بسم الله الرحمن الرحيم
ریاست اورمعاشرے کی تقسیم
انجینئر معیز
پاکستان کی حالیہ سیاست میں متعدد واقعات نے ریاست کی کمزوری اوراپنی رِٹ کو نافذ کروانے کیلئے اس کی اہلیت کے متعلق ایک بحث کو جنم دیا ہے ۔ ایسے ہی کچھ واقعات میں سے ایک ، پاکستانی ریاست کا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنا ہے، جو پشتون جنگجوؤں کاایک گروہ ہے جنہوں نے پاکستانی ریاست سے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جنگ لڑی ہے۔ ایسا ہی ایک اور قدم، پاکستانی ریاست کی طرف سے تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ تھا جسے بعد میں تبدیل کر دیا گیا اور اس گروہ کے ساتھ معاہدہ کر کے اسے ایک عام سیاسی جماعت کے طور پر کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ۔ ان دونوں اقدامات پر ، لبرل اشرافیہ نے طاقتور اور منظم گروہوں کے مقابلے میں ریاست کے کمزور ہونے پر تنقید کی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ ریاست میں سیاسی قابلیت ہی نہ تھی کہ وہ دباؤ کا سامنا کرسکے اور وہ ان منظم تحریکوں کے جانب سے پیدا کردہ سیاسی دباؤ کے آگے ڈھیر ہو گئی۔
ریاست کی کمزوریوں پر تنقید یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ لبرل دانشوروں نے ریاستی اہلکاروں، سیاسی لیڈروں اور حکمرانوں کو بھی ریاست کی طاقت کا استعمال نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ ریاست ان گروہوں کے اس مؤقف کو چیلنج کرتی، جس کو وہ طاقتور مؤقف سمجھتے ہیں اور جس نےاُن سیکولر بنیادوں اور سیکولر افکار کو چیلنج کردیا ہے جن پر موجودہ پاکستانی ریاست قائم ہے۔ یہ تنقید اُن احساسات کی بنیادپر ہے کہ معاشرے اس سوچ پر اکٹھا ہو رہاہے کہ اسلام کا سیاست اور ریاستی معاملات میں مرکزی کردار ہونا چاہئے ۔ ریاست میں اسلام کے سیاسی کردار کے لئے ایسی زبردست اور پھیلتی ہوئی حمایت کو ریاست کی طرف سے معاملات کی انجام دہی کے لئے ایک " خطرے" کے طور پر دیکھا جارہا ہے اور اسے ایک مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ معاشرہ بنیاد پرست ہوتا جارہا ہے اور ریاست کو ہرصورت معاشرے کو بنیادپرستی سے بچانا ہے۔ مشرف کی "روشن خیال اعتدال پسندی"،مدرسہ اور تعلیمی نصاب کی تجدید،بنیاد پرست اسلامی جماعتوں کو تتربتر کرنا اگرچہ وہ پر تشدد نہ بھی ہوں ، نیشنل ایکشن پلان ،یہ تمام اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ریاست معاشرے کو مسائل میں الجھا دیکھتی ہے اور ریاستی عہدیدار معاشرے کو اپنے تصور میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔
تاہم، ریاست کا یہ نقطۂ نظر بذاتِ خود ایک گہرا مسئلہ ہے۔ لبرل دانشور حضرات ریاست کو چند مخصوص ناقابلِ سمجھوتہ خصوصیات کے ساتھ ایک غیر لچکدار ادارے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ذرا اس بغاوت پر غور کریں جو پاک افغان سرحد کے ساتھ موجود پاکستانی پشتون علاقوں میں پُھوٹی۔ لبرل اور سرکاری حکام اس فتنہ و فساد کو ایک رجعت پسندانہ تحریک کے طور پر پیش کرتے ہیں جس نے تشدد پر ریاستی اجارہ داری کے اصولوں کو چیلنج کردیا اور پُر تشدد غیر ریاستی گروہوں کو اُبھارا۔ یہ حقیقت کی ایک غلط تصویر کشی تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ پشتون بغاوت، جو پاکستان کے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں پُھوٹ پڑی تھی ، ایک مزاحمتی تحریک تھی جو پاکستانی ریاست کی اُس خارجہ پالیسی کے خلاف تھی جو علاقے سے متعلق امریکی پالیسی کے زیرِ اثر تھی۔ پشتون قبائل نے پاکستانی ریاست کی جانب سے امریکہ کی غلامی کو قبول کرنے سے صاف انکار کردیا اور ریاست کے خلاف اس وقت مزاحمت شروع کردی جب ریاست نے انہیں مجبور کرنا چاہا کہ وہ علاقہ میں امریکی ایجنڈے کےآگے سرنِگوں کردیں۔ پھر خطے کیلئے فوجی آپریشن سے تبدیل ہو کر سیاسی مذاکرات کی امریکی پالیسی کے نتیجے میں بغاوت میں کمی واقع ہونا اور بالآخر قبائلی علاقوں کا امریکہ کے اس خطے سے نکل جانے کے بعد پرسکون ہوجانا ، یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہاں لبرل اشرافیہ اور پاکستانی حکام کی ریاست کے بارے میں نقطہ نظر کی غلطی واضح ہو جاتی ہے۔ ریاستی اتھارٹی یا رِٹ کوئی ایسا مطلق اصول نہیں ہے جسے بزورِ طاقت نافذ کیا جا سکتا ہےبلکہ ریاستی اتھارٹی اور رِٹ دراصل سیاسی اتفاق رائے کی نمائندہ ہوتی ہے۔ ریاست کی رٹ اپنی اصل اور جوہر کے لحاظ سے ایک سیاسی معاملہ ہوتا ہے۔ ریاست کی رِٹ سیاسی اتفاق رائے کے نتیجے میں لاگو جاتی ہے۔ اگر ریاست ایک ایسے سیاسی اتفاق رائے کو نافذ کرتی ہے جسے عوام کی اکثریت نے مسترد کر دیا ہو ، تو ریاست کی اتھارٹی اور قانونی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ ایسی صورت میں طاقت کے استعمال سے ریاست کی رٹ کو نافذ نہیں کیا جا سکتا۔
تحریک لبیک پاکستان کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔ ٹی ایل پی TLP نے ریاست کی اس خارجہ پالیسی کو مسترد کردیا جو حرمتِ رسول ﷺ اور ناموسِ رسالت پر معاشی مفادات کو فوقیت دیتی تھی۔ اسلام یہ تقاضا کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ناموس کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے۔ اسلام کسی آزادیٔ رائے کو قبول نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ ہمارے پیارے پیغمبر محمد ﷺ کی حرمت کی پامالی کرے بلکہ ایسے افراد اور ریاست ، جو اسلام کے مقدسات پر حملہ کی جرأت کریں، مسلمان حکمرانوں کو ان کا سخت احتساب کرنا چاہیے۔ گستاخانہ فرانسیسی ریاست کے سامنے کھڑے ہونے سے انکار اور فرانسیسی سفیر کو بے دخل کرنے سے پاکستانی ریاست کے انکار نے ریاست کے لئے ایک قانونی جواز کا بحران کھڑا کردیا ۔ ریاست ، معاشرے میں پائے جانے والے سیاسی اتفاقِ رائے کا نفاذ نہیں کررہی تھی۔ ایسی صورتحال میں ، ریاست نہ تو اپنی اتھارٹی کو نافذ کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنا راستہ بنا سکتی ہے۔
یہاں پر ریاست کے تصورات سے متعلق چند گہرے سوالات پوچھنا ضروری ہیں۔ کیا ریاست ایسے نظریات اور اقدار کی حامل ہو سکتی ہے ،جن سے وہ حکومت تو کرنا چاہتی ہے، لیکن وہ نظریات معاشرے سے بالکل الگ ہوں ؟ کیا ریاست ، معاشرے سے ہٹ کر ایک علیحٰدہ ادارہ ہوتا ہے یا یہ محض معاشرے ہی کا ایک مظہر اور معاشرے کی ہی توسیع ہے ؟ کیا ریاست کی ، معاشرے سے ہٹ کر اپنی بھی کوئی سوچنے کی بنیاد ہوتی ہے یا ریاست صرف وہ نافذ کرتی ہے جو معاشرہ پہلے ہی طے کرچکا ہوتا ہے ؟
ریاست اپنی حقیقت میں معاشرے ہی کی انتظامی قوت ہوتی ہے اور اسی کی توسیع (extension)اور مظہر ہوتی ہے۔ معاشرہ اپنے اندر، اُن نظریات اور اقدار کے حوالے سے ایک سیاسی اتفاق رائے پیدا کرتا ہے جن کے گرد وہ خود کو ایک سیاسی معاشرے کے طور پر منظم کرتا ہے ۔ یہ نظریات اور اقدار پھر حکمرانی کی بنیاد بنتے ہیں اور معاشرہ انہی نظریات اور اقدار سے جُڑے حکمرانی کے ڈھانچے اور ادارے قائم کرتا ہے۔ ریاست کی اپنی کوئی سوچنے کی بنیاد نہیں ہوتی ، وہ تو صرف سیاسی اتفاق رائے کو ہی نافذکرنے والی ہوتی ہے۔ ریاست اور معاشرے کو ایک دوسرے سے الگ الگ دیکھنا سنگین غلطی ہو گی ، وہ دونوں ایک ہی وجود ہیں۔
ریاست اورمعاشرے کی موجودہ تقسیم کی جڑیں، استعمار کی تاریخ میں پیوست ہیں۔ جب یورپی استعمار نے عثمانی خلافت کو تباہ کر دیا تو انہوں نے مسلم علاقوں میں قومی ریاستیں تشکیل دے دیں ۔ یہ ریاستیں ، مغربی معاشروں کے تصورات اور اقدار پر ہی استوار کی گئیں اور اپنی اصل جوہرمیں مسلم علاقوں پر مغربی متبادل ہی تھیں۔ آج بھی وہ انہی یورپی اور مغربی استعمار کی باقیات ہیں ۔چونکہ یہ ریاستیں مغربی معاشروں سے مستعارلیے گئے تصورات پر قائم کی گئی ہیں اور ان کے نزدیک مسلم معاشرے ایک مختلف اقدار اور تصورات رکھتے ہیں ، اس لیے انہوں نے چاہا کہ مسلمان معاشروں کو مغربی افکار اور نظریات کے مطابق ڈھال دیں۔ ریاست اور معاشرے کے مابین یہی وہ ٹکراؤ ہے جومسلم دنیا میں جمود اور تنزلی کا باعث ہے۔ مسلم دنیا دوبارہ نشاۃِ ثانیہ حاصل کر لے گی جب یہ ریاست اور معاشرے کی تقسیم ختم ہو جائےگی اور جب ایک خالص و نظریاتی اسلامی ریاستِ خلافت، مسلمان معاشروں سے اُبھرے گی جو مسلمانوں کی اکثریت کے سیاسی نظریات کی آئینہ دار ہوگی اور اللہ سبحانہ وتعالی کی نازل کردہ وحی کی بنیاد پر ہی حکمرانی کرے گی۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا،
﴿ وَأَنِ احكُم بَينَهُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ وَلا تَتَّبِع أَهواءَهُم وَاحذَرهُم أَن يَفتِنوكَ عَن بَعضِ ما أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيكَ ﴾
" اور(اے محمدﷺ) آپ ان کے درمیان اسی سے حکم کریں جو اللہ نے نازل کیا ہے، اور اُن کی خواہشات کی پیروی مت کریں اور ان سے بچتے رہیں کہ جو اللہ نے آپ پر نازل فرمایا ہے اس کے کسی حکم کے متعلق یہ کہیں آپ کو فتنے میں نہ ڈال دیں "( المائدہ 5:49)
ریاست اورمعاشرے کی تقسیم
انجینئر معیز
پاکستان کی حالیہ سیاست میں متعدد واقعات نے ریاست کی کمزوری اوراپنی رِٹ کو نافذ کروانے کیلئے اس کی اہلیت کے متعلق ایک بحث کو جنم دیا ہے ۔ ایسے ہی کچھ واقعات میں سے ایک ، پاکستانی ریاست کا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنا ہے، جو پشتون جنگجوؤں کاایک گروہ ہے جنہوں نے پاکستانی ریاست سے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جنگ لڑی ہے۔ ایسا ہی ایک اور قدم، پاکستانی ریاست کی طرف سے تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ تھا جسے بعد میں تبدیل کر دیا گیا اور اس گروہ کے ساتھ معاہدہ کر کے اسے ایک عام سیاسی جماعت کے طور پر کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ۔ ان دونوں اقدامات پر ، لبرل اشرافیہ نے طاقتور اور منظم گروہوں کے مقابلے میں ریاست کے کمزور ہونے پر تنقید کی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ ریاست میں سیاسی قابلیت ہی نہ تھی کہ وہ دباؤ کا سامنا کرسکے اور وہ ان منظم تحریکوں کے جانب سے پیدا کردہ سیاسی دباؤ کے آگے ڈھیر ہو گئی۔
ریاست کی کمزوریوں پر تنقید یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ لبرل دانشوروں نے ریاستی اہلکاروں، سیاسی لیڈروں اور حکمرانوں کو بھی ریاست کی طاقت کا استعمال نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ ریاست ان گروہوں کے اس مؤقف کو چیلنج کرتی، جس کو وہ طاقتور مؤقف سمجھتے ہیں اور جس نےاُن سیکولر بنیادوں اور سیکولر افکار کو چیلنج کردیا ہے جن پر موجودہ پاکستانی ریاست قائم ہے۔ یہ تنقید اُن احساسات کی بنیادپر ہے کہ معاشرے اس سوچ پر اکٹھا ہو رہاہے کہ اسلام کا سیاست اور ریاستی معاملات میں مرکزی کردار ہونا چاہئے ۔ ریاست میں اسلام کے سیاسی کردار کے لئے ایسی زبردست اور پھیلتی ہوئی حمایت کو ریاست کی طرف سے معاملات کی انجام دہی کے لئے ایک " خطرے" کے طور پر دیکھا جارہا ہے اور اسے ایک مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ معاشرہ بنیاد پرست ہوتا جارہا ہے اور ریاست کو ہرصورت معاشرے کو بنیادپرستی سے بچانا ہے۔ مشرف کی "روشن خیال اعتدال پسندی"،مدرسہ اور تعلیمی نصاب کی تجدید،بنیاد پرست اسلامی جماعتوں کو تتربتر کرنا اگرچہ وہ پر تشدد نہ بھی ہوں ، نیشنل ایکشن پلان ،یہ تمام اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ریاست معاشرے کو مسائل میں الجھا دیکھتی ہے اور ریاستی عہدیدار معاشرے کو اپنے تصور میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔
تاہم، ریاست کا یہ نقطۂ نظر بذاتِ خود ایک گہرا مسئلہ ہے۔ لبرل دانشور حضرات ریاست کو چند مخصوص ناقابلِ سمجھوتہ خصوصیات کے ساتھ ایک غیر لچکدار ادارے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ذرا اس بغاوت پر غور کریں جو پاک افغان سرحد کے ساتھ موجود پاکستانی پشتون علاقوں میں پُھوٹی۔ لبرل اور سرکاری حکام اس فتنہ و فساد کو ایک رجعت پسندانہ تحریک کے طور پر پیش کرتے ہیں جس نے تشدد پر ریاستی اجارہ داری کے اصولوں کو چیلنج کردیا اور پُر تشدد غیر ریاستی گروہوں کو اُبھارا۔ یہ حقیقت کی ایک غلط تصویر کشی تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ پشتون بغاوت، جو پاکستان کے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں پُھوٹ پڑی تھی ، ایک مزاحمتی تحریک تھی جو پاکستانی ریاست کی اُس خارجہ پالیسی کے خلاف تھی جو علاقے سے متعلق امریکی پالیسی کے زیرِ اثر تھی۔ پشتون قبائل نے پاکستانی ریاست کی جانب سے امریکہ کی غلامی کو قبول کرنے سے صاف انکار کردیا اور ریاست کے خلاف اس وقت مزاحمت شروع کردی جب ریاست نے انہیں مجبور کرنا چاہا کہ وہ علاقہ میں امریکی ایجنڈے کےآگے سرنِگوں کردیں۔ پھر خطے کیلئے فوجی آپریشن سے تبدیل ہو کر سیاسی مذاکرات کی امریکی پالیسی کے نتیجے میں بغاوت میں کمی واقع ہونا اور بالآخر قبائلی علاقوں کا امریکہ کے اس خطے سے نکل جانے کے بعد پرسکون ہوجانا ، یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہاں لبرل اشرافیہ اور پاکستانی حکام کی ریاست کے بارے میں نقطہ نظر کی غلطی واضح ہو جاتی ہے۔ ریاستی اتھارٹی یا رِٹ کوئی ایسا مطلق اصول نہیں ہے جسے بزورِ طاقت نافذ کیا جا سکتا ہےبلکہ ریاستی اتھارٹی اور رِٹ دراصل سیاسی اتفاق رائے کی نمائندہ ہوتی ہے۔ ریاست کی رٹ اپنی اصل اور جوہر کے لحاظ سے ایک سیاسی معاملہ ہوتا ہے۔ ریاست کی رِٹ سیاسی اتفاق رائے کے نتیجے میں لاگو جاتی ہے۔ اگر ریاست ایک ایسے سیاسی اتفاق رائے کو نافذ کرتی ہے جسے عوام کی اکثریت نے مسترد کر دیا ہو ، تو ریاست کی اتھارٹی اور قانونی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ ایسی صورت میں طاقت کے استعمال سے ریاست کی رٹ کو نافذ نہیں کیا جا سکتا۔
تحریک لبیک پاکستان کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔ ٹی ایل پی TLP نے ریاست کی اس خارجہ پالیسی کو مسترد کردیا جو حرمتِ رسول ﷺ اور ناموسِ رسالت پر معاشی مفادات کو فوقیت دیتی تھی۔ اسلام یہ تقاضا کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ناموس کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے۔ اسلام کسی آزادیٔ رائے کو قبول نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ ہمارے پیارے پیغمبر محمد ﷺ کی حرمت کی پامالی کرے بلکہ ایسے افراد اور ریاست ، جو اسلام کے مقدسات پر حملہ کی جرأت کریں، مسلمان حکمرانوں کو ان کا سخت احتساب کرنا چاہیے۔ گستاخانہ فرانسیسی ریاست کے سامنے کھڑے ہونے سے انکار اور فرانسیسی سفیر کو بے دخل کرنے سے پاکستانی ریاست کے انکار نے ریاست کے لئے ایک قانونی جواز کا بحران کھڑا کردیا ۔ ریاست ، معاشرے میں پائے جانے والے سیاسی اتفاقِ رائے کا نفاذ نہیں کررہی تھی۔ ایسی صورتحال میں ، ریاست نہ تو اپنی اتھارٹی کو نافذ کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنا راستہ بنا سکتی ہے۔
یہاں پر ریاست کے تصورات سے متعلق چند گہرے سوالات پوچھنا ضروری ہیں۔ کیا ریاست ایسے نظریات اور اقدار کی حامل ہو سکتی ہے ،جن سے وہ حکومت تو کرنا چاہتی ہے، لیکن وہ نظریات معاشرے سے بالکل الگ ہوں ؟ کیا ریاست ، معاشرے سے ہٹ کر ایک علیحٰدہ ادارہ ہوتا ہے یا یہ محض معاشرے ہی کا ایک مظہر اور معاشرے کی ہی توسیع ہے ؟ کیا ریاست کی ، معاشرے سے ہٹ کر اپنی بھی کوئی سوچنے کی بنیاد ہوتی ہے یا ریاست صرف وہ نافذ کرتی ہے جو معاشرہ پہلے ہی طے کرچکا ہوتا ہے ؟
ریاست اپنی حقیقت میں معاشرے ہی کی انتظامی قوت ہوتی ہے اور اسی کی توسیع (extension)اور مظہر ہوتی ہے۔ معاشرہ اپنے اندر، اُن نظریات اور اقدار کے حوالے سے ایک سیاسی اتفاق رائے پیدا کرتا ہے جن کے گرد وہ خود کو ایک سیاسی معاشرے کے طور پر منظم کرتا ہے ۔ یہ نظریات اور اقدار پھر حکمرانی کی بنیاد بنتے ہیں اور معاشرہ انہی نظریات اور اقدار سے جُڑے حکمرانی کے ڈھانچے اور ادارے قائم کرتا ہے۔ ریاست کی اپنی کوئی سوچنے کی بنیاد نہیں ہوتی ، وہ تو صرف سیاسی اتفاق رائے کو ہی نافذکرنے والی ہوتی ہے۔ ریاست اور معاشرے کو ایک دوسرے سے الگ الگ دیکھنا سنگین غلطی ہو گی ، وہ دونوں ایک ہی وجود ہیں۔
ریاست اورمعاشرے کی موجودہ تقسیم کی جڑیں، استعمار کی تاریخ میں پیوست ہیں۔ جب یورپی استعمار نے عثمانی خلافت کو تباہ کر دیا تو انہوں نے مسلم علاقوں میں قومی ریاستیں تشکیل دے دیں ۔ یہ ریاستیں ، مغربی معاشروں کے تصورات اور اقدار پر ہی استوار کی گئیں اور اپنی اصل جوہرمیں مسلم علاقوں پر مغربی متبادل ہی تھیں۔ آج بھی وہ انہی یورپی اور مغربی استعمار کی باقیات ہیں ۔چونکہ یہ ریاستیں مغربی معاشروں سے مستعارلیے گئے تصورات پر قائم کی گئی ہیں اور ان کے نزدیک مسلم معاشرے ایک مختلف اقدار اور تصورات رکھتے ہیں ، اس لیے انہوں نے چاہا کہ مسلمان معاشروں کو مغربی افکار اور نظریات کے مطابق ڈھال دیں۔ ریاست اور معاشرے کے مابین یہی وہ ٹکراؤ ہے جومسلم دنیا میں جمود اور تنزلی کا باعث ہے۔ مسلم دنیا دوبارہ نشاۃِ ثانیہ حاصل کر لے گی جب یہ ریاست اور معاشرے کی تقسیم ختم ہو جائےگی اور جب ایک خالص و نظریاتی اسلامی ریاستِ خلافت، مسلمان معاشروں سے اُبھرے گی جو مسلمانوں کی اکثریت کے سیاسی نظریات کی آئینہ دار ہوگی اور اللہ سبحانہ وتعالی کی نازل کردہ وحی کی بنیاد پر ہی حکمرانی کرے گی۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا،
﴿ وَأَنِ احكُم بَينَهُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ وَلا تَتَّبِع أَهواءَهُم وَاحذَرهُم أَن يَفتِنوكَ عَن بَعضِ ما أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيكَ ﴾
" اور(اے محمدﷺ) آپ ان کے درمیان اسی سے حکم کریں جو اللہ نے نازل کیا ہے، اور اُن کی خواہشات کی پیروی مت کریں اور ان سے بچتے رہیں کہ جو اللہ نے آپ پر نازل فرمایا ہے اس کے کسی حکم کے متعلق یہ کہیں آپ کو فتنے میں نہ ڈال دیں "( المائدہ 5:49)