بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان کے حکمران اسلام اور مسلمانوں کے دشمن، ملکِ شام کا قصائی، بشار الاسد کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لارہے ہیں
خبر:
23 نومبر 2021 کو پاکستان کے صدر، عارف علوی نے اعلان کیا کہ اُن کی حکومت شام میں بشار حکومت کے ساتھ تعاون میں اضافہ کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ صدر علوی نے اعلان کیا کہ پاکستان کی حکومت شام سے تعلقات کو بہت زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ پاکستان کے حکمران برادر ملک کے ساتھ باہمی دلچسپی کےہر معاملے میں دو طرفہ تعاون میں اضافہ اور اسے مضبوط بنانا چاہتےہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور شام دونوں کے تعلقات شاندار ہیں جن کی بنیاد مشترکہ مذہبی تاریخ، اقدار اور ثقافت ہے۔ 31 اکتوبر 2021 کو پاکستان نے اسد حکومت کے ساتھ ایک 'مفاہمت کی یادداشت 'پر دستخط کیے تھے جس کا مقصد آنے والے پانچ سال کے عرصے میں معاشی تعلقات میں اضافہ کرنا ہے۔(شامی ٹی وی)۔ اُسی دن ، بیس سال کے تعطل کے بعد ، پاکستان نےشام کے دارالحکومت دمشق کے لیے پروازوں کو بحال کردیا۔ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی کے سی ای او ائر مارشل ارشد مَلک اور پاکستان میں عراق کے سفیر حامد عباس لفتہ 31 اکتوبر 2021 کو پی کے 291 کی پرواز سے دمشق گئے۔
تبصرہ:
امریکہ کے اشارے پر یا اس کے بغیر ہی، پاکستان کی حکومت شام میں امریکہ کے ایجنٹ کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا کر واشنگٹن میں اپنے آقا کو خوش کرنا چاہتی ہے۔ یہ عمل ترکی اور اردن میں امریکی منصوبہ سازوں کی سفارشات کے عین مطابق ہے جنہیں ملٹری آپریشن سینٹرز (ایم او سی) کہا جاتا ہے۔ یہ ملٹری آپریشن سینٹرزامریکی انتظامیہ نے علاقائی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد سے بنائے تھے ، تاکہ شام میں بشار کی مجرمانہ حکومت کی مدد اور حمایت کی جا سکے، اور شام کے مخلص لوگوں کے ہاتھوں اس مجرم حکومت کے خاتمے کو روکا جا سکے۔ پاکستان کی حکومت کی جانب سے شام کی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا اعلان دیگر اقوام کی جانب سے شام کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے اعلان کے بعد آیا ہے جنہوں نے اس سے قبل جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر بشار کی حکومت کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ تاہم، پہلے ہی، متحدہ عرب امارات کے ولی عہد نے شام کے قصاب سے رابطہ کیا تھا، اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زید نے 9 نومبر کو شام کا دورہ کیا تھا۔
شام میں بشار کے جرائم ناقابل تردید ہیں، اور وہ جرائم ماضی اور حال کے قصابوں کے تمام جرائم سے زیادہ ہیں۔ اُس نے دس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو انتہائی سنگدلی کے ساتھ قتل کیا جو ظلم سے آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شریعت کی بنیاد پر خود پر حکمرانی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ بشار نے شام کے آدھے سے زیادہ باشندوں کو ملک بدر کر دیا، اور یہ جرم آج تک ختم نہیں ہوا۔ اس کے باوجود پاکستان کے حکمران جو ہندوں کے ظلم و جبر سے بچنے کے لیے اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ایک مسلم ریاست پر حکومت کرتے ہیں، اب اِس دور کے ظالموں میں سے ایک ظالم کو برداشت کرنے اور اس کی حمایت کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ درحقیقت اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی میں شام کی علوی نصیری حکومت واشنگٹن میں اپنے صلیبی آقا سے کسی صورت کم نہیں ہے۔
لیکن اس حقیقت کے باوجود شام کی ظالم و جابر حکومت کے ساتھ قربت اور تعلقات کو معمول پر لانے کی وجہ خود عارف علوی کے منہ سے نکلی ہے جنہوں نے کہا کہ شام میں پاکستانی حکومت اور علوی دونوں کے درمیان بہترین تعلقات ہیں، جو مذہب، اقدار اور ثقافت کی مشترکہ تاریخ میں جڑے ہوئے ہیں۔
بصیرت اور شعور رکھنے والے ہر شخص کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ شام میں علویوں کا مذہب، ان کی ثقافت اور ان کی اقدار کسی بھی طرح اسلام اور مسلمانوں سے مشابہت نہیں رکھتی ہیں۔ درحقیقت، علوی تحریک ایک ارتداد (اسلام سے منکر)ہے جواسلام کے عقیدہ کے خلاف جنگ کررہی ہے، جبکہ اس کی ثقافت مغرب کی ثقافت ہے اور اس کی اقدار مجرمانہ مغربی سرمایہ داری کی اقدار ہیں۔
پاکستان کی حکومت کی جانب سے دنیا کے قصائیوں اور ظالموں کے ساتھ تعلقات کومعمول پرلانا قطعی حیرت انگیز نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے تو گجرات کا قصائی، مودی، قابل برداشت ہے ، اور مقبوضہ کشمیر اور خود بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جاری مظالم کے باوجود بھارت کے ساتھ امن اور تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لہٰذا، پاکستان کے حکمران مسلمانوں کو قتل کرنے والوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے، کیونکہ ہندوستان کے قصاب کا نشانہ بالکل وہی ہے جو شام کے قصائی کا ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کے امریکی ایجنٹ حکمران یہودی وجودکے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرلیں تو یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہو گی، کیونکہ یہودی وجود بھی اسلام دشمنی اور مسلمانوں کے قتل عام میں مودی اور بشار کے ساتھ شریک ہے۔ پاکستان کی حکومت کے بارے میں رسول اللہﷺ کی حدیث سچ ہے، جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلاَمِ النُّبُوَّةِ إِذَا لَمْ تَسْتَحِي فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ
" اگلے پیغمبروں کا کلام جو لوگوں کو ملا اس میں یہ بھی ہے کہ جب شرم ہی نہ رہی تو پھر جو جی چاہے وہ کرے۔"(بخاری)
پاکستان کی موجودہ حکومت کی حقیقت شام کی حکومت سے ملتی جلتی ہے۔ دونوں حکومتوں میں اپنے عوام کی نمائندگی کی کوئی جھلک نہیں ہے۔ دونوں حکومتیں مغرب کی ملازم ہیں، اسلامی دنیا میں مغرب کے مفادات کی سہولت کاری اور اس کا نفاذ کرتی ہیں، جس میں اسلام کی حکمرانی میں واپسی کی روک تھام بھی شامل ہے، اور اس مقصد کے حصول کے لیے اسلام کے لیے کام کرنے والوں پر اور اسلام کی حکمرانی کا مطالبہ کرنے والوں پر ظلم و جبر کرتی ہیں۔ لہٰذا اگر پاکستان میں اہل نصرۃ و طاقت اس حکومت کو نہیں روکتے تو وہ اس حکومت کے گناہوں میں شریک تصور ہوں گے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ایسا عمل ہونے سے روکیں۔ پاکستان میں اہل طاقت پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے گناہوں کا کفارہ اُن لوگوں کو اپنی نصرۃ فراہم کر کے دیں جو سب سے پہلے پاکستان میں اور اس کے بعد باقی دنیا میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کے قیام کے لیے مخلصانہ جدوجہد کررہے ہیں۔
بلال المہاجر نے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو پوڈ کاسٹ کے لیے تحریر کیا