بسم الله الرحمن الرحيم
جمہوریت کے تحت منعقد ہونے والے انتخابات کے ذریعے حقیقی تبدیلی کی امید نہیں لگائی جاسکتی
انجینئر معیز، پاکستان
خبر:
عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 17 جولائی 2022 کو اہم ضمنی انتخابات میں کم از کم پندرہ نشستیں جیت کر مسلم لیگ ن کوبدترین شکست دی۔ یہ پندرہ نشستیں اُن بیس نشستوں میں سے تھیں جو پی ٹی آئی کے ارکان کی نااہلی کے بعد خالی ہوئی تھیں، جنہوں نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھا۔
تبصرہ:
پاکستان کی عسکری قیادت کا پی ایم ایل این سمیت اپوزیشن پی ڈی ایم کے ساتھ یہ ڈیل تھی کہ اُن پر عہدہ چھوڑنے کے لیے دباؤ نہ ڈالا جائے گا۔ یہ ڈیل انہیں اگست 2023 تک موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ جہاں تک انتخابات کا تعلق ہے، تو پی ڈی ایم کی جماعتیں چاہتی تھیں کہ اسٹیبلشمنٹ انتخابات سے دور رہے۔ انہیں یقین تھا کہ وہ اپنے بل بوتے پر الیکشن جیت سکتی ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پی پی پی دونوں نے الیکٹ ایبلز کو خود سنبھالنے کو ترجیح دی بجائے اس کے کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں سنبھالتی ۔
وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے اختلاف رائے رکھنے والے ارکان کے ووٹوں کی گنتی کی اجازت نہ دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اس وقت آیا تھا جب اسٹیبلشمنٹ قبل از وقت انتخابات کی تیاری کر رہی تھی۔ تاہم آئی ایم ایف نے قبل از وقت انتخابات کو ویٹو کر دیا۔اس کے بعد سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے نتائج کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ مسلم لیگ ن کو یقین تھا کہ وہ ضمنی الیکشن جیتے گی، اِس لیے اُس نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بحران کے حل کے لیے سپریم کورٹ کے فارمولے سے اتفاق کرلیا تھا۔
پی ٹی آئی کی جیت عوام کے پی ڈی ایم حکومت کی آئی ایم ایف کی پالیسیوں سے ناراض ہونے کا نتیجہ ہے۔ معاشی بحران اور اس کے نتیجے میں مہنگائی نے پنجابی ووٹروں کو بری طرح متاثر کیا۔ مسلم لیگ ن نے عمران خان کی حکومت کو ختم کرنے کی کوششوں میں ایسے امیدواروں کو انتخابی ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا جو اپنے حلقوں میں زیادہ مقبول نہیں تھے۔ اس سے کچھ الیکٹ ایبلز ناراض ہوئے جنہوں نے مسلم لیگ ن چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور پی ٹی آئی کی نشست پر الیکشن جیت لیا۔
یہ پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کے لیے حیران کن نتیجہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے پی ڈی ایم کو نہیں چھوڑا۔ وہ دراصل انتخابات سے دور رہی جیسا کہ پی ڈی ایم نے مطالبہ کیا تھا اوراب نتائج سے حیران ہے۔ تاہم انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دور رہنے کی وجہ سے جنرل باجوہ پر مسلح افواج کے رینک اینڈ فائل کی جانب سے آنے والے دباؤ میں کمی آئے گی۔ فوج کے رینک اینڈ فائل چاہتے تھے کہ جنرل باجوہ پی ڈی ایم حکومت کو ختم کرنے اور قبل از وقت انتخابات کرانے کے لیے اپنی طاقت استعمال کریں۔
انتخابی نتائج کے بعد، پی ڈی ایم پارٹیاں قبل از وقت انتخابات نہیں چاہیں گی، خاص طور پر جب مہنگائی کا زبردست اثر عوام کو محسوس ہو رہا ہے۔ عمران خان قبل از وقت انتخابات کے لیے زور دیں گے کیونکہ وہ اکثریت حاصل کر سکتے ہیں۔ اب وقت ہی بتائے گا کہ عسکری قیادت کیا راہ اختیار کرتی ہے ۔
پنجاب کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی جیت سے پالیسیوں میں کوئی خاص تبدیلی متوقع نہیں۔ اگر پی ٹی آئی پنجاب میں حکومت بناتی ہے اور اگر قبل از وقت انتخابات پر مجبور نہیں کر سکتی تو وہ آئی ایم ایف کے بجٹ کی پابندیوں کے اندر کام کرنے پر مجبور ہوگی۔ یہ الیکشن اور پاکستان کی موجودہ سیاست جنرل باجوہ، عمران خان اور پی ڈی ایم جماعتوں کی قیادت میں اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اقتدار کی کشمکش سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس سے کسی خیر کی توقع نہیں ہے۔ جمہوریت کے تحت ہونے والے انتخابات صرف ناکام سیاستدانوں کو انہی پرانی ناکام پالیسیوں کے ساتھ حکومت کرنے کے لیے واپس لانے کے لیے کرائے جاتے ہیں ۔ یہ صرف خلافت ہی ہو گی جو انتخابات کے اس شیطانی چکر کو ختم کرے گی، جو صرف سیاست دانوں کو ری سائیکل کرنے کا کام کرتی ہے، جنہیں چند ماہ قبل عوام نے مسترد کر دیا ہوتا ہے۔