الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

امریکی صدر جوبائیڈن کے حالیہ 2023 کے سٹیٹ آف یونین خطاب میں

مسلم دنیا کے اہلِ قوت کے لیے تین سبق

 

مصعب عمیر، پاکستان

 

7فروری،2023 کو امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی کانگریس کے ایک مشترکہ اجلاس میں سالانہ سٹیٹ آف دی یونین خطاب کیا۔اس خطاب میں عالمِ اسلام کی قیادت کے لیے اہم سبق شامل ہیں۔

 

بے شک یہ اُمتِ مسلمہ کی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی منظرنامہ کے حوالے سے  رُونما ہونے والے  حالات و واقعات اور جاری کردہ بیانات پر مُسلسل نظر رکھے اوران کا باریک بینی سے جائزہ لیتی رہے۔ عالمی معاملات پر گہری نظررکھنا دینِ اسلام کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ ہمارا دین  پوری دُنیا کے لیے ہے جس کو تمام  ادیان پر غالب کرنا لازم  ہے۔ جس طرح، رسول اللہ ﷺ نے تختِ فارس پر مسلمانوں کے غلبے کی بشارت دی تھی، رسول اللہ ﷺ کی ہی پیروی کرتے ہوئے ، ابوبکرؓ نے  اسلامی ریاست کے قائم ہونے سے بھی پہلے،اُس وقت کی سُپرپاور،   روم اور فارس ، کے حوالے سے ایک مؤقف اختیار کیا۔مسلمانوں کے اہلِ قوت کی سوچ اور نظریں ،دُوررَس اور عالمی سطح پر ہر طرف ہوتی ہے۔اور یہی چشمِ بینا دنیا کو اسلام کی دعوت دینےاور اس کی راہ میں مادی رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے درکار جہاد کی راہ ہموار کرتی ہے۔

 

لہٰذا صدر جوبائیڈن کے سٹیٹ آف یونین خطاب سے ہم کیا سبق حاصل کرسکتے ہیں ؟

 

سبق نمبر 1 : امریکہ اور چین کی دشمنی

 

گزشتہ سال کے سالانہ سٹیٹ آف یونین خطاب کے برعکس، جس میں چین پر پُرزور تبصرہ کیا گیا تھا، اس سال کے خطاب میں  چین کا تذکرہ خاصا کم رہا۔ چین کے امریکی فضائی حدود میں تیرتے فضائی غُبارے  کومار گِرانے پر تبصرہ کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا،  "جیسا کہ ہم نے پچھلے ہفتے یہ واضح کردیا ہے ، کہ اگر چین ہماری خود مُختاری کے لیے  خطرہ بنتا ہے تو ہم اپنے ملک کی حفاظت کے لیے فوری اقدام کریں گے، اور ہم نے ایسا ہی کیا"۔ اس طرح، بائیڈن نے امریکی  عوام پراپنے مردِ آہن ہونے کی دھاک بٹھادی۔ اس نے چین کو اپنے ہی خطے میں محدود کردینے کے اقدامات کی بھی نشاندہی کی۔ درحقیقت، امریکہ ہندوستان کو چین کے لیے ایک حریف کے طور پر تیار کررہا ہے،  جاپان کو ایک جارحانہ فوجی قوت کی راہ پرڈال رہا ہے اور تائیوان کے  چین مخالف مؤقف کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

 

اس تناظر میں عالمِ اسلام کے اہلِ قوت کے لیے یہ سبق ہے کہ بائیڈن ، چین پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کے لیے مسلمان دُنیا سے دستبردار ہو چُکا ہے۔ حالانکہ پہلے امریکہ کی جانب سے  "ڈو مور " کا مطالبہ مالی حمایت کے ساتھ آتا رہا تھا مگراب "ڈُو مور" کےامریکی مُطالبے کےاخراجات مسلمان دُنیا کے اپنے ذمہ  ہوں گے۔

 

پاکستان کے اہلِ قوت کے لیے اس میں غور کرنے کے لیے اہم سبق یہ ہے  کہ امریکہ اب  بھارت کی زبردست پُشت پناہی کررہاہے اور بھارت کو خطے کی طاقت کے طور پر اُبھرنے کے لیے پاکستان کو دبانا بہت  ضروری ہے۔اور پاکستان کی قوت کو کم کرنے کے لیے اسے  افغانستان میں طالبان کے ساتھ فضول  وبےسُود  تنازعہ میں اُلجھائے رکھنا شامل ہے۔  امریکہ کے ساتھ مسلسل اتحاد جاری رکھنا ہی پاکستان کو مزید تباہی کی جانب دھکیل رہا ہے۔

 

سبق نمبر 2 : امریکہ کا معاشی بُحران

 

آج عالمی استعماری معاشی نظام کے خاتمہ کےوقت یا جب اس کی بربادی بالکل قریب ہے ، بائیڈن معاشی محاذ پر بہتری لانے کی یقین دہانی کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ کہتے ہوئےکہ " دو سال پہلے ہماری معیشت ڈَول رہی تھی"، بائیڈن نے یہ نشاندہی کی کہ معاشی  بدحالی کا دور گزر چکا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی معیشت ابھی تک ہچکولے کھارہی ہے۔ امریکی عوام مُشکلات اور مصائب سے دوچار ہے اور معیشت کے بارے میں فکرمند ہے۔18 سے 24 جنوری، 2023 کے دوران ہونے والے Pew پیو ریسرچ سنٹر کے حالیہ سروے کے مطابق مجموعی طورپر، 75 فیصد امریکی عوام کا کہنا ہے کہ اس سال معیشت کا مضبوط کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ 60 فیصد عوام یہ سمجھتے ہیں کہ صحت کی سہولیات کو سستا کرنا ترجیح ہونی چاہئے، جبکہ 49 فیصد عوام کی رائے میں روزگار کے مواقع بڑھانا  ترجیح ہونی چاہئے۔ امریکی عوام ملکی معاشی حالات کے حوالے سے مسلسل اپنی تشویش اور خیالات کا اظہارکررہی ہے۔ صرف 21 فیصد لوگ ایسے ہیں جنہوں نے موجودہ معاشی حالت کو بہترین یا پھر اچھا گردانا ہے۔

 

اس صورتحال میں اُمت ِ مسلمہ کے اہلِ قوت کے لیے سبق یہ ہے کہ امریکہ اس وقت خُود ایک نازک معاشی صورتحال کا شکار ہے۔مسلم دنیا میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے ، اب وہ مزید فراخدلانہ  اخراجات کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ اب وہ مقامی حکومتوں پر انحصار کرے گا اور اُن کو مجبور کرے گا کہ وہ ان اخراجات کا بوجھ مسلمانوں کی جیبوں پر ڈالیں۔  اور معاشی ناکامی کے نتیجے میں، مسلم دنیا کے حکمرانوں کے خلاف مسلمانوں  کے بڑھتے ہوئے غم و غصہ کی امریکہ ہرگز کوئی پرواہ نہ کرے گا اور ان حکومتوں کو تباہی سے بچنے کے لیے  کوئی امداد فراہم نہ کرے گا۔

 

بے شک، مسلم دُنیا میں تبدیلی کے امکانات خاصے بڑھ چُکے ہیں۔ حکمرانوں کے خلاف عوام کا غصہ ، اب ان حکمرانوں کے جابرانہ تسلط اور ظُلم وجبر کے ڈر کے مقابلے میں بڑھتا جارہا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ حکومتیں پھنس چکی ہیں کہ یا تو اپنی زور زبردستی اور غرورو تکبر میں مزید بڑھ جائیں ، جو عوام کے غصے میں اضافہ کرتا ہے، یا پھر اس سب سے الگ ہو جائیں،جو ایک بنیادی تبدیلی اور انقلاب کی راہ ہموار کرتا ہے۔

 

سبق نمبر 3 : امریکہ کا سیاسی انتشار

 

بائیڈن نےریپبلیکن اور ڈیموکریٹ پارٹیوں کے درمیان ، امریکی سیاست میں گہری دوطرفہ تقسیم کا ذکر کیا اور ساتھ یہ تاثر دیا کہ وہ ایسا نہیں سوچتا۔ اس نے بیان دیا کہ " ہمیں اکثر یہ بتایاجاتا ہے کہ ڈیموکریٹ اور ریپبلیکنز اکٹھے کام نہیں کرسکتے "، جبکہ اس نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی ذکر کیا  کہ، " ڈیموکریٹ اور ریپبلیکنز اب اکٹھے ہوگئے ہیں "۔ تاہم ، بائیڈن کے اس دعوٰی کے باوجود، امریکہ کی سیاست بُری طرح دھڑے بندی میں گھِری ہوئی ہے،  اور امریکہ کے فیصلوں  پر اثرانداز ہورہی ہے جن میں مسلم دنیا  کے حوالے سے امریکی اقدامات و فیصلے بھی شامل ہیں۔

 

امریکہ کے داخلی محاذ پر ،ڈیموکریٹ پارٹی کے زیرِ اقتدار ریاستوں میں تیل کی کمپنیوں کے خلاف قانون سازی ہوئی جبکہ ٹیکساس جیسی ریاستیں جہاں ریپبلیکن پارٹی کا کنٹرول ہے، وہاں گرین (شمسی توانائی وغیرہ سے متعلق)صنعتی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کیا گیا۔ ریپبلیکن پارٹی کے زیرِکنٹرول ریاستیں نسلی تعصب میں امیگریشن قوانین  اورامیگریشن لے کرآنے والے افراد کے خلاف کلچر کو فروغ دیتے ہوئےسفید فام امریکیوں کو اُکساتی رہتی ہیں ، جبکہ ڈیموکریٹ پارٹی کے زیرِ کنٹرول ریاستیں، باہر سے آئے لوگوں میں موجود اپنے ووٹروں کی حوصلہ افزائی کے لیے، امیگریشن لے کر آنے والے افراد کو خوش آمدید کرنے کےکلچر کو فروغ دیتی ہیں۔سیاسی پارٹیوں میں پایا جانے والا یہ گہرا دوطرفہ تضاد، ان کے عوامی حقوق کے قوانین میں بھی جھلکتا ہے جیسے کہ اسلحہ رکھنا اور اسقاطِ حمل ۔

 

خارجہ امور میں اس سیاسی  تقسیم نے امریکی فیصلہ سازی کو لنگڑا کر دیا ہے۔ پہلے سابق امریکی وزیر خارجہ ، جان کیری ، جن کاتعلق ڈیموکریٹ پارٹی سے تھا،ان کے رابطوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے ایران پر دباؤ کے حربوں کو کمزور کیا تھا۔ اب ریپبلیکن پارٹی نے سعودی عرب کو اکسایا ہے کہ وہ تیل کی پیداوار کو کم کردے ، جس سے بائیڈن انتظامیہ کا روس پر دباؤ قدرےکم ہوگیا ہے۔

 

ان عوامل میں مسلم دنیا کے اہلِ قوت کے لیے سبق یہ ہے کہ امریکہ جیسی سُپرپاور اپنے دوطرفہ اختلافات کے باعث عالمی سطح پر اپنا اثرورسوخ کھورہی ہے۔  اس سے مسلمان دُنیا میں ایک خلا پیدا ہوتا جارہا ہے اور مسلم دنیا میں جنم لینے والا یہ خلا، مسلمانوں کے موجودہ سیاسی طبقے سے پُرنہیں ہوسکتا۔  مسلم دنیا کے موجودہ حکمران اور سیاستدان  مغربی معاشی اور سیاسی آرڈر کی اندھی تقلید اور پیروی کرنے والے ہیں۔  وہ مغربی اثر سے نکل کر ایک آزاد نظریاتی فکروشعور رکھنے سے قاصر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان مشکل حالات میں گم، بھٹکے ہوئے اور خسارہ زدہ نظر آتے ہیں ۔ امریکہ نے ان سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور وہ ہر طرف سے شدید بحرانوں کا سامنا کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ مسائل کے وہ مغربی حل ، جن پر یہ حکمران بھروسہ کیے ہوئے تھے ،  اس نے معاملات کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ انہیں کسی یکسر نئے حل کی ضرورت ہے لیکن  موجودہ نظام سے جُڑے  ان کے ذاتی مفادات ہی انہیں کسی حقیقی حل اور تبدیلی کی جانب دیکھنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔  مسلم دنیا میں موجود اس خلا کو حقیقی تبدیلی کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

 

لہٰذا، اہلِ قوت کو ان تین اہم اموراور پیغامات  پر غوروفکر کرنا چاہئے۔ یہ بات تو بہرحال واضح ہے کہ امریکہ ماضی کی نسبت خاصا کمزور ہوچُکاہے اور  مسلمانوں پرمسلط جابر حکمران بھی لڑکھڑا چکے ہیں۔مسلمانوں میں حقیقی قیادت کا ایک فقدان پایا جاتا ہے اور اب یہ خلا سیاستدانوں اور حکمرانوں کی ایک نئی نسل سے ہی پُر ہوسکتاہے۔ اور یہ نسل ایسے قائدین اور رہنماؤں کی  ہے جو اپنے آپ کو بیمارزدہ امریکہ کا تابع وفرمان نہیں سمجھتے۔ ان کے لیے ان کا دین ہی سب سے اعلیٰ وبرتر ہے جس پرہرگز کوئی اور شے سبقت نہیں لے جاسکتی۔ یہ رہنما نسل ایسے افراد کی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست  کرنا، داخلی اور خارجی طور پر اسلامی شرعی احکامات کے ذریعے اُمتِ مسلمہ کے امور کی دیکھ بھال کرنے کا نام ہے۔ صرف یہی رہنما نسل پوری دُنیا کو اُن اتھاہ گہرائیوں سے باہر لاسکتی ہے جن میں امریکہ نے اپنے لالچ اور تکبر سے اِسے لا پھینکا ہے۔

 

اگر اہلِ قوت نے  اس سبق سے یہ عبرت حاصل کرلی تو وہ اس بوسیدہ اور ناکام شدہ سیاسی طبقے سے اپنی حمایت کھینچ لیں گے تاکہ ایک نئی  سیاسی فضا قائم کی جاسکے ، جو نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت  ہوگی۔اور پھر مسلم اُمت دوبارہ اپنے شاندار عروج کی طرف لوٹے گی اوردنیا کی ان نام نہاد بڑی طاقتوں کی کمزوریاں مکمل طور پر آشکار ہوجائیں گی۔

 

﴿وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُون﴾

”اور عنقریب وہ جان لیں گے، جنہوں نے ظلم کیاکہ وہ کون سی جگہ لوٹ کرجاتے ہیں“ (الشعراء ؛ 26:227)

 

Last modified onجمعرات, 16 فروری 2023 19:59

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک