے کہ مردوں کے شانہ بشانہ ہم بھی ان نیکیوں میں شامل ہو جائیں؟ تو نبی کریم ﷺ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کی طرف مکمل چہرہ پھیر کر متوجہ ہوئے اور پوچھا:هل سمعتم مسألة قط أحسن من مسألتها في أمر دينها، من هذه؟ "کیا تم نے کبھی (دین کے معاملے میں) ایسا کوئی سوال سنا ہے جو اس عورت کے سوال سے بہتر ہو؟"۔ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا :" اے اللہ کے رسول ﷺ ! ہم نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی عورت بھی کبھی اس طرح کا سوال کر سکتی ہے"۔ تو نبی کریم ﷺ اس عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
انصرِفي أيَّتُها المرأةُ وأعلِمي من وراءكِ من النِّساءِ أن حُسنَ تَبعُّلِ إحداكنَّ لزوجِها وطلبَها مَرضاتَهُ واتِّباعَها موافقتهُ يعدِلُ ذلِكَ كلَّهِ
" اے خاتون جان لو اور اپنے پیچھے رہ جانے والی عورتوں کو بھی بتا دو کہ عورت جو ہر معاملے میں اپنے خاوند کی مرضی پر چلتی ہے تاکہ وہ خوش ہو جائے اور ہر بات میں اسی کی فرمانبرداری کرتی ہے، اس کا یہ عمل مردوں کے ان سب اعمال کے برابر ہے" (مسلم)۔