بسم الله الرحمن الرحيم
ابراہیم علیہ السلام اور قربانی کا موسم
مصعب عمیر، پاکستان
ذی الحج وہ مہینہ ہے جس میں مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آنے والے سب سے کڑے امتحان اور اس میں ان کی کامیابی کو یاد کرتے ہیں۔ اس 1443ہجری کے ذی الحج کو قربانی کا پیغام کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیو نکہ یہ واضح ہے کہ ہم قربانیوں کے موسم سے گزر رہے ہیں۔ اس ذی الحج جب خلافت کا کارواں چلنے کو بس تیار ہی ہے، ان شاء اللہ، خلافت کے داعیوں کو پہلے سے کہیں زیادہ قربانیاں دینے کی ضرورت ہے۔
یقیناً اس ذی الحج کے مہینے میں قربانی کے سبق کی انتہائی اہمیت ہے۔ ہر وہ ایمان والا جو خلافت کے قیام کی فرضیت کو پورا کرنے کے لئے بھر پور کوشش کررہا ہے ، مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کی سبق آموز مثال پر غور کرے۔ یقیناً ان لوگوں کی مثالیں جو آج حق کے لئے قربانیاں دیتے ہیں مسلمانوں کےجوش و جذبہ کو بڑھانے کا باعث بنتی ہیں کہ وہ بھی اپنی ذمہ داری کو ادا کریں۔ یقیناً مسلمان کا ایمان اسے نئی بلند منزلوں تک لے جاتا ہے اور اسے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے تیار کرتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام اس بات کے لئے تیار تھے کہ جو چیز انہیں سب سے زیادہ عزیز ہے اسے قربان کردیں ،یعنی کے اپنی اولاد ،اور وہ بھی خود اپنے ہاتھوں سے۔ وہ ،جنہیں بہت دعاوں کے بعد اولاد بڑی عمر میں دی گئی، اس بات کے لئے تیار تھے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم پر اپنی اولاد کو قربان کردیں۔ وہ جنہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کو پروان چڑھایا، کئی سال تک اسے کسی بھی نقصان سے محفوظ رکھا، چھری اٹھاتے ہیں کہ اپنے پیارے کی گردن کاٹ ڈالیں۔ یہ محض ان کا ایمان ہی تھا جس نے انہیں اس بات کے لیے تیار کیا کہ وہ اتنی بڑی قربانی دے دیں جبکہ کسی بھی پیار کرنے والے والد کے لئے اپنی اولاد کو مارنے سے یہ زیادہ آسان ہوتا ہے کہ وہ خود کو ختم کرلے۔ یقیناً دنیا کی آزمائشوں میں سب سے بڑی آزمائش اپنے ہاتوں سے اپنی اولاد کو قبر میں اتارنا ہوتا ہے۔
جس چیز نے ابراہیم علیہ السلام کو اس قدر عظیم قربانی دینے کے لئے تیار کیا وہ ان کی جانب سےاللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بھر پور اطاعت تھی۔ ان کی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت کا یہ عالم تھا کہ کائنات کے مالک نے انہیں "خلیل اللہ" کے لقب سے نوازا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ،
وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبۡرٰهِيۡمَ خَلِيۡلاً
"اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا تھا"(النساء:125)۔
ابراہیم علیہ السلام وہ تھے جنہوں نے سچ بولا اس بات کے باوجود کے لوگوں نے انہیں مسترد کردیا تھا۔ انہوں نے اپنے وقت کے طاغوت کی اطاعت کا انکار بابنگ دہل کیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی جانب سے بت پرستی پر براہ راست حملہ اس طرح بیان کیا ہے کہ
قَالَ اَتَعۡبُدُوۡنَ مَا تَنۡحِتُوۡنَۙ • وَاللّٰهُ خَلَقَكُمۡ وَمَا تَعۡمَلُوۡنَ
"انہوں نے کہا کہ تم ایسی چیزوں کو کیوں بوجتے ہو جن کو خود تراشتے ہو۔ حالانکہ تم کو اور جو تم بناتے ہو اس کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔"(الصفت:96-95)۔
اس بات کے باوجود کہ ابراہیم علیہ السلام آزر ، ان کے والد اور جو قبیلے کے لئے بت بناتے تھے،کے گھر پیداہوئے تھے، انہوں نے صرف سچ ہی بولا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اس بات کی پروا نہ کی کہ ان کے گھرانے کو لوگوں میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے اور اگر وہ چاہتے تو خاموش بھی رہ سکتے تھے اور لوگوں کے درمیان انہیں جو ممتاز مقام حاصل تھا اس سے لطف اندوز ہوسکتے تھے۔ لیکن سچ ان کے دل میں ایک آگ کی طرح جل رہا تھا جو انہیں اسے بولنے پر مجبور کرتا تھا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں،
وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهِيۡمُ لِاَبِيۡهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصۡنَامًا اٰلِهَةً ۚ اِنِّىۡۤ اَرٰٮكَ وَقَوۡمَكَ فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ
"جب ابراہیم نے اپنے والد آزر سے کہا تم کیا بتوں کو معبود بناتے ہو۔ میں دیکھتا ہوں کہ تم اور تمہاری قوم صریح گمراہی میں ہے۔"(الانعام:74)۔
ابراہیم علیہ السلام نے نہ صرف لوگوں کی جانب سے خود کو مسترد کیے جانے کا صبر کے ساتھ سامنا کیا بلکہ انہوں نے اس نقصان کی بھی پروا نہ کی جو لازمی ان پر آنے والی تھی۔ جب کبھی جھوٹ کے پیروکار فکری بنیادوں پر لاجواب ہو جاتے ہیں اور ان کا جھوٹ بالکل واضح ہو جاتا ہے تو وہ اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے طاقت اور جبر کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔ ان کے زمانے کا جابر نمرود ان کے خلاف جبر کے استعمال پر اتر آیا لیکن اس کے باوجود ابراہیم علیہ السلام ثابت قدمی سے کھڑے رہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں ،
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوۡمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡا اقۡتُلُوۡهُ اَوۡ حَرِّقُوۡهُ
"تو ان کی قوم کے لوگ جواب میں بولےکہ اسے مار ڈالو یا جلا دو۔"(العنکبوت:24)۔
اس مقام پر یہ ہوسکتا تھا کہ ابراہیم علیہ السلام خود کو نمرود کی آگ سے بچانے کے لئے اپنے پیغام اور عقائد سے دستبردار ہو جاتے لیکن انہوں نے خود کو شہادت کے لئے تیار کیا۔ انہوں نے انسانیت کو جہالت اور جبر سے بچانے کے لئے آگ میں قدم رکھنا قبول کیا۔ لہٰذا انہیں آگ میں جھونک دیا گیا اور انہیں ان کے رب نے ایک معجزے کے ذریعے محفوظ رکھا جو اللہ کی جانب سے ان کی قوم کے لئے ایک نشانی تھی تا کہ وہ ہدایت کو پالیں۔ لیکن جب اس قدر واضح نشانی کے بعد بھی بت پرستوں نے اپنی روش تبدیل نہ کی تو ابراہیم علیہ السلام مایوس نہ ہوئے اور نہ ہی اس طویل راہ پر ان کے اٹھنے والے قدموں کی رفتار میں کوئی کمی آئی بلکہ وہ اسی ثابت قدمی کے ساتھ اللہ کی دعوت کی ترویج کرتے رہے۔
کئی دہائیوں کی قربانیوں کے بعد بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہر وقت قربانی دینے کے لئے تیار رہتے تھے۔ ابراہیم علیہ السلام اس شے کو بھی قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے جو انہیں سب سے زیادہ عزیز تھی اور جو انہیں غیر معمولی حالات میں اللہ کے انعام کے طور پر ملی تھی۔ ابراہیم علیہ السلام ایک بیٹے کی شدید خواہش رکھتے تھے لیکن ان کی بیوی ہاجرہ بانجھ تھیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے بارے میں فرمایا،
رَبِّ هَبۡ لِىۡ مِنَ الصّٰلِحِيۡنَ
"اے میرے رب! مجھے اولاد عطا فرما جو سعادت مندوں میں سے ہو۔"(الصفت:100)۔
حالات کے انتہائی نامفافق ہونے کے باوجود اللہ نے نہ صرف انہیں بیٹے سے نوازا بلکہ اس بات کا یقین دلایا کہ وہ پیغمبروں میں سے ہوگا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
فَبَشَّرۡنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِيۡمٍ
"تو ہم نے انہیں ایک نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی۔"(الصفت:101)۔
اسماعیل علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام کے لئے صرف ایک انعام ہی نہیں تھے جو انہیں بڑھاپے میں دیا گیا بلکہ طویل سالوں کی مشکلات اور تکالیف کے انعام کے طور پر ایک بوڑھے باپ کو جوان اولاد سے نوازا گیا۔
لہٰذا ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام سے کہا ،
قَالَ يٰبُنَىَّ اِنِّىۡۤ اَرٰى فِىۡ الۡمَنَامِ اَنِّىۡۤ اَذۡبَحُكَ فَانْظُرۡ مَاذَا تَرٰى
ؕ"بیٹا میں خواب دیکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کر رہا ہوں تو تمہارا کیا خیال ہے؟"(الصفت:102)۔
اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ ان کے والد پریشان ہیں اسماعیل علیہ السلام نے انہیں یہ تسلی دی،
قَالَ يٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُسَتَجِدُنِىۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيۡنَ
"ابا جو آپ کو حکم ہوا ہے وہی کیجئےاللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائیں گے۔"(الصفت:102)۔
لہٰذا ابراہیم علیہ السلام نے اس پر عمل کیا جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا۔ اور پھر اللہ کے حکم سے چاقو نے نہیں کاٹا اور ابراہیم علیہ السلام کو ایک دنبہ ملا اور اللہ نے فرمایا،
وَنَادَيۡنٰهُ اَنۡ يّٰۤاِبۡرٰهِيۡمُۙ • قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡيَآ ۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجۡزِىۡ الۡمُحۡسِنِيۡنَ
"تو ہم نے ان کو پکارا کہ اے ابراہیم، تم نے خواب کو سچا کردیکھایا، ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔"(الصفت:105-104)۔
لہٰذا ابراہیم علیہ السلام کو اپنی استقامت کی بنیاد پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوئی اور انہیں انعام سے نوازا گیا۔
ہمارے اس عہد میں ابراہیم علیہ السلام کی کہانی ان لوگوں میں جوش و جذبہ پیدا کرتی ہے جو جمہوریت، آمریت اور بادشاہت کی صورت میں شرک کو دیکھتے ہیں۔ چاہے ہم اس کے خلاف بولیں یا اس پر خاموشی اختیار کریں، یہ ہماری ترجیح ہے۔اس دین میں اللہ نے ہمیں جو احکامات دیے ہیں وہ ہم پر یہ لازم کرتے ہیں کہ ہم اپنی آسانیوں اور دنیوی نعمتوں کو فراموش کرتے ہوئے قربانی دینے کے لئے تیار رہیں کیونکہ یہ سب کچھ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے۔ اس طرح ہم طاغوت کو گرانے کی راہ پر استقامت کا مظاہرہ کریں گے۔ ہمیں ان میں سے ہونا ہے جو دنیا کی نعمتوں پر آخرت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہاں اس موسم میں، جو کامیابی سے قبل آخری موسم ہے، سختی اور آزمائش ہے۔ یہ قربانیوں کا موسم ہے جس کے ذریعے ان شاءاللہ ہم جابروں کے دور کو ختم ہوتا اور اسلام کو ایک ریاست، خلافت راشدہ کی صورت میں قائم اور بلند ہوتا دیکھیں گے۔
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِكَ اِلَّا رِجَالاً نُّوۡحِىۡۤ اِلَيۡهِمۡ مِّنۡ اَهۡلِ الۡقُرٰٓىؕ اَفَلَمۡ يَسِيۡرُوۡا فِىۡ الۡاَرۡضِ فَيَنۡظُرُوۡا كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡؕ وَلَدَارُ الۡاٰخِرَةِ خَيۡرٌ لِّـلَّذِيۡنَ اتَّقَوۡاؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ
"اور ہم نے تم سے پہلے بستیوں کے رہنے والوں میں سے مرد ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر (و سیاحت) نہیں کی کہ دیکھ لیتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا۔ اور متقیوں کے لئے آخرت کا گھر بہت اچھا ہے ۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟"(یوسف:109)۔
حَتّٰۤى اِذَا اسۡتَيۡــَٔسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوۡۤا اَنَّهُمۡ قَدۡ كُذِبُوۡا جَآءَهُمۡ نَصۡرُنَا ۙ فَنُجِّىَ مَنۡ نَّشَآءُؕ وَلَا يُرَدُّ بَاۡسُنَا عَنِ الۡقَوۡمِ الۡمُجۡرِمِيۡنَ
"یہاں تک کہ جب پیغمبر مایوس ہو گئے اور انہوں نے خیال کیا کہ وہ سچے نہ نکلے تو ان کے پاس ہماری مدد آپہنچی۔پھر جسے چاہا بچا لیا اور ہمارا عذاب گنہگار لوگوں سے پھرا نہیں کرتا۔"(یوسف:110)
لَـقَدۡ كَانَ فِىۡ قَصَصِهِمۡ عِبۡرَةٌ لِّاُولِى الۡاَلۡبَابِؕ مَا كَانَ حَدِيۡثًا يُّفۡتَرٰى وَلٰـكِنۡ تَصۡدِيۡقَ الَّذِىۡ بَيۡنَ يَدَيۡهِ وَتَفۡصِيۡلَ كُلِّ شَىۡءٍ وَّهُدًى وَّرَحۡمَةً لِّـقَوۡمٍ يُّؤۡمِنُوۡنَ
"ان کے قصے میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے۔ یہ (قرآن) ایسی بات نہیں ہے جو بنائی گئی ہو بلکہ جو اس پہلے ہیں ان کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔"(یوسف:111)