الخميس، 19 جمادى الأولى 1446| 2024/11/21
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

قرآنِ مجید زبان دانی کا معجزہ ہے جو نبی محمدﷺ کی رسالت کی تصدیق کرتا ہے

تعارف : قرآنِ مجیدعربی زبان کا معجزہ ہے جس کی مثل لائی نہیں جا سکتی

 

قرآنِ مجید معجزانہ خصوصیات کا حامل ہے۔ لفظ معجزہ ، عجز (بے بسی ، لاچارگی)سے ہے ، یعنی معجزہ وہ ہے کہ انسان اس کی نقل کرنے یا اس جیسی تخلیق کرنے سے قاصر ہو ۔ یہ وہ حتمی تصدیقی ثبوت ہے جو آخری نبی اور رسول ، محمد ﷺ کو ان کے رسالت کی توثیق کے طور پر  عطا کیا گیا۔ جب" اعجاز" کےمفہوم کا اطلاق قرآن پر کیا جائے، تو اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن الہامی طور پر ہی منفرد ہے اور قرآن کا کلام اپنے معیارکے لحاظ سے انسانی صلاحیت سے بالاتر ہے۔ قرآن کایہ چیلنج عرب کے نامور  شاعروں کے سامنے پیش کیا گیا جو کہ عربی زبان پر اپنی فصاحت اور عبور ومہارت کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ اور یہ چیلنج قیامت تک کے لئے ہے۔

 

یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی سنت ہے کہ معجزات رسالت کے حق ہونے کو ثابت کرتے ہیں

اپنے رسولوںؑ کے ذریعے  پہنچائے گئے پیغام کی سچائی کو ثابت کرنا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی سنت ہے۔ پیغام کے سچے ہونے کی توثیق معجزات سے ہوتی ہے، جو ان معاشروں  کے لحاظ سے موزوں ہوتے ہیں جن کے لیے وہ الہامی پیغام بھیجا جاتا  ہے۔ امام  باقلانی اپنی کتاب "إعجاز القرآن" میں بیان کرتے ہیں  "فقد أيد الله جل جلاله موسى عليه السلام وكان عصره عصر سحر بفلق البحر، وانقلاب العصا حية تسعى، وانبجاس الحجر الصلد بعيون الماء الرواء. وأيد عيسى عليه السلام وكان عهده عهد طب بإبراء الاكمه والابرص وخلق الطير من الطين، وإحياء الموتى بإذنه"موسیٰ علیہ السلام کا دور جادوگری کا دور تھا، پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اُس دور میں سمندر کو چیر کر، بے جان عصا کو ایک جاندار اور حرکت کرتے سانپ میں بدل کر اور سخت چٹانی پتھروںسے پانی کے چشمے جاری کر کے موسی ٰ علیہ السلام کی مدد کی۔ عیسی ٰ علیہ السلام کا دور طب میں مہارت کا دور تھااور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اندھے اور کوڑھی کو (بلا علاج)ٹھیک کر کے، مٹی کے پرندے میں جان ڈال کر اور مُردہ کو زندہ کرکے عیسیٰ علیہ السلام کی مدد کی" ۔ 

 

پس ہم دیکھتے ہیں کہ جادوگری کے فن میں مہارت کے دور میں اللہ سبحانہ وتعالی نے موسیٰ ؑ کی ایسے معجزات سے مدد کی  جس کا اپنے فن میں نامور اور مشّاق  بھی مقابلہ نہ کر سکتے تھے۔ چنانچہ  ساحروں  میں سے سب سے ماہر جادو گر، موسیٰ ؑ کے دین پر ایمان لاتے ہوئے سجدے میں گر پڑے۔ اسی طرح، طِب کی مہارت کے دَور میں،  موت، بیماری اور علاج سے تعلق رکھنے والےمعجزات کے ذریعے عیسیٰ ؑ کی مدد کی گئی۔ یہ ایسا چیلنج تھا  جس کا بنی اسرائیل کے ماہر طبیب بھی مقابلہ نہیں کر سکتے پس لوگوں پرعیسیٰ علیہ سلام کے پیغام کی حقانیت واضح ہو گئی۔

 

قرآنِ پاک کے زبان دانی کے معجزے نے رسول اللہ ﷺ کی رسالت کو ثابت کیا

 

جہاں تک آخری پیغمبرؑ، اللہ کے رسول اور ہمارے آقا  محمد ﷺ کا ذکر ہے، وہ اُ س قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے جو عربی زبان پر عبور اور مہارت رکھتی تھی ۔ دیگر معجزات کے علاوہ، جو قرآنِ مجید اور مستند احادیث میں مذکور ہیں ، رسول اللہﷺ کو قرآنِ پاک کا معجزہ عطا کیا گیا جو کہ انسانیت کے لئے بے مثال اور عاجز کر دینے والا تھا۔ دوسرے معجزات کے برعکس، صرف قرآن ِ مجیدکے معجزے ہی کو چیلنج کے طور پر اہلِ مکہ کے سامنے رکھا گیا،تاکہ رسول اللہ ﷺکی رسالت کی توثیق پر مُہر ثبت ہو جائے۔

 

قرآنِ پاک ایک ایسا معجزہ ہے جو کہ تمام انسانیت کوعاجز کر دینے والا اوریکتا و لاثانی ہے کیونکہ یہ تمام انسانیت کے لئے قیامت تک کے لئے محفوظ کردیا گیا ہے۔ امام باقلانی بیان کرتے ہیں: ولما أرسل رسوله محمدا، صلى الله عليه وسلم، إلى الناس أجمعين، وجعله خاتم النبيين - أيده بمعجزات حسية كمعجزات من سبقه من المرسلين، وخصه بمعجزة عقلية خالدة، وهى إنزال القرآن الكريم، الذى لو اجتمعت الانس والجن على أن يأتوا بمثله لم يستطيعوا ولم يقاربوا، ولو كان بعضهم لبعض ظهيرا، "اور جب اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے رسول، محمدﷺ کو تمام انسانیت کے لئے آخری نبی بنا کر مبعوث کیا، تو اللہ سبحانہ وتعالی نے  قابلِ محسوس معجزات کے ساتھ آپ کی مدد کی جیسا کہ آپ سے پہلے آنے والے رسولوں کو معجزات عطا کیے تھے۔ تاہم، آپ  کو ایک ہمیشہ باقی رہنے والاعقلی معجزہ عطا کر کےایک ممتاز مقام عطا کیا ، جوکہ  قرآن ِ پاک کا نزول ہے۔ اگر تمام انسان وجن اِس جیسی کوئی مثال بنانے کے لئے اکٹھے ہو جائیں تو نہیں بنا سکیں گے بلکہ وہ اس کے قریب بھی نہ پہنچ سکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کی مدد ہی کیوں نہ کرلیں"۔

 

قرآنِ پاک جیسا لسانی معجزہ اُس معاشرے کے لحاظ سے بالکل  موزوں تھا جس پر قرآن نازل ہوا۔ امام باقلانی نے لسانی مہارت میں عربوں  کی قابلیت کو تفصیلاً بیان کیا اور ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا کہ جب عربوں کو قرآن کے چیلنج  کا سامنا کرنا پڑا تو وہ کس طرح عاجز و بے بس ہو گئے،بیان کرتے ہیں: وكان ذلك في زمان سما فيه شأن البيان، وجلت مكانته في صدور أهله، وعرفوا باللسن والفصاحة، وقوة العارضة في الاعراب عن خوالج النفوس، والابانة عن مشاعر القلوب. وظل رسول الله صلوات الله عليه، يتحداهم بما كانوا يعتقدون في أنفسهم القدرة عليه، والتمكن منه، ولم يزل يقرعهم ويعجزهم، ويكشف عن نقصهم، حتى استكانوا وذلو "یہ وہ زمانہ تھا جب اظہارِبیان عروج پر تھا اور اس کی قوت لوگوں کے دلوں پر راج کرتی تھی۔ وہ اپنی زبان دانی اوربلاغت کے ساتھ ساتھ نفسانی جذبات کے بھرپور اظہار اور دلوں میں جذبات اُبھارنے کی طاقت کے لحاظ سے جانے جاتے تھے۔ رسول اللہﷺعربوں کو مسلسل اس شے پر چیلنج کرتے رہے جس میں وہ خود کو بہت قابل سمجھتے تھے اور مستحکم تھے۔ اورآپ مسلسل عربوں کوحیران کرتے رہے اور ان کی عاجزی ظاہرکرکے انہیں شرمندہ کرتے رہے یہاں تک کہ ان کی خامی و کمزوری منکشف ہو گئی اوروہ ذلیل ہو کر رہ گئے"۔درحقیقت، عرب اپنی زبان پر عبور و کمال میں اس قدر منہمک تھے کہ انہوں نے  کسی اور معاملے میں کم ہی مہارت حاصل نہیں کی۔

 

یہ اللہ سبحانہ وتعالی کی حکمت تھی کہ آخری نبی، محمدﷺکو ایسا معجزہ عطا کیا گیا جو  آپ کے وصال کے بعد بھی رہتی دنیا تک انسانیت میں موجود ہے۔ ابنِ خلدون   اپنی تصنیف "المقدمہ" میں  قرآن کے معجزہ کے منفرد ہونے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:  فاعلم أن أعظم المعجزات وأشرفها وأوضحها دلالة القرآن الكريم المنزل على نبينا محمد فإن الخوارق في الغالب تقع مغايرة للوحي الذي يتلقاه النبي ويأتي بالمعجزة شاهدة بصدقه والقرآن هو بنفسه الوحي المدعى وهو الخارق المعجز فشاهده في عينه ولا يفتقر إلى دليل مغاير له كسائر المعجزات مع الوحي فهو أوضح دلالة لاتحاد الدليل والمدلول فيه وهذا معنى قوله ما من نبي من الأنبياء إلا وأتي من الآيات ما مثله أمن عليه البشر وإنما كان الذي أوتيته وحيا أوحي إلي فأنا أرجو أن أكون أكثرهم تابعا يوم القيامة يشير إلى أن المعجزة متى كانت بهذه المثابة في الوضوح وقوة الدلالة وهو كونها نفس لوحي كان الصدق لها أكثر لوضوحها فكثر المصدق المؤمن وهو التابع ولأمه، "جان لو کہ قرآنِ کریم جو ہمارے نبی محمد مصطفیٰﷺپر نازل کیا گیا ہے، کا ثبوت اور دلیل، عظیم ترین، پاکیزہ اور واضح ترین معجزہ ہے۔ قاعدے کے طور پر ،معجزات اس وحی کے علاوہ ہوتے ہیں جو ایک نبی پر آتی ہے۔معجزات ، اُس نبی علیہ السلام کی صداقت کے ثبوت کے طور پر ہوتے ہیں اور یہ بالکل  طے بات ہے۔ اس کے برخلاف، قرآنِ مجید، خود ایک وحی ہے، جبکہ یہ اپنے آپ میں ہی  ایک حیرت انگیز معجزہ بھی ہے۔ یہ خود ہی اپنا ثبوت ہے۔ وحی سے منسلک دوسرے معجزات کی طرح اسے کسی بیرونی ثبوت کی  ضرورت نہیں۔  یہ ایک شفاف ترین ثبوت ہےکیونکہ اس میں دلیل اور مدلل دونوں جمع ہو گئے ہیں۔ رسول اللہﷺ کے اس فرمان کا یہی مفہوم ہے ، "«مَا مِن نبيّ من الأنبياء إِلا أُعْطِيَ من الآياتِ ما مثلُهُ آمَنَ عليه البشر، وَإِنَّمَا كانَ الذي أُوتيتُهُ وَحْيا أَوْحَاهُ الله إِليَّ ، فأرجو أن أَكونَ أَكثرَهُم تابعا يومَ القيامةِ»"ہر نبی کو بنی نوع انسان کی یقین دہانی کے لئے بے مثال نشانیاں (معجزات)دی گئیں۔ جو نشانی مجھے عطا کی گئی وہ وحی بھی ہے جو مجھ پر نازل ہوئی۔ اسی لئے میں قیامت کے روز سب سے زیادہ پیروکاروں کی امید کرتاہوں"(بخاری)۔ آپ کا اشارہ اس حقیقت کی طرف تھا کہ ایک معجزہ جو بذاتِ خود وحی بھی  ہو، ثبوت کو اس قدر واضح اور مضبوط کر دیتا ہے کہ اس کے اس قدر واضح ہونے کی وجہ سے ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسے سچا پائے گی۔یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی کثیرتعداد رسول اللہﷺکوسچا مانتی ہے اور اُن پر ایمان رکھتی ہے اور یہی اسلامی امت ہے"۔  

 

عربی زبان کے ماہرین کے لئے قرآنِ کریم کا چیلنج

 

اللہ سبحانہ وتعالی نے عربوں کو قرآن جیسا کلام بنا کر لانے کا چیلنج دیا اور پھر ان کی مایوسی میں اضافہ کرتے ہوئےاس چیلنج کوکم کرکے صرف دس سورتوں  اور پھر صرف ایک  ایسی سورت کا کر دیا جوسورتوں میں سے مختصرترین سورت ہے ،جوصرف تین آیات پر مشتمل ہے۔ مشہور عالم سیوطی اپنی تصنیف، "قرآنی علوم میں مہارت" (الإتقان في علوم القرآن) کی جلد 3، باب 64 میں اس چیلنج کی تاریخ کو یوں قلمبند کرتے ہیں: وَلَمَّا جَاءَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ وَكَانُوا أَفْصَحَ الْفُصَحَاءِ ومصا قع الْخُطَبَاءِ وَتَحَدَّاهُمْ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِهِ وَأَمْهَلَهُمْ طُولَ السِّنِينَ فَلَمْ يَقْدِرُوا كَمَا قَالَ تَعَالَى {فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِهِ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ } ثُمَّ تَحَدَّاهُمْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِنْهُ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى {أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ فَإِلَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا أُنْزِلَ بِعِلْمِ اللَّهِ } ثُمَّ تَحَدَّاهُمْ بِسُورَةٍ فِي قَوْلِهِ: {أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ } الْآيَةَ ثُمَّ كَرَّرَ فِي قَوْلِهِ: {وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّنْ مِثْلِهِ } الْآيَةَ فَلَمَّا عَجَزُوا عَنْ مُعَارَضَتِهِ وَالْإِتْيَانِ بِسُورَةٍتشبهه على كثرة الخطباء فيهم وَالْبُلَغَاءِ نَادَى عَلَيْهِمْ بِإِظْهَارِ الْعَجْزِ وَإِعْجَازِ الْقُرْآنِ فَقَالَ: {قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْأِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيراً }"جب رسول اللہﷺاُن کے سامنے یہ چیلنج لائے ، اس وقت وہ لوگ سب سے زیادہ فصیح تھے، تو آپ نے انہیں چیلنج کیا کہ وہ قرآن جیسا کچھ لا کر دکھائیں، کئی سال گزر گئے مگر وہ ایسا نہ کرسکے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا، ﴿فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِهِ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ"اگر یہ واقعی سچے ہیں تو اس جیسا کلام بنا کر لائیں " (سورۃ الطور: 34) ،پھر انہیں دس سورتوں کا چیلنج دیا گیا، جب اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا، ﴿أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ" کیا یہ کہتے ہیں کہ اس (محمد) نے یہ (قرآن) خود گھڑ لیا ہے۔کہہ دو کہ اگر تم سچے ہو تو اس جیسی دس سورتیں بنا کر لاؤ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علاوہ جس کو مدد کے لئے بلا سکتے ہو ، تو بلا لو،اگر تم سچے ہو"( سورۃ الہود: 13)۔پھر انہیں صرف ایک ہی سورت لانے کا چیلنج دیا، جب اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا،  ﴿أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ﴾ "کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس (محمد) نے یہ (قرآن) خود گھڑ لیا ہے۔تو کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ " (سورۃ یونس:38)۔جب وہ (عرب) قرآن جیسی ایک سورت بھی تیار کرنے سے قاصر رہے حالانکہ ان میں سب سے اعلیٰ پائے کے زبان پر عبور رکھنے والے فصیح و بلیغ موجود تھے تو ان کے چیلنج کو پورا کرنے میں ناکامی نے قرآن کی بے مثالی اور اعجاز کو واضح کردیا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا،﴿قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْأِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيراً﴾ "کہہ دو کہ اگر تمام انسان اور جن اس بات پر جمع ہو جائیں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہ لا سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بھی ہوجائیں"( سورۃ الاسراء:88)۔

 

عہدِ نبوی میں عربی لغت کے ماہرین کی ناکامی

 

شاعری اور نثر، دونوں میں ماہرِ لسانیات کی کثیر تعداد کی موجودگی کے باوجود ، قرآن کے چیلنج کا مقابلہ نہ کیا جاسکا۔ امام باقلانی بیان کرتے ہیں: وقد أدهش القرآن العرب لما سمعوه، وحير ألبابهم وعقولهم بسحر بيانه، وروعة معانيه، ودقة ائتلاف ألفاظه ومبانيه، فمنهم من آمن به ومنهم مكفر، وافترقت كلمة الكافرين على وصفه، وتباينت في نعته، فقال بعضهم، هو شعر، وقال فريق: إنه سحر، وزعمت طائفة أنه أساطير الاولين اكتتبها محمد، فهى تملى عليه بكرة وأصيلا، وذهب قوم أنه إفك افتراه وأعانه عليه قوم آخرون." جب عربوں نے اسے سنا تو قرآن کریم نے انہیں دَنگ کردیا۔اس(قرآن) نے اپنے مسحورکن اندازِ بیان، اپنے معانی کی شان، الفاظ کے احاطے اور امتزاج میں باریکی سے ان کے دل و دماغ کو مسحور کردیا۔ایسے بھی لوگ تھے جو اس پر ایمان لانے والے تھے اورایسے بھی تھے جو اس کا انکار کرنے والے تھے۔ اس کی خصوصیات کے حوالے سے اور اس کی ترکیب کے بارے میں کفار کے مختلف ردِ عمل تھے۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ یہ شاعری ہے اور ایک  گروہ نے کہا کہ یہ سحر ہے جبکہ دوسرے گروہ نے دعویٰ کیا   کہ یہ  قدیم لوگوں کے افسانے ہیں  ، جو محمد ﷺ نے لکھے ہیں  اورجو صبح وشام اُن   کو کوئی لکھوا جاتا ہے۔ جبکہ  بعض لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ یہ جھوٹ ہے جو محمدﷺ نے گھڑلیا ہےاور اس میں اجنبی لوگوں نے ان کی مدد کی ہے"۔

 

جب عرب قرآنِ کریم کو سنتے تھے تو اس کی اعلیٰ و شاندار فصاحت و بلاغت  سے مغلوب  ہوتے چلے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ عربی زبان کے  ماہر، ولید بن مغیرہ نے  رسول اللہﷺ کو جب قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے سنا تو اس نے کہا: والله ما منكم رجل أعرف بالأشعار مني ولا أعلم برجزه وقصيده مني والله ما يشبه الذي يقوله شيئاً من هذا، والله إن لقوله الذي يقوله لحلاوة وإن عليه لطلاوة، وانه لمورق أعلاه مغدق أسفله، وإنه ليعلو ولا يعلى عليه  " اللہ کی قسم! تم میں سے کوئی شخص مجھ سے زیادہ شاعری پر عبور رکھنے والا نہیں یا مجھ سے زیادہ شاعری کے رَجَز (شعر کی ایک بحر کا نام ، اوزان میں سے ایک وزن) یاقصیدہ میں علم نہیں رکھتا ! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایسی کوئی بھی شے نہیں جو  ذرہ بھر بھی اس سے  مشابہت رکھتی ہو جو آپ کہتے ہیں۔ اللہ کی قسم، وہ جو کچھ بھی بولتے ہیں، اس میں شائستگی اور مٹھاس ہے۔ یہ اپنی ابتداء پر فراواں اور وسیع ہے اور انتہا پر تازہ وشاداب ہے ۔ یقیناً یہ سب سے اعلیٰ وبلند ہے اور اس سےاعلیٰ و برترکچھ نہیں"۔ یہ اعتراف اس حقیقت کے باوجود ہے کہ ولیدبن مغیرہ تکبر کے ساتھ اپنے کفر پر ڈٹا رہا۔

غور طلب بات یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں عربی  لسانیات  کے سرِفہرست ماہرین، رسول اللہﷺ کے زمانے میں پائے جاتے تھے۔کوئی بھی قرآن جیسی  ایک بھی سورت  آج تک نہیں بنا سکا اور  سب سے زیادہ علم رکھنے والوں نے تو اس کی کوشش ہی نہیں کی۔ 

 

معجزاتی قرآن کا بے مثال انداز

 

اپنی تصنیف،  إعجاز القرآن میں، امام باقلانی فرماتے ہیں: تأليف القرآن البديع، ووصفه الغريب، ونظمه العجيب، "قرآنِ پاک کی ترکیبی تالیف بے مثال تھی، اسکا وصف ماورائے فطرت  اور اس کانظم غیر معمولی ہے"۔

 

امام خطابی، بيان إعجاز القرآن، میں فرماتے ہیں: اعلم أن القرآن إنما صار معجزًا لأَنه جاءَ بأَفصح الألفاظ في أحسن نظوم التأليف مضمنًا أصح المعاني "جان لیں کہ قرآن معجزانہ طور پر بے مثال ہے کیونکہ یہ سب سے زیادہ فصیح الفاظ کے ساتھ آیا ہے جو کہ سب سے احسن ترکیب میں تالیف کردہ ہیں،اور جوسب سے زیادہ  درست  معانی رکھتے ہیں"۔

 

اپنی کتاب، الإتقان في علوم القرآن(علومِ قرآن میں مہارت) میں امام سیوطی واضح کرتے ہیں کہ کیسے قرآن کے وَبَلَاغَةِ أُسْلُوبٍ تَبْهَرُ الْعُقُولَ وَتَسْلُبُ الْقُلُوبَ وَإِعْجَازُ نَظْمٍ لَا يَقْدِرُ عَلَيْهِ إِلَّا عَلَّامُ الْغُيُوبِ " اسلوب (انداز)نے عقلوں کو حیران کردیا اور دلوں کو مغلوب کردیا جبکہ اس کی ادبی شکل (نظم) کا معجزہ کہ اللہ عالمِ غیب کے سوا کوئی ایسے کلام پر قادر نہیں"۔

 

آیات کے الفاظ، انداز(اسلوب) اور معانی، انسانی جذبات کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ قرآن کا معجزہ اپنی فصاحت و بلاغت میں حیرت انگیز درجہ کا ہے۔

 

فصاحت کے بارے میں کہا جاتا ہے: سلامة الألفاظ من اللَّحْن والإبهام وسوءِ التأَليف، "الفاظ گرامر کی غلطی، ابہام اوربری ترتیب سے پاک ہوں"۔

 

بلاغت کے بارے میں کہا جاتا ہے: عِلْمُ البَلاغَةِ: عِلْمُ الْمَعانِي والبَيانِ والبَديعِ " بلاغت کا علم یہ ہے: علمِ بلاغت، علمِ معانی اور خطابت کا علم "۔ علم معانی سے مراد  ہےایسے مناسب الفاظ کا  چناؤ جن کے اندر موجود معانی لغوی ترکیب کے اعتبار سے، مقصود تصور کے اظہار کیلئے  انتہائی موزوں ہوں۔ بیانکا علم،  سننے والے اور اس کے حالات  کے مطابق مناسب الفاظ استعمال کرنے  سے متعلق ہے ، اس اصول کی بنا پر کہ جملے کا مقصدو مقصود کیا ہے۔ صراحت (بدیع) کا علم، معانی اور الفاظ دونوں کے ذریعے، کلام  کی وسعت و جمال   کے متعلق ہے تا کہ اس کے اثر کی مضبوطی جاندار ہو۔ 

 

اسلوب معانی کو مربوط الفاظ کے ذریعے ترتیب دینا ہے۔ اسلوب زبان کے ذریعے معنی کو  ایک شکل دینے کا طریقہ ہے۔ قرآن کے اسلوب  میں ایسی شفاف وضاحت ، قوت اور جمال ہے کہ بنی نوع انسان اس پر قادر نہیں۔اس کی ادبی شکل (نظم) ، عربوں کے رائج انداز کے مطابق نہیں اور یہ لاثانی ہے ۔ اپنے نظم(ادبی شکل) میں، قرآن عربوں کی اختیار کردہ  نثر اور شاعری  میں سے کسی چیز سے مماثل نہیں۔

 

قرآن کے معجزاتی اسلوب میں موجود شفافیت (وضوح) کے وصف کی تفصیل:

 

اسلوب میں شفافیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جب  اظہار کے لیے مناسب ترین الفاظ/ اظہارِ بیان اختیار کرنے سے  مقصود معانی نمایاں ہو جائیں ۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا،﴿وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآَنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ" اور کافر کہیں گے، اس قرآن کو سنا ہی نہ کرو اور غُل مچا دیا کرو (جب وہ پڑھنے لگیں)،  شاید کہ  تم غالب ہو جاؤ  " (سورۃ فصّلت : 26)۔ اس آیت کی تفسیر میں، ابنِ کثیر  کہتے ہیں: وكانوا إذا تلي عليهم القرآن أكثروا اللغط والكلام في غيره، حتى لا يسمعوه، "اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا تھا تو وہ شور شرابااور ادھر ادھر کی باتیں شروع کردیتے تھے تا کہ وہ اسے سن ہی نہ سکیں"۔

 

﴿وَالْغَوْاْ فِيهِ﴾، "شور شرابا کرنے" کے حوالے سے امام مجاہدتبصرہ کرتے ہیں: الْمُكَاءُ وَالتَّصْفِيرِ، وَتَخْلِيطٌ مِنَ الْقَوْلِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ، قُرَيْشٌ تَفْعَلُهُ، " رسول اللہﷺجب قرآن کی تلاوت کرتے تو مشرکین سیٹیاں بجاتے، آوازیں لگاتے اور قہقہے لگاتے اور قریش نے ایسا ہی کرتے تھے"۔ ابنِ عباسؓ نے اس کی تفسیر کی ہے کہ یہ (عيبوه) ہے یعنی وہ عیب نکالنے لگتے تھے۔ 

 

درحقیقت، قرآن کے شفاف اندازِبیان نے عرب کی مہارتِ زبان کو زک پہنچائی اور وہ اپنی سماعت کو اور چیزوں پر مرکوز کرنے پرمجبور ہو گئے کہ  کہیں ایسا نہ ہو کہ قرآن ان پر غالب آ جائے۔

 

امام باقلانی قرآن ِ پاک کی زبردست شفافیت کے حوالے سے کہتے ہیں: فما أشرفه من كتاب يتضمن صدق متحمله، ورسالة تشتمل على قول مؤديها. بين فيه سبحانه أن حجته كافية هادية، لا يحتاج مع وضوحها إلى بينة تعدوها، أو حجة تتلوها، وأن الذهاب عنها كالذهاب عن الضروريات، والتشكك في المشاهدات، "اس کتاب کے عزت و شرف کے اعلیٰ ترین ہونے کیا کہنے، جو  اپنے لانے والے کی سچائی کی ضامن ہےاور اس کا پیغام ہدایت دینے والے کے الفاظ پر مشتمل ہے۔ اُس  ذاتِ پاک  نے  دلائل واضح کئے جو ہدایت کے لئے کافی ہیں۔ اس کلامِ ربی کی شفافیت و وضاحت کے لیے مزید کسی وضاحتی ثبوت یا دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ اس سے انحراف ،ایک بدیہی چیز کو ترک کردینے  اور واضح حقیقت پرشک کرنے کے مترادف ہے"۔  

 

قرآن کے معجزاتی اسلوب میں موجود قوت کے وصف کی تفصیل :

 

عربی نہ صرف گرامر کے لحاظ سے ایک پیچیدہ اورباریک زبان ہے بلکہ یہ ایک صوتی اثرات پیدا کرنے والی زبان ہے، جہاں الفاظ صوتی اثرات پیدا کر کے اپنا مفہوم اور معانی بالکل واضح  انداز سے بیان کردیتے ہیں۔ 

 

قرآن کے اسلوب میں موجود قوت الفاظ کے لاثانی انتخاب کی وجہ سے ہے جواُن معانی سے مطابقت رکھتے ہیں جو وہ الفاظ دیتے ہیں۔

 

قرآن میں رقیق معانی کا اظہار رقیق آواز والے الفاظ کے ذریعے ہوا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا،﴿وَيُسْقَوْنَ فِيهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنجَبِيلًا (17) عَيْنًا فِيهَا تُسَمَّىٰ سَلْسَبِيلًا﴾ "اور اُن کو وہاں ایسے جام پلائے جائیں گے جن میںزنجبیل  کی آمیزش ہو گی، اور وہاں(بہشت میں) ایک چشمہ ہے، جس کا نام سلسبیل ہے " (سورۃ الانسان : 17-18) ۔

 

فراوانی (جَزْل)کے معانی کا اظہار،کانوں کو فراوانی کا احساس دینے والے الفاظ کے ذریعے کیا گیا ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا، ﴿إِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا (21) لِّلطَّاغِينَ مَآبًا (22) لَّابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا﴾ "بے شک جہنم گھات میں ہے، سرکشوں کا ٹھکانہ ہے۔ وہ وہاں مدتوں پڑے رہیں گے " (سورۃ النباء :21-23) ۔

 

مذمت (مُسْتَنْكَر)کا اظہار اُن الفاظ کے ذریعے کیا گیا ہے جو سننے میں غیر خوشگوار ہوں۔اللہ سبحانہ وتعالیٰنے ارشاد فرمایا، ﴿إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ﴾ "بے شک آوازوں میں سب سے ناپسندیدہ آواز گدھے کی آواز ہے" (سورۃ لقمان  : 19)۔

 

قرآن کے اسلوب میں موجود جمال کا بیان:

 

جہاں تک اسلوب میں جمال کا تعلق ہے،  یہ ان معانی کے لئے خالص ترین اور موزوں ترین الفاظ کےچناؤ کے نتیجے میں ہے۔ جو معنی یہ الفاظ بیان کرتے ہیں  اور اس کے ساتھ اسی جملے یا اس سے متصل جملوں میں دوسرے الفاظ اور معانی مل کرایک انتہائی انگیزاور دل میں اترجانے والی منظر کشی کرتے ہیں۔

 

اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا، ﴿رُّبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ (2) ذَرْهُمْ يَأْكُلُوا وَيَتَمَتَّعُوا وَيُلْهِهِمُ الْأَمَلُ ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ﴾ "ایک وقت آئے گا کہ وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا، آرزو کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے۔ (اے محمد) اُن کو ان کے حال پر ہی رہنے دو کہ کھائیں اور بَرت لیں اور ان کی آرزوئیں انہیں مشغول رکھیں، عنقریب وہ (اس کا انجام) جان لیں گے " (سورۃ الحجر : 2-3) ۔

 

امام باقلانی نے قرآن کے کلام کے جمال کے حوالے سے کہا: والمنادى على نفسه بتميزه، وتخصصه برونقه وجماله، واعتراضه في حسنه ومائه "اس(قرآن) کی انفرادیت و رونق، اسکی جاندار وضاحت (جمال)، اس کا کمال اور روانی کا اظہار خود اعلان کرتے ہیں"۔ امام باقلانی مزید کہتے ہیں: فكل كلمة لو أفردت كانت في الجمال غاية "ہر ہر لفظ،  خواہ وہ ایک اکیلا لفظ ہی کیوں نہ ہو، اپنے جمال میں اعلیٰ ترین درجے پر ہے"۔

 

سید قطب اپنی مفصل اور بصیرت انگیز تصنیف،) التصور الفني في القرآن ("قرآن کے فن کی عکاسی" میں بیان کرتے ہیں: فانظر إلى تعبير جميل كهذا التعبير: {وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ}. هذا التعبير الذي يرسم صورة حية للخزي في يوم القيامة، ويصور هؤلاء المجرمين شخوصًا قائمة يتملاها الخيال، وتكاد تبصرها العين لشدة وضوحها، وتسجيل هيئتها "ناكسو رؤوسهم" وعند من؟ "عند ربهم" فيخيل للسامع أنها حاضرة لا متخيلة.. هذه الصورة للهول لا تساوي من باحث في البلاغة۔ " اظہار کے جمال کی مثال کے طور پر اس جملے کے اندازِ منظر کشی پرغور کریں{وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ} "اور تم (تعجب کرو) جب دیکھو گے کہ گنہگار اپنے پروردگار کے سامنے سر جھکائے ہوں گے" ( سورۃ السجدہ  : 12) ۔یہ اظہار، قیامت کے دن کی رسوائی کی ایک لرزتی ہوئی عکاسی کرتا ہے۔ اس منظر  میں وہ مجرم ، اس طرح  پچھتاتے ہوئے ظاہر ہوتے ہیں کہ منظر تخیل پر چھا تا چلاجاتا ہے۔ وضاحت کی شفافیت کی وجہ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ  آنکھیں نہ صرف  وہ حقیقت دیکھ رہی ہیں بلکہ اُن کی حالت بھی ظاہر ہورہی ہے جیسے کہ، نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ " اپنے سر جھکائے ہوئے"، اورکس کے سامنے ؟ عِنْدَ رَبِّهِمْ، " اپنے رب کے سامنے"۔ چنانچہ سننے والا محسوس کرتا ہے کہ وہ اس منظر میں موجود  ہے اور یہ کوئی تخیل نہیں۔  اس  ہولناکی کی ایسی  منظر کشی  کا وضاحت و بلاغت میں کوئی ثانی نہیں ۔

 

قرآن کی ادبی تشکیل

 

قرآنِ پاک نے عربی زبان کے ماہرین کو شعر اورنثر کے اظہار کی معروف اقسام (طِرَاز) کے برعکس   قرآن کی اپنی  صنفِ تحریر کے اظہار سے شش وپنج میں ڈال دیا اور یہ امرآج تک تمام انسانیت کیلئے باعثِ حیرت ہے۔  امام سیوطی اپنی تصنیف، (الإتقان في علوم القرآن) "قرآن کے علوم میں مہارت" میں لکھتے ہیں: إِعْجَازُ نَظْمٍ لَا يَقْدِرُ عَلَيْهِ إِلَّا عَلَّامُ الْغُيُوبِ "یہ ادبی طرز کا ایسا معجزہ ہے جس پر کوئی قادر نہیں، سوائے عالمِ غیب (اللہ)کے"۔

 

اپنی ادبی طرز (نظم) میں قرآنِ پاک ہم آہنگ اور بالترتیب تال جیسی شاعری (الشِعْر المَوْزُون المُقَفًّى) کے روایتی طریقے کی پیروی نہیں کرتا۔   

 

جہاں تک نثر کی اقسام کا تعلق ہے، تو قرآنِ پاک آزاد ،غیر منظوم نثر (النَثْر المُرْسَل) کے طریقے پر بھی نہیں ہے۔ قرآن انسان کے بنائے ہوئے النَثْر المُزْدَوِج (شاعری اور آزاد نثر کے امتزاج) کے طریقے کے مطابق بھی نہیں ہے۔ مزدوج  طریقے کی تشریح یوں ہے: يقوم هذا الأسلوب على تقسيم العبارات، وبراعة الموازنة بين الجمل؛ إذ تتعادل فيه الألفاظ، وتزدوج الجمل في تنسيقٍ منتظم، يتراوح بين الإيجاز والمساواة والإطناب، بحسب مقتضى الحال، "یہ طریقہ عبارت کی تقسیم کی بنیاد پر ، جملوں کے متناسب توازن پر مشتمل ہوتا ہے۔  الفاظ توازن میں ہوتے ہیں اور جملے باقاعدہ ترتیب سے اختصار(إيجاز)، برابری (مُسَاوَاة) اور طول و مبالغہ(إِطْناب ) کے ساتھ دہرائے جاتے ہیں، چاہے جو بھی موقع محل ہو"۔اسی طرح قرآن قافیہ بند نثر(النَثْر المَسْجُوع) کے مطابق بھی نہیں ہے۔

 

قرآنِ پاک ایک  ایسا منفرد کلام ہے جو عربوں نے اس سے پہلے نہ تو کبھی  دیکھا تھا اور نہ ہی اس کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ یہ حقیقت ، کہ قرآن مجید ایک نوعِ خاص  اور منفرد شاہکار ہے، ہر لحاظ سے واضح ہے اور یہ ایک ایسے  نرالے انداز سے  وضاحت و عکاسی کرتا ہے کہ جس کی مثل نوعِ انسانی کر ہی نہیں سکتی۔

 

نثر کی ایک مخصوص قسم جو  شاعری سے ملتی جلتی مگر شاعری نہیں ہے

 

قرآنِ پاک میں ایسی نثرملتی ہے جو شاعری سے مماثلت  تو رکھتی ہے مگر یہ شاعری نہیں ہے  اور نثر کی ہی ایک مخصوص قسم ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے،﴿وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ﴾ "(اللہ) انہیں رُسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور مومنین کے سینوں کو شفا بخشے گا "(سورۃ التوبہ: 14)۔قرآنِ مجید میں ہے، ﴿لنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ "تم ہرگز نیکی(الْبِرَّ) کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک کہ تم اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہے" (سورۃ آل عمران: 92)۔ان دونوں آیات میں موجود نثر کے الفاظ اشعار کی صورت میں پیش کیے جا سکتے ہیں۔ پہلی آیت کے الفاظ ایسے پیش کیے جا سکتے ہیں:ويـخـزهم وينـصـركم عليهم، ويشـف صـدور قـوم مؤمنـين۔ دوسری آیت کے الفاظ ایسے پیش کیے جا سکتےہیں:لــن تـنـــالـوا الـبــــر حــتــى، تـنــفــقــوا مـمــا تـحـــبــون۔ تاہم یہ اشعار نما قافیے شاعری نہیں ہیں۔  بلکہ درحقیقت، یہ نثر کی ایک ایسی مثل ہیں جو کہ انتہائی نرالی اور بے مثال ہے۔

 

اسی طرح قرآن کی نثر کی وہ قسم بھی موجود ہے جو  ہر لحاظ سے شاعری سے کوسوں دور ہے:﴿وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا الطَّارِقُ (2) النَّجْمُ الثَّاقِبُ (3) إِن كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ (4) فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ (5) خُلِقَ مِن مَّاءٍ دَافِقٍ (6) يَخْرُجُ مِن بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ﴾ "قسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہونے والے کی ، اور تم کو کیا معلوم کہ رات کو نمودار ہونے والا کیا ہے۔وہ تارا ہے چمکنے والا، کوئی نفس ایسا نہیں جس پر  کوئی نگہبان مقرر نہ ہو، تو انسان کو دیکھ لینا چاہئے کہ وہ کس چیز سے پیدا ہوا ہے۔ وہ ایک اچھلتے ہوئے  پانی سے پیدا ہوا ہے جو پیٹھ اور سینے کے بیچ(یعنی دونوں کے ملنے کے نتیجے) میں سے نکلتا ہے" (سورۃ  الطارق:1-7) ۔

 

قرآن کی ادبی نوع میں فقرہ اور نَفَس (سانس) کو طویل یا مختصر کرنا

 

قرآنِ پاک میں جملے اورجملے کے حصوں پر مشتمل پیراگراف یا تحریر کے ٹکڑے موجودہیں۔ ان کا طُول یا اختصار تحریر میں بدلتا رہتا ہے۔  تحریر کے ساتھ  تلاوت کے دوران سانس کا ایک نظم ہے، جس سے   قاری ایک ہی سانس میں تلاوت کر لیتا ہے۔

 

   قرآن مجید میں نثر کی ایسی قسم موجد ہے  جس میں تحریر اور نفس دونوں طویل ہیں:﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا﴾ " اور نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور جب یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے تو آپ کے پاس آ جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے تو یقیناً وہ اللہ کو بڑا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا پاتے" (سورۃ  النساء  :64) ۔ اسی طرح قرآن مجید میں ہی نثر کی ایسی قسم بھی موجود ہے  جس میں فقرے اور سانس کو  مختصر کیا گیا ہے: ﴿وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا (1) وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاهَا (2) وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّاهَا (3) وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَاهَا﴾ " قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی۔ اور چاند کی جب وہ اس کے پیچھے چلے۔ اور دن کی جب وہ اسے روشن کردے۔ اور رات کی جب وہ اس پر چھا جائے " ( سورۃ  الشمس :1-4)۔ درج بالا دونوں مثالوں میں  طُول اور اختصار کے باوجود یہ نثر ہی کی مثالیں ہیں ۔ 

 

علاوہ ازیں، قرآنِ پاک کی وہ تحریرجو  موجود انسانی  تشکیل کردہ آزاد، غیر منظوم نثر(النَثْر المُرْسَل) سے مشابہ معلوم ہوتی ہے، اس میں بھی قرآن بے مثل ویکتا ہے۔جیسا کہ قرآن یہ آیت: ﴿يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آَمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوبُهُمْ وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آَخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهِ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ وَإِنْ لَمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا وَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا أُولَئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآَخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾ "اے  رسول! آپ کو وہ لوگ غمگین نہ کریں جو کفر میں جلدی کرتے ہیں،  ان لوگوں میں سے  جو  اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ   ہم ایمان لائے جبکہ ان کے دل ایمان نہیں لائے۔ اور ان لوگوں میں سے جو یہودی ہیں ، جُھوٹی باتوں پر کان لگانے والے ہیں ، جاسوسی کرتے ہیں ان دوسرے لوگوں کے لئے جو تمہارے پاس نہیں آئے۔ اس کے مقام میں ثابت  ہونے کے بعد ، کلام میں تحریف کردیتے ہیں۔ کہتے ہیں اگر تم کو یہی (حکم) دیا جائے تواسے قبول کر لینا اور اگر نہ دیا جائے تو بچتے رہنا۔ اور اللہ جس کو چاہے کہ اسے فتنے میں ڈالے تو تم اللہ کے مقابلے میں ہرگز اسکے لئے ذرا بھی اختیار نہیں رکھتے۔ یہی وہ لوگ ہیں   کہ اللہ نے نہیں چاہا کہ ان کے دلوں کو پاک کرے۔ ان کے لئے دنیا میں ذلت ہے اور آخرت میں عذابِ عظیم ہے" ( سورۃ  المائدہ  :41)۔

 

قرآنِ پاک کی ادبی شکل میں قافیہ بند نثر

 

قرآن پاک کی کچھ آیات کی خطابت میں (النَثْر المَسْجُوع)قافیہ بند نثرسے مشابہت محسوس ہوتی ہے مگر یہ اس سے بھی یکتا ولاثانی ہے۔ قرآن میں بیان ہے:﴿يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُن تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ﴾ " اے چادر میں لپٹے ہوئے، اٹھو! پھر خبردار کرو۔ اور اپنے رب کی پھر بڑائی بیان کرو۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔ اور (شرک کی) گندگی سے تو الگ ہی رہو۔ اور زیادہ لینے کی غرض سے احسان نہ کرو۔ اور اپنے رب کی خاطر صبر کرتے رہو"( سورۃ  المدثر  :1-7

 

قرآنِ پاک کی کچھ آیات کی النَثْر المُزْدَوِج(شاعری اور آزاد نثر کے امتزاج ) سے مماثلت محسوس ہوتی ہے، لیکن یہ اس سے بھی الگ اور بے مثال ہے ۔ جیسے قرآن میں ذکر ہے :﴿أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ (1) حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ (2) كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ (3) ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ (4) كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ (5) لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ﴾ " غفلت میں ڈالے رکھا تم کو زیادہ سے زیادہ مال کی حسرت نے، یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں ۔  بے شک تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا، پھر ہرگز نہیں ، تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا،  بے شک اگر تم علمِ یقین سے جانتے  (تو غفلت میں نہ پڑتے)۔ تم ضرور دوزخ کو دیکھ لو گے"  (سورۃ  التکاثر:1-6

قرآن جس شے میں انسانی  اُزْدَوِجسے مشابہت رکھتا ہےتو یہ(قرآن) اس میں ایسے بے عیب طریقے سے لفظی ترکیب کو بڑھا دیتا ہے کہ  سننے والا ششدر رہ جاتا ہے : ﴿قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ (17) مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ (18) مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ (19) ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ (20) ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ (21) ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ (22) كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَا أَمَرَهُ (23) فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ إِلَىٰ طَعَامِهِ (24) أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا (25) ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا (26) فَأَنبَتْنَا فِيهَا حَبًّا (27) وَعِنَبًا وَقَضْبًا (28) وَزَيْتُونًا وَنَخْلًا (29) وَحَدَائِقَ غُلْبًا (30) وَفَاكِهَةً وَأَبًّا﴾ "انسان ہلاک ہوجائے، یہ کیسا ناشکرا ہے۔ (اللہ نے اسے) کس چیز سےبنایا، نطفہ سے اسے بنایا ۔ پھر اس کا اندازہ مقرر کیا، پھر اس کے لئے راستہ آسان کردیا۔ پھر اس کو موت دی ، سو اسے قبر میں پہنچا دیا ۔ پھر وہ جب چاہے گا، اسے اُٹھا کھڑا کرے گا۔ کچھ شک نہیں کہ اسے جو حکم دیا گیا، اس نے اس پر عمل نہ کیا تو انسان کو چاہئے کہ اپنے کھانے کی طرف نظر کرے ۔ بے شک ہم نے فراوانی سے پانی برسایا، پھر ہم ہی نے زمین کو اچھی طرح پھاڑا ۔ پھر ہم نے اس میں اناج اُگایا، انگور اور ترکاری،  اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے باغات  اور میوے اور چارہ " ( سورۃ  عبس :17-31

 

ایک منفرد انداز میں قرآنِ پاک، ایک مخصوص قافیہ بندی میں آگے بڑھتا ہے اور پھر انتہائی روانی سے ایک اور قافیہ اختیار کرلیتا ہے۔ تو جیسا کہ درج ذیل آیتِ کریمہ میں ﴿فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ (8) فَذَٰلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ (9) عَلَى الْكَافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ﴾ " پھر جب صور پُھونکا جائے گا تو وہ دن مشکل کادن ہو گا۔ کافر وں پر آسان نہ ہو گا" ( سورۃ  المدثر : 8-10)، قرآن ایک قافیہ بندی اختیار کرتا ہے لیکن اس کے فوراً بعدکی آیت میں ایک نئی قافیہ بندی کرتے ہوئے  پچھلے ترنم کو ترک کر دیتا ہے۔ قرآن میں ہے :  ﴿ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا (11) وَجَعَلْتُ لَهُ مَالًا مَّمْدُودًا (12) وَبَنِينَ شُهُودًا (13) وَمَهَّدتُّ لَهُ تَمْهِيدًا (14) ثُمَّ يَطْمَعُ أَنْ أَزِيدَ (15) كَلَّا ۖ إِنَّهُ كَانَ لِآيَاتِنَا عَنِيدًا (16) سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا﴾ " ہمیں اُن سے نمٹ لینے دو جسے ہم نے اکیلے ہی پیدا کیا اور میں نے اسے مالِ کثیر دیا اور (ہر وقت اس کے پاس) حاضر رہنے والے بیٹے دیے اور ہر طرح کے مال میں وسعت دی ، پھر بھی لالچ رکھتا ہے کہ میں مزید اور دوں ، نہیں بلکہ وہ ہماری آیتوں (نشانیوں) کوجُھٹلاتا رہا ہے، جلد ہی ہم اُسے صعود پر چڑھائیں گے " (سورۃ  المدثر :11-17)۔ پھر قرآن فوراً ہی اس کے بعد والی آیت میں اور طرز میں بدل جاتا ہے:﴿إِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّرَ (18) فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ (19) ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ (20) ثُمَّ نَظَرَ (21) ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ (22) ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ﴾ "یقیناً اس نے غوروفکر کیا اور ایک بات ٹھہرالی تو پھر وہ مارا جائے کہ اس نے کیسی بات ٹھہرا لی ۔ پھر اُ س نے تامل کیا، پھر تیوری چڑھائی اور منہ بِگاڑا۔ پھر پیٹھ پھیر کر چلا اور تکبّر کیا "( سورۃ  المدثر :18-23

 

درحقیقت، قرآنِ پاک نے ہر زمانے کے عربی زبان کے ماہرین کو حیرت زدہ کیا۔ یہ انسانوں کی لسانی ساخت سے مشابہت تو رکھتا ہے مگر یہ انہی اقسام میں ایسا بے مثل ہے کہ یہ اُن تمام لوگوں کو مایوس کردیتا ہے جنہوں نے اس جیسا بنانے کی کوشش کی، بلکہ قابل  ترین لوگوں نے تو کوشش کرنے کی جرأت  ہی  نہیں کی۔ 

 

قرآنِ پاک میں عبارت اور ادبی ساخت کا امتزاج

 

بے شک قرآن کے اسلوب میں وہ وضاحت،قوت اور جمال ہے جس کا مقابلہ انسان نہیں کرسکتا۔  اس کے علاوہ اس کی عبارت گوئی ایسی ہے  جس کا اختصار، طُول اور نظم پوری انسانیت کے لئے بے مثل ہے۔ قرآنِ کریم ادبی ساخت میں  معانی، مفہوم اور تکرار کو ایک ساتھ انتہائی حیرت انگیز امتزاج سے جمع کرتا ہے۔

 

جہاں لطیف معانی مطلوب ہوں،تو قرآن میں نرم لہجےوالے جملوں میں باریک آواز والے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ قرآن ِ پاک میں ہے: ﴿إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا (31) حَدَائِقَ وَأَعْنَابًا (32) وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا (33) وَكَأْسًا دِهَاقًا﴾ "بے شک پرہیزگاروں کے لئے کامیابی ہے، باغات اور انگور۔ اور ہم عمر اور جوان عورتیں، اور شراب کے چھلکتے ہوئے جام" ( سورۃ  النبأ :31-34

 

جہاں معانی میں جَزْلمطلوب ہو تو قرآنِ پاک میں زبردست اور بھاری بھرکم(فَخْم) الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ قرآنِ پاک میں ہے: ﴿إِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا (21) لِلطَّاغِينَ مَآَبًا (22) لَابِثِينَ فِيهَا أَحْقَابًا (23) لَا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا (24) إِلَّا حَمِيمًا وَغَسَّاقًا (25) جَزَاءً وِفَاقًا﴾ "بے شک جہنم گھات میں ہے، سرکشوں کے لئے ٹھکانہ ہے۔  (وہ) اس میں مُدتوں پڑے رہیں گے ، نہ ہی ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے اور نہ ہی کچھ پینا نصیب ہو گا  مگر کھولتا ہوا پانی اور بدبودار پیپ۔ یہ (اُن کے اعمال کا) پُوراپُورا بدلہ ہے "( سورۃ  النبأ :21-26

 

معانی، ایسے اظہارِبیان کے ساتھ وارد ہوئے ہیں جو  مفہوم کی اثر انگیزی کو بڑھاوادے دیتے ہیں ، ایک ایسے ادبی انداز کے ذریعے کہ جس کا ترنم  دل پر اثرانداز ہوتا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک اپنے سننے والے میں اتنے طاقتور جذبات بھڑکاتا ہے ۔ جو عربی معانی کی سمجھ رکھتے ہیں ، قرآن اپنی فصاحت و بلاغت کے ساتھ معنی کی سمجھ میں مزید اضافہ کردیتا ہے ۔یہ انسان کو ایسے حیران اور مغلوب کر دیتا ہے کہ عربوں کے اولین  دور کے کچھ ماہرینِ لسانیات اپنے کفر پر اٹل ہونے کے باوجود اس کی برتری اور عظمت کا انکار نہ کر سکے۔

 

الفاظ اور جملوں  میں حروف اور ان کی آوازوں کا ٹھیک ٹھیک دھیان رکھنا

 

حُرُوف تہجی کو اکٹھا مرتب کرتے وقت قرآنِ پاک میں ان حروف سے پیدا ہونے والی  آوازوں کا بے عیب دھیان رکھا گیا ہے ۔

 

مخارج ، حروفِ تہجی کے ادائیگی کے لئے نکلنے والی آواز کا مقام یا جگہ ہیں۔ ان کا تعین منہ ، ناک یا حلق کی حرکت کے مطابق  کیا جاتا ہے کہ جہاں سے حرف کی آواز نکلتی ہے۔ مخارج ، اعضائے تلاوت کی درست جگہ بیان کرتے ہیں  تا کہ ایک حرف دوسروں سے ممتاز ہو۔  قرآن مجید کی تجوید کے لئے مخارج کا درست استعمال بہت ضروری ہے۔

 

قرآن پاک میں ایک لفظ یا جملے میں وہ حروف  ایک دوسرے کے قریب رکھے گئے ہیں جو تلفظ  کے لحاظ سے ایک دوسرے کے قریب  ہیں۔ لہٰذا اس آیتِ مبارکہ میں،﴿أو كَصَيِّبٍ مِنَ السَّمَاءِ فِيهِ﴾ "یا جیسے آسمان سے مینہ برس رہا ہو " ( سورۃ  البقرۃ : 19)، قرآن نے یہ نہیں کہا، كالباعِق المُتَدَفِّق "جیسے لگاتار بارش" بلکہ یہ کہا ہے، " كَصَيِّبٍ، " زور کی بارش"۔ قرآنِ پاک میں ہے کہ،﴿عَالِيَهُمْ ثِيَابُ سُندُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ﴾" اُن (کے بدن) پر باریک ریشم کے سبز اور اطلس کے کپڑے ہوں گے" (سورة الانسان : 21)۔ یہاں پر سُندُسٍ خُضْرٌ استعمال ہوا ہے،بجائے اس کے کہالهُعْخع استعمال ہوتا، جو معنی میں تو اس کے مساوی ہے لیکن تلفظ میں اس کے قریب نہیں ہے۔

 

جہاں حروف کے تلفظ کے مقامات کے درمیان فاصلہ ہوتواس کے درمیان حروف لائے گئے ہیں جو تغیر میں سلیقہ کی عدم موجودگی کو ختم کرتا ہے۔ جہاں حروف کے درمیان تلفظ کی وجہ سے دوری ضروری ہو،تو یہ اس کے مفہوم کو سمجھانے کے لئے موزوں ترین حروف کے استعمال سے کیا گیا ہےاور قرآنِ پاک میں ایسا انتہائی باریکی سے ہوا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے: ﴿تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَىٰٓ﴾ "یہ تو پھر بڑی بے انصافی کی تقسیم ہوئی" (سورة النجم  : 22)۔ قرآن میں لفظ ، ضِيزَى،استعمال ہوا ہے نہ کہ اس کے مترادف الفاظ، ظَالِمَة اور جائِرٌ ۔

 

تلفظ کی باریکی کے ساتھ ساتھ قرآن مجید عبارت میں ایک مخصوص حرف کو خوشگوار اور سننے میں ہلکا بناتا ہے جوجب دُہرائے جاتے ہیں تو لگتا ہے جیسے شاعری پڑھتے ہوئے ردیف ہم آہنگ ہوں۔ جو حروف ردیف کے سےاثرات پیدا کریں، آیات میں واضح طور پر کثرت  سے ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر آیت الکرسی : ﴿اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ﴾"اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ زندہ ہے  ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اسے نہ اُونگھ آتی ہے نہ نیند، جو کچھ آسمانوں میں  اور جو زمین میں ہے سب اُسی کا ہے، کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کرسکے، وہ  سب حالات جانتا ہے جو موجودہ ہیں  اور جو  کچھ گزرچکے ہیں،   اور وہ اسکے علم میں سے کسی  شے پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے  مگر جس قدر وہ چاہے، اُسی کی بادشاہی (کرسی) نے آسمانوں اور زمین کو گھیرے میں لے رکھا ہے  اور اُس پر ان کی حفاظت کچھ دُشوار نہیں، اور وہ عالیشان اور عظیم الشان ہے" (سورة البقرۃ  : 255)۔

 

آیت الکرسی میں حرف،  "ل"، 23 مرتبہ ایسے خوشگوار اور ہم آہنگ انداز سے دُہرایا گیا ہے  جو سُننے والے کو باربار سننے پر مجبورکرتا ہے۔

 

آج کے دور کاچیلنج

 

بے شک، قرآن مجید نوعِ انسانی کے لئے ایک منفرد اور لاثانی کلام ہے۔یہ معجزہ ہے جو رسول اللہﷺکی رسالت کو ثابت کرنے کے لئے چیلنج کے طور پر نازل ہوا ہے۔ 

قرآن کی ترکیب  23 سال تک عربوں کے لئے زبردست حیرانی کا باعث رہی۔ چیلنج کوپورا کرنے سے عاجز ہونے پر اُنہوں نے بہتان،  دھمکی، جنگ اور جلاوطنی کا سہارا لیا ۔ امام باقلانی بیان کرتے ہیں: وقال غير هؤلاء وهؤلاء: لو نشاء لقلنا مثل هذا. ولكنهم لم يقولوا هم ولا غيرهم لان تأليف القرآن البديع، ووصفهالغريب، ونظمه العجيب، قد أخذ عليهم منافذ البيان كلها وقطع أطماعهم في معارضته، فظلوا مقموعين مدحورين ثلاثة وعشرين عاما، يتجرعون مرارة الاخفاق، ويهطعون لقوارع التبكيت، وينغضون رؤوسهم تحت مقارع التحدي والتعيير، مع أنفتهم وعزتهم، واستكمال عدتهم وكثرة خطبائهم وشعرائهم، وشيوع البلاغة فيهم، والتهاب قلوبهم بنار عداوته، وترادف الحوافز إلى مناهضته، وعرفانهم أن معارضته بسورة واحدة أو آيات يسيرة أنقض لقوله، وأفعل في إطفاء أمره، وأنجع في تحطيم دعوته، وتفريق الناس عنه - من مناجزته، ونصبهم الحرب له، وإخطارهم بأرواحهم وأموالهم، وخروجهم عن أوطانهم وديارهم،  " جبکہ کچھ دوسروں نے کہا کہ کاش ہم اس سے ملتا جلتا کچھ تو بیان کرسکیں، تاہم قرآن کی شاندار ہیئت، اس کی غیر معمولی خصوصیت اور اس کی حیران کن ترتیب کی وجہ سے، نہ ہی وہ کچھ کہہ سکے اور نہ ہی ان کے علاوہ اور لوگ ۔ اس (قرآن) نے ہر طرح کے اظہار میں اُن کو زیر کردیا اور اس کی مخالفت کے ان کے عزائم کو دبا دیا۔وہ تئیس سال تک شکست خوردہ رہے، ناکامی میں ڈوبے رہے، قرآن کے چیلنج کے سامنے ان کے سر جھکے رہے۔ ان کے اعلیٰ خاندان اور تکبر، تعداد میں بھی کم نہ ہونا، ان کے مبلغین اور شاعروں کی کثرت، اُن میں چار سو پھیلی ہوئی فصاحت و بلاغت، ان کے دلوں میں بھڑکتی دشمنی کی آگ اور آپ کی مخالفت کے مقاصد کے جمع ہونے کے باوجود یہی معاملہ رہا۔ یہ سب ان کے علم میں تھا کہ کسی ایک سورت یا چند آیات سے آپﷺکی مخالفت کرنا آپﷺکے کہے کی تردید کردے گا۔ اس طرح کی مخالفت آپ ﷺ کے معاملہ کو ختم کرنے، آپ کی دعوت کو تباہ کرنے اور لوگوں کو آپ ﷺسے علیحٰدہ کرنے میں اس سے زیادہ کارگر ہوتا کہ مسلمانوں کے سامنے ڈٹا جائے، ان سے جنگ کی جائے، جان و مال کی دھمکیاں دی جائیں، گھروں سے بے دخل یا جلا وطن کر دیا جائے"۔

 

مزید برآں، قرآنِ مجید کاچیلنج صرف اُنہی لوگوں تک ہی مخصوص نہیں ہے جن سے قرآن نے براہِ راست، محمد ﷺ کے دور میں، نزول کے وقت خطاب کیا تھا۔ یہ ایک دائمی چیلنج ہے جو قیامت تک کے لئے رکھا گیا ہے۔ یہ اس اصول کے سبب ہے: الْعِبْرَةُ بِعُمُومِ اللَّفْظِ لَا بِخُصُوصِ السَّبَبِ " اعتبار، متن کے عمومی ہونے کا ہے،سبب کے خاص ہونے کا نہیں"۔ قرآن ِ کریم نے پہلے دور میں عرب اشرافیہ کو ان کی عداوت کے باوجود الجھن میں مبتلا کردیا تھا۔  آج یہ دشمن مغربی حکومتوں کو پریشان کررہا ہے۔ بالکل زمانہ ٔ جاہلیت کے عربوں کی  طرح، مغربی حکومتیں بھی، حق کو ثابت کرنے والے اس کے چیلنج کا مقابلہ کرنے میں ناکامی پر اس کے  پیغام کو دبانے کے لئے بہتان، دھمکیوں اور جنگ کا سہارا لے رہی ہیں۔

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لئے لکھا گیا

مصعب عمیر- ولایہ پاکستان

 

Last modified onاتوار, 27 فروری 2022 07:54

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک