الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

طالبان عالمی برادری سے افغانستان میں اپنی حکومت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ یہ مطالبہ کون کر رہا ہے اور کس سے کر رہا ہے؟!

 

خبر:

 18 جولائی 2022 کو ریڈیو پاکستان نے خبر نشر کی کہ افغانستان کے وزیر داخلہ  سراج الدین حقانی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ  طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم کیا جائے ۔ خوست میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نےکہا کہ، اسلامی امارات دنیا کے ساتھ معاشی و سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہے۔

 

تبصرہ:

    بین الاقوامی برادری کا  کسی بھی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطلب  اُن ریاستوں کی جانب سے  اُس ریاست کے وجود کو اپنی جماعت کا ایک رکن تسلیم  اور قبول کرنا ہوتا ہے۔   اس طرحح یہ ریاست کے قیام یا تخلیق سے ایک مکمل طور پر الگ عمل ہے۔تسلیم اس وقت کیا جاتا ہے جب ریاست کی طرف سے کسی دوسری ریاست کی علاقائی خودمختاری میں مداخلت نہ کرنے کا عہد کیا جائے ۔ مذکورہ ریاست  بین الاقوامی برادری میں اپنے حقوق حاصل نہیں کرسکتی  جب تک کہ عالمی برادری اس کے وجود کو تسلیم نہ کرلے۔ جب ایک ریاست ، جو خود کو تسلیم کروانا چاہتی ہے، اس بات کا عہد کرے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کے تحت خود پر عائد ہونے والی ذمہ داریاں پوری کرے گی تو اس کے بدلے میں بین الاقوامی قانون کسی ریاست یا ریاستوں کے گروپ کی طرف سے اُس ریاست کو تسلیم کیے جانے کی صورت میں ایک متعین علاقائی حدود کے اندر سفارتی تعلقات کا اہتمام کرتا ہے ۔ تاہم بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کےتحت ریاست کو تسلیم کیے جانے کے حوالے سے  یہ صرف ایک قانونی نقطہ نظر ہے۔

 

جہاں تک بین الاقوامی برادری کی جانب سے  طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کی بات ہے  ، تویہ طالبان کی جانب سے  دنیا کےاستعماری ممالک اور ان کے سرغنہ امریکہ  کے مفادات کے سامنے جھکنے پر منحصر ہے۔   جب تک تحریک طالبان  اس بات کی گارنٹی نہیں دیں گے  اور بین الاقوامی برادری، اور امریکہ کو مطمئن نہیں کریں گے  کہ وہ امریکی مفادات کےلیے کام کرنےلیے مکمل طور پر تیار ہے اور وہ اس سے  بالکل بھی انحراف نہیں کریں گے، تب  تک بین الاقوامی برادی ان کو ہرگز تسلیم نہیں کرے گی۔  یعنی  تحریک طالبان کو  بین الاقوامی برادری سے اپنے آپ کو تسلیم کروانے کےلیے اسلام سے مکمل طور پر دستبردار ہوکر دل وجان سے مغربی سرمایہ دارانہ نظام کو اپنانا ہوگا، یہاں تک کہ  کپڑے کم اورداڑھیاں منڈانی (شیو کرنا)  ہونگی۔۔۔ بلکہ اس حد تک جانا ہوگا  کہ وہ   اسلام نافذ نہ کرنے اور  اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں عالم اسلام میں  قائم دیگر باقی   ایجنٹ ریاستوں کے قافلے میں شامل ہوں،  اور  وہ امریکہ  کے دلال اور ایجنٹ بن کر اس کی جنگ لڑیں،  جیسا کہ پاکستان میں پے درپے آنے والی حکومتوں نے کیا ہے۔

 

  شاید  مغرب کو اُن (طالبان)کی ضرورت پڑنے کی جانب  اشارہ کرنے کا (حقانی) کا یہی مقصد ہے،  شاید وہ  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس فرمان کو بھول گئے ہیں ، وہ اللہ جو  ظاہروباطن، ہر چیز سے باخبر ہے اور اس بات کو بھی جانتا ہے جو کافروں کے دلوں میں چھپی ہوا ہے،  اللہ تعالیٰ فرماتاہے: 

 

(وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ)

"یہود ونصاری اس وقت تک تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک  تم ان کی ملت کی پیروی نہ کرو گے، کہہ دیجیئے کہ ہدایت تو صرف اللہ کی ہدایت ہے ،تمہارے پاس اللہ کی طرف سے  اس علم کے آنے کے بعد اگر تم نے اُن (کفار)کی خواہشات کی پیروی کی  تو اللہ کی طرف سے تمہارا  کوئی کار ساز اور مددگار نہیں ہوگا۔"(البقرۃ، 2:120)۔

 

  جب تک تحریک طالبان  اس طرح مکمل پسپائی اختیار نہیں کریں گے،  بین الاقوامی طور پر اُن کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا ، یوں وہ نہ   ظالم بین الاقوامی ٹولے کا اور نہ اس بہترین امت کا حصہ بن پائیں گے جس کو لوگوں کی ہدایت کےلیے پیدا کیا گیا ہے۔

 

   تحریک طالبان کی جانب سے افغانستان میں  اقتدار  سنبھالنے کے کچھ مہینوں بعد یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ کفار اُن لوگوں میں سے نہیں ہیں جو اپنے وعدوں اور معاہدوں کی پاسداری کرتے ہیں۔ امریکہ نے طالبان کے ساتھ طے پانے والے  نقات میں سے چند  نقات کو بھی پورا نہیں کیا، جس میں تحریک کو تسلیم کرنا، چاہے محض رسمی طور پر ہی سہی، اور ساتھ ہی افغان عوام کی  وہ رقم بھی جاری نہیں کی جو اس کے پاس موجود ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے:

 

(أَوَ كُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ)

"جب بھی یہ عہد کرتے ہیں ان میں سے ایک فریق عہد شکنی کرتا ہے بلکہ ان کی اکثریت ایمان ہی نہیں رکھتی۔"(البقرۃ، 2:100)۔  

 

طالبان پر فرض ہے کہ غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات  اور نہ ہی کوئی معاہدہ کریں کیونکہ ذلت و رسوائی کے علاوہ ان سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ وہ اُن طاقتوں سے خود کو تسلیم کروانا چاہتے ہیں جو اپنی فطرت میں استعماری ہیں۔طالبان پر واجب ہے کہ وہ اللہ کی کتاب کے ساتھ انصاف کریں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے اور کسی سراب کے پیچھے نہ بھاگیں،  

 

(...يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا...)

"پیاسا اس کو پانی خیال کرتاہے  یہاں تک کہ جب اس کے پاس آتا ہے  اس کو کچھ بھی نہیں پاتا۔۔۔"(النور،24:39)۔   

 

طالبان پر فرض ہے کہ وہ امت کی جانب متوجہ ہوں،  ایک ایسی ریاست قائم کریں جہاں کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ کی مکمل حکمرانی ہو، اور افغانستان اور پاکستان سے شروع ہو کردیگر مسلم علاقوں کے مسلمان بھائیوں کو  اس اسلامی ریاست میں یکجا کر دیں۔ اس کے بعد  نہ تو طالبان اور نہ ہی اربوں کی امت کو کبھی بھی صلیبیوں کی عالمی برادری سے خود کو قبول کروانے کی ضرورت ہوگی۔اس کے بجائے، عالمی برادری امت کو مطمئن کرنے کی کوشش کرے گی، اس سے پہلے کہ ان کے قلعے تباہ ہو جائیں، ان کے تخت گر جائیں، یہاں تک کہ اس دین کا معاملہ ان کے دروازے تک پہنچ جائے۔  تو کیا اب طالبان حزب التحریر کے مخلص سیاست دانوں کو اختیار سونپ کر اس کی تلافی کریں گے جو وہ کھو چکے ہیں؟یہ حزب التحریر کے مخلص سیاست دان ہی ہیں جنہوں نے نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے قیام کے لیے جامع تیاری کی ہوئی ہے۔ درحقیقت یہ وہ ہوشیار سیاست دان ہیں جو صلیبی عالمی برادری کی منافقت سے نمٹنے اور اُن کے فریب کو انہی پر پھیرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،  

 

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ * وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ) 

"اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس چیز کی طرف دعوت دیں  جس میں تمہارے لیے حیات ہے۔ جان لو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتاہے اور اس کی طرف تم جمع کیے جاؤ گے، اور اس فتنے سے ڈرو  جو صرف تم میں سے  ظالموں کو ہی اپنے لپیٹ میں نہیں لے گا اور جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔"(الانفال، 8:24)۔

 

یہ تحریر پاکستان سے بلال مہاجر نے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیوں کے لیے لکھا

    

Last modified onبدھ, 10 اگست 2022 04:36

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک