الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

بنو سعود، سازش کرنے والوں میں سے سب سے  پہلے اور آخری!

 

 

خبر:

 

         نیویارک ٹائمز کے ایک مضمون میں، جس کا عنوان ہے، "بائیڈن انتظامیہ سعودی -'اسرائیل' ڈیل کے لیے طویل عرصے سے کوشش میں مصروف ہے" میں بتایا گیا ہے کہ، "صدر اور ان کے معاونین ایک جارحانہ سفارتی کوشش کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں کیونکہ ریاض تعلقات کو معمول پر لانے (نارملائزیشن) کے لیےاہم مطالبات کررہا ہےجس میں جوہری معاہدہ اور ایک مضبوط امریکی سیکورٹی معاہدہ بھی شامل ہے۔"

 

         مضمون میں مزید کہا گیا ہے، "اپنی طرف سے، شہزادہ محمد امریکہ کے ساتھ مضبوط سیکورٹی تعلقات، مزید امریکی ہتھیاروں تک رسائی اور ایک سویلین نیوکلیئر پروگرام کے حصے کے طور پر یورینیم افزودہ کرنے کے لیے امریکی رضامندی کے خواہاں ہیں - جس کی واشنگٹن نے طویل عرصے سے مزاحمت کی ہے۔ "

 

         اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ، یہودی وجود کےلیے سابق امریکی سفیر مارٹن انڈک نے کہا، "بائیڈن نے اس معاملے پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اور انتظامیہ میں ہر کوئی اب سمجھتا ہے کہ صدر یہ چاہتے ہیں۔۔۔ جب آپ مشرق وسطیٰ کے امن کی بات کر رہے ہیں تو دشمن کو مات دینے کے لیے تین دھکے درکار ہیں۔"

 

تبصرہ:

 

         حجاز میں بنی سعود اور آل الشیخ خاندان نے سب سے پہلے ریاست خلافت کا تختہ الٹنے اور جزیرہ نما عرب، الشام اور عراق پر برطانوی استعمار کا تسلط مسلط کرنے کے لیے سانپ برطانیہ کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے تمام عرب حکمرانوں کی قیادت کرتے ہوئے فلسطین کی بابرکت سرزمین پر ایک یہودی قابض وجود کی تشکیل اور اسے مضبوط کرنے کی سازش کی۔ان کی دھوکہ دہی یہیں ختم نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے باقی عرب حکمرانوں، استعماری ایجنٹوں کے ساتھ مل کر فلسطین لبریشن آرگنائزیشن ( پی ایل او)بنانے کے لیے کام کیا۔ پی ایل او نے باقاعدہ طور پر 1993 عیسوی کے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے، اور فلسطین کے لوگوں کے نام پر، یہودیوں کو مبارک سرزمین پر اختیاردے دیا گیا۔اس غداری پر مبنی مارچ کے دوران، عربوں کے حکمرانوں نے، بشمول نام نہاد عرب دائرے (دول الطوق العربي) ممالک کے حکمرانوں نے کمزور اور غیر ملکی یہودی وجود کو ، امت اور اس کی کسی بھی مخلص تحریک کے غضب سے بچانے کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، چاہے وہ تحریک فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے فلسطین کے اندر یا باہر سے کام کررہی ہو۔

 

         عرب حکمران امریکہ اور برطانیہ کے کہنے اور ہدایت پر یہودی وجود کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے دوڑ پڑے۔ ان میں سے کوئی بھی یہودی وجود کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے پیچھے نہیں ہٹا سوائے اس کے کہ ظاہری طور پر اس کا اعتراف نہیں کرتے تھے۔آل سعود ریاست مسلم دنیا کا ایک وسیع گیٹ وے ہے، جس کے ذریعے یہودی مسلم دنیا کے باقی ممالک تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، تاکہ وہ مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات معمول پر لا سکیں، اور اس کے اندر بدعنوانی کو ہوا دے سکیں۔

 

         اس نارملائزیشن کے ذریعے، امریکہ یہودیوں پر حتمی حل مسلط کرنا چاہتا تھا جس کی نمائندگی اس منصوبے کے ذریعے کی جاتی ہے جسے وہ "دو ریاستی حل" کہتا ہے۔ امریکہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پرلانے کے معاملے کو یہودی وجود اور اس کی متکبر حکومت کے ساتھ سودے بازی کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے، جو خود کو(یہودی وجود) گینگ لیڈر کے بگڑے ہوئے بیٹے کے طور پر دیکھتی ہے۔

 

         لاپرواہ بن سلمان کے "بے حد" مطالبات درحقیقت حد سے زیادہ مطالبات نہیں ہیں۔ بلکہ یہ مطالبات ہی نہیں ہیں۔ یہ مطالبات آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہیں، اور اس کی آڑ میں یہودیوں کے ساتھ نارملائزیشن  کےغدارانہ اعلان کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔

 

         لہٰذا بن سلمان کس سیکورٹی کی بات کر رہا ہے؟ کیسا خطرہ ؟ اور کس سے خطرے کی بات کررہا ہے؟ کیا اس کی بادشاہت میں موجودتمام جدید ہتھیار امریکہ سے نہیں لیے گئے ہوئے ہیں، اگر وہ واقعی اس کے حوالے ہو چکے ہیں اور اب اصل میں اس کےمکمل اختیار میں ہیں؟! حجاز کی پاک سرزمین پر قائم ہونے والی اس کی کرپٹ حکومت کویورینیم اور اس کی افزودگی کی کیا ضرورت ہے؟! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ جوہری ہتھیار بنانا چاہتا ہے؟یہ ہتھیار کس کے خلاف استعمال ہوں گے؟ فریب خوردہ ایرانی دشمن کے خلاف، جس کے ساتھ اس نے حال ہی میں تعلقات استوار کر لیے ہیں؟ یا اس یہودی ریاست کے خلاف جس کے ساتھ وہ نارملائزیشن کا اعلان کرنا چاہتا ہے اور جس کے لیے وہ سرزمین حجاز کے ہر مسلمان کو اسی طرح ترک کر دے گا جیسا کہ اس نے فلسطین کے لوگوں کو ترک کیا تھا؟

 

         کہا جاتا ہے کہ، إن التذاكي على الأذكياء ضربٌ من الغباء "ذہین کے ساتھ ہوشیاری کھیلنا حماقت کی ایک قسم ہے۔" اور یہ ابن سلمان کا یہی معاملہ ہے۔

 

         فلسطین کی بابرکت سرزمین میں واقعات اور یہودیوں کے جرائم میں اضافہ اور ان کی جانب سے مسلمانوں کا پاک خون بہانے پر حجاز، پاکستان، مصر، بنگلہ دیش، ترکی اور دیگرمسلم علاقوں کی مسلم فوجوں کا خون گرم ہوجانا چاہیے۔ یہ صورتحال  مسلم افواج کے لیے ان غدار سازشی حکمرانوں کا تختہ الٹنے کا محرک ہونا چاہیے، جبکہ ان کے کھنڈرات پر نبوت کے نقش پر ریاست خلافت کو دوبارہ قائم کرنا چاہیے۔ درحقیقت خلافت ہی وہ ریاست ہے جو مقدس سرزمین کو یہودیوں کی ناپاک وجود سے آزاد کرانے کے لیے فوجیں بھیجے گی۔

 

         خلافت یہ کام اللہ سبحانہ و تعالیٰ کےاس حکم کے جواب میں کرے گی،

 

انْفِرُوۡا خِفَافًا وَّثِقَالاً وَّجَاهِدُوۡا بِاَمۡوَالِكُمۡ وَاَنۡفُسِكُمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ‌ؕ ذٰلِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ‏

"کوچ کرو ہلکی جان سے چاہے بھاری دل سے اور اللہ کی راہ میں لڑو اپنے مال اور جان سے، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر جانو ۔"(التوبہ، 9:41)

 

         خلافت یہ کام رسول اللہﷺکے اس قول کی تصدیق میں کرے گی،

 

((تُقَاتِلُكُمُ اليَهُودُ فَتُسَلَّطُونَ عَلَيْهِمْ ، ثُمَّ يَقُولُ الحَجَرُيَا مُسْلِمُ هَذَا يَهُودِيٌّ وَرَائِي، فَاقْتُلْهُ)).

" تم یہودیوں سے ایک جنگ کرو گے اور اس میں ان پر غالب آ جاؤ گے۔ اس وقت یہ کیفیت ہو گی کہ (اگر کوئی یہودی جان بچانے کے لیے کسی پہاڑ میں بھی چھپ جائے گا توپتھر بولے گا کہ اے مسلمان! یہ یہودی میری آڑ میں چھپا ہوا ہے، اسے قتل کر دے۔"(بخاری)۔

 

بنی سعود کے حکمرانوں کو باقی سازشیوں کے ساتھ مل کر بابرکت سرزمین میں رونما ہونے والے واقعات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خونریزی روکنے کے بہانے یہودیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کا اعلان کرنے کے موقع کو ناکام بنانا چاہیے۔

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے بلال المہاجر نے تحریر کیا، ولایہ پاکستان

Last modified onبدھ, 05 جولائی 2023 22:50

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک