الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خنزیر (سور )کےدل کی انسانی جسم میں پیوندکاری کے متعلق اسلام کا نقطہ نظر

مصعب عمیر، پاکستان

 

پاکستان میں ایکسپریس ٹریبیون اخبار نے 30 جنوری 2022 کو "جنیاتی طور پر تبدیل شدہ سور کے دل کی ایک شدید بیمار انسانی مریض میں پہلی پیوند کاری" کی  خبر شائع کی۔ اس خبر  نے دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید بحث کو جنم دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اور اس سے باہر، بہت سے لوگوں نے زبردست حیرت کا اظہار کیا  اور سوال کیا کہ اس طریقہ کار کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کیا ہو گا جبکہ سور کو حرام قرار دیا گیا ہے۔اس سلسلے میں ایکسپریس ٹریبیون نے مفتی ڈاکٹر ارشاد احمد اعجاز سے رابطہ کیا تاکہ اس نئی پیش رفت پر روشنی ڈالی جا سکے۔ مفتی اعزاز ایک ممتاز شرعی اسکالر ہیں جو اسلامی فقہ اور فتویٰ میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔

 

ایک ایسے وقت میں جب میڈیا کو پوری مسلم دنیا میں کرپٹ لبرل خیالات کی تشہیر  و ترویج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ میڈیا نے امت اسلامیہ کے معاملات سے متعلق ایک مسئلہ پر تبصرہ کرنے کے لیے ایک عالم سے رجوع کیا۔  درحقیقت دین ایک مکمل طرز زندگی ہے جو ہر عمل اور کسی بھی چیز کے استعمال کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے،  اور یہ دین اس لیے دیا گیا ہے کہ اسے مکمل نافذ کیا جائے ۔ درحقیقت یہ میڈیا کا کام اور ذمہ داری ہے کہ وہ حالات ،واقعات  اور اشیاءکے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر فراہم کرے۔ اس کے علاوہ، یہ علمائے کرام کا کام ہے کہ وہ اسلام کی بنیاد پر نیکی (معروف) کا حکم دیں اور برائی (منکر) سے روکیں، تاکہ خلافت کے اندر حکمران اسلام کو بغیر کسی  انحراف کے  نافذ کریں۔

 

جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خنزیر(سور) کے دل کی ایک شدید بیمار انسانی مریض میں  پیوند کاری کے بارے میں اسلام کے عظیم دین کی یہ رائے ہے کہ طبی علاج کے لیے ممنوع (حرام) اور نجس (ناپاک) چیزوں کے استعمال کی اجازت ہے۔ ممنوعہ (حرام) اور نجس (ناپاک )چیزوں کے استعمال سے علاج معالجے کا ثبوت سنتِ نبوی میں موجود ہے اور سنتِ نبوی قرآن کریم کی واضح شرح ہے۔

 

یقیناً سور حرام ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ،  حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ "تم پر حرام ہے (کھانا) مُردار اور خون اور سور کا گوشت۔"(المائدہ،5:3)۔ اسلام نے حرام چیز سے فائدہ اٹھانے سے منع کیا ہے۔ ابو داؤد میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،  إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ الْخَمْرَ وَثَمَنَهَا وَحَرَّمَ الْمَيْتَةَ وَثَمَنَهَا وَحَرَّمَ الْخِنْزِيرَ وَثَمَنَهُ "اللہ تعالیٰ نے شراب اور اس کی قیمت ، حرام مردار اور اس کی قیمت،  اور حرام سور کا گوشت اور اس کی قیمت کوحرام قرار دیا ہے۔" بخاری نے جابر بن عبداللہ ﷺ سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةِ وَالْخِنْزِيرِ وَالْأَصْنَامِ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ شُحُومَ الْمَيْتَةِ فَإِنَّهَا يُطْلَى بِهَا السُّفُنُ وَيُدْهَنُ بِهَا الْجُلُودُ وَيَسْتَصْبِحُ بِهَا النَّاسُ فَقَالَ لَا هُوَ حَرَامٌ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ إِنَّ اللَّهَ لَمَّا حَرَّمَ شُحُومَهَا جَمَلُوهُ ثُمَّ بَاعُوهُ فَأَكَلُوا ثَمَنَهُ" میں نے فتح مکہ کے سال رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ "اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار جانور، خنزیر اور بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے۔" لوگوں نے پوچھا کہ 'یا رسول اللہ! مردہ جانوروں کی چربی کے بارے میں کیا خیال ہے، کیونکہ یہ کشتیوں اور کھالوں کو چکنا کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے؛ اور لوگ اسے روشنی کے لیے استعمال کرتے ہیں؟' آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، یہ حرام ہے۔ آپ ﷺ نے مزید فرمایا: ”اللہ تعالیٰ یہودیوں پر لعنت کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے (جانوروں کی) چربی کو حرام کر دیا تھا، پھر بھی انہوں نے چربی کو پگھلا کر بیچا اور اس کی قیمت کھا لی۔"

 

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حرام چیزیں طبی علاج کے لیے منع نہیں ہیں، تو اس کا ثبوت سنتِ نبوی میں موجود ہے۔ مسلم نے حضرت انس ﷺ سے روایت کی ہے کہ،  رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَوْ رُخِّصَ لِلزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ فِي لُبْسِ الْحَرِيرِ لِحِكَّةٍ كَانَتْ بِهِمَا "رسول اللہﷺ نے زبیر بن العوام اور عبدالرحمٰن بن عوف کو ریشم کا لباس پہننے کی اجازت عطا فرمائی کیونکہ ان دونوں کو کھجلی (جلد کی بیماری) تھی۔ " مردوں کے لیے ریشم پہننا منع ہے، لیکن طبی وجوہات کی بنا پر اس کی اجازت ہے۔ نسائی نے عرفہ بن اسعد سے روایت کی ہے کہ، أَنَّهُ أُصِيبَ أَنْفُهُ يَوْمَ الْكُلاَبِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَاتَّخَذَ أَنْفًا مِنْ وَرِقٍ فَأَنْتَنَ عَلَيْهِ فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَتَّخِذَ أَنْفًا مِنْ ذَهَبٍ "زمانہ جاہلیت میں جنگ الکلاب میں اس کی ناک کٹ گئی تھی، چنانچہ اس نے چاندی کی ناک پہنی، لیکن وہ گلنے لگی، تو رسول اللہ ﷺنے اسے سونے کی ناک پہننے کا حکم دیا۔" سونا مردوں کے لیے حرام ہے، لیکن طبی مقاصد کے لیے اس کا استعمال جائز ہے۔

 

اس کے علاوہ نجس (ناپاک) چیزوں کا استعمال طبی مقاصد کے لیے حرام نہ ہونا سنتِ نبوی سے بھی ثابت ہے۔ بخاری نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے، أَنَّ نَاسًا، اجْتَوَوْا فِي الْمَدِينَةِ فَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَلْحَقُوا بِرَاعِيهِ ـ يَعْنِي الإِبِلَ ـ فَيَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، فَلَحِقُوا بِرَاعِيهِ فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، حَتَّى صَلَحَتْ أَبْدَانُهُمْ ‏"مدینہ کی آب و ہوا کچھ لوگوں کے موافق نہیں تھی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے چرواہے یعنی اونٹوں کی پیروی کریں اور ان کا دودھ اور پیشاب (دوا کے طور پر)پی لیں۔ چنانچہ وہ اونٹوں کے چرواہے کے پیچھے چلے اور ان کا دودھ اور پیشاب پیتے رہے یہاں تک کہ ان کے جسم تندرست ہو گئے۔" بعض لوگ بیمار ہو گئے تو رسول اللہﷺنے ان کو اجازت دے دی کہ وہ نجس (ناپاک) ہونے کے باوجود پیشاب کو بطور دوا استعمال کریں۔

 

درحقیقت اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور جب بھی کسی معاملے میں اختلاف ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس اختلاف کو حل کرنے کے لیے قرآن مجید اور سنتِ نبوی کی طرف رجوع کریں۔ اللہ عزوجل نے فرمایا،

فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ

" اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو "(النساء، 4:59)۔ 

 

رسول اللہﷺ نے فرمایا،

تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللهِ وسُنَّةَ نَبِيِّهِ

"میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم ان پر کاربند رہو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے،  اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔ "(موطا امام مالک)۔

 

مسلمانوں کو بالعموم اور ان کے علمائے کرام اور صحافیوں کو بالخصوص مسلمانوں کے تمام معاملات کو وحی الٰہی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ انہیں الہامی نصوص کا بغور  اور احتیاط سےجائزہ لینا چاہیے ، اور خلافت کی صدیوں پر مشتمل بھرپور فقہی میراث سے پوری طرح مستفید ہونا چاہیے۔ وہ مسلم معاشروں کو یونانی فلسفہ، مشرقیت، مغربی عقلیت، سرمایہ دارانہ افادیت پسندی، اور منحرف جدیدیت کے کرپٹ اثرات سے پاک کریں۔ صرف یہی فائدہ مند موقف ہے جو مسلم دنیا میں اس تبدیلی کے لیے ایک مضبوط ماحول پیدا کرنے میں مدد دے گا جس کی ضرورت ہے،اور وہ ہے نبوت کے نقش قدم پر خلافت کی بحالی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سب کی اطاعت قبول فرمائے تاکہ ہم اطاعت گزاروں کی پہلی صف میں ہوں اور غفلت اور خاموشی سے گناہ میں نہ پڑ جائیں۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خنزیر (سور )کےدل کی انسانی جسم میں پیوندکاری کے متعلق اسلام کا نقطہ نظر

مصعب عمیر، پاکستان

پاکستان میں ایکسپریس ٹریبیون اخبار نے 30 جنوری 2022 کو "جنیاتی طور پر تبدیل شدہ سور کے دل کی ایک شدید بیمار انسانی مریض میں پہلی پیوند کاری" کی  خبر شائع کی۔ اس خبر  نے دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید بحث کو جنم دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اور اس سے باہر، بہت سے لوگوں نے زبردست حیرت کا اظہار کیا  اور سوال کیا کہ اس طریقہ کار کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کیا ہو گا جبکہ سور کو حرام قرار دیا گیا ہے۔اس سلسلے میں ایکسپریس ٹریبیون نے مفتی ڈاکٹر ارشاد احمد اعجاز سے رابطہ کیا تاکہ اس نئی پیش رفت پر روشنی ڈالی جا سکے۔ مفتی اعزاز ایک ممتاز شرعی اسکالر ہیں جو اسلامی فقہ اور فتویٰ میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب میڈیا کو پوری مسلم دنیا میں کرپٹ لبرل خیالات کی تشہیر  و ترویج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ میڈیا نے امت اسلامیہ کے معاملات سے متعلق ایک مسئلہ پر تبصرہ کرنے کے لیے ایک عالم سے رجوع کیا۔  درحقیقت دین ایک مکمل طرز زندگی ہے جو ہر عمل اور کسی بھی چیز کے استعمال کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے،  اور یہ دین اس لیے دیا گیا ہے کہ اسے مکمل نافذ کیا جائے ۔ درحقیقت یہ میڈیا کا کام اور ذمہ داری ہے کہ وہ حالات ،واقعات  اور اشیاءکے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر فراہم کرے۔ اس کے علاوہ، یہ علمائے کرام کا کام ہے کہ وہ اسلام کی بنیاد پر نیکی (معروف) کا حکم دیں اور برائی (منکر) سے روکیں، تاکہ خلافت کے اندر حکمران اسلام کو بغیر کسی  انحراف کے  نافذ کریں۔

جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خنزیر(سور) کے دل کی ایک شدید بیمار انسانی مریض میں  پیوند کاری کے بارے میں اسلام کے عظیم دین کی یہ رائے ہے کہ طبی علاج کے لیے ممنوع (حرام) اور نجس (ناپاک) چیزوں کے استعمال کی اجازت ہے۔ ممنوعہ (حرام) اور نجس (ناپاک )چیزوں کے استعمال سے علاج معالجے کا ثبوت سنتِ نبوی میں موجود ہے اور سنتِ نبوی قرآن کریم کی واضح شرح ہے۔

یقیناً سور حرام ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ "تم پر حرام ہے (کھانا) مُردار اور خون اور سور کا گوشت۔"(المائدہ،5:3)۔ اسلام نے حرام چیز سے فائدہ اٹھانے سے منع کیا ہے۔ ابو داؤد میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ الْخَمْرَ وَثَمَنَهَا وَحَرَّمَ الْمَيْتَةَ وَثَمَنَهَا وَحَرَّمَ الْخِنْزِيرَ وَثَمَنَهُ "اللہ تعالیٰ نے شراب اور اس کی قیمت ، حرام مردار اور اس کی قیمت،  اور حرام سور کا گوشت اور اس کی قیمت کوحرام قرار دیا ہے۔" بخاری نے جابر بن عبداللہ ﷺ سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةِ وَالْخِنْزِيرِ وَالْأَصْنَامِ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ شُحُومَ الْمَيْتَةِ فَإِنَّهَا يُطْلَى بِهَا السُّفُنُ وَيُدْهَنُ بِهَا الْجُلُودُ وَيَسْتَصْبِحُ بِهَا النَّاسُ فَقَالَ لَا هُوَ حَرَامٌ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ إِنَّ اللَّهَ لَمَّا حَرَّمَ شُحُومَهَا جَمَلُوهُ ثُمَّ بَاعُوهُ فَأَكَلُوا ثَمَنَهُ" میں نے فتح مکہ کے سال رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ "اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار جانور، خنزیر اور بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے۔" لوگوں نے پوچھا کہ 'یا رسول اللہ! مردہ جانوروں کی چربی کے بارے میں کیا خیال ہے، کیونکہ یہ کشتیوں اور کھالوں کو چکنا کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے؛ اور لوگ اسے روشنی کے لیے استعمال کرتے ہیں؟' آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، یہ حرام ہے۔ آپ ﷺ نے مزید فرمایا: ”اللہ تعالیٰ یہودیوں پر لعنت کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے (جانوروں کی) چربی کو حرام کر دیا تھا، پھر بھی انہوں نے چربی کو پگھلا کر بیچا اور اس کی قیمت کھا لی۔"

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حرام چیزیں طبی علاج کے لیے منع نہیں ہیں، تو اس کا ثبوت سنتِ نبوی میں موجود ہے۔ مسلم نے حضرت انس ﷺ سے روایت کی ہے کہ، رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَوْ رُخِّصَ لِلزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ فِي لُبْسِ الْحَرِيرِ لِحِكَّةٍ كَانَتْ بِهِمَا "رسول اللہﷺ نے زبیر بن العوام اور عبدالرحمٰن بن عوف کو ریشم کا لباس پہننے کی اجازت عطا فرمائی کیونکہ ان دونوں کو کھجلی (جلد کی بیماری) تھی۔ " مردوں کے لیے ریشم پہننا منع ہے، لیکن طبی وجوہات کی بنا پر اس کی اجازت ہے۔ نسائی نے عرفہ بن اسعد سے روایت کی ہے کہ، أَنَّهُ أُصِيبَ أَنْفُهُ يَوْمَ الْكُلاَبِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَاتَّخَذَ أَنْفًا مِنْ وَرِقٍ فَأَنْتَنَ عَلَيْهِ فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَتَّخِذَ أَنْفًا مِنْ ذَهَبٍ "زمانہ جاہلیت میں جنگ الکلاب میں اس کی ناک کٹ گئی تھی، چنانچہ اس نے چاندی کی ناک پہنی، لیکن وہ گلنے لگی، تو رسول اللہ ﷺنے اسے سونے کی ناک پہننے کا حکم دیا۔" سونا مردوں کے لیے حرام ہے، لیکن طبی مقاصد کے لیے اس کا استعمال جائز ہے۔

اس کے علاوہ نجس (ناپاک) چیزوں کا استعمال طبی مقاصد کے لیے حرام نہ ہونا سنتِ نبوی سے بھی ثابت ہے۔ بخاری نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے، أَنَّ نَاسًا، اجْتَوَوْا فِي الْمَدِينَةِ فَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَلْحَقُوا بِرَاعِيهِ ـ يَعْنِي الإِبِلَ ـ فَيَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، فَلَحِقُوا بِرَاعِيهِ فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، حَتَّى صَلَحَتْ أَبْدَانُهُمْ ‏"مدینہ کی آب و ہوا کچھ لوگوں کے موافق نہیں تھی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے چرواہے یعنی اونٹوں کی پیروی کریں اور ان کا دودھ اور پیشاب (دوا کے طور پر)پی لیں۔ چنانچہ وہ اونٹوں کے چرواہے کے پیچھے چلے اور ان کا دودھ اور پیشاب پیتے رہے یہاں تک کہ ان کے جسم تندرست ہو گئے۔" بعض لوگ بیمار ہو گئے تو رسول اللہﷺنے ان کو اجازت دے دی کہ وہ نجس (ناپاک) ہونے کے باوجود پیشاب کو بطور دوا استعمال کریں۔

درحقیقت اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور جب بھی کسی معاملے میں اختلاف ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس اختلاف کو حل کرنے کے لیے قرآن مجید اور سنتِ نبوی کی طرف رجوع کریں۔ اللہ عزوجل نے فرمایا، فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ" اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو "(النساء، 4:59)۔  رسول اللہﷺ نے فرمایا، تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللهِ وسُنَّةَ نَبِيِّهِ "میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم ان پر کاربند رہو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے،  اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔ "(موطا امام مالک)۔

مسلمانوں کو بالعموم اور ان کے علمائے کرام اور صحافیوں کو بالخصوص مسلمانوں کے تمام معاملات کو وحی الٰہی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ انہیں الہامی نصوص کا بغور  اور احتیاط سےجائزہ لینا چاہیے ، اور خلافت کی صدیوں پر مشتمل بھرپور فقہی میراث سے پوری طرح مستفید ہونا چاہیے۔ وہ مسلم معاشروں کو یونانی فلسفہ، مشرقیت، مغربی عقلیت، سرمایہ دارانہ افادیت پسندی، اور منحرف جدیدیت کے کرپٹ اثرات سے پاک کریں۔ صرف یہی فائدہ مند موقف ہے جو مسلم دنیا میں اس تبدیلی کے لیے ایک مضبوط ماحول پیدا کرنے میں مدد دے گا جس کی ضرورت ہے،اور وہ ہے نبوت کے نقش قدم پر خلافت کی بحالی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سب کی اطاعت قبول فرمائے تاکہ ہم اطاعت گزاروں کی پہلی صف میں ہوں اور غفلت اور خاموشی سے گناہ میں نہ پڑ جائیں۔

Last modified onاتوار, 06 فروری 2022 22:12

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک