الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

بیماری سے بچاؤ ایک فرض ہے، اور اس حوالے سے غفلت فرض کی انجام دہی میں ناکامی ہے

 

خبر:

"ڈبلیو ایچ او اور اس کے شراکت دار ایک عالمی نیٹ ورک شروع کر رہے ہیں تا کہ پیتھوجین جینومکس کی طاقت کے ذریعے لوگوں کو متعدی بیماریوں کے خطرات سے بچانے میں مدد کی جائے ۔ بین الاقوامی پیتھوجن سرویلنس نیٹ ورک IPSN) ) ایک پلیٹ فارم فراہم کرے گا جو مختلف ممالک اور خطوں کو جوڑنے، نمونے جمع کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے نظام کو بہتر بنانے، ڈیٹا کے استعمال کے ذریعےصحت عامہ کے بارے میں فیصلہ سازی کرنے ، اور اس معلومات کو زیادہ وسیع پیمانے پر شیئر کرنے میں مدد مہیا کرے گا۔ان معلومات کی مدد سے، سائنس دان اور صحت عامہ کے اہلکار بیماریوں کی شناخت اور ان کا سراغ لگا سکتے ہیں اور ایک وسیع تر بیماریوں کی نگرانی کے نظام کے ذریعے ان بیماریوں کو پھیلنے سے روک اور ان کا جواب دے سکیں گے، اور ان کا علاج اور ویکسین تیار کر سکیں گے۔ آئی پی ایس این مختلف علاقوں اور بیماری سے متعلق مخصوص نیٹ ورکس کو جوڑ  کر ایک عالمی نیٹ ورک کے ذریعے ان چیلنجز کا مقابلہ کرے گاتاکہ ایک باہمی تعاون پر مبنی نظام قائم ہو اوران بیماریوں کے خطرات کا بہتر طور پر پتہ لگایا جاسکے ، اوران کی روک تھام ہوسکے ۔" (ڈبلیو ایچ او)

 

تبصرہ:

اس رپورٹ کو پڑھنے والے تصور کر سکتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت لوگوں کی صحت کے بارے میں حقیقی طور پر فکر مند ہے۔ قاری یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ ڈبلیو ایچ او متعدی بیماریوں اور مہلک وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے اپنی جدوجہد میں سنجیدہ ہے۔تاہم، کورونا وائرس کی وبا نے عام لوگوں اور ماہرین دونوں کے سامنے اس ادارے کے ناکامی ثابت کر دی ہے۔ یہ ادارہ اپنے صحت کے نظام اور بڑے ممالک سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلی ہوئی شاخوں ، اس کے اداروں اور طبی عملہ کے باوجود بھی بے بس، کرپٹ اور ناکام ثابت ہوا۔اس ادارے کی کوشش دراصل مادی فوائد کے حصول پر مرکوز ہے۔ یہ ادارہ بڑی طاقتوں کےسیکورٹی اور سیاسی مقاصد کے لیے لوگوں کی تکالیف کا استحصال کرتا ہے۔ صحت کے نقطہ نظر سے لوگوں کے مفادات کا خیال رکھنا تو بہت دور کی بات ہے۔

 

دنیا کے مختلف ممالک میں صحت کا ریاستی نظام مختلف قومی معاشی، ابلاغ اور ثقافتی وسائل کو استعمال کرتا رہا ہے۔ تاہم ریاستی صحت کے نظاموں نے ان بے پناہ وسائل کوبہترین اوراعلیٰ ترین ترجیحی امور پر استعمال نہیں کیا جو کہ بیماریوں اور وباؤں کے ظہور اور پھیلاؤ کو پھیلنے سے پہلے ہی روکنا ہے۔ اس میں لوگوں کو بیماریوں سے بچاؤ کی بنیادی باتوں سے آگاہ کرنا بھی شامل ہے۔ اسی طرح اس معاملے میں ایسے قوانین اورقواعد بنانا بھی شامل ہیں جو ریاست کو ضروری اقدامات کی پابند کرے۔لیکن ہوا کیا، دنیا کی حکومتوں نے کورونا وائرس کی وبا اور بیماری سے بچاؤ کے تصور کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کیا، انھوں نے ایسے قوانین اور  پالیسیاں بنائیں، جو لوگوں کی "آزادیوں" کو محدود کرتی ہیں اور ساتھ ہی بدعنوان حکومتوں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لوگوں کے حق کو بھی محدود کرتی ہیں۔انہوں نے فارماسیوٹیکل کمپنیوں اور ہسپتالوں کو لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے قابل بنایا، اور اس طرح بھاری منافع کمایا گیا۔

 

اسلام نے مسلمان پر اپنی صحت کا خیال رکھنا فرض کیا ہے۔ اسلام نے ریاست کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ لوگوں کوصحت کے حوالے سے درست مشورے دے کر ان کی صحت کا خیال رکھے۔ اس پہلو کے حوالے سے ریاست کی ناکامی حرام  ہے۔ یہ ناکامی ایک بہت بڑا گناہ ہے۔مسلمان کے لیے حرام ہے کہ وہ اس جسم کو نقصان پہنچا کر تباہ کرے ، جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کے سپرد کیا ہے۔ عبداللہ بن عباس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

 

نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ

"دو نعمتیں ایسی ہیں جنہیں اکثر لوگ ضائع کرتے ہیں، صحت اور فارغ وقت۔"(بخاری)۔

 

رسول اللہﷺ نے فرمایا،

 

سَلُوا اللَّهَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فَإِنَّ أَحَدًا لَمْ يُعْطَ بَعْدَ الْيَقِينِ خَيْرًا مِنَ الْعَافِيَةِ

"اللہ سےبخشش اور تندرستی مانگو، کیونکہ کسی کو ایمان کی دولت نصیب ہو جانے کے بعد تندرستی سے بہتر کوئی چیز عطا نہیں کی گئی۔"(ترمذی)

 

صحت کا خیال رکھنا علاج سے مختلف ہے۔ فقہا کا صحت کا خیال رکھنے کے جائز (جائز)، مستحب (مندوب) یا واجب (فرض) ہونے میں اختلاف ہے۔ اس کا تعلق مسلمان کے اپنے فرائض کی انجام دہی اور اسباب و تعلق پر غور کرنے کے حوالے سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس زندگی میں جو کچھ اس پر عائد کیا ہے اس کی پابندی سے ہے۔ اس میں وہ روک تھام یعنی احتیاط بھی شامل ہے جو جسم کو بیماریوں اور نقصان سے بچاتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، لا ضَرَرَ ولا ضِرَارَ" نہ(ابتداءً)کسی کو نقصان پہنچانا اور نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچاناجائز ہے۔"(موطا/ابن ماجہ)

 

وجوہات پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہےکہ  ڈاکٹروں کی ہدایات کو عام طور پر مدِنظر نہیں رکھا جاتا ہے، کیونکہ وہ صرف طبی نظریات ہیں، جبکہ عالمی صحت کے نظام کی ناکامی تجربے سے ثابت ہوچکی ہے۔ڈاکٹر ایسے علاج تجویز کرتے ہیں جو مریض کو نقصان پہنچاتے ہیں اور صرف ہسپتالوں اور ادویات بنانے والوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ یہ صورتحال اس نقطہ پر پہنچ گئی ہے کہ ڈاکٹروں کی سفارشات کے نتیجے میں کارڈیک کیتھیٹرائزیشن(cardiac catheterization) اور اوپن ہارٹ سرجری بار بار ہو رہی ہے۔یہ کسی بھی مریض کی صحت کے لیے خطرناک طریقہ کار ہیں۔ مریض کے لیے سستے اور بہت کم تکلیف دہ متبادل موجود ہیں۔ شوگر، دل، دمہ اور موٹاپے جیسی دائمی بیماریوں کے لیے نسخے مریض کو زندگی بھر دوائیوں کے استعمال پر مجبور کردیتے ہیں، یا اکثر ان ادویات کے منفی اثرات  مریض کو ہلاک کر دیتے ہیں۔۔۔یہ صورتحال اس وقت ہے جبکہ ڈاکٹر جانتے ہیں کہ نسخے کی دوائیں نہیں بلکہ صحت مند عادات ان بیماریوں کو روکتی ہیں اور ان کا علاج کرتی ہیں۔

 

صحت کے عالمی نظام کی بدعنوانی اور اس میں کام کرنے والے طبی عملے کی بدعنوانی کے باوجود، کوئی بھی مسلمان اپنی صحت کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سے بری نہیں ہوجاتا۔اسے یقینی بنانا چاہیے کہ وہ بیماریوں سے محفوظ رہے۔ جسم اللہ عزوجل کی امانت ہے۔ اس کی دیکھ بھال کرنے سے، مسلمان کو  اللہ کی اطاعت اور فرائض کی ادائیگی کے لیے سب سے زیادہ کامل طریقے سے تقویت ملتی ہے۔ یہ قول کہ ’’موت کا ایک دن مقرر ہے ‘‘ کا غلط استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔لاپرواہی اسلامی شخصیت کی خصوصیت نہیں ہے۔ مسلمان کی تعریف سنجیدہ سوچ سے ہوتی ہے۔ اسباب  پر غور کرنا فرض ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

 

اَلْمُؤْمِنُ اَلْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اَللَّهِ مِنْ اَلْمُؤْمِنِ اَلضَّعِيفِ, وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ, اِحْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ, وَاسْتَعِنْ بِاَللَّهِ, وَلَا تَعْجَزْ

"قوی مومن ، ضعیف مومن سے بہتر ہے نیز وہ اللہ کو زیادہ پسند ہے ، اور سب (مومنوں) میں خیر ہے ، تو اپنے لیے نفع بخش چیز کے لیے محنت و کوشش کر اور اللہ سے مدد طلب کر اور عاجزی و سستی نہ کر۔"(مسلم)

 

ولایہ پاکستان سے بلال مہاجر نے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے یہ مضمون لکھا
Last modified onجمعہ, 02 جون 2023 00:46

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک