الإثنين، 23 محرّم 1446| 2024/07/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

اسلام میں نظریہ نسوانیت کا رَد

 

خلیل مصعب، پاکستان

 

تعارف : نظریہ نسوانیت اور اسلام میں عورت کا مقام

 

جب بھی ہم نظریہ نسوانیت کے موضوع پر بحث کرتے ہیں اور یہ کہ اس کے بارے میں اسلام کا نکتہ نظر کیا ہے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ دو بنیادی مسائل ایسے ہیں جن پر توجہ دینا انتہائی ضروری ہے۔ وہ بنیادی مسائل درج ذیل ہیں :

 

1۔ اسلام میں عورت کے مقام اور شریعت کی جانب سے اُن کے لیے مقررکردہ کردار کے حوالے سے فہم کا شدید فقدان۔

 

2۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک غلط فہمی اور ان حقوق کو برقرار رکھنے والے نظام کی عدم موجودگی۔

لہٰذا، نظریہ نسوانیت کے بارے میں اسلام کا موقف واضح کرنے کی کوئی بھی کوشش کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ان دو مسائل پر توجہ دی جائے۔ ہمیں یہ ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ اسلام کے خواتین کے بارے میں کیا احکامات ہیں، اسلام خواتین کو کن حقوق سے نوازتا ہے اور شریعت کی طرف سے ان پر کیا فرائض عائد کئے گئے ہیں۔     جب اس تمام کی وضاحت ہو جائے تو تب ہی ہم اسلامی شریعت کا نظریہ نسوانیت سے موازنہ کر سکتے ہیں اور اس حوالے سے کوئی نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ آیا نظریہ نسوانیت اسلام سے کچھ مطابقت بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ پس، ان شاء اللہ،  ذیل میں اس کی وضاحت شروع کرتے ہیں۔

 

اسلام میں عورت کا مقام اور شریعت کے مطابق عورتوں کے فرائض

 

اسلام میں ایسا کوئی تصور موجود نہیں کہ مرد وعورت ہر لحاظ سے سے برابر ہیں۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ دونوں انسان ہیں، اپنے خالق اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ۔'عبد' ہیں اور دونوں پر ہی اپنے پروردگار کی عبادت فرض ہے۔حتیٰ کہ یہ بات تو کسی بچے پر بھی واضح ہے کہ مرد وعورت دو مختلف جنس ہیں۔ وہ اس لیے ایسے ہیں کہ خالق کائنات نے ہی اُنہیں ایسے تخلیق کیا ہے اور اللہ سبحانہ وتعالی اپنی اس تفریق کی تصدیق کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں :  ﴿وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ﴾"اور مرد، عورت کی مانند نہیں ہے" (آل ِعمران:36)۔ مخلوط الجنس افراد کا وجود، جو کہ hermaphrodites  کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، اس حقیقت کی نفی نہیں کرتا کہ مرد اور عورت دو مخالف جنس ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی قاعدے سے استثنیٰ ہونا ، مطلق اصول کو منسوخ نہیں کرتا۔ درحقیقت، مطلق اصول کی وجہ سے ہی وہ استثنیٰ میسر ہوتا ہے۔انسان پانچ اُنگلیوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، اگرچہ کچھ بچوں میں ایسے خلاف معمول واقعات بھی پائے جاتے ہیں جو کہ پانچ سے زیادہ یا کم اُنگلیوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح انسان کی دو ہی جنس ہوتی ہیں اگرچہ چند افراد کی جنس مبہم ہوسکتی ہے۔بے شک، ہم کسی  مستثنیٰ افراد کے لیے گنجائش کرتے ہیں اور شریعت بھی مخلوط الجنس کے لیے یقینا گنجائش رکھتی ہے۔ تاہم، یہ وہ موضوع نہیں جو کہ فی الحال یہاں زیربحث ہے۔جو موضوع یہاں زیرِبحث ہے وہ اسلام میں خواتین کا مقام ہے۔ قرآن مجید واضح طور پر عورتوں کو ایک الگ جنس ہونے کے ناطے اُنہیں مردوں سے فرق کرتا ہے۔ پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ مردوعورت کے درمیان مزید کیا تفریق رکھی جائے؟

 

جب ہم شریعت اور اُن فرائض کا معائنہ کرتے ہیں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مومنین کو عنایت کیے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ معاملات میں تو بحیثیت انسان اور ان کی استطاعت کے مطابق شریعت نے مردوعورت پر بالکل ایک جیسی ذمہ داریاں عائد کی ہیں جبکہ چند دیگر معاملات میں، مردوعورت کی مختلف جنس کے طور پر، ان کی جنس اور استطاعت کے مطابق ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں۔ اُن معاملات میں جہاں مرد وعورت دونوں پر ایک جیسے فرائض عائد ہیں، جن میں ہمارے پاس مثالیں ہیں کہ دونوں پرہی دن میں  پانچ دفعہ نماز ادا کرنا اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کی ادائیگی فرض ہے۔ پھر شریعت کے کئی معاملات میں ایسے احکامات بھی موجود ہیں جہاں مرد و عورت پر علیحٰدہ ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں۔ عبادات کے معاملے میں، مرد کے حوالے سے یہ مثال ہے کہ مرد پر اجتماع کے ساتھ جمعہ کی نماز کی ادائیگی فرض ہے جبکہ عورت پر نہیں۔ مناکحات کے معاملے میں ہم دیکھتے ہیں کہ مرد پر اپنی زوجہ کا سرپرست ہونے کی ذمہ داری ہے اور بیوی کیلیے یہ ہدایات ہیں کہ وہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے۔

 

پس اس طرح سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مؤمنین مردوعورت  کے فرائض  کچھ معاملات میں تو ایک جیسے ہیں اور کچھ معاملات میں مختلف ہیں۔  اور یہ ذمہ داریاں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ہی عائد کردہ ہیں  اور ہم پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بندے ہوتے ہوئے اپنی بھرپُور استطاعت کے مطابق ان فرائض کو ادا کرنا ضروری ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی سب سے زیادہ حکمت والا ،  سب سے زیادہ عادل ہے اورہمیں صرف اُسی کے حکم کا  فرمانبردار رہنا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں :

 

﴿إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

" ایمان والوں کی بات یہی ہے، جب ان میں فیصلہ کرنے کو اُنہیں اللہ اور رسول کی طرف بلائیں ، ، تو کہتے ہیں کہ ہم نے سُنا اور مانا اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں" (النور : 51)۔

 

اسلام میں خواتین کے حقوق اور ایک نظام جو ان حقوق کی حفاظت کرتا ہے

 

جس طرح ہم یہ  جانتے ہیں کہ یہ شریعت ہی ہے جو مؤمنین کے فرائض اور ذمہ داریاں طے کرتی ہے،  اُسی طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ  مؤمنین کے حقوق بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شریعتِ مبارکہ سے ہی اخذ کیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بندے کے حقوق اُسے اس کے آقا کی طرف سے ہی عطا کیے جاتے ہیں اور  اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی ہمارے آقا ہیں اور ہم اُن کے تابعدار بندے  ہیں۔اسی لیے، یہ جاننے کے لیے کہ اسلام میں خواتین کو کیا حقوق دئے گئے ہیں، ہمیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وحیٔ مبارکہ کی طرف رجوع کرنا ہو گا جو ہمیں قرآن کریم اور خاتم الانبیأ  محمد ﷺ  سے ملتی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں،    

 

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴾

" اے ایمان والو! اللہ اوررسول ﷺ کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے اہلِ امر (حکمرانوں) کی بھی اور اگر تم کسی معاملے میں تنازعہ کرو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ پر اور روزِ آخرت پر یقین رکھتے ہو، یہی بہتر اور احسن حَل ہے " ( النسأ : 59)۔

 

بہرحال مسئلہ یہ نہیں ہے کہ شریعت نے خواتین کو حقوق عطا نہیں کیے بلکہ آج امت میں  مسئلہ تو یہ ہے کہ زمانۂ حال میں خواتین کے حقوق محفوظ نہیں ہیں۔ اور یہاں تو ہم ایک بہت ہی بڑے مسئلے کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں ۔

 

شریعت کا نفاذ اور خلافت کی غیر موجودگی

 

یہ 1924 کی بات ہے کہ مغربی ایجنٹ، مصطفیٰ کمال سائیک پیکوٹمعاہدے کے تحت عثمانی خلافت کو تاراج کرنے میں کامیاب ہوگیا، مغربی طاقتوں نے مسلمان علاقوں کے حصے بَخرے کرڈالے اور آپس میں تقسیم کرلیے۔ اُن معاشروں میں جہاں مسلمان آباد تھے، کوششیں  کی گئیں کہ  شریعت کا مکمل طور پر خاتمہ ہو جائے۔ ان علاقوں میں جو قوانین رائج تھے انہیں شریعت سے بدل کر مغربی قوانین  اختیار کر لیے گئے۔ شرعی عدالتوں کے اختیارات پہلے تو محدود کردئیے گئے  پھر انہیں بالکل ہی ختم کردیا گیا۔  تعلیمی ادراوں میں اس طرح نئی اصلاحات کی گئیں تا آنکہ لوگ پھر دوبارہ اپنے دین سے کچھ  نہ سیکھ سکیں بلکہ اس کی بجائے لوگ  مغرب کا نصابِ تعلیم سیکھیں۔  حتیٰ کہ معاشرے میں ہرجگہ اور ہرپہلو سے استعمار کی جانب سے شریعت کو نشانہ بنایا گیا اور اسے بزورِطا قت اُکھاڑ کرباہرپھینک دیا گیا۔اِن تمام کاوشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُمت اَن گنت مصائب میں گِھر کررہ گئی۔  ریاستِ خلافت کی عدم موجودگی سے ، کہ جو لوگوں پر خَیر کو مقدم رکھتی تھی اور شریعت کا نفاذ کرتی تھی ، مسلمان دنیا کرپشن اور ناانصافی کے ہرطرح کے مسائل سے دوچار ہوتی چلی گئی۔ اور خواتین کے معاملے میں یہ ناانصافی نہ صرف بے انتہا بلکہ شدید تھی  جو کہ ابھی تک موجود ہے۔جبری شادیاں، عورت کو طلاق کا حق نہ دینا اور غیر قانونی طریقے سے بیوی کی دولت  خرچ کردینا وغیرہ ، عورتوں کے شوہروں یا مرد رشتہ داروں کے  دائرہ ٔ اختیار میں  تھا، یہ  سب معاشرے میں پھیلی اور مشہور مثالوں میں سے محض چند مثالیں ہیں۔

 

خواتین سے ہونے والی ناانصافیاں مزید بڑھ کر تب ظاہر ہوئیں جب دین کو  جانتے بوجھتے ہوئے تروڑمروڑکر رکھ  دیا گیا اور  دین کو اس مقصد کے لیے   جواز کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس طرح اسلام کا   یہ حُکم کہ ایک عورت پر لازم ہے  کہ وہ اپنے خاوند کی اطاعت کرے، اس حکم کو  اس کے خاوند کے ایسے  رویے کو جواز دینے کے طور پر استعمال کیا گیا کہ جب وہ اپنی بیوی سے بدتمیزی کرے یا اس کے حقوق ادا کرنے میں ناکام ہوجائے اوراسی طرح اسلام کے اس حکم کو کہ اگرعورت  کے پاس کوئی معقول وجہ نہ ہواور  وہ اپنے خاوند سے ہمبستری سے انکار کرے تو اس  صورت میں وہ  عورت گنہگار ہو گی، خاوند کی طرف سےاپنی بیوی کے ساتھ ہر طرح کی بیہودگی کے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ہمیں  ایسے واقعات بھی سُننے کو ملتے ہیں کہ جب کوئی مرد کسی عورت سے زبردستی زنا  کرلیتا ہے، جو کہ اس کی بیوی نہیں ہے  تو پھر اسے سزا سے بچانے کے لیے عورت کو اُسی مرد سے شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ایسے واقعات ایسے افسوسناک حالات کی ترجمانی کرتے ہیں جن میں آج امت پِس رہی ہے۔ خلافت کی عدم موجودگی میں کوئی ایسا  نظام موجود نہیں ہے جو لوگوں کو اپنے دین کی جامع تفصیلات سے رُوشناس کرسکے ، لوگوں میں اچھے برتاؤ  اور تقوٰی وپرہیزگاری کی حوصلہ افزائی کرسکے اور ان میں موجود مجرموں کی کَڑی پکڑ کرسکے۔  آج یہ صرف خواتین  کے حقوق ہی نہیں ہیں جو محفوظ نہیں  بلکہ ہر جگہ ہرکسی کے حقوق ہی پامال ہو رہے ہیں۔

 

نظریہ نسوانیت کوئی حل نہیں ہے

 

نظریہ نسوانیت کی اس بحث میں یہ سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ خلافت کی عدم موجودگی اور شریعت کا نفاذ نہ ہونا ہی اس امت میں خواتین کے ساتھ ناانصافی ہونے کی حقیقی وجوہات ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اب امت کے کچھ طبقات میں یہ رائے زور پکڑتی جا رہی ہے کہ نظریہ نسوانیت کا پرچار کرنا ہی خواتین کے حقوق حاصل کرنے کا درست طریقہ  ہے۔  تاہم ، اس اُمت  کے ماننے والوں کو یہ ضرور سمجھ لینا چاہئے کہ نظریہ نسوانیت کوئی منہج(طریقۂ کار) نہیں ہے بلکہ یہ ایک  نظریہ ہےجو مغرب میں تشکیل شُدہ کُفر یہ تصورات پر مبنی ہے۔ اس نظریے  کا مکمل فہم حاصل کرنے کیلیے نظریہ نسوانیت کی مغربی تاریخ کو سمجھنا ضروری ہے۔

 

مغرب میں نظریہ نسوانیت کا  ظہور اور اس میں موجود کفر

 

یہ تصور کہ عورت فطری طور پر مرد سے کمتر ہے ، ایک ایسا  خیال تھا جو قدیم یونانی فلسفیوں کے  دور سے جاملتا ہے۔ ارسطو کا مشہور مقولہ ہے کہ " عورت کا مرد سے موازنہ ایسا ہی ہے جیسے ایک غلام کا اپنے مالک سے ، کسی مزدور کا کسی تحقیقی کام کرنے والے سے،  کسی جنگلی اُجڈ کا ایک  یونانی سے۔ عورت ایک نامکمل مرد ہوتی ہے، جو کہ تخلیق کے معیار میں  نچلے درجے پر ہوتی ہے"۔بعد میں جب عیسائیوں نے یورپ کا  اقتدار سنبھالا تو عورتوں کے متعلق ان کے تصورات بھی  عورتوں کے   حق میں نہ تھے۔ حضرت حوا سے متعلق بائبل کی کہانی کہ ایک  ناگ نے اُنہیں دھوکے سے ایک سیب کھانے کو دیا اور پھر اس کا کچھ حصہ  آدم کو دینے کو کہا، اور اس کے نتیجے میں دونوں کو بہشت سے بے دخل کردیا گیا، اس کہانی سے  مغربی ثقافت میں یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ عورت فکری طور پر مرد سے کم تر ہے ،  مصیبت میں ڈالنے والی ہے،  اور مرد کے لیے ایک زحمت ہے۔یہی وہ تصورات تھے جنہوں نے صدیوں تک مغربی معاشروں میں عورتوں سے بدسلوکی اور ظلم وجبر رَوا  رکھے۔ انہیں طلاق کا حق نہ دیا گیا اور اس اعتقاد کی وجہ سے کہ عورت غیر ذمہ دار اور نامعقول ہوتی ہے، انہیں اُن کی اپنی ہی جائیداد کا انتظام سنبھالنے کی اجازت نہ تھی۔ اس کے بجائے، ایک بیوی کی جائیداد اس کے خاوند کی جائیداد بن جاتی اور وہ  جہاں بھی چاہتا ، اسے خرچ کر سکتاتھا جبکہ اس عورت کو یہ حق حاصل نہ تھا۔ یورپ کی نام نہاد نشاۃِ ثانیہ سے سات صدیاں قبل ہی یہ دونوں طرح کے حقوق، یعنی عورت کو طلاق کا حق اور  جائیداد کا مالک ہونے اور اسے اپنی ملکیت میں رکھنے کا حق ، ہمارے پیارے رسول محمد ﷺ عورتوں کو عطا کرچکے تھے۔عیسائیوں کا یہ اعتقاد تھا کہ حوا ؑ نے آدمؑ کو سیب کا ایک ٹکڑا کھانے پر قائل کرلیا،  اور اس سے یہ بھی اعتقاد رکھتے تھے کہ جب بھی عورت کو بولنے کی اجازت دی گئی،  اس کا نتیجہ کسی خرابی کی صورت میں ہی  نکلا ،لہٰذا اس سے بہتر ہے کہ عورت کو خاموش ہی رکھا جائے۔ قُرونِ وسطیٰ کے دور میں بہت سے یورپی ممالک میں،  جو عورتیں اجازت سے زیادہ بولتی تھیں یا جنہوں نے اپنے خاوندوں کو ناراض کیا ہوتا تو اُن عورتوں کے منہ پر ایک آہنی شکنجہ  نُما  آلہ لگا دیا جاتا تھا۔

 

اتنی  توہین اور بدسلوکی سے صدیاں گُزر جانے کے بعد مغرب کی عورت نے اپنے آپ کو منظم کیا اور اپنے لیے بہتر حقوق کا کھلم کُھلا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔ یوں اس طرح، اُنیسویں صدی میں حقوقِ نسواں کی پہلی تحریک  شروع  ہوئی جس کی تعریف  یوں تھی کہ مغربی عورتوں کی اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے کوشش، جیسے کہ ووٹ کا حق دینا اور ملکیت کا حق دینا وغیرہ۔البتہ، یہ حقوق  فراہم کردینے کے باوجود ابھی بھی مغرب  میں ایسے تصورات کثرت سے غالب تھے جوکہ لوگ اپنی عورتوں پر ظلم کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔  اُن تصورات میں سے ایک مثال، مغربی فلسفہ "حیاتیاتی نظریۂ جبریت"( biological determinism) ہے۔ مغربی مفکرین کا یہ خیال تھا کہ معاشرے میں مردوعورت کے کردار اُن کی حیاتیاتی ساخت کے مطابق طے ہونے چاہئیں ۔ ان کی حیاتیاتی ساخت،  ظاہرہے، انہیں ایک دوسرے سے بنیادی طور پر جُدا کرتی ہے۔ اس  تصور کا ادراک ،کہ ایک مرد اور ایک عورت  دو الگ  الگ حیاتیاتی اجسام ہیں، ہمارے دین میں بھی پایا جاتا ہے، جیسا کہ اس موضوع کے بالکل آغاز میں ہی اس کی وضاحت کردی گئی تھی۔ تاہم، مغربی کفار جس غلطی پرہیں وہ یہ ہے کہ انہوں نے صنف کے کردار متعین کرنے میں شریعت کے بجائے عقلی استدلال کو بنیاد بنادیاہے۔ جیسا کہ ہم  جانتے ہیں کہ عقلی توجیہ غلطی سے مُبّرا نہیں ہوتی اور اس میں غلطی کا امکان ہوتاہے۔بہرحال  مغرب میں اس کج رَوی نے  عورتوں کے متعلق ہرطرح کے گمُراہ کن  خیالات کو ترویج دی۔مثال کے طور پر، اُنیسویں صدی میں مغربی ڈاکٹر اس سوچ تک جا پہنچے کہ عورت کا جسم  ایک "مجتمع مرکب (anabolic) ہوتاہے یعنی یہ توانائی کو صَرف کرنے کی بجائے توانائی کو ذخیرہ کرتا ہے۔ انہوں نے اس بنیاد پر یہ کہا کہ اس سے عورتیں سُست اور کاہل ہوجاتی ہیں اور اس طرح وہ سیاست کے میدان کے لیے نااہل اور غیرموزوں ہیں۔ ایسے تصورات کو  پھر عورتوں کو حقِ رائے دہی سے محروم کرنے  اور اُنہیں سیاست سے علیٰحدہ رکھنے کے جواز کے طور استعمال  کیاگیا۔ یہاں پر عمرؓ  کی اس مثال کا ذکر کرنا شاید سُودمند ہوگا، جب  ایک عورت نے حق مہر کے معاملہ پر اُن کی تصحیح کی۔ ناقص عقل پرمبنی  یہ تصوریعنی "حیاتیاتی نظریۂ جبریت"( biological determinism) ہی تھاجس نے نظریہ نسوانیت کی تحریک کی دوسری لہر کوجنم دیا۔ نظریہ نسوانیت کی فلسفہ نگار جیسے   Simone de Beauvoir اورBetty Friedanنے اس خیال کی مخالفت شروع کردی کہ حیاتیاتی ساخت کسی عورت کے معاشرے میں کردار کا تعین کرسکتی ہے اور اُنہوں نے اس خیال کو پروان چڑھانا شروع کردیا کہ معاشرے میں اپنے طرز عمل کے حوالے سے ایک عورت، مرد کے برابر ہو سکتی ہے۔

 

نظریہ نسوانیت کے علمبرداروں کی جانب سے حیاتیاتی نظریۂ جبریت کی پابندیوں سے عورت کو آزادی دلانے  کی اِن کوششوں کے  غیر مطلوبہ نتائج نکلے۔ جُوں جُوں نظریہ نسوانیت کی سوچ بڑھتی  چلی گئی اور نسوانیت کی تیسری اور چوتھی لہر  بھی شروع ہوگئی ، تو  مفکرین جیسے جوڈتھ بٹلر Judith Butlerنے نسوانیت کے دوسرے دور کی علمبرداروں مثلاًSimone de Beauvoirکے خیالات کو ایک نئی انتہا دے دی۔ اب یہ بھی کہا جانا شروع ہو گیا  کہ نہ صرف معاشرے میں عورت کے کردار کا تعین اس کے حیاتیاتی خدوخال سے  نہیں ہونا چاہئے بلکہ عورت کی جنس کا تعین بھی اس کی  جسمانی  ساخت  سے طے نہیں ہونا چاہئے۔ یہ تصور کہ  جِنس محض ایک سماجی برتاؤ  ہوتاہے اور یہ کہ ایک عورت صرف اپنے جسمانی خدوخال کی وجہ سے  عورت نہیں ہوتی، اس تصور نے  ہی  ٹرانسجنڈر تحریک کو ہَوا  دی۔اب مغرب میں یہ خیال  ہر طرف پھیلا ہوا ہے کہ ایک مرد وعورت اپنے لیے اپنی جنس کا انتخاب خود کرسکتے ہیں۔  ایک مرد  وِگ لگا کر اور ایک سکرٹ پہن کر اپنے آپ کو ایک عورت کہلوا سکتا ہے۔ یہ ایک اور قبیح گناہ ہے ، کیونکہ  ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ

 

«لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمُتَشَبِّهَاتِ بِالرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْمُتَشَبِّهِينَ بِالنِّسَاءِ مِنَ الرِّجَالِ»

" اللہ کے نبی ﷺ نے اُن مردوں پر لعنت کی جو عورتوں کی مشابہت  کرتے ہیں اور اُن عورتوں پر لعنت کی جو مردوں کی مشابہت کرتی ہیں" (ترمذی)۔

 

پس اس طرح یہاں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح ایک کفر کو اپنا لینا مزید کفر کی طرف لے جاتاگیا۔ مغرب میں عورتوں کی اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے "روشن خیالی " کی اس جدوجہد نے اس بنیادی  تصور کا شیرازہ بکھیر دیا  جو تصور عورت ہونے کی بنیادی حقیقت کی تعریف کرتا ہے۔ یہ مؤمنین کے لیے ایک تنبیہ ہے۔ہمارے پیش رَو صالحین بھی اُمت کو خبردار کرتے رہے کہ جس طرح  ایک نیک عمل کی ادائیگی  کا صلہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ دوسرے نیک عمل کی توفیق دیتے ہیں، اُسی طرح   بُرا فعل کرنے کی سزا  یہ ہے کہ وہ شخص مزید بُرے افعال میں مبُتلا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی مومن  قرآن وسُنت  کے احکامات سے کنارہ کشی کرتا ہے  اور وہ ایسے نظریات اختیار کرنا شروع کردیتا ہے جو کہ کُفریہ  ہیں تو وہ اُن میں کوئی حد نہیں پاتا۔ وہ گناہوں کی دلدل میں ڈوبتا چلا جاتا ہے جہاں سے واپسی کا واحد راستہ یہی  ہےکہ شریعت کی طرف دوبارہ  رجوع کیا جائے۔

 

اس کی مزید وضاحت، نظریہ نسوانیت کی تحریک میں سوشلزم کے شا مل ہو جانے سے ہوتی ہے۔انیسویں صدی کے اواخر میں جب تحریک نظریہ نسوانیت کے خیالات کی پہلی لَڑی  نمودار ہوئی تو اس میں نہایت سُرعت کے ساتھ سوشلسٹ فلسفہ  سرایت کرگیا۔  یہ  فریڈرک اینجل Friedrich Engelsجیسے سوشلسٹ مفکرین ہی تھے  جنہوں نے شادی کی تعریف مردوعورت کے مابین طبقاتی کشمکش کے طور پر کی، بالکل اُسی طرح  جیسے معاشرے کے ادنیٰ طبقے اور متوسط طبقہ میں طبقاتی کشمکش پائی جاتی ہے۔  اس طرح اس تعریف نے شادی کے بندھن کی بنا پر بنے معاشرے کی اقدار کو مجروح کردیا۔  بعدازاں ، بیسویں صدی میں، Simone de Beauvoirنے سوشلسٹ نظریات پر مبنی طبقاتی کشمکش تشکیل دی اور بالآخر  یہ طے کیا کہ  مردوعورت معاشرے کے تنازعات میں ملوث ہوتے ہیں۔ اس تصور کے برعکس، اسلامی فہم یہ ہے کہ مردوعورت ایک دوسرے کے مددگار (أَوْلِيَاءُ) ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں : 

 

﴿ وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ﴾

" اور ایمان والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں " ( التوبہ : 71)۔

 

مرد وعورت کے  ایک دوسرے کے خلاف تنازعہ کرنے سے سوائے نقصان کے اور کُچھ  حاصل نہیں ہوتا۔  ذرا غور کریں کہ آخر کیسے مغرب میں نظریہ نسوانیت کے غالب ہونے کے باوجود طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے اور ان بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو  ان تنہا ماؤں کے رحم وکرم پر پَل رہے ہیں جو خود بیچاریاں کمانے کے لیے کام کرنے پر بھی مجبور ہیں۔  یہ تباہی  صرف نظریہ نسوانیت کی ہی مرہونِ منت نہیں ہے  بلکہ اس میںبڑھتے ہوئے نظریہ  لذت کی تلاش ( hedonism ) اور نظریہ انفرادیت (individualism ) کا بھی اتنا ہی کردار ہے۔ لوگ شادی کو یا خاندانی نظام کو اب مزید اہمیت ہی نہیں دیتے  اور اس کی بجائے  عارضی تسکین اور تجربہ کی تلاش  میں رہتے ہیں جو اُن کی انفرادیت کی سوچ کو مزید تقویت دیتا ہے۔ اس طرح، مغرب میں صرف چند لوگ ہی شادی کرپاتے ہیں،  زنا کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے ، بچوں کی پیدائش میں  کمی واقع ہو رہی ہے، اسقاطِ  حمل کی تعداد عروج پر ہے اور   زنا  میں لُتھڑی ایسی آبادیوں  کی وجہ سے جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریاں بھی انتہا پرہیں۔یہی وجہ ہے کہ کفار کے نظریات کا  بہت احتیاط سے مطالعہ کرنا چاہئے۔ اگر کُچھ عمومی سطح پر بے ضرر بھی نظر آرہا ہو تو بھی وہ اُمت کی تباہی کا سبب ہوسکتاہے۔  نظریہ نسوانیت کو مؤمنین کو اس طرح پیش کیا گیا کہ جیسے یہ خواتین کے حقوق کی ضمانت کا ایک طریقہ ہے لیکن اس کی بنیادیں  کُفر اور گلی سَڑی ہونے  کے سوا کچھ نہیں۔

 

خواتین کے حقوق اور استعماری ایجنڈا

 

نظریہ نسوانیت سے متعلق ایک اور نکتہ بھی ہے جس کا سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ   مسلم علاقوں میں مغرب کی جانب سے نسوانیت کا نظریہ  عورتوں  کی آزادی  کے لیے کسی خلوصِ نیت سے نہیں پیش کیا گیا۔ بلکہ  یہ شریعت کو نیچا دکھانے اور مسلمانوں پر غلبہ کی استعماری مہم کو آگے بڑھانے کے طور پرپیش کیا گیا۔جب استعمار مسلم دنیا میں داخل ہوئے تو انہوں نے شریعت کو اُکھاڑ پھینکنے اور اسے اپنے قانونی نظام سے بدلنے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے۔ ایسا کرنے کے لیے اُن کے ذرائع میں ایک مستشرقین منصوبے کی معاونت کرنا بھی تھا ؛  یورپی اداروں نے ایسے تعلیمی وفود پیدا کرنا شروع کردئیے جنہوں نے شریعت کا گہرائی سے مطالعہ کررکھا تھا  اور انہوں نے شریعت کی تعلیمات مسخ کرنا اور اس کے متعق جھوٹ پھیلانا  شروع کردیا۔  مستشرقین کی طرف سے  پھیلائے گئے سب سے  زیادہ  تباہ کُن بیانات  میں سے ایک  یہ تھا کہ شریعت ایک سخت گیر نظام تھا  جس  سے معاشرے میں جمود کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ یورپ کے لوگ اپنے آپ کو تبدیلی اور ترقی کا علمبردار سمجھتے تھے   اور ان کا دعوٰی تھا کہ قانون سے متعلق اُن کے تعلیمی ادارے  شریعت سے بَرتر تھے۔  اُن کا دعوٰی تھا کہ شریعت پُرانی ہوچکی ہے اور جدید دنیا سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس  پراستدلال کرتے ہوئے  وہ جو  دلائل استعمال کرتے تھے ، ان میں سے ایک  یہ دعوٰی تھا کہ شریعت نے عورت پر ظُلم رَوا  رکھا اور انہیں اُن کے حقوق نہیں دئیے گئے۔  اس  بیانیہ کو تقویت دینے کے لیے ، مستشرقین نے جانتے بوجھتے ہوئے شریعت کی غلط تشریح کی اور مسلمانوں کے متعلق جھوٹ پھیلا دئیے۔

 

پس مثال کے طور پر، جب یورپ کے لوگ ترکی میں آئے تو انہوں نے عثمانی سلطان کے حرم کے بارے میں جانا۔  حرم بنیادی طور پر عثمانی  محل کی خواتین کی رہائش کے  لیے وقف تھا  اور اس کے ساتھ ہی یہاں خواتین کو تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ کسی مرد کو حرم میں داخلے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ یورپی مرد یہ جان کر بہت  مایوس ہوئے  اور انہوں نے حرم کے متعلق گھٹیا جھوٹ گھڑنے  اور پھیلانے شروع کردئیے۔ انہوں نے دعوٰی کرنا شروع کردیا کہ حرم  سلطان کی باندیوں کے لیے ایک قید خانہ ہے  اور یہ کہ اُن باندیوں کو کُچھ  کام نہیں دیا جاتا کیونکہ وہ سارا دن انتظار کرتی رہتی ہیں کہ کب سلطان انہیں بُلاوا  دیں۔  اس من گھڑت کو سچ میں بدلنے کے لیے ، ان مستشرقین نے  واپس اپنے گھر یورپ میں  فلموں کے سیٹ تشکیل دئیے جو اس طرح ڈیزائن کئے گئے تھے کہ عثمانی حرم کی نقّالی کرتے تھے اور پھر ایسی اداکارائیں  اُجرت پر رکھیں  جن کے نقش ورنگت مشرقی خواتین سے میل کھاتے تھے۔ اداکاراؤں کو یہ ہدایات تھیں کہ وہ بیزار اور مایوس نظر آئیں۔ پھر اُن اداکاراؤں کی  تصاویر لی گئیں اور اُن تصاویر کو  شریعت اور مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ بنانے کے لیے پورے یورپ میں پھیلا دیا گیا۔ اُنہوں نے اس پر ہی اکتفا  نہ کیا بلکہ انہوں نے  اندرونِ حرم کی ایسی نقاشی گری کی کہ ان تصویرنگاری میں  حرم کی خواتین کو عُریاں دکھایا گیا تھا، پس اس طرح ایک ایسی مکمل تہذیب بیان کی جس میں یورپ کی طرف سے مسلمان خواتین پر جنسی حملہ کیاگیا تھا۔ پورے یورپ میں وسیع پیمانے پر ایسی فحش تصاویر پھیلائی گئیں ، جن میں مسلمان خواتین کی اداکاری کرتی ہوئی اداکارائیں نظر آتی تھیں۔  

 

مسلمان خواتین کے متعلق یورپ کے اس جنون نے اُن کی حد درجہ خباثت ظاہرکردی۔ الجیریا میں،  فرانس نے  مسلمان خواتین کو اپنےحجاب اُتارنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے  ایک مہم  کا آغاز کیا ۔ فرانسیسی ،اپنی  عورتوں کو مسلمانوں جیسا لباس اور نقاب اوڑھا دیتے تھے اور پھر اُنہیں کسی عوامی جگہ پر یوں کھڑا کردیتے تھے کہ وہ مسلمان دکھائی دیں اور پھر وہ اپنے نقاب اُتار دیتی تھیں۔ اُن کا خیال تھا کہ اس طرح کرنے سے مسلمان خواتین متاثٔر ہو کر اپنے حجاب  پہننا ترک کر دیں گی۔  یہ کاوشیں ناکام ثابت ہوئیں اور الجزائر  میں فرانس کے خلاف ہونے والے انقلاب میں حجاب ہی مسلمانوں کی آزادی کی علامت بن گیا۔مسلمان خواتین سے اپنے حجاب چُھڑوا دینے کی یہ استعماری  مہم اُن کے مسلمانوں پر غالب ہونے کے منصوبہ کا ہی ایک حصہ تھی۔ Frantz Fanonاپنے نظریے کو "الجزائر کی نقاب کشائی" میں بیان کرتا ہے کہ : " اگر ہم الجزائر کے معاشرے کا نظام اور اس کی مزاحمت کی استطاعت تباہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے ان کی عورتوں کو زیر کرنا ہوگا؛ ہمیں چاہئے کہ ہم جائیں اور انہیں پردہ کے پیچھے سے جہاں وہ اپنے آپ کو چھپاتی ہیں اور اُن کے گھروں میں اُنہیں ڈھونڈیں  جہاں اُن کے مرد انہیں نظروں سے دور رکھتے ہیں"۔وہ اس کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتاہے : "  یہ  بات یقینی تھی کہ الجزائر کے لوگ  نہ ڈگمگائیں گے  بلکہ وہ تب تک اپنے قابض کی طرف سے ہونے والی ثقافتی یلغار کی مزاحمت اور اس انضمام کی مخالفت کرتے رہیں گے جب تک کہ ان کی  عورتیں اسے پلٹ نہ دیں ۔ اس استعماری پروگرام میں یہ عورت  ہی تھی جسے   الجزائری مرد کو ہلا کر رکھ دینے کا تاریخی مشن سونپا گیا تھا۔ عورت کو بدل کر رکھ دینا، بیرونی مغربی اقدار سے اس کا دل جیت لینا، اسے اس کے مقام سے آزاد کرانے کی جدوجہد ، یہ وہ اقدامات تھے جن کے ذریعے   اصل مقصد مردوں پر حقیقی اقتدار   حاصل کرنا اور الجزائر کی ثقافت  کوعملی اور مؤثر طریقے سے تباہ کرنا تھا"۔

 

اسی طرح مصر میں برطانیہ کی طرف سے نامزد کیے گئے کنٹرولر جنرل Evelyn Baringنے حجاب کے خلاف اُسی طرز پر اَن گنت مہمات کا آغاز کیا جس طرح فرانس نے الجزائر میں شروع کیا تھا۔ تاہم، اُس دوران میں جب وہ حجاب اوڑھنے کو عورت پر ظلم گردانتے ہوئے حجاب پر تنقید کر رہا تھا، تو اُسی دور میں وہ اپنے ملک میں عورتوں کے حقِ رائے دہی کے خلاف  مردوں کی لیگ کا پہلا صدر ہونے کی ذمہ داری بھی ادا کر رہا تھا۔ Baringکی جانب  سے  اس کھلم کھلا منافقت کا مظاہرہ  ہم پر یہ آشکار کرنے کے لیے کافی ہے کہ استعمار کے درپردہ مقاصد کیا تھے۔ مسلمان عورتوں کی "آزادی" سے انہیں کوئی غرض نہ تھی بلکہ  اُن کا مقصد پہلے تو شریعت  کو  بدنام کرنا اور پھر بطور ضابطۂ اخلاق، شریعت کا  خاتمہ کرنا تھا۔

 

نتیجہ :

یہ مضمون پڑھنے والے کو اب تک یہ بات واضح ہو چکی ہوگی کہ نظریہ نسوانیت کے حوالے سے اسلام کا  نکتہ ٔ نظرکیاہے۔ چونکہ اسلام ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے عنایت کردہ   دینِ کامل ہے، نسوانیت کا نظریہ  انسان کے خود ساختہ نظریات کے سوا کچھ نہیں جو کہ کفر کی بنیاد پر اُستوار ہے۔یہ نہایت بد نصیبی کی بات ہے کہ خلافت کی غیر موجودگی میں امت اپنے دین کی  تمام برکتیں حاصل کرنے سے بھی محروم ہے اور نتیجتاً اپنے معاملاتِ زندگی کو منظم کرنے کے لیے کفریہ نظریات  کی طرف رُخ کرتی ہے۔ اسی لیےخلافت کے دوبارہ قیام کے لیے کام کرنے کی اہمیت   ہم پر بالکل واضح ہوجاتی  ہے ۔ صرف نبوت کے نقشِ قدم پر  قائم خلافت کی بحالی سے ہی شریعت کا نفاذ ممکن ہے اور صرف اسی طرح خواتین کے حقوق کی حفاظت ہوسکتی ہے۔ تو آئیں ان شاءاللہ اس  نیک مقصد کے لیے جدوجہد کریں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں :

 

﴿ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴾

" اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اللہ انہیں زمین پر حکمرانی عطا فرمائیگا جیسے اس نے  اُن سے پہلوں کو حکمرانی دی تھی اور ان کے لیے ان کا دین جما دے گا جو اُس نے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ان کے خوف کو امن سے بدلے دے گا تاکہ وہ صرف میری  بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور اس کے بعد جو کوئی نافرمانی کرے گا سو وہی لوگ فاسق ہیں " ( النور : 55)

Last modified onپیر, 09 جنوری 2023 06:22

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک