الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

صلاح الدین اور خلافت

 

عربی سے ترجمہ

 

الوعی میگزین شمارہ 188، رمضان 1423، نومبر 2002

 

لوگ صلاح الدین ایوبی کی شخصیت کے فوجی  پہلوؤں کو ضرور نمایاں کرتے ہیں ،  مصر اور بلادِ شام،  دونوں میں صلیبیوں کے خلاف ان کا جہاد، ان کا تقوٰی، شہریوں پر ان کا  عدل، ان کا رحم اور اسباب کی تیاری  وغیرہ ۔  تاہم،  ایک دوسرا پہلو بھی ہے  جو دین پر ان کی ثابت قدمی اور حق  پر ان کے استقلال  ، جو انہوں نے ہر قسم کے حالات میں اختیار کئے رکھے، کی نشاندہی کرتا ہے۔  یہ پہلو زیادہ  اُجاگر نہیں کیا جاتا لیکن   یہ پہلو خلافت کے لئے ان کے نقطۂ نظر میں ظاہر ہوتا ہے۔ چونکہ صلاح الدین نے خلافت کی وحدت کی فکر کو اپنائے رکھا ، لہٰذاانہوں نے  ایک ہی وقت میں دو خلفاء کی موجودگی کو تسلیم نہ کیا۔  چونکہ  اس وقت کے قانونی خلیفہ عباسی خلیفہ ہی تھے، صلاح الدین  نےاپنی وفاداری اور اطاعت انہی کے ساتھ منسلک رکھی ۔ان کا ایمان تھا کہ اگر کوئی دوسرا خلیفہ آ کر عباسی خلیفہ سے تنازعہ کرے تو اس سے لڑا جائے۔

 

وحدتِ خلافت پر صلاح الدین کی گہری توجہ اور اس بات پر   ان کا ایمان  کہ عباسی خلیفہ ہی شرعی خلیفہ ہیں،586 عیسوی میں   منصور یعقوب بن یوسف بن عبدالمومن کو لکھے گئے ان کے خط   سے ظاہر ہوتا ہے جس میں صلاح الدین نے صلیبی فرینکس کے خلاف ان سے مدد چاہی تھی تا کہ بلادِ شام اور مصر کے ساحلی علاقوں کو اس کے بحری بیڑوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔  اس کی وجہ یہ تھی کہ یعقوب کے پاس ایک بڑی بحری فوج تھی جبکہ صلاح الدین کے پاس  صرف ایک چھوٹی سی بحریہ تھی۔ یعقوب ، موحد ریاست ( جزائرِ آئیبیریا اور شمالی افریقہ کے موحدین)  کے لیڈروں میں سے ایک تھا اور اپنے آپ کو امیرالمومنین کہتا تھا۔  صلاح الدین کو یعقوب کے بحری اثاثوں کی  اشد ضرورت  کے باوجود ، انہوں نے یعقوب کو امیرالمومنین کہہ کر مخاطب نہیں کیا۔ اس کے بجائے انہوں نے اسے امیرالمسلمین (مسلمانوں کا حاکم) کہہ کر مخاطب کیا۔  صلاح الدین نے اپنے خط میں عباسی خلیفہ کو علم کے لحاظ سے انبیاء کا وارث ، شرعی اقتدار کے لحاظ سے زمین کا وارث اور دین کے  آسمانوں کی خوبصورتی کے طور پر بیان کیا  جہاں خلیفہ تاج میں جڑے نگینے کی طرح ہے۔

 

ابو عباس ناصری نے اپنی وسیع تحقیق،" الاستقصا لأخبار دول المغرب الأقصى- "دوردراز مغرب کی معلومات کی تحقیق" میں لکھا ہے: وكان عنوان الكتاب: من صلاح الدين إلى أمير المسلمين، وفي أوله الفقير إلى الله تعالى يوسف بن أيوب وبعده الحمد لله الذي استعمل على الملة الحنيفية من استعمر الأرض، وأغنى من أهلها من سأله القرض، وأجرى من أجرى على يده النافلة والفرض، وزين سماء الملة بدراري الذراري التي بعضها من بعض… ولما وقف عليه المنصور ورأى تجافيه فيه عن خطابه بأمير المؤمنين، لم يعجبه ذلك، وأسرّها في نفسه، وحمل الرسول على مناهج البر والكرامة ورده إلى مرسله ولم يجبه إلى حاجته. ويقال إنه جهز له بعد ذلك مئة وثمانين أسطولاً ومنع النصارى من سواحل الشام والله تعالى أعلم،" خط کا متن تھا :  صلاح الدین کی جانب سے امیرالمسلمین، یوسف بن ایوب کے نام،جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا محتاج ہے۔ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اسلامی امت پر وہ لوگ مقرر کئے ہیں جوزمین  پر خوشحالی پھیلاتے ہیں اور کسی قرض کے بغیر مالی اعتبار سے اپنے لوگوں کے خود مختار ہونے کا باعث ہیں اور حکمرانوں کے ذریعے فرائض و مندوبات(نوافل) کے پورا ہونے کا باعث ہیں، وہ ذات جس نے حکمرانوں جیسے موتیوں سے  دین کے آسمان کو مزین کیا ۔۔۔منصور نے صلاح الدین کے محض امیرالمسلمین کہنے اور امیر المومنین نہ کہنے  پر اعتراض کیا اور اس نے اسے اپنے خلاف سمجھا۔ چنانچہ اس نے صلاح الدین کے ایلچی کو ،کوئی گذارشات پورا کئے بغیر عزت دی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ  اس کے باوجود منصور نے 180 بحری جہاز بھجوانے کی تیاری کی لیکن ان کی آمد،  شام کے ساحلی شہروں پر صلیبیوں کے قبضہ کی وجہ سے رُک گئی۔ اللہ تعالی ہی  بہتر جانتا ہے"۔

 

شہاب الدين مقدسی، اپنی کتاب، كتاب الروضتين في أخبار الدولتين النورية والصلاحية "دو باغوں کی کتاب؛ نورالدین اور صلاح الدین کی حکمرانی کی خبروں سے متعلق" میں بیان کرتے ہیں: لم يحصل من جهة سلطان المغرب ما التمس منه من النجدة وبلغني أنه عز عليه كونه لم يخاطب بأمير المؤمنين على جاري عادتهم، وقد كان سلطاناً عادلاً مظهراً للشريعة غازياً " صلاح الدین کو  مغرب کے سلطان سے مدد  نہ ملی ۔  مجھے اطلاع ملی کہ سلطان  اپنے رواج کے مطابق ، امیرالمومنین  مخاطب نہ کیے جانے پر تشویش میں تھا ۔ وہ ایک عادل سلطان تھا جو شریعت کا اہتمام کرتا تھا اورجنگجو  تھا"۔ شہاب الدين مقدسی کی کتاب سے لیا گیا یہ بیانیہ ، یعقوب کے چچا زاد بھائی کے قصیدے  اور شمس الدین بن منقد (صلاح الدین کا ایلچی) کے قصیدے، دونوں سے  زیادہ  معتبر ہے  ۔ پہلا قصیدہ ، منصور کو خلفاء میں سے  بہترین  تصور کرتا ہے اور دوسرا    اسے " مسلمانوں کا رہنما " پکارتا  ہے۔

یعقوب کے چچا زاد  کے  قصیدہ  کے حوالے سے ، مقدسی کہتے ہیں ،

 

            وفيه يقول ابن عمه سليمان بن عبد الله بن عبد المؤمن أبو الربيع من قصيدة أولها:

 

هَبَّتْ بِنَصْرِكُمُ الرِّيَاحُ الأَرْبَعُ                   وُجِدَتْ بِسَعْدِكُمُ النُّجُومُ الطُّلَّعُ

إِنْ قِيلَ مَنْ خَيْرُ الخَلاَ ئِفِ كُلِّهَا             فَإِلَيْكَ يَا يَعْقُوبُ تُومِي الإِصْبَعُ

إِنْ كُنْتَ تَتْلُو السَّابِقِينَ فَإِنَّمَا                 أَنْتَ المُقَدَّمُ وَالخَلاَ ئِقُ تُبَّعُ

  " اس کا چچا زاد سلمان بن عبداللہ بن عبدالمؤمن  ابو ربيع پہلے قصیدہ کے حوالے سے  کہتا ہے :

تمہاری  ہی مدد سے بہاروں  کی ہوا چلتی ہے، جبکہ تمہارے ہی  نصیب سے  تارے طلوع ہوتے ہیں

اگر یہ پوچھا جائے کہ تمام خلفاء میں سب سے بہترین کون ہے، تو  اے یعقوب!  انگلیاں تمہاری ہی طرف اشارہ کرتی ہیں

اگرچہ تم اپنے سے پہلے والوںکی پیروی کرتے ہو، مگر  تم اور تمہارے اخلاق ہی پیروی کے قابل ہیں

صلاح الدین کے  ایلچی   کے قصیدے کے حوالے سے مقدسی نے کہا :

 

         وقد مدحه أيضاً شمس الدين بن منقذ هذا المرسل إليه من جهة السلطان بقصيدة منها:

سَأَشْكُرُ بَحْراً ذَا عُبَابٍ قَطَعْتُهُ                  إِلَى بَحْرِ جُودٍ مَا لِنَعْمَاهُ سَاحِلُ

 

إِلَى مَعْدِنِ التَّقْوَى إِلَى كَعْبَةِ الهُدَى          إِلَى مَنْ سَمَتْ بِالذِّكْرِ مِنْهُ الأَوَائِلُ

إِلَيْكَ أَمِيرَ المُسْلِمِينَ وَلَمْ تَزَلْ                 إِلَى بَابِكَ المَأْمُولِ تُزْجَى الرَّوَاحِلُ

" شمس الدین بن منقد نے  بھی اپنے قصیدے میں بطور سلطان ،منصور کی تعریف کی ہے :

            میں اُس ٹھاٹھیں مارتے بپھرے سمندر  کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس سے میں گزر کر آیا ہوں ، اِس ساحل کی طرف جو  بالکل پُرسکون اور مطمئن سمندر کی مانند ہے

            میرے تقوٰی اور رہنمائی کے محور کی طرف، اُس کی طرف جس کا  اس سے پہلے والے بھی  حوالہ   دیا کریں گے

            یہ آپ ہیں  مسلمانوں کے امیر اور آپ  سے امید کا دَر  ہر  اُس کی داد رسی کرتا ہے جو بھی اس سے گزرتا ہے"۔

 

جو چیز خلافت کی وحدت کے لئے صلاح الدین کے جذبہ اور عباسی خلیفہ ہی کے  شرعی خلیفہ ہونے کےیقین کی تصدیق کرتی  ہیں،  وہ شہاب الدين مقدسی  کی کتاب،   كتاب الروضتين في أخبار الدولتين النورية والصلاحية ،" دو باغوں کی کتاب؛ نورالدین اور صلاح الدین کی حکمرانی کی خبروں سے متعلق "، میں درج روایت ہے،  جس میں وہ خط شامل ہے جو کہ صلاح الدین نے خلافت کے دارالخلافہ ، بغداد کو لکھا تھا۔

 

کتاب اس کا تذکرہ کرتی ہے جو کہ اس خط میں آیا ہے :   وبلاد أولاد عبد المؤمن فلو أن لها ماء سيف لأطفأ ما فيها من النار إلى أن تعلو كلمة الله العليا وتملأ الولاية العباسية الدنيا، "اگر عبدالمؤمن کی اولادوں کے شہر نے ، وہاں لگی آگ بُجھانے اور اللہ کا نام ہی سب سے بلند کرنے کے لئے ، ایک پانی کی تلوار بھی اُٹھائی ہوتی  تو عباسیوں کا اقتدار پوری دنیا پر چھا جاتا"۔

 

یہاں صلاح الدین نے عبدالمؤمن کی نسل سے لڑنے کی اجازت طلب کرنا چاہی ہے۔ اُن سے لڑنے کہ وجہ، اُن کا اپنے آپ کو خُلفاء یا امراءالمومنین کہلانے  کے  اعلان کے باعث  بغداد کے خلیفہ کی اطاعت سےعلیحدہ ہو جانا ہے۔

جہاں تک صلاح الدین کا خود خلیفہ کی اطاعت کا تعلق ہے تو انہوں نے ہراس  خط کے آغاز میں ہی اس کا اظہار کیا ہے جو انہوں نے خلیفہ کے ایوان  میں  بھجوائے  اور انہوں نے خود کو ایک وفادار خادم ہی سمجھا۔  

 

ان اقرارناموں کی ایک جھلک ،  القلقشندي کے انسائیکلوپیڈیا ، صبح العشى" اندھے کی صبح صادق" میں ملتی ہے : الخادم ينتهب ثرى العتبات الشريفة بالتقبيل… في امتثال الأوامر الشريفة التي لم يزل يتسارع إليها ويقارع عليها "وہ خادم جو(خلافت کی) پاک دہلیزوں کی دولت تسلیمات سےسمیٹتا ہے ۔۔۔۔ ان معزز احکامات کی تعمیل میں جن کی خاطر وہ جلدی کرتا ہے اور لڑتا ہے "۔  خط میں یہ بھی لکھا ہے، وحامداً الله الذي جعله من طاعة أمير المؤمنين عند حسن يقينه  "تمام تعریفیں اس  اللہ  واحد کے لئے ہیں جس نے اسے امير المؤمنين کی احسن طریقے سے اطاعت کرنے والا بنایا "۔ 

 

خط میں یہ بھی بیان ہے، أعلى الله الموحدين على الملحدين، وثبت كلمة المتقين على اليقين، بدوام أيام الديوان العزيز… وألهم الخلق أن يعنونوا بطاعته صحائف الإيمان "اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ توحید والوں کا رُتبہ ملحدوں سے بُلند رکھے، اور نیکوکاروں کا کلمہ  معزز  ایوانوں  کے ایام میں مضبوطی سے قائم رکھے، اور اللہ خلقت کو ایمان کی حلاوت کے ساتھ خلیفہ کی اطاعت کی توفیق دے"۔  

 

اطاعت کےاقرار کے  صلاح الدین کے بیانات میں سے ایک کو  مقدسی نے یوں بیان کیا ہے، وهذه المقاصد الثلاثة الجهاد في سبيل الله والكف عن مظالم عباد الله والطاعة لخليفة الله هي مراد الخادم من البلاد إذا فتحها، ومَغْنمه من الدنيا إذا مُنحها "یہ تین مقاصد، اللہ کی راہ میں جہاد ، اللہ کے بندوں پر ظلم کو روکنا اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے خلیفہ کی اطاعت کرنا ،اس شہر کے خادم کی مُرادیں ہیں جسے فتح کیا جائے اور یہی دنیا میں اس کا اثاثہ ہے، اگر اسے عطا ہو جائے"۔

 

صلاح الدین کی رائے کے مطابق امام کے بغیر کوئی معاشرہ نہیں ہو سکتا۔  مقدسی سے بیان کی گئی صلاح الدین  کی تحریروں میں  سے ایک  یہ ہے : أدام الله أيام الديوان العزيز… والأمة مجموعة الشمل بإمامته جمع السلامة لا جمع التكسير "اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ معزز  ایوان کے دنوں کو محفوظ رکھے۔ امت اجتماعی ہے جو امام سے ہی وحدت حاصل کرتی ہے، امت مجموعی طور پر سلامتی سے اکٹھی ہے اور تفریقوں کا ملغوبہ نہیں ہے"۔

 

صلاح الدین کا  یہ بھی ماننا  تھا کہ قیادت انفرادی ہوتی ہے نہ کہ اجتماعی ۔  مقدسی  ان کے خطوط میں سے  ایک سے نقل کرتے ہیں :  ولا يختار إلا أن تغدو جيوش المسلمين متحاشدة على عدوها، لا متحاشدة بعتوها، ولو أن أمور الحرب تصلحها الشركة لما عز عليه أن يكون كثير المشاركين، ولا ساءه أن تكون الدنيا كثيرة المالكين، وإنما أمور الحرب لا تحتمل في التدبير إلا الوحدة "وہ (خلیفہ) اکیلا ہی مسلمانوں کی فوجوں کو امت کے دشمنوں کے خلاف روانہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے ، نہ کہ کوئی  ظالم اپنی ناانصافی سے۔ اگر جنگوں کے معاملات اجتماعیت سے طے ہونے ہوتے تو  پھر بہت سے شراکت دار ہوتے۔ دنیا کو  اتنا نقصان شاید بہت سے حکمران ہونے سے نہ پہنچے  لیکن جنگوں کے معاملات صرف اور صرف وحدانیت کا تقاضا کرتے ہیں " ۔

یہ متن، اگرچہ قاضی فاضل (صلاح الدین کے مشیرِ اعلیٰ) کی جانب سے لکھا گیا،لیکن  یہ سلطان صلاح الدین    کے زیرِنگرانی ہی تھا۔ قاضی نے صرف سلطان کی رائے کا اظہار کیا  اور اس نے سلطان کی اجازت کو یقینی بنایا  کیونکہ یہ خطوط  ،  خلافت کے دیوان کے لئے، سلطان (خلیفہ) کے نام سے ہوتے تھے۔

 

خلافت کی وحدانیت کے لئے ، صلاح الدین کے مؤقف کا سب سے زبردست ثبوت  یہ ہے کہ انہوں نے مصر میں فاطمیوں (العبیدیین)کی  خلافت   کاخاتمہ کر دیا ۔   وہ سمجھتے تھے کہ فاطمی بغداد کے خلیفہ،  جس کوصلاح الدین نے بیعت دی تھی ، کے باغی ہیں۔  عبیدیوں نے 357 ہجری میں  ولایہ مصر پر قبضہ کر لیا تھا اور اپنی خلافت کا اعلان کیا تھا، جسے وہ   غلط طور پر اور ڈھٹائی سے فاطمی خلافت کہتے تھے۔ 549 ہجری میں ، عباسی خلیفہ، المقتفی نے  ولایہ مصر کو ، حلب اور دمشق کے والی ،نورالدین زنگی   کو عطا کرتے ہوئے ایک عہد نامہ لکھا اور ان کو حکم دیا کہ وہ مصر کی جانب روانہ ہوں۔ 562 ہجری میں ،سلطان  نورالدین زنگی نے ، اسد دین شیرکوہ کی قیادت میں دو ہزار کا ایک لشکر تیا ر کیا۔  پھر 564 ہجری میں ، شیرکوہ کے بھتیجے، صلاح الدین نے ان کی جگہ لی۔  آخری فاطمی خلیفہ  عدید،  بغداد میں عباسی خلیفہ کے اختیار سے باہر، مصر میں رہتا تھا۔  پھر صلاح الدین نے عدید فاطمی کا اعلان کردہ خطبہ ختم کر دیا اور  567 ہجری میں مصر کو واپس عباسی خلیفہ  کو دے دیا۔   اس طرح ، خلافت ایک ہو گئی اور امت بغداد کے عباسی خلیفہ تلے اکٹھی ہو گئی۔

 

سال 567ہجری کے واقعہ کے متعلق، امام سیوطی تاریخ الخلفاء" خلفاء کی تاریخ " میں کہتے ہیں :  قال العماد الكاتب: استفتح السلطان صلاح الدين بن أيوب سنة سبع بجامع مصر على الطاعة والسمع، وهو إقامة الخطبة الأولى منها بمصر لبني العباس، وعفت البدعة، وصفت الشرعة، وأقيمت الخطبة العباسية في الجمعة الثانية بالقاهرة إلى أن يقول: وسيَّر السلطان نور الدين بهذه البشارة شهاب الدين بن المطهّر إلى بغداد، وأمرني بإنشاء بشارة عامة تقرأ في سائر بلاد الإسلام، فأنشأت بشارة أولها: الحمد لله معلي الحق ومعلنه، وموهي الباطل وموهنه، ومنها: ولم يبق بتلك البلاد منبر إلا وقد أقيمت عليه الخطبة لمولانا الإمام المستضيء بأمر الله أمير المؤمنين – عماد ، کاتب بیان کرتے ہیں کہ 567ہجری میں صلاح الدین بن ایوب نے  ماہِ محرم کے پہلے جمعہ کو مصر کی جامع مسجد میں لوگوں سے مکمل تابعداری کا مطالبہ کیا اور یہ بنی  عباس کے لئے خطبہ کے قائم ہونے سے تھا۔پس اس طرح بدعت کا خاتمہ ہوا اور شریعت پھیل گئی۔ قاہرہ میں دوسرے جمعہ کو عباسیوں کے لئے یہ  خطبہ پڑھا گیا۔۔۔ پھرسلطان نورالدین نے شھاب الدین مطہر کو خوشخبری کے ساتھ بغداد بھجوایا اور مجھے حکم دیا کہ اسلام کی تمام ولایات میں پڑھنے کے لئے اس پر ایک عوامی اعلانیہ تیار کروں۔ چنانچہ میں نے پُر مسرت اعلان قلم کیا جس کا آغاز یوں تھا:  تمام تعریفیں اللہ عزوجل کے لئے ہیں جو حق کو بلند کرنے والا، اسے ظاہر کرنے والا ، باطل کو ختم کرنے اور اسے  ناکام کرنے والا ہے۔ اس میں یہ بھی شامل تھا: اور اب اُن ولایات میں کوئی بھی منبر ایسا نہیں رہ گیا جہاں ہمارے امام ، امير المؤمنين مستضی بأمر الله ، کے لئے خطبہ نہ پڑھا جائے"۔ مستضی اس وقت کے عباسی خلیفہ تھے۔  

اس خوشخبری کے  جواب  میں خلیفہ نے نورالدین اور صلاح الدین کے لئے تحائف اوراعزازی خلعت بھجوائی اور قاہرہ کے خطیبوں کے لئے  عَلَم اورنشان بھجوائے ۔ انہوں نے عماد، کاتب کو بھی اعزازی خلعت اور سو دینار عطا کئے۔

569 ہجری میں قاہرہ میں، لوگوں کے ایک گروہ نے  عاضدکے گھرانہ کو خلافت لوٹانا چاہی تو صلاح الدین نے انہیں قتل کردیا اور دونوں محلوں کے درمیان سُولی پر چڑھا دیا۔وہ ان کی اس  حرکت کو جُرم عظیم ِسمجھتا تھا  جس سے  مسلم امت تقسیم ہو سکتی تھی۔

جب خلیفہ ناصر عباسی نے خلافت سنبھالی، انہوں نے صلاح الدین کو اعزازی خلعت بھجوائی اور ان کی تکریم میں عہدہ  عطا کیا ۔  صلاح الدین نے انہیں ایک خط لکھا جس میں بیان تھا :  والخادم، ولله الحمد، خلع من كان ينازع الخلافة رداءها، وأساغ الغصة التي أذخر الله للإساغة في سيفه ماءها "آپ کا خادم، تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، اللہ سے دعا ہےکہ وہ جو خلافت میں رخنہ ڈالتے ہیں، اُس پانی میں ڈوب مریں جو اللہ نے اپنی تلوار سے جمع کر رکھا ہے۔۔۔"۔

 

اس طرح صلاح الدین نے خلافت کی وحدانیت کو  اختیار کیا،  یہ مانتے  ہوئے کہ اگر   ایک ہی وقت میں دو خلفاء کو بیعت  دی جائے تو دوسرے والے کو قتل کر دینا چاہئے ، کیونکہ بیعت صرف پہلےخلیفہ ہی کو دینا فرض ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بتایا ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ القدس کو، جس پر صلیبیوں نے 492 ہجری میں قبضہ کیا تھا، صلاح الدین نے اسے صلیبیوں سے 583 ہجری میں آزاد کرایا،  جب اُنہوں  نے مصر سے عبیدی(فاطمی) خلافت کا خاتمہ کر دیا اور 567 ہجری میں خلافت کی   وحدت حاصل کر لی۔ پس ، مسلمانوں کی طاقت صرف  اُن کی خلافت میں ہی ہے۔  ہم اللہ سبحانہ تعالیٰ سے خلافت ِ راشدہ کی واپسی کی دعا کرتے ہیں تا کہ یہودی وجود کا  اس کی  جڑوں سے خاتمہ ہو سکے، القدس  آزاد ہو  سکے اور یہ ارضِ مقدس مکمل طور پر دارالاسلام میں  واپس بدل جائے۔    

 

 

بسم الله الرحمن الرحيم

صلاح الدین اور خلافت

عربی سے ترجمہ

الوعی میگزین شمارہ 188، رمضان 1423، نومبر 2002

لوگ صلاح الدین ایوبی کی شخصیت کے فوجی  پہلوؤں کو ضرور نمایاں کرتے ہیں ،  مصر اور بلادِ شام،  دونوں میں صلیبیوں کے خلاف ان کا جہاد، ان کا تقوٰی، شہریوں پر ان کا  عدل، ان کا رحم اور اسباب کی تیاری  وغیرہ ۔  تاہم،  ایک دوسرا پہلو بھی ہے  جو دین پر ان کی ثابت قدمی اور حق  پر ان کے استقلال  ، جو انہوں نے ہر قسم کے حالات میں اختیار کئے رکھے، کی نشاندہی کرتا ہے۔  یہ پہلو زیادہ  اُجاگر نہیں کیا جاتا لیکن   یہ پہلو خلافت کے لئے ان کے نقطۂ نظر میں ظاہر ہوتا ہے۔ چونکہ صلاح الدین نے خلافت کی وحدت کی فکر کو اپنائے رکھا ، لہٰذاانہوں نے  ایک ہی وقت میں دو خلفاء کی موجودگی کو تسلیم نہ کیا۔  چونکہ  اس وقت کے قانونی خلیفہ عباسی خلیفہ ہی تھے، صلاح الدین  نےاپنی وفاداری اور اطاعت انہی کے ساتھ منسلک رکھی ۔ان کا ایمان تھا کہ اگر کوئی دوسرا خلیفہ آ کر عباسی خلیفہ سے تنازعہ کرے تو اس سے لڑا جائے۔

وحدتِ خلافت پر صلاح الدین کی گہری توجہ اور اس بات پر   ان کا ایمان  کہ عباسی خلیفہ ہی شرعی خلیفہ ہیں،586 عیسوی میں   منصور یعقوب بن یوسف بن عبدالمومن کو لکھے گئے ان کے خط   سے ظاہر ہوتا ہے جس میں صلاح الدین نے صلیبی فرینکس کے خلاف ان سے مدد چاہی تھی تا کہ بلادِ شام اور مصر کے ساحلی علاقوں کو اس کے بحری بیڑوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔  اس کی وجہ یہ تھی کہ یعقوب کے پاس ایک بڑی بحری فوج تھی جبکہ صلاح الدین کے پاس  صرف ایک چھوٹی سی بحریہ تھی۔ یعقوب ، موحد ریاست ( جزائرِ آئیبیریا اور شمالی افریقہ کے موحدین)  کے لیڈروں میں سے ایک تھا اور اپنے آپ کو امیرالمومنین کہتا تھا۔  صلاح الدین کو یعقوب کے بحری اثاثوں کی  اشد ضرورت  کے باوجود ، انہوں نے یعقوب کو امیرالمومنین کہہ کر مخاطب نہیں کیا۔ اس کے بجائے انہوں نے اسے امیرالمسلمین (مسلمانوں کا حاکم) کہہ کر مخاطب کیا۔  صلاح الدین نے اپنے خط میں عباسی خلیفہ کو علم کے لحاظ سے انبیاء کا وارث ، شرعی اقتدار کے لحاظ سے زمین کا وارث اور دین کے  آسمانوں کی خوبصورتی کے طور پر بیان کیا  جہاں خلیفہ تاج میں جڑے نگینے کی طرح ہے۔

ابو عباس ناصری نے اپنی وسیع تحقیق،" الاستقصا لأخبار دول المغرب الأقصى- "دوردراز مغرب کی معلومات کی تحقیق" میں لکھا ہے: وكان عنوان الكتاب: من صلاح الدين إلى أمير المسلمين، وفي أوله الفقير إلى الله تعالى يوسف بن أيوب وبعده الحمد لله الذي استعمل على الملة الحنيفية من استعمر الأرض، وأغنى من أهلها من سأله القرض، وأجرى من أجرى على يده النافلة والفرض، وزين سماء الملة بدراري الذراري التي بعضها من بعض… ولما وقف عليه المنصور ورأى تجافيه فيه عن خطابه بأمير المؤمنين، لم يعجبه ذلك، وأسرّها في نفسه، وحمل الرسول على مناهج البر والكرامة ورده إلى مرسله ولم يجبه إلى حاجته. ويقال إنه جهز له بعد ذلك مئة وثمانين أسطولاً ومنع النصارى من سواحل الشام والله تعالى أعلم،" خط کا متن تھا :  صلاح الدین کی جانب سے امیرالمسلمین، یوسف بن ایوب کے نام،جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا محتاج ہے۔ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اسلامی امت پر وہ لوگ مقرر کئے ہیں جوزمین  پر خوشحالی پھیلاتے ہیں اور کسی قرض کے بغیر مالی اعتبار سے اپنے لوگوں کے خود مختار ہونے کا باعث ہیں اور حکمرانوں کے ذریعے فرائض و مندوبات(نوافل) کے پورا ہونے کا باعث ہیں، وہ ذات جس نے حکمرانوں جیسے موتیوں سے  دین کے آسمان کو مزین کیا ۔۔۔منصور نے صلاح الدین کے محض امیرالمسلمین کہنے اور امیر المومنین نہ کہنے  پر اعتراض کیا اور اس نے اسے اپنے خلاف سمجھا۔ چنانچہ اس نے صلاح الدین کے ایلچی کو ،کوئی گذارشات پورا کئے بغیر عزت دی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ  اس کے باوجود منصور نے 180 بحری جہاز بھجوانے کی تیاری کی لیکن ان کی آمد،  شام کے ساحلی شہروں پر صلیبیوں کے قبضہ کی وجہ سے رُک گئی۔ اللہ تعالی ہی  بہتر جانتا ہے"۔

شہاب الدين مقدسی، اپنی کتاب، كتاب الروضتين في أخبار الدولتين النورية والصلاحية "دو باغوں کی کتاب؛ نورالدین اور صلاح الدین کی حکمرانی کی خبروں سے متعلق" میں بیان کرتے ہیں: لم يحصل من جهة سلطان المغرب ما التمس منه من النجدة وبلغني أنه عز عليه كونه لم يخاطب بأمير المؤمنين على جاري عادتهم، وقد كان سلطاناً عادلاً مظهراً للشريعة غازياً " صلاح الدین کو  مغرب کے سلطان سے مدد  نہ ملی ۔  مجھے اطلاع ملی کہ سلطان  اپنے رواج کے مطابق ، امیرالمومنین  مخاطب نہ کیے جانے پر تشویش میں تھا ۔ وہ ایک عادل سلطان تھا جو شریعت کا اہتمام کرتا تھا اورجنگجو  تھا"۔ شہاب الدين مقدسی کی کتاب سے لیا گیا یہ بیانیہ ، یعقوب کے چچا زاد بھائی کے قصیدے  اور شمس الدین بن منقد (صلاح الدین کا ایلچی) کے قصیدے، دونوں سے  زیادہ  معتبر ہے  ۔ پہلا قصیدہ ، منصور کو خلفاء میں سے  بہترین  تصور کرتا ہے اور دوسرا    اسے " مسلمانوں کا رہنما " پکارتا  ہے۔

یعقوب کے چچا زاد  کے  قصیدہ  کے حوالے سے ، مقدسی کہتے ہیں ،

            وفيه يقول ابن عمه سليمان بن عبد الله بن عبد المؤمن أبو الربيع من قصيدة أولها:

هَبَّتْ بِنَصْرِكُمُ الرِّيَاحُ الأَرْبَعُ                   وُجِدَتْ بِسَعْدِكُمُ النُّجُومُ الطُّلَّعُ

إِنْ قِيلَ مَنْ خَيْرُ الخَلاَ ئِفِ كُلِّهَا             فَإِلَيْكَ يَا يَعْقُوبُ تُومِي الإِصْبَعُ

إِنْ كُنْتَ تَتْلُو السَّابِقِينَ فَإِنَّمَا                 أَنْتَ المُقَدَّمُ وَالخَلاَ ئِقُ تُبَّعُ

  " اس کا چچا زاد سلمان بن عبداللہ بن عبدالمؤمن  ابو ربيع پہلے قصیدہ کے حوالے سے  کہتا ہے :

تمہاری  ہی مدد سے بہاروں  کی ہوا چلتی ہے، جبکہ تمہارے ہی  نصیب سے  تارے طلوع ہوتے ہیں

اگر یہ پوچھا جائے کہ تمام خلفاء میں سب سے بہترین کون ہے، تو  اے یعقوب!  انگلیاں تمہاری ہی طرف اشارہ کرتی ہیں

اگرچہ تم اپنے سے پہلے والوںکی پیروی کرتے ہو، مگر  تم اور تمہارے اخلاق ہی پیروی کے قابل ہیں

صلاح الدین کے  ایلچی   کے قصیدے کے حوالے سے مقدسی نے کہا :

         وقد مدحه أيضاً شمس الدين بن منقذ هذا المرسل إليه من جهة السلطان بقصيدة منها:

سَأَشْكُرُ بَحْراً ذَا عُبَابٍ قَطَعْتُهُ                  إِلَى بَحْرِ جُودٍ مَا لِنَعْمَاهُ سَاحِلُ

إِلَى مَعْدِنِ التَّقْوَى إِلَى كَعْبَةِ الهُدَى          إِلَى مَنْ سَمَتْ بِالذِّكْرِ مِنْهُ الأَوَائِلُ

إِلَيْكَ أَمِيرَ المُسْلِمِينَ وَلَمْ تَزَلْ                 إِلَى بَابِكَ المَأْمُولِ تُزْجَى الرَّوَاحِلُ

" شمس الدین بن منقد نے  بھی اپنے قصیدے میں بطور سلطان ،منصور کی تعریف کی ہے :

            میں اُس ٹھاٹھیں مارتے بپھرے سمندر  کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس سے میں گزر کر آیا ہوں ، اِس ساحل کی طرف جو  بالکل پُرسکون اور مطمئن سمندر کی مانند ہے

            میرے تقوٰی اور رہنمائی کے محور کی طرف، اُس کی طرف جس کا  اس سے پہلے والے بھی  حوالہ   دیا کریں گے

            یہ آپ ہیں  مسلمانوں کے امیر اور آپ  سے امید کا دَر  ہر  اُس کی داد رسی کرتا ہے جو بھی اس سے گزرتا ہے"۔

جو چیز خلافت کی وحدت کے لئے صلاح الدین کے جذبہ اور عباسی خلیفہ ہی کے  شرعی خلیفہ ہونے کےیقین کی تصدیق کرتی  ہیں،  وہ شہاب الدين مقدسی  کی کتاب،   كتاب الروضتين في أخبار الدولتين النورية والصلاحية ،" دو باغوں کی کتاب؛ نورالدین اور صلاح الدین کی حکمرانی کی خبروں سے متعلق "، میں درج روایت ہے،  جس میں وہ خط شامل ہے جو کہ صلاح الدین نے خلافت کے دارالخلافہ ، بغداد کو لکھا تھا۔

کتاب اس کا تذکرہ کرتی ہے جو کہ اس خط میں آیا ہے :   وبلاد أولاد عبد المؤمن فلو أن لها ماء سيف لأطفأ ما فيها من النار إلى أن تعلو كلمة الله العليا وتملأ الولاية العباسية الدنيا، "اگر عبدالمؤمن کی اولادوں کے شہر نے ، وہاں لگی آگ بُجھانے اور اللہ کا نام ہی سب سے بلند کرنے کے لئے ، ایک پانی کی تلوار بھی اُٹھائی ہوتی  تو عباسیوں کا اقتدار پوری دنیا پر چھا جاتا"۔

یہاں صلاح الدین نے عبدالمؤمن کی نسل سے لڑنے کی اجازت طلب کرنا چاہی ہے۔ اُن سے لڑنے کہ وجہ، اُن کا اپنے آپ کو خُلفاء یا امراءالمومنین کہلانے  کے  اعلان کے باعث  بغداد کے خلیفہ کی اطاعت سےعلیحدہ ہو جانا ہے۔

جہاں تک صلاح الدین کا خود خلیفہ کی اطاعت کا تعلق ہے تو انہوں نے ہراس  خط کے آغاز میں ہی اس کا اظہار کیا ہے جو انہوں نے خلیفہ کے ایوان  میں  بھجوائے  اور انہوں نے خود کو ایک وفادار خادم ہی سمجھا۔  

ان اقرارناموں کی ایک جھلک ،  القلقشندي کے انسائیکلوپیڈیا ، صبح العشى" اندھے کی صبح صادق" میں ملتی ہے : الخادم ينتهب ثرى العتبات الشريفة بالتقبيل… في امتثال الأوامر الشريفة التي لم يزل يتسارع إليها ويقارع عليها "وہ خادم جو(خلافت کی) پاک دہلیزوں کی دولت تسلیمات سےسمیٹتا ہے ۔۔۔۔ ان معزز احکامات کی تعمیل میں جن کی خاطر وہ جلدی کرتا ہے اور لڑتا ہے "۔  خط میں یہ بھی لکھا ہے، وحامداً الله الذي جعله من طاعة أمير المؤمنين عند حسن يقينه  "تمام تعریفیں اس  اللہ  واحد کے لئے ہیں جس نے اسے امير المؤمنين کی احسن طریقے سے اطاعت کرنے والا بنایا "۔ 

خط میں یہ بھی بیان ہے، أعلى الله الموحدين على الملحدين، وثبت كلمة المتقين على اليقين، بدوام أيام الديوان العزيز… وألهم الخلق أن يعنونوا بطاعته صحائف الإيمان "اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ توحید والوں کا رُتبہ ملحدوں سے بُلند رکھے، اور نیکوکاروں کا کلمہ  معزز  ایوانوں  کے ایام میں مضبوطی سے قائم رکھے، اور اللہ خلقت کو ایمان کی حلاوت کے ساتھ خلیفہ کی اطاعت کی توفیق دے"۔  

اطاعت کےاقرار کے  صلاح الدین کے بیانات میں سے ایک کو  مقدسی نے یوں بیان کیا ہے، وهذه المقاصد الثلاثة الجهاد في سبيل الله والكف عن مظالم عباد الله والطاعة لخليفة الله هي مراد الخادم من البلاد إذا فتحها، ومَغْنمه من الدنيا إذا مُنحها "یہ تین مقاصد، اللہ کی راہ میں جہاد ، اللہ کے بندوں پر ظلم کو روکنا اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے خلیفہ کی اطاعت کرنا ،اس شہر کے خادم کی مُرادیں ہیں جسے فتح کیا جائے اور یہی دنیا میں اس کا اثاثہ ہے، اگر اسے عطا ہو جائے"۔

صلاح الدین کی رائے کے مطابق امام کے بغیر کوئی معاشرہ نہیں ہو سکتا۔  مقدسی سے بیان کی گئی صلاح الدین  کی تحریروں میں  سے ایک  یہ ہے : أدام الله أيام الديوان العزيز… والأمة مجموعة الشمل بإمامته جمع السلامة لا جمع التكسير "اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ معزز  ایوان کے دنوں کو محفوظ رکھے۔ امت اجتماعی ہے جو امام سے ہی وحدت حاصل کرتی ہے، امت مجموعی طور پر سلامتی سے اکٹھی ہے اور تفریقوں کا ملغوبہ نہیں ہے"۔

صلاح الدین کا  یہ بھی ماننا  تھا کہ قیادت انفرادی ہوتی ہے نہ کہ اجتماعی ۔  مقدسی  ان کے خطوط میں سے  ایک سے نقل کرتے ہیں :  ولا يختار إلا أن تغدو جيوش المسلمين متحاشدة على عدوها، لا متحاشدة بعتوها، ولو أن أمور الحرب تصلحها الشركة لما عز عليه أن يكون كثير المشاركين، ولا ساءه أن تكون الدنيا كثيرة المالكين، وإنما أمور الحرب لا تحتمل في التدبير إلا الوحدة "وہ (خلیفہ) اکیلا ہی مسلمانوں کی فوجوں کو امت کے دشمنوں کے خلاف روانہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے ، نہ کہ کوئی  ظالم اپنی ناانصافی سے۔ اگر جنگوں کے معاملات اجتماعیت سے طے ہونے ہوتے تو  پھر بہت سے شراکت دار ہوتے۔ دنیا کو  اتنا نقصان شاید بہت سے حکمران ہونے سے نہ پہنچے  لیکن جنگوں کے معاملات صرف اور صرف وحدانیت کا تقاضا کرتے ہیں " ۔

یہ متن، اگرچہ قاضی فاضل (صلاح الدین کے مشیرِ اعلیٰ) کی جانب سے لکھا گیا،لیکن  یہ سلطان صلاح الدین    کے زیرِنگرانی ہی تھا۔ قاضی نے صرف سلطان کی رائے کا اظہار کیا  اور اس نے سلطان کی اجازت کو یقینی بنایا  کیونکہ یہ خطوط  ،  خلافت کے دیوان کے لئے، سلطان (خلیفہ) کے نام سے ہوتے تھے۔

خلافت کی وحدانیت کے لئے ، صلاح الدین کے مؤقف کا سب سے زبردست ثبوت  یہ ہے کہ انہوں نے مصر میں فاطمیوں (العبیدیین)کی  خلافت   کاخاتمہ کر دیا ۔   وہ سمجھتے تھے کہ فاطمی بغداد کے خلیفہ،  جس کوصلاح الدین نے بیعت دی تھی ، کے باغی ہیں۔  عبیدیوں نے 357 ہجری میں  ولایہ مصر پر قبضہ کر لیا تھا اور اپنی خلافت کا اعلان کیا تھا، جسے وہ   غلط طور پر اور ڈھٹائی سے فاطمی خلافت کہتے تھے۔ 549 ہجری میں ، عباسی خلیفہ، المقتفی نے  ولایہ مصر کو ، حلب اور دمشق کے والی ،نورالدین زنگی   کو عطا کرتے ہوئے ایک عہد نامہ لکھا اور ان کو حکم دیا کہ وہ مصر کی جانب روانہ ہوں۔ 562 ہجری میں ،سلطان  نورالدین زنگی نے ، اسد دین شیرکوہ کی قیادت میں دو ہزار کا ایک لشکر تیا ر کیا۔  پھر 564 ہجری میں ، شیرکوہ کے بھتیجے، صلاح الدین نے ان کی جگہ لی۔  آخری فاطمی خلیفہ  عدید،  بغداد میں عباسی خلیفہ کے اختیار سے باہر، مصر میں رہتا تھا۔  پھر صلاح الدین نے عدید فاطمی کا اعلان کردہ خطبہ ختم کر دیا اور  567 ہجری میں مصر کو واپس عباسی خلیفہ  کو دے دیا۔   اس طرح ، خلافت ایک ہو گئی اور امت بغداد کے عباسی خلیفہ تلے اکٹھی ہو گئی۔

سال 567ہجری کے واقعہ کے متعلق، امام سیوطی تاریخ الخلفاء" خلفاء کی تاریخ " میں کہتے ہیں :  قال العماد الكاتب: استفتح السلطان صلاح الدين بن أيوب سنة سبع بجامع مصر على الطاعة والسمع، وهو إقامة الخطبة الأولى منها بمصر لبني العباس، وعفت البدعة، وصفت الشرعة، وأقيمت الخطبة العباسية في الجمعة الثانية بالقاهرة إلى أن يقول: وسيَّر السلطان نور الدين بهذه البشارة شهاب الدين بن المطهّر إلى بغداد، وأمرني بإنشاء بشارة عامة تقرأ في سائر بلاد الإسلام، فأنشأت بشارة أولها: الحمد لله معلي الحق ومعلنه، وموهي الباطل وموهنه، ومنها: ولم يبق بتلك البلاد منبر إلا وقد أقيمت عليه الخطبة لمولانا الإمام المستضيء بأمر الله أمير المؤمنين – عماد ، کاتب بیان کرتے ہیں کہ 567ہجری میں صلاح الدین بن ایوب نے  ماہِ محرم کے پہلے جمعہ کو مصر کی جامع مسجد میں لوگوں سے مکمل تابعداری کا مطالبہ کیا اور یہ بنی  عباس کے لئے خطبہ کے قائم ہونے سے تھا۔پس اس طرح بدعت کا خاتمہ ہوا اور شریعت پھیل گئی۔ قاہرہ میں دوسرے جمعہ کو عباسیوں کے لئے یہ  خطبہ پڑھا گیا۔۔۔ پھرسلطان نورالدین نے شھاب الدین مطہر کو خوشخبری کے ساتھ بغداد بھجوایا اور مجھے حکم دیا کہ اسلام کی تمام ولایات میں پڑھنے کے لئے اس پر ایک عوامی اعلانیہ تیار کروں۔ چنانچہ میں نے پُر مسرت اعلان قلم کیا جس کا آغاز یوں تھا:  تمام تعریفیں اللہ عزوجل کے لئے ہیں جو حق کو بلند کرنے والا، اسے ظاہر کرنے والا ، باطل کو ختم کرنے اور اسے  ناکام کرنے والا ہے۔ اس میں یہ بھی شامل تھا: اور اب اُن ولایات میں کوئی بھی منبر ایسا نہیں رہ گیا جہاں ہمارے امام ، امير المؤمنين مستضی بأمر الله ، کے لئے خطبہ نہ پڑھا جائے"۔ مستضی اس وقت کے عباسی خلیفہ تھے۔  

اس خوشخبری کے  جواب  میں خلیفہ نے نورالدین اور صلاح الدین کے لئے تحائف اوراعزازی خلعت بھجوائی اور قاہرہ کے خطیبوں کے لئے  عَلَم اورنشان بھجوائے ۔ انہوں نے عماد، کاتب کو بھی اعزازی خلعت اور سو دینار عطا کئے۔

569 ہجری میں قاہرہ میں، لوگوں کے ایک گروہ نے  عاضدکے گھرانہ کو خلافت لوٹانا چاہی تو صلاح الدین نے انہیں قتل کردیا اور دونوں محلوں کے درمیان سُولی پر چڑھا دیا۔وہ ان کی اس  حرکت کو جُرم عظیم ِسمجھتا تھا  جس سے  مسلم امت تقسیم ہو سکتی تھی۔

جب خلیفہ ناصر عباسی نے خلافت سنبھالی، انہوں نے صلاح الدین کو اعزازی خلعت بھجوائی اور ان کی تکریم میں عہدہ  عطا کیا ۔  صلاح الدین نے انہیں ایک خط لکھا جس میں بیان تھا :  والخادم، ولله الحمد، خلع من كان ينازع الخلافة رداءها، وأساغ الغصة التي أذخر الله للإساغة في سيفه ماءها "آپ کا خادم، تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، اللہ سے دعا ہےکہ وہ جو خلافت میں رخنہ ڈالتے ہیں، اُس پانی میں ڈوب مریں جو اللہ نے اپنی تلوار سے جمع کر رکھا ہے۔۔۔"۔

اس طرح صلاح الدین نے خلافت کی وحدانیت کو  اختیار کیا،  یہ مانتے  ہوئے کہ اگر   ایک ہی وقت میں دو خلفاء کو بیعت  دی جائے تو دوسرے والے کو قتل کر دینا چاہئے ، کیونکہ بیعت صرف پہلےخلیفہ ہی کو دینا فرض ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بتایا ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ القدس کو، جس پر صلیبیوں نے 492 ہجری میں قبضہ کیا تھا، صلاح الدین نے اسے صلیبیوں سے 583 ہجری میں آزاد کرایا،  جب اُنہوں  نے مصر سے عبیدی(فاطمی) خلافت کا خاتمہ کر دیا اور 567 ہجری میں خلافت کی   وحدت حاصل کر لی۔ پس ، مسلمانوں کی طاقت صرف  اُن کی خلافت میں ہی ہے۔  ہم اللہ سبحانہ تعالیٰ سے خلافت ِ راشدہ کی واپسی کی دعا کرتے ہیں تا کہ یہودی وجود کا  اس کی  جڑوں سے خاتمہ ہو سکے، القدس  آزاد ہو  سکے اور یہ ارضِ مقدس مکمل طور پر دارالاسلام میں  واپس بدل جائے۔    

Last modified onپیر, 14 فروری 2022 03:25

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک