الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

آئین ہی میری آزادی ہے

 

عبدالمنعم، پاکستان

 

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ، کسی بھی ریاست کو چلانے کے لئے اس کا آئین ہی بنیادی قانونی ڈھانچہ ہوتا ہے۔ آئین ہی مجاز اتھارٹی کے اصول و ضوابط طے کرتا ہے اور انہیں ریاست میں تقسیم کرتا ہے جو کہ معاشرہ کو منظم کرنے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ آئین ہی اس بنیادی نظریہ کی تعبیر بھی کرتا ہے جس پر ریاست کی اساس استوار ہوتی ہے۔ آئین افراد اور معاشرے کے لئے بنیادی حقوق اور ضروریات کا خاکہ پیش کرتا ہے، اور قوانین متعین کرنے کا ایک ضابطہ طے کرتا ہے تاکہ ہر شہری کے لیے ان حقوق اور ضروریات کو پورا کیا جا سکے اور  پھر یہ آئین ہی احتساب کا ایک طریقہ کار وضع کرتا ہے تاکہ ان قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔

 

لہذا آئین منظم اور باضابطہ قوانین کا ایک مجموعہ ہے نہ کہ ان سے آزادی کا۔ آئین حدود کو طے کرتا ہے نہ کہ آزادیوں کو، یعنی ان حدود کا تعین جن میں رہتے ہوئے ریاستی ادارے اور معاشرہ عمل پیرا ہو گا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان تمام حدود کے اندر رہتے ہوئے کوئی حقیقت میں کیسے آزاد ہو سکتا ہے۔ تو پھر ہمیں آزادی کے اس تصور کے باطل پن کی جانب اپنی آنکھیں بند نہیں کر لینی چاہئیں جو کہ حقیقت میں ایک آئین اور اس کے تعین کردہ قوانین کے تحت چلنے والے کسی معاشرے میں عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔

 

لامحالہ طور پر اگر ایک منظم کردہ معاشرہ میں انسان ہی آزاد نہیں ہے تو پھر آئین اور قوانین کیسے طے کئے جائیں یا یہ کہ ریاست اور معاشرہ کی کیا حدود ہونی چاہئیں اور  اس سے بھی اہم مسئلہ یہ ہے کہ آخر ان حدود کا تعین کون کرے گا ؟ کیا یہ لوگ طے کریں گے ؟ کیا لوگوں کے پاس اتنی فکری اہلیت ہے کہ وہ یہ طے کر سکیں کہ ان دیکھے اور غیر معینہ مستقبل کے لئے کیا موزوں ہو سکتا ہے ؟ یا اگر اس پیرائے کو یوں بیان کیا جائے کہ یہاں کتنے لوگ ایسے ہیں جو کہ ایک ایسے ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں جو انہوں نے دیکھا ہی نہ ہو یا اس کے بارے میں قطعی لاعلم ہوں ؟ چاہے آپ دوبارہ کوشش کر لیں یا حتیٰ کہ تیسری مرتبہ بھی آزما لیں لیکن لازمی ہے کہ اس ہدف کو نہیں پا سکتے۔

 

جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے لیکن بہرحال ہر خطا کی کچھ قیمت چکانا ہوتی ہے۔ تو آئین میں ہونے والی کسی بھی خطا کا خمیازہ عوام سے ناانصافی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے، یعنی معاشرے پر ظلم و زیادتی جو کہ ہر اس آئین کے ساتھ لازم و ملزوم ہے جو کہ محدود انسانی عقل کی اختراع سے اخذ کیا گیا ہے۔ تو پھر ہمیں آخر کیا کرنا چاہئے ؟ کیا پہلے کی جانے والی غلطی کو درست کرنے کے لئے ایک اور غلطی کر لیں ؟ اور پھر مزید ایک اور اسی طرح مزید غلطیاں کرتے چلے جائیں ؟ چاہے ہم ان غلطیوں کو جاری رکھتے چلے جائیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کبھی بھی ہمارے مسائل کا حل نہیں فراہم کر سکتیں۔

 

تو آخر یہ ہمیں کہاں تک لے جائیں گی ؟ کیا ہمارے پاس کوئی ایسا آئین ہے جو کہ کسی بھی خامی سے پاک لامحدود حکمت سے اخذ شدہ ہو ؟ جی ہاں ، تو ان سوالوں کا جواب بالکل اثبات میں ہے، ہم ہی وہ خوش نصیب ہیں کہ جنہیں اس معاملے میں الہامی راہنمائی عطا ہوئی ہے۔ پاکستان کی بنیاد اس نعرہ " پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ" پر رکھی گئی تھی، جس کا مطلب ہے کہ یہ ملک اس لئے قائم ہوا تھا تاکہ اسلام ہی اس "پاک سر زمین" کا آئین بن سکے۔ پاکستان کے عوام عرصئہ دراز سے دلوں میں امنگیں بسائے اس دن کی راہ تک رہے ہیں جب ان کا آئین قرآن وسنت کے مطابق ہو گا، ایک ایسا آئین جو کہ اس العلیم والخبیر خالق کی لامحدود حکمت کی بنیاد پر ہو گا۔ اور صرف تب ہی ہمارے آباؤ اجداد کے خواب کو حقیقت کا روپ دیتے ہوئے پاکستان کے عوام کی زندگیوں میں حقیقی معنوں میں اس نعرہ کا ادراک ہو پائے گا۔ 

 

Last modified onجمعرات, 17 اگست 2023 04:47

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک