الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

انصار کے سردار ،سعد بن معاذ ؓ ... آج امت کا سعد کون ہے؟!

 

اسلامی تاریخ کی عظیم ہستیوں کا تذکرہ، کسی افسانوی تاریخی ’’ہیرو‘‘ کے ذکر کی طرح نہیں۔ عظیم مسلم ہیروز اور تاریخی ’’ہیروز‘‘ میں فرق یہ ہے کہ مسلم ہیروز کا مطالعہاسلئے کیا جاتا ہے تاکہ ان کی مثال کو مشعل راہ بنایا جا سکے۔ ہم ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں، اور ان کی جرات و بہادری ہمارے لئے قابل تقلید مثال  بن جاتی ہے۔  تاہم یاد رہے کہ ہم مسلم ہیروز کو محض اسلئے نہیں سراہتے کہ وہ اپنی ذات میں خود سے "لیجنڈ" تھے۔ اس کے بجائے، انہوں نے یہ کارنامے اسلئے سرانجام دئیے کیونکہ وہ اسلام پر بطور عقیدہ اور شرعیت کے ایمان لائے تھے اور انہوں نے ان احکامات کو انتہائی کامل اور درست انداز میں لاگو کیا، یوں انہوں نے خود کو ممتاز کیا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو عزم،ہمت اور حوصلے کے پہاڑ کی مانند دین پر ڈٹ گئے ، یہاں تک الہامی نصوص (قرآن و سنت )نے ان کی تعریف کی ہے۔ ان ہیروز میں ایک معزز صحابی سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہیں جو انصار کے سردار ہیں۔ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿وَٱلسَّٰبِقُونَ ٱلۡأَوَّلُونَ مِنَ ٱلۡمُهَٰجِرِينَ وَٱلۡأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحۡسَٰنٖ رَّضِيَ ٱللَّهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُواْ عَنۡهُ وَأَعَدَّ لَهُمۡ جَنَّٰتٖ تَجۡرِي تَحۡتَهَا ٱلۡأَنۡهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدٗاۚ ذَٰلِكَ ٱلۡفَوۡزُ ٱلۡعَظِيمُ﴾

«جن لوگوں نے ایمان لانے میں سبقت کی، مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی، اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، اور اللہ نے ان کے لیے باغات تیار کئے ہیں، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اوروہ  ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ سب سے بڑی کامیابی ہے»(سورہ توبہ، 9:100)

 

یہ معزز صحابی  ایک عظیم کام کے لیے اس تعریف اور اس درجہ کے مستحق تھے۔ یہ بہت بڑا کام تھا جس سے قریش، عرب اور دوسرے سرداروں نے انکار کر دیا تھا۔ یہ اسلام اور اس کے رسول ﷺ کو نصرۃ دینے کا عظیم عمل ہے۔ لہٰذا اہل قوت کو آج یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلامی ریاست تبھی قائم ہوئی تھی، جب سعد نے محمدﷺ کو نصرۃ دی تھی۔ انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ آج جو شخص اسلام کو قائم کرے گا اس کی حیثیت اس شخص کی ہو گی جس نے رسول اللہ ﷺ کو نصرۃ دی تھی۔ ان کا درجہ، ان شاء اللہ، سعد بن معاذ کے درجے جیسا ہو گا، جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

اَتَزَّ العَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ

"سعد بن معاذ کی وفات پر اللہ کا عرش لرز گیا۔ " (بخاری و مسلم)۔ 

 

ذہبی (رح) نے کہا، هذا متواتر أشهد بأن رسول اللہﷺ،"یہ متواتر روایت ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے ضرور فرمایا تھا۔" [العلو للعلي الغفار]۔ امام الذہبی نے اسے اپنی کتاب الفوائد میں ابو سعیدالخدری  سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

 

﴿اَتَزَّ الْعَرْشُ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، مِنْ فَرَبَّرَ عَزَّ وَجَلَّ

"سعد بن معاذ کی وفات پر عرش،اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشی سے لرز اٹھا، اللہ کی شان و عظمت بلند ہو۔"

 

عبداللہ بن الامام احمد کی السنۃ میں ہے،

 

﴿عَنِ الْحَسَنِ قَالَ لَقَدِ اهْتَزَّ عَرْشُ الرَّحْمَنِ جَلَّ وَعَزَّ بِجِنَازَةِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَفَسَّرَهُ الْحَسَنُ فَرَحًا بروحهُ

روایت ہے کہ الحسن نے فرمایا، رحمٰن کا عرش سعدکے جنازے پر لرز اٹھا۔ الحسن نے اس کی تشریح سعد بن معاذ کی روح کے آنے کی خوشی سے کی ہے۔ "

 

ہر مسلم کمانڈر کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ سعدبن معاذ کے بارے میں پڑھے اور اس پر غور کرے۔ یہ سعد ہی تھے جنہوں نے بدر یعنی الفرقان کے دن کھڑے ہو کر رسول اللہ ﷺ سے فرمایا:

 

﴿لقد آمنا بك وصدقناك... وشهدنا أن ما جئت به هو الحق، وأعطيناك على ذلك عهودنا ومواثيقنا على السمع والطاعة لك، فامض يا رسول الله لما أردت فنحن معك، فوالذي بعثك بالحق لو استعرضت بنا البحر فخضته لخضناه معك ما تخلف منا رجل واحد، وما نكره أن تلقى بنا عدونا غدابر، إنا نكره عن تلقى اللہ يريك منا ما تقر له عينك، فسر على بركة الله

"ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ پر بھروسہ کیا... اور گواہی دیتے ہیں کہ آپ جو لائے ہیں وہ حق ہے، اور اس پر ہم نے آپ کی بات سننے اور آپ کی اطاعت کرنے کی بیعت کی ہے۔ اس لیے آپ کی جو مرضی ہوفیصلہ کریں، اور ہم آپ کے ساتھ ہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ اتارا ہے، اگر آپ ہمیں سمندر میں کودنے کا حکم بھی دیں گے، تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں ہچکچائے گا۔ ہم کل دشمن کا مقابلہ کرنے سے ہرگز نہیں گھبراتے، ہم اس لڑائی میں ثابت قدم رہیں گے، اور ہو سکتا ہے کہ اللہ آپ پر وہ چیز ظاہر کرے جو آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشے، آئیں کہ ہم آگے بڑھیں اور اللہ کی مدد و نصرت پر بھروسہ کریں۔"

 

یہ ہے وہ موقف، جس کا ادراک مسلم افواج کے افسروں اورکمانڈروں میں موجود اہل قوت و طاقت کو کرنا چاہئیے۔ یہ حقیقی مردوں کا وہ موقف  ہےجو امت کی تقدیر کا فیصلہ کرتے وقت ہمارے سامنے ہونا چاہئیے ۔ تاکہ وہ اپنی زندگی سعد کی طرح اللہ کی اطاعت میں گزاریں۔ درحقیقت سعد نے دنیا کی زندگی کو درست طور پر جان لیا تھا۔ اسلئے انھوں نے اللہ کے دین کو روئے زمین پر قائم کرنے کے لیے اسلام اور رسول اللہ ﷺ کو نصرۃ دینے کا فرض پورا کیا۔ اس کی موت جنت کے باغوں سے بیاہنے والے دولہا کی طرح تھی۔ یہ وہ سعد تھے جن کے بارے میں لوگوں نے ﷺسے کہا:

 

﴿ما حملنا یا رسول اللہ میتاً أخفَّ علينا منه" ہم نے اس سے ہلکی میت پہلے کبھی نہیں اٹھائی۔"

 

اس پر آپﷺ نے فرمایا

 

﴿ما یمنعه أن يخفَّ وقد هبط من الملائكة كذا وكذا لم يهبطوا قط قبل يومه قد حملہا معكم

"یہ کسی اور وجہ سے نہیں تھا بلکہ یہ فلاں اور فلاں تعداد میں فرشتے تھے جو نازل ہوئے تھے اور اسے اٹھائے ہوئے تھے۔ یہ فرشتے اس سے پہلے کبھی نہیں اترے۔" [طبقات میں اسے ابن سعد نے روایت کیا ہے۔[

 

سعد ایسے تھے کہ جب ان کی وفات ہوئی تو جبریل علیہ السلام نبی کریمﷺ کے پاس آئے اور کہا

 

﴿من هذا العبد الصالح الذي مات؟ فتحت له أبواب السماء وتحرك له العرش﴾

"یہ نیک روح کون سی تھی جوانتقال کر گئی؟ اس کے لیے آسمان کے دروازے کھل گئے اور تخت ہل گیا۔"

 

آپﷺ نے فرمایا: ”اس نیک بندے کیلئے آسمانوں کے دروازے کھل گئے، تخت ہل گیا، اس کے لیے ستر ہزار فرشتے اترے، جنہوں نے اسے دفن کیا اور رخصت ہو گئے۔" [اسے حاکم نے روایت کیا ہے اور ذہبی نے اس کی تصدیق کی ہے۔ امام احمد نے اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

 

درحقیقت یہ درجہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس شخص کے لیے تیار کیا ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کونصرۃ دی، جب آپ ﷺ نے اسلامی ریاست قائم کی۔ یہ وہی درجہ ہے یا شاید، اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے، اس شخص کیلئے اس سے بھی زیادہ ہو، جو اس دور میں ریاست قائم کرنے کیلئے نصرۃ دے۔ کیونکہ یہ وہ وقت ہے جب اسلام زندگیوں سےمفقود ہو چکا ہے، کفر و استبداد کی قوتیں مسلمانوں پر حاوی ہیں، دشمن ان کے خلاف اکٹھے ہو رہے ہیں اور تمام ترتیب، اتحاد اور نظام یکجا ہو کر مسلمانوں پر وار کر رہے ہیں۔ پس اہل قوت و طاقت میں سے کامیاب وہ ہے جو اس موقع سے فائدہ اٹھائے، وہ موقع جو چودہ صدیوں میں صرف دو بار سامنے آیا ہے ۔ پہلی بار اس موقع  سے فائدہ اٹھانے والی ذات ہمارے سردار سعد بن معاذ کی تھی، جو کامیاب رہے، دوسری بار اس کامیابی کو سمیٹنے کی سعادت کون حاصل کرے گا؟  جہاں تک اہل قوت و طاقت میں محروم افراد کا تعلق ہے، تو یہ وہ ہیں جو اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے بدلے یا اپنی آخرت کسی اور کی دنیا کے بدلے بیچتا ہے۔ لہٰذا، وہ صرف تمغوں، عہدوں اور مسلم فوج میں اعلیٰ پوزیشن کی دوڑ دھوپ میں لگا ہوا ہے۔ اس کی کوشش اسلام اور مسلمانوں کے دفاع اور تمام انسانیت کے رب کے شرعی قانون کے نفاذ کیلئے نہیں۔ اس کے بجائے، وہ دنیا کی لذتوں میں ممکنہ حد تک بڑا حصہ حاصل کرنے میں مگن ہے، ایک عارضی فانی لذت کے لیے۔ وہ اس حقیقت کو بھول جاتا ہے کہ اگر وہ دین کے لیے نصرۃ دینے میں ناکام رہتا ہے تو نہ تمغے اور نہ درجات اللہ کے غضب کو روک سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی اور چیز اسے جہنم کی آگ سے بچا سکتی ہے۔

 

طاقت اور صلاحیت رکھنے والے افسر کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سعد بن معاذ  بھی ہماری ہی طرح کے انسان تھے۔ اس میں بھی وہی انسانی جبلتیں تھیں جو ہمارے پاس ہیں۔ ان کے پاس ملکیت، افزائش اور بقاء کے وہی فطری محرکات تھے، جن کااظہاردولت، حیثیت، اولاد اور عورتوں کی محبت سے ہوتا ہے، تاہم، چونکہ اس کا عقیدہ خالص اور سوچ واضح تھی ، اس لیے اسے یقین تھا کہ دنیا کی لذت وقتی لذت ہے۔ انھیں یہ بالکل واضح تھا کہ آخرت کے مزے دائمی اور بلا روک ٹوک ہیں ، اور یہی اصل لُطف ہے۔ اہل قوت کو آج یہ سمجھ لینا چاہیے کہ صحابی سعد ہماری تاریخ کی کامیابیوں کا حصہ ہیں، ناکامیوں کا نہیں جس سے ہمیں اجتناب کرنا ہو۔ سعد کی طرح وہ بھی یہ عظیم نیکی کا کام کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی نصرۃ سعد  کی نصرۃ کی طرح ہی ہے۔ اور جو خطاب اللہ کا سعد  کیلئے ہے وہ ان پر بھی لاگو ہو گا۔

 

عاصم بن قتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سوئے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ کے پاس ایک فرشتہ آیا، یا جبرائیل علیہ السلام نے کہا، جب آپ بیدار ہوئے، تو فرمایا

 

﴿ من رجل من أمتك مات الليلة، استبشر۔ بموته أهل السماء

"آپ کی امت میں سے کون ایسا شخص ہے جو آج رات فوت ہوا، جس کے حیات بعد الموت میں داخل ہونے پر اہل جنت خوشی سے جھوم اٹھے؟ فرمایا ﴿لا أعلم إلا أن سعداً أمسى دنفاً (مريضاً)، ما فعل سعد؟"مجھے نہیں معلوم سوائے اس کے کہ سعد کو بیماری لاحق تھی، سعد نے کیا کیا؟" انہوں نے کہا

 

﴿یا رسول اللہ، قد قبض، وجاءه قومه فاحتملوه إلى ديارهم

"اے اللہ کے رسول ﷺ، ان کی روح قبض کر لی گئی ہے۔ اس کے لوگ اس کے پاس آئے تو وہ اسے اپنے گھر لے گئے۔"

 

رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز پڑھی اور لوگوں کے ساتھ تشریف لے گئے۔ لوگ تیزی سے چلتے رہے، یہاں تک کہ ان کی جوتیوں کےسرے ان کے پیروں سے جدا ہو گئے اور ان کی چادریں کندھوں سے گر گئیں۔ ایک آدمی نے آپ ﷺسے کہا ، یا رسول اللہ ﷺ لوگ تھک گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا

 

﴿ إني أخشى أن تسبقنا إليه الملائكة كما سبقتنا إلى حنظلة﴾

"مجھے ڈر ہے کہ فرشتے ہم سے اُس طرح آگے نکل جائیں گے جس طرح وہ حنظلہ (وہ صحابی جن کو فرشتوں نے موت کے بعد غسل دیا تھا – غسل الملائکہ)کیلئے آگے نکل گئے تھے۔آپ دہرا رہے تھے،

 

﴿ هنياً لك أبو عمر! هنيئاً لك أبو عمر! هنيئاً لك أبو عمر

"مبارک ہو ابو عمر! آپ کو مبارک ہو ابو عمر! ابو عمر آپ کو بہت بہت مبارک ہو۔"

 

اے مسلم افواج میں موجود اہل قوت! یہ وہ دن ہے جب عزم بیدار ہونے کا وقت ہے، یہ بہادری کی داستان لکھنے کا وقت ہے۔ یہ وہ دن ہے جب آپ اس دین کو نصرۃ دینے کی راہ میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ تو اپنا موقع ضائع نہ کریں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم کا جواب اپنے مصمم اعلان کے ساتھ دیں، "ہم حاضر ہیں، اے اللہ، تیرے حکم کی تعمیل میں ہم حاضر ہیں"۔ آج امت اسلامیہ آپ سے فریاد کر رہی ہے تو آپ یہ کہہ کر جواب دیں کہ" ہم آپ کیلئے یقین دہانی،اور آپ کی راحت ہیں۔" آج حزب التحریر آپ کی طرف ہاتھ بڑھاتی ہے تاکہ آپ ان کے ساتھ فرض کی تکمیل یہ کہہ کرکریں کہ "ہم آپ کے سعد ہیں، حزب التحریر، ہم آپ کے سعد ہیں۔" جو آپ کو اللہ عزوجل کے حکم کی طرف بلائے اس کا جواب دو... کیا تم دونوں سعد، سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ، اسعد اور اسید کے راستے پر نہیں چلنا چاہتے؟! کیا آپ نہیں چاہتے کہ آپ کا مقام ان کے مقام جیسا ہو، اور ان کے مقام تک اوپر اٹھ کر اپنے لیے ان کی طرح ایک ابدی لذت حاصل کریں؟

!

اے مسلم افواج کے افسروں میں موجود اہل قوت! انصار کے سردار سعد بن معاذ کے موقف نے مسلمانوں کے دل خوشی سے بھر دیے۔ اس کا نام نہیں لیا جاتا، سوائے اس کے کہ زبانیں اس کے لیے دعائیں دے کر راحت محسوس کریں۔ جو بھی یہ سنتا ہے کہ رحمٰن کا تخت ان کی موت پر لرز گیا، اس کی آنکھیں خوشی سے چھلک پڑتی ہیں، اور ہر کوئی اس اعزاز کی تڑپ رکھتا ہے۔ کیا اپنے رب کی طرف لوٹنے کا اس سے بڑھ کر بھی کوئی عظیم راستہ ہے؟! انسانوں کی عظمت ان کے موقف کے اخلاص، ان کے مقاصد کی بلندی اور آزمائش میں ان کے صبر میں مضمر ہے۔ انسانوں کی عظمت ان کے موقف کی سچائی میں ہےخواہ حالات جیسے بھی ہوں، وہ اپنے مقصد کے حصول میں کوئی کسر نہ چھوڑیں، چاہے کتنے ہی بڑے چیلنجز کیوں نہ ہوں... آپ اس دور میں زندہ ہیں جب وہ پکار پھراٹھ کھڑی ہوئی ہے جو مہاجرین نے انصار کو بلند کی تھی۔  تو آج ہمارے انصار بن جائیں۔ اپنے دین کی شان کے لیے اٹھو۔ اس امت کی شان کے لیے آگے بڑھو! 

 

ہم سب جانتے ہیں، جیسا کہ آپ خود بھی جانتے ہیں، تمہارا حقیقی مقام میدان جنگ میں ہے۔ تو کہاں ہیں وہ جاہ و جلال کے میدان، جو ان حکمرانوں نے تمہارے لیے کھولے ہیں؟! کہاں ہیں عزت و وقار کی وہ جنگیں، جو انہوں نے تمہارے ساتھ مل کر لڑی ہیں؟ کہاں ہیں بہادروں کی وہ لڑائیاں، جن میں تیرے نام اور نیکیاں محفوظ ہیں؟! وہ لڑائیاں کہاں ہیں جن کے لیے آپ مشہور ہیں، اور جن سے آپ واقف ہیں؟ ہم جانتے ہیں، اور جیسا کہ آپ کو بھی خوب علم ہے کہ آپ محض ملازم نہیں ہیں۔ آپ کا مقصد مستحکم اورمحفوظ زندگی کا حصول نہیں۔ آپ اقتدار کے دروازے کی کنجی اور اختیارات کا دروازہ ہیں۔ آپ اس دین کے دشمنوں سے جہاد کے لیے امت کا پلیٹ فارم ہیں۔ امت آپ میں موسیٰ بن نصیر، عقبہ بن نافع، محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد جیسے لوگوں کو دیکھنا چاہتی ہے۔

اے اہل نصرہ تم جانتے ہو کہ یہ حکمران اپنے باطل کے ساتھ غلبہ چاہتے ہیں اور اپنے ظلم پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے ساتھ کھڑے ہوں اور ان کے باطل کی حفاظت کریں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ آپ ان لوگوں سے اختیار چھین لیں۔ اللہ عزوجل چاہتا ہے کہ آپ حکومت دعوت والوں کے سپرد کریں، تاکہ نبوت کے طریقے پر دوسری خلافت راشدہ قائم ہو، تاکہ وہ اللہ عزوجل کے نازل کردہ تمام احکام کے مطابق حکومت کریں۔ یہ حکمران جانتے ہیں کہ تم میں ایسے مخلص لوگ ہیں، جو اپنے دین پر فخر کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تم میں سے وہ لوگ ہیں جو ان کے شرمناک سودے بازیوں اور معاہدوں کی وجہ سے ان سے ناراض ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تم میں سے وہ لوگ ہیں جو دشمن کے ہاتھوں امت کی صورتحال سے مضطرب ہیں اور وہ امت کی تکلیف کو محسوس کرتے ہیں اور ان کے جذبات میں ان کے شریک ہیں۔

 

اسلئے، وہ آپ کو دھمکاتے ہیں، آپ کو کلیدی عہدوں سے دور کرتے ہیں، آپ کی کڑی نگرانی کرتے ہیں، آپ کو روکتے ہیں، آپ کی پوسٹس تبدیل کرتے ہیں اور آپ سے تفتیش کرتے ہیں۔ وہ شیطانی مجرمانہ ذہنیت والے افسروں کوپروموٹ کرتے ہیں، جب کہ شریف، راست باز افسروں کی ترقی میں روڑے اٹکاتے ہیں ۔ وہ یہ سب اسلئے کرتے ہیں تاکہ آپ تبدیلی لانے سے عاجز ہو جائیں، جب کہ اللہ عزوجل چاہتا ہے کہ آپ ان حکمرانوں کو دبوچ لیں، ان کی کمرپر ضرب لگائیں، انھیں جڑ سے اکھاڑ دیں، اور امت کو ان کی برائیوں سے نجات دلائیں۔ اللہ عزوجل چاہتا ہے کہ آپ مجرم حکمرانوں پر غالب، مسلمانوں پر مہربان اور اس دین کے محافظ بن جائیں۔ یہ ہچکچاہٹ کا وقت نہیں ہے۔ یہ تاخیر کا وقت نہیں ہے۔ یہ امت کے لیے انصاف اور دین کے لیے نصرت کا وقت ہے۔ اگر تم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کو برائی کے معاملات پر ترجیح نہ دی تو تمہارے دین اور تمہاری امت کے لیے مشکل حالات جاری رہیں گے۔ اور آپ کی غفلت کی وجہ سے معاملات آخرت میں آپ کے خلاف ہو جائیں گے۔

اگر آج سعد زندہ ہوتے تو وہ اس بات کو قبول کرتے، جو یہودی فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہیں؟ یا امریکہ نے عراق اور افغانستان میں کیا، یا اس کے علاوہ ہر جگہ مسلمانوں کے خلاف جو صلیبی دشمنی کی گئی؟ یا روسیوں نے چیچنیا اور شام میں، ہندوستان نے کشمیر میں اور چین نے مشرقی ترکستان میں  کیا؟! تو سعد کی اولاد یہ سب کیسے قبول کر سکتی ہے؟ ہم تم میں سے اہل قوت میں سے ان مجرموں کی طرف رجوع نہیں کرتے جو حکمرانوں کی طرح ہیں۔ ہم آپ میں سے مخلص لوگوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ہمیں نصرۃ نہیں چاہیے سوائے آپ جیسے لوگوں سے۔ اس لیے جواب نہ دینے کے لیے آپ کے پاس کوئی عذر نہیں ہے۔ خاموش رہنے اور بیٹھے رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ اگر آپ ہمارے دین کو نصرۃ دینے میں پہل نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟

 

آج کے حکمرانوں کو بدلنااور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نازل کردہ تمام احکام کے مطابق حکومت قائم کرنا، دین کے تمام فرائض میں سرفہرست ہے۔ یہ مادی تبدیلی سب سے پہلے اہل قوت کے کندھوں پر آتی ہے۔ تمہارے لیے راہیں ہموار کر دی گئی ہیں کیونکہ امت حکمرانوں کو بدلنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ تمہارے لیے یوں راستے ہموار کر دئیے گئے ہیں کہ حکمران عوام کے انتقام سے ڈر رہے ہیں ۔ تمہارے لئے راستے ایسے ہموار کر دیے گئے ہیں کہ امریکی اور یورپی قابضین کی تلوار مجاہدین سے مقابلوں میں ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہے، جب کہ یہودی کمانڈروں نے آج کے صلاح الدین کے ظہور کا خوف ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے۔

 

راستے ہموار ہو چکے ہیں اور وہ ان لوگوں کا انتظار کر رہے ہیں جو حق پر ڈٹ جانے والے ہیں ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کے لیے اپنی نصرۃدیں۔ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے طریقے پر دوسری خلافت کی بشارت آپ کے لیے منتظر ہے۔ آج کے انصار بنو، جو اس ریاست کی واپسی کیلئے نصرۃ دیں۔ آج اس امت کے سعد بن جاؤ۔ سعد تمہارے درمیان موجود ہے، اسے آگے آنے دو۔ امت اس سعد کو آپ کے درمیان دیکھنے کی آرزو مند ہے۔ اسےاس سعد کا انتظار ہے جو حق کے مطابق  ان جابروں سے اختیار چھین لے، اور اسے مقدس امانت کے طور پر دعوت کے مخلص لوگوں کے حوالے کرے، تاکہ نبوت کے طریقے پر دوسری خلافت راشدہ قائم ہو، جو حق کے ساتھ حکومت کرے۔ . اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿مَن كَانَ يَظُنُّ أَن لَّن يَنصُرَهُ ٱللَّهُ فِي ٱلدُّنۡيَا وَٱلۡأٓخِرَةِ فَلۡيَمۡدُدۡ بِسَبَبٍ إِلَى ٱلسَّمَآءِ ثُمَّ لۡيَقۡطَعۡ فَلۡيَنظُرۡ هَلۡ يُذۡهِبَنَّ كَيۡدُهُۥ مَا يَغِيظُ﴾

"جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ خدا اس کی دنیا اور آخرت میں مدد نہیں کرے گا ،تو اس کو چاہیئے کہ چھت سے ایک رسی باندھے، پھراس سے اپنا گلا گھونٹ لے۔ پھر دیکھے کہ آیا یہ تدبیر اس کے غصے کو دور کردیتی ہے۔" (سورہ الحج، 22:15)

 

بلال المہاجر، ولایہ پاکستان

Last modified onبدھ, 05 جولائی 2023 21:23

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک