بسم الله الرحمن الرحيم
حکمرانوں کے خلاف خروج کے شرعی احکام
(عربی سے ترجمہ)
ڈاکٹر محمود عبدالھادی
https://www.al-waie.org/archives/article/18244
الواعی میگزین، شمارہ نمبر 429
37 واں سال، شوال 1443ھ،
بمطابق مئی 2022
تعارف:
حکمرانوں کے خلاف خروج کا مطلب یہ ہے کہ ان کی بیعت کو توڑ دیا جائے، ان کی اطاعت کے حق سے دستبردار ہوا جائے، اور ان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے ان کا مقابلہ کیا جائے، خواہ ایسا کرنا طاقت کے ذریعے ہو۔ اس معاملے کے اپنے خطرے اور اہمیت ہونے کے باعث اس کے اپنے مخصوص احکام وشرائط ہیں۔ جس طرح امت کے اندر شریعت کی حاکمیت اور بالادستی کے لئے آگہی ہونی چاہیے، بعینہٖ اسی طرح امت میں خروج کےمعاملے پر بھی عمومی آگہی ہونی چاہیے۔ اسلام کے نفاذ کو برقرار رکھنے کے لیے امت کا اپنے حقوق اور ذمہ داریوں سے آگاہی اور اس کے حصول کے لیے ذرائع کو فعال کرنا ہی اسلامی نظام حکومت کے تحفظ کا سب سے مضبوط ضامن ہے۔ ایک اور اہم ضمانت خود حکمران کا تقویٰ اور انصاف ہے۔ تاہم، خلیفہ معصوم نہیں ہوتاہے، جبکہ امت اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہو سکتی ہے، اور اس کے ادارے اپنی ذمہ داریوں میں ناکام ہو سکتے ہیں، جس سے خلیفہ اپنی خلاف ورزیاں جاری رکھ سکتا ہے۔ حتیٰ کہ خلیفہ ایسے اقدامات بھی کر سکتا ہے جن سے، وہ احتساب یا اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے اور دھوکہ دہی اور ہیرا پھیری میں ملوث ہو کر، امت کے اختیارات کو کنٹرول کرنے کے قابل ہو جائے۔
خلفاء راشدین کے دور کے بعد ایسا بتدریج ہوا، جس کا آغاز یزید بن معاویہ بن ابو سفیان کی جبراً بیعت ہونے سے ہوا [1]، جس کے نتیجے میں خلافت موروثی نظام میں تبدیل ہو گئی [2]۔ ایسی صورت حال کا تقاضا ہے کہ اس عدلیہ کی مداخلت ہو جو خلیفہ کے ساتھ تنازعات سے متعلق مخصوص ہو۔ اگر عدلیہ اس معاملے میں خلیفہ کے خلاف فیصلہ سناتی ہے تو اس عدلیہ کا فیصلہ لازمی ہے۔ اگر خلیفہ اس حکم کی تعمیل کرتا ہے تو معاملہ حل ہو جاتا ہے۔ تاہم، اگر وہ انکار کر دے اور اپنے اثر و رسوخ سے اپنے آپ کو مضبوط کر لے، تو اس کا اور امت کا رشتہ محبت، مہربانی اور باہمی مشاورت سے ناراضگی، شک و شبہ اور جبر کی طرف بدل جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی طرف سے شریعت کی حاکمیت اور امت کے اختیار کے اصولوں کی خلاف ورزی کی جائے گی اور وہ عملاً اقتدار پر قابض ہو جائے گا۔ ایسی صورتحال میں جہاں اسلام کے نفاذ کے باقی تمام مذکور ذرائع ناکام ہوچکے ہوں وہاں حکمران کو معزول کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ اور یہ ہے وہ امر جہاں سے خلیفہ کے خلاف خروج کا معاملہ اٹھتا ہے، کہ خلیفہ کا اور اس کے شریکِ جرم ساتھیوں کا شریعت کی حاکمیت کو پامال کرنے اور امت کے اختیار کی خلاف ورزی کرنے پر تختہ الٹ دیا جائے۔ ان نصوص کے اشارات کی بنا پر، جو خلیفہ کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں اور خلیفہ کی طرف سے ان چیزوں پر صبر کرنے کا حکم دیتے ہیں جن کو لوگ ناپسند کرتے ہیں۔ خلیفہ کی معزولی کا فیصلہ انتہائی نازک ہوتا ہے۔
اس معاملے میں اختلافِ رائے کے باعث کہ کب حکمران کی بیعت کو منسوخ کیا جائے اور اس کی اطاعت نہ کی جائے، اس معاملے میں خاصے خطرات لاحق ہونے کے ساتھ ساتھ حکمران کے خلاف خروج کرنے کے ممکنہ نقصانات بھی ہو سکتے ہیں جیسے خون خرابہ، فتنہ و فساد اور خانہ جنگی۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ آراء ایسے حکمران کی اطاعت کی ضرورت کی بات کرتی ہیں جو طاقت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لےاور وہ دوسروں پر غالب آجائے۔ مزید برآں، بعض شرعی نصوص کو اس انداز میں ڈھال لیا گیا اور ان کی تشریح یوں کی گئی کہ اس حکمران کے ظلم اور خود مختار اقدامات کا جواز پیش کیا جا سکے، حالانکہ ان نصوص کا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا۔ اس کی وجہ سے اس تصور کو بھی قبول کر لیا گیا کہ جو شخص کسی علاقے یا ولایہ صوبے میں اقتدار پر قبضہ کر لے اور اپنے آپ کو اس کا حاکم بنا لے، تو وہ نظام خلافت کے اندر ایک جائز رہنما یا امیر کے طور پر تصور کیا جا سکتا ہے۔
’’سلطان‘‘ کی اصطلاح کا اطلاق بعض ادوار میں کچھ گورنروں اور یہاں تک کہ کچھ وزراء پر بھی کیا گیا تھا۔ نتیجتاً، مروجہ اسلامی سیاسی فکر اب شریعت کی طرف سے مقرر کردہ امور کی صحیح عکاسی کرنے والی نہ رہی۔ اس کی بجائے، یہ فکر اب اس بات کا ملا جلا مرکب بن گئی کہ شریعت نے کیا حکم دیا تھا اور حقیقت کیا بن چکی ہے۔ بعض پہلوؤں سے تو یہ فکر شریعت سے زیادہ حقیقت کی عکاس بن کر رہ گئی تھی۔ خلیفہ کے لیے یہ ایک عام سی بات ہو گئی کہ وہ کسی ایسے شخص کو ایک ولایہ صوبے کا گورنر مقرر کر دےجس نے صوبے پر قبضہ کر لیا ہو، تاکہ اس طرح کم از کم ایک جائز حکمرانی کی ظاہری شکل برقرار رہے! اس عملی روایت کو پھر شریعت کا تحفظ اور دین کی حفاظت سمجھا جانے لگا۔
ماوردیؒ بیان کرتے ہیں کہ عمومی حکمرانی کی دو قسمیں ہیں:
«إمارةُ استكفاءٍ بعقدٍ عن اختيار، وإمارةُ استيلاءٍ بعقدٍ عن اضطرار… أما إمارةُ الاستيلاء التي تُعقدُ عن اضطرارٍ فهي أن يستولي الأميرُ بالقوةِ على بلادٍ يقلِّدُه الخليفةُ إمارتَها، ويُفوِّضُ إليه تدبيرَها وسياستَها، فيكون الأميرُ باستيلائه مستبِدًّا بالسياسة والتدبير، والخليفةُ بإذنه منفِّذًا لأحكام الدين ليخرج من الفساد إلى الصحة ومن الحظر إلى الإباحة. وهذا وإن خرج عن عُرفِ التقليدِ المـُطلقِ في شروطه وأحكامه، ففيه من حفظِ القوانينِ الشرعيةِ وحراسةِ الأحكامِ الدينية، ما لا يجوزُ أنْ يُتركَ مختلًا مدخولًا، ولا فاسدًا معلولًا، فجاز فيه مع الاستيلاء والاضطرار، ما امتنع في تقليد الاستكفاء والاختيار، لوقوعِ الفرقِ بين شروطِ المكنةِ والعجز«
’’ایک انتخاب کے ذریعے امارۃ جس میں معاہدہ رضا مندی سے کیا گیا ہو، اور دوسری جبراً امارۃ، جس میں معاہدہ دباؤ سے کیا گیا ہو... جہاں تک جبراً امارۃ کا تعلق ہے، جس میں معاہدہ دباؤ کے تحت ہوتا ہے، یہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک حکمران کسی خطے پر قبضہ کر لے اور پھر خلیفہ اسے اس علاقے میں اپنا گورنرمقرر کر لے اور اس جگہ کا انتظام اور پالیسیاں اس کے سپرد کر دے۔ ایسی صورت میں وہ حکمران اپنے جبراً قبضے سے حکومت اور پالیسی میں خود مختار ہو جاتا ہے جب کہ خلیفہ اس کی اجازت سے دین کے احکام کو نافذ کرتا ہے تاکہ شر وفساد سے راستبازی کی طرف اور ممانعت سے جائز ہونےکی طرف منتقل ہوا جا سکے۔ اگرچہ یہ امر اپنی شرائط اور احکامات میں تقرری کے مطلق اصولوں سے انحراف ہے لیکن بہرحال یہ شرعی قوانین کو محفوظ رکھتا ہے اور شرعی احکام کی حفاظت اس انداز میں کررہا ہوتا ہے کہ جن میں غفلت یا خرابی نہیں آنی چاہیے۔ لہٰذا جو چیز انتخاب کے ذریعے تقرری کرنے میں حرام ہوتی ہے وہ اہلیت اور نااہلی کی شرائط میں فرق ہونے کی وجہ سے جبر اور دباؤ کی تقرری میں جائز ہو جاتی ہے‘‘۔[3]
اس متن سے اس رائے کے ابھرنے کی وضاحت ہوتی ہے کہ خلیفہ کی ابتدائی تقرری کے لئے عادل ہونا ایک شرط ہے، لیکن خلیفہ کے عہدے پر برقرار رہنے کے لیے یہ ضروری نہیں۔
حکمرانوں کے خلاف خروج کا مسئلہ ماضی اور حال دونوں میں ہی بحث اور اختلاف کا موضوع رہا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ زیادہ تر پائی جانے والی رائے وہ ہے جو حکمرانوں کے خلاف خروج کی ممانعت کرتی ہے، چاہے وہ کچھ بھی کریں۔ اس کی بڑی وجہ ایسے حکمران ہیں جو اقتدار اور اس کے فوائد سے چمٹے رہنے کے خواہشمند ہوتے ہیں چاہے یہ شریعت کی خلاف ورزی کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو۔ یہ حکمران ان خیالات کو فروغ دیتے ہیں جو ان کی خواہشات کے مطابق ہوتے ہیں، اور جو تصورات ان کے مطابق نہ ہوں انہیں دبا دیتے ہیں، اور اپنے خلاف خروج کی اجازت دینے والوں پر انتہا پسندی اور بدامنی پھیلانے کا الزامات لگا دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ظلم و جبر کا خوف پیدا ہوا، حق کی آواز کو خاموش کر دیا گیا، اور ایسی آراء اور فتاویٰ سامنے آئے جو حکمرانوں کو خوش کرتے ہوں۔ پھر ان خیالات کو خطبات اور میڈیا میں پلیٹ فارم دیا جاتا ہے اور تعلیمی فورمز اور اداروں تک رسائی دی جاتی ہے۔نتیجتاً امت اس حقیقت سے غافل ہو چکی ہے کہ حکمران کی تنصیب کا اختیار امت کے پاس ہے اور ایک عام رائے یہ پھیل چکی ہے کہ خلیفہ کی بیعت کو منسوخ کرنا یا اس کے خلاف بغاوت کرنا جائز نہیں ہے، بشرطیکہ وہ صریح کفر کا ارتکاب نہ کرے یا جب تک وہ ان کے درمیان نماز کو قائم رکھے۔ یہ بات مانی جاتی ہے کہ خلیفہ کی اطاعت واجب ہے، خواہ وہ کتنا ہی فاسق یا غافل کیوں نہ ہو، اور یہ کہ خلیفہ کے ساتھ صبر کرنا ضروری ہے خواہ وہ کتنا ہی ظالم اور جابر کیوں نہ ہو، اور بطور عذر یہ جواز بنا کر کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے، تو بغاوت اس سے بڑے فساد کا باعث بن سکتی ہے [4]۔
حکمرانوں کی برطرفی اور ان کے خلاف خروج پر آراء کی بحث
اسلامی قوانین نے واضح طور پر ان شرائط کی وضاحت کی ہے جن کے تحت حکمرانوں کے خلاف خروج کرنا جائز ہے۔
- عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے:
«دَعَانَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَبَايَعْنَاهُ، فَقَالَ فِيمَا أَخَذَ عَلَيْنَا أَنْ بَايَعَنَا عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي مَنْشَطِنَا وَمَكْرَهِنَا، وَعُسْرِنَا وَيُسْرِنَا، وَأَثَرَةً عَلَيْنَا، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ»
”ہمیں نبیﷺ نے دعوت دی تو ہم نے آپﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپﷺ نے ہم سے ان شرائط پر بیعت لی کہ ”ہم پسندیدہ اور ناپسندیدہ کاموں میں،مشکل اور آسانی (کی حالت)میں اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دینے کی صورت میں بھی آپ کی اطاعت کریں گے۔ اور ہم کسی حاکم کے ساتھ اس کے منصب میں تنازع نہ کریں گے،مگر جب تک کہ تم کفرِ بواح (کھلم کھلا کفر) نہ دیکھ لو،جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے پاس قطعی دلیل ہو“۔ (صحیح مسلم)
- حضرت عوف بن مالک الأشجعيرضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«خِيَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ، وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ، وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ، وَتَلْعَنُونَهُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ. قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَفَلَا نُنَابِذُهُمْ بِالسَّيْفِ؟ فَقَالَ: لَا، مَا أَقَامُوا فِيكُمُ الصَّلَاةَ، وَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْ وُلَاتِكُمْ شَيْئًا تَكْرَهُونَهُ، فَاكْرَهُوا عَمَلَهُ، وَلَا تَنْزِعُوا يَدًا مِنْ طَاعَةٍ»
”تمہارے بہترین امام وہ ہوں گے جن سے تم محبت کرو گے اور وہ تم سے محبت کریں گے۔وہ تمہارے لیے دعائیں کریں گے اور تم ان کے لیے دعائیں کروگے۔ اور تمہارے بدترین امام وہ ہوں گے جن سے تم بغض رکھو گے اور وہ تم سے بغض رکھیں گے۔ تم ان پر لعنتیں بھیجوگے اور وہ تم پر لعنتیں بھیجیں گے“۔ اس پر آپﷺ سے سوال کیا گیا: ”کیاہم ایسی صورت میں ان حکمرانوں کوبزورِ شمشیر ہٹا نہ دیں؟“
آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس وقت تک نہیں جب تک کہ وہ تمہارے درمیان نماز قائم رکھیں۔ اور اگر تم اپنے حکمرانوں کی طرف سے کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھو تو صرف اسی چیز کو ناپسند کرواوراطاعت سے ہاتھ نہ کھینچو“۔ (صحیح مسلم میں مروی ہے)
- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«سَتَكُونُ أُمَرَاءُ فَتَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ عَرَفَ بَرِئَ، وَمَنْ أَنْكَرَ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ، قَالُوا: أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ: لَا، مَا صَلَّوْا»
’’ایسے امیر ہوں گے جن کے (بعض کاموں) کو تم معروف پاؤ گے اور (بعض)کو منکر۔ تو جس نے پہچان لیا (اور اس غلط کام سے دور رہا) وہ بَری ہوا اور جس نے انکار کیا (اس گناہ میں شامل ہونے سے)، وہ محفوظ رہا۔ لیکن جو راضی رہا اور تابعداری کی(وہ بَری ہوا نہ محفوظ رہا)۔صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: ’’کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں‘‘۔ (صحیح مسلم میں روایت ہے)
یہ تینوں احادیث ان شرائط پر دلالت کرتی ہیں جن میں حکمرانوں کے خلاف خروج کرنا جائز ہے۔ بعض فقہاء نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امام کے خلاف خروج اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک کہ وہ واضح اور ناقابل تردید کفر کا ارتکاب نہ کرے جس کی کسی اور طرح سے تعبیر نہ کی جاسکتی ہو۔ دیگر فقہاء نے اس شرط کی تشریح کفر کے بجائے شدید گناہ (المعصيةُ) سے کی ہے۔ دونوں صورتوں میں، یہ قطعی ہونا چاہیے اور تشریحات پر منحصر نہیں ہونا چاہیے۔
بعض فقہاء نے اس حدیث «لَا، مَا صَلَّوْا»’’نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں‘‘سے لفظی طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خلیفہ چاہے کچھ بھی کرے، جب تک وہ پانچ نمازوں کا اہتمام کرتا رہے اسے معزول کرنا یا اس سے خروج کرنا جائز نہیں۔ اس نظریے کے حامی ان نصوص پر بھی انحصار کرتے ہیں جو حکمرانوں کی ناانصافی یا ناپسندیدہ اعمال کے سامنے صبر کا حکم دیتی ہیں، جیسا کہ عوف بن مالک الأشجعيرضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث، نیز عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّهَا سَتَكُونُ بَعْدِي أَثَرَةٌ وَأُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، كَيْفَ تَأْمُرُ مَنْ أَدْرَكَ مِنَّا ذَلِكَ؟ قَالَ: تُؤَدُّونَ الْحَقَّ الَّذِي عَلَيْكُمْ، وَتَسْأَلُونَ اللهَ الَّذِي لَكُمْ. »
’’میرے بعد (کچھ لوگوں سے) ترجیحی سلوک ہو گا اور ایسے امور ہوں گے جنہیں تم برا سمجھو گے‘‘۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! اگر ہم ان حالات کا سامنا کریں تو اس کے بارے میں آپؐ کا کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’تم پر (حکام کا) جو حق ہے تم اس کو ادا کرنا اور جو تمہارا حق ہے وہ تم اللہ سے مانگنا‘‘۔ (صحیح مسلم)
غور و فکر کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ رائے غلط ہے کیونکہ کسی بھی معاملے میں شرعی حکم اخذ کرنے کے لیے تمام متعلقہ شرعی نصوص کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ فقہاء کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ بعض نصوص پر توجہ مرکوز کریں، جبکہ بعض کو نظر انداز کر دیں کیونکہ نصوص ایک دوسرے کی وضاحت کرتی ہیں۔ اصول فقہ میں یہ بات ثابت ہے کہ اگر اس بات کا امکان ہو کہ مخصوص شواہد موجود ہیں جوکہ حکم کو بدل سکتے ہیں تو کسی فقیہہ کو عمومی دلائل کی بنیاد پر کوئی حکم جاری نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بات خاص طور پر اس وقت درست ہے جب مخصوص نصوص علماء کرام کو اچھی طرح معلوم ہوں اور وسیع پیمانے پر تسلیم شدہ ہوں، یا جب وہ شریعت کے بنیادی اصولوں سے متعلق ہوں، جیسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ تمام اصولوں کے مطابق حکومت کرنے کی ذمہ داری، ناانصافی پر مبنی اور غاصبانہ قبضے کی ممانعت، اور شر کو دور کرنے کا فریضہ۔
مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمْ اللَّهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ»
’’جب لوگ کسی ظالم کو (ظلم کرتا) دیکھیں اور اسے نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو عذاب دے گا‘‘۔(سنن ابی داؤد میں مروی ہے)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
«مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ»
’’تم میں سے جو شخص منکر کام دیکھے اس پر لازم ہے اگر طاقت رکھتا ہے تو اسے اپنے ہاتھ سے یعنی زورو قوت سے روکے اور اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو، تو پھر اپنی زبان ہی سے اس کو بدلنے کی سعی کرے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو، تو اپنے دل میں اسے برا جانے، اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے‘‘۔ (صحیح مسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا:
«وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنْ الْمُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ»
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تم ضرور بالضرور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو گے ورنہ خطرہ ہے کہ اللہ تم پر اپنی طرف سے عذاب نازل کردے پھر تم اسے پکارو لیکن وہ تمہاری دعا قبول نہ کرے‘‘۔(سنن ترمذی میں مروی ہے)
رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا :
«انَّ مِنْ أَعْظَمِ الْجِهَادِ كَلِمَةَ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ»
’’سب سے افضل جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے‘‘۔ (سنن ابی داؤد میں روایت کیا گیا)
مزید یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«سَيِّدُ الشُّهَدَاءِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَرَجُلٌ قَالَ إِلَى إِمَامٍ جَائِرٍ فَأَمَرَهُ وَنَهَاهُ فَقَتَلَهُ»
’’شہداء کے سردار حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ہیں اور وہ شخص بھی جو جابر حکمران کے سامنے کھڑا ہوا اور اسے (نیکی کا)حکم دیا اور (برائی سے) منع کیا اور اس(حکمران) نے اسے قتل کردیا‘‘۔ (الحاکم مستدرک)
یہ احادیث کا مجموعہ ہے جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم دیتی ہیں۔ ان کا اطلاق عمومی طور پر ہے، اور اچھے اور برے تمام اعمال کا احاطہ کرتی ہیں۔یہ احادیث مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں پر یکساں طور پر لاگو ہوتی ہیں۔ اگر کوئی حکمران ظلم پر قائم رہے یا شریعت کے احکامات پر عمل نہ کرے تو یہ احادیث اس کا سامنا کرنے کا حکم دیتی ہیں، خواہ اس کے نتیجےمیں وہ قتل ہی کیوں نہ ہوجائے۔ اور ظالم حکمرانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کی ناانصافی کی وجہ سے مارا جانے والا شہید ہے اور بے شک وہ شہداء کا سردار ہے۔مزید برآں، یہ نصوص برائی کو اپنے ہاتھ سے ہٹانے کا حکم دیتی ہیں، جب یہ ممکن ہو۔ ’’وہ اسے اپنے ہاتھ سے ہٹا دے‘‘، اور ’’اسے روکے‘‘، یہ احکام عام ہیں اور اس میں حکمرانوں کے برے اعمال بھی شامل ہیں۔ ان برائیوں میں سے سب سے بڑی برائی شرعی حاکمیت کی خلاف ورزی ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ کے علاوہ کسی اور طریقےسے حکومت کرنا ہے۔ ایسا کرنا ظلم ہے جسے ختم کیا جانا چاہیے، اور ایک ایسی برائی ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ اسی مقصد کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نوع انسان کو تخلیق کیا اور رسول بھیجے۔ اس کی خاطر انہوں نے تدبیریں کیں، مشکلات کو برداشت کیا اور اس مقصد کے لیے جدوجہد کی۔ لہٰذا خلیفہ کا ظلم و ناانصافی کرنا اس کی تقرری کے بنیادی مقصد سے متصادم ہے اور شریعت کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے، جس کی وجہ سے اس کی برطرفی ضروری ہے، چاہے اس کے لیے خروج ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
وہ نصوص جو لوگوں کو حکمرانوں کے خلاف خروج کرنے سے منع کرتی ہیں جب تک کہ وہ کفر اً بواحاً نہ دیکھیں، یا جب تک حکمران نماز قائم کرتے رہیں، اس سے متصادم نہیں ہیں جو پہلے بیان کی جاچکی ہیں۔عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے:
« وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ»
’’اور ہم کسی حاکم کے ساتھ اس کے منصب میں تنازع نہ کریں گے،مگر جب تک کہ تم کفرِ بواح (کھلم کھلا کفر) نہ دیکھ لو،جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل ہو“۔(صحیح مسلم)
اس کا مطلب یہ نہیں کہ حاکم خود کفر کا ارتکاب کرے۔ متن کہتا ہے: «إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا» ’’جب تک کہ تم کفر نہ دیکھ لو‘‘ اور یہ نہیں کہتا: «إلا أن يكفروا» ’’جب تک کہ وہ کفر نہ کریں‘‘۔ کفریہ قوانین اور نظام کے نفاذ سے کفر کا مشاہدہ ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، ریاست کی طرف سے سود لینے کی اجازت دے دینا کفر کا ظاہر ہونا ہے۔ لوگوں کے تعلقات میں مغربی لبرل ازم یا شخصی آزادیوں پر مبنی نظام کا نفاذ، حتیٰ کہ اگر وہ صرف ایک حکم میں بھی ہو تو یہ کفر کا ظاہر ہونا ہے۔ اسی طرح کسی ایک حکم میں بھی غیر اسلامی تعزیری نظام کو نافذ کرنا، کفر کا ظاہر ہوجانا ہے۔ اس سے اللہ کی حاکمیت اور شریعت کی بالادستی کو تسلیم کرنے کے بنیادی اصول پر ضرب لگتی ہے، جو کہ مطلق اصول ہیں۔
پس جس کسی نے کفر کے نظام کے نفاذکو یا کفر کے حکم کے نفاذ کو دیکھا اس نے درحقیقت کفر کو دیکھ لیا۔ اگر حکمراں کھلے عام کفر (بواح) کا اطلاق کرے حتیٰ کہ کسی ایک حکم میں بھی تو کفر کھل کر ظاہر ہو جاتا ہے یعنی یہ کفربواح ہے۔ اصطلاح ’’بواحاً ‘‘ کا مطلب ہے کہ حکمران اس سے واقف ہے اور وہ اس پر خاموش رہتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہےکہ اُس میں حکمران کی رضامندی شامل ہے۔ اس صورتحال کا تقاضا ہے کہ انحراف کو درست کرنے یا حاکم کو ہٹانے کے لیے فوری کارروائی کی جائے۔ ایسے انحراف کا ازالہ ضروری ہے اور اگر حاکم انکار کر دے اور اپنے منصب سے چمٹا رہے تو اس کے خلاف خروج کرنا واجب ہو جاتا ہے۔
یہاں یہ بات بے تکی ہے کہ آیا حاکم ان غلطیوں یا خلاف ورزیوں کو جائز بھی سمجھتا ہے یا نہیں، آیا وہ محض شریعت سے انحراف کرکے نافرمان ہے یا وہ کافر ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ حکمران کافر ہے یا مسلمان، بلکہ یہ ہے کہ حکومت کی بنیاد اسلام پر ہے یا کفر پر۔ حدیث میں بیان ہےکہ، «إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا» ’’جب تک کہ تم کفر نہ دیکھ لو‘‘، اور کفر تو واقعی دیکھا گیا ہے۔ حدیث کی یہ تشریح، شریعت کی بالادستی کو برقرار رکھنے، اللہ کے کلام کو بلند کرنے، امام کے تقرر کے شرعی مقصد اور غلط کاموں کو دور کرنے کے احکام کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔
اس معاملے کی مزید توثیق اسی حدیث کی دوسری روایات سے بھی ہوتی ہے جس میں بیان ہے:
«إِلّا أَنْ تَكُونَ مَعْصِيَةُ اللهِ بَوَاحًا»
’’جب تک کہ اللہ کی صریح نافرمانی نہ ہو‘‘
اور
«مَا لَمْ يَأْمُرُوكَ بِإِثْمٍ بَوَاحًا»
’’جب تک وہ (حکمران) آپ کو واضح گناہ کرنے کا حکم نہ دے دیں‘‘۔
پس سابقہ احادیث میں کفر دیکھنے کا مطلب دراصل نافرمانی ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ کہتے ہیں:
«والمراد بالكفر هنا المعاصي، ومعنى عندكم من الله فيه برهان أي تعلمونه من دين الله تعالى»
’’یہاں جس کفر کا ذکر کیا گیا ہے اس کا مطلب نافرمانی ہے، اور ’’اللہ کی طرف سے واضح دلیل کے ساتھ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ تم اس نافرمانی کو اللہ تعالیٰ کے دین سے جانتے ہو‘‘ [15]۔
ابن حجر عسقلانیؒ نے اس حدیث کی وضاحت میں کہا ہے کہ:
«قولُه: إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا، قال الخطابي: معنى قوله بواحًا يريد ظاهرًا باديًا، من قولهم باح بالشيء… إذا أذاعه وأظهره… ووقع في رواية حيَّان أبي النضر المذكورة: إلا أن يكون معصية لله بواحًا»
’’آپ ؐ کا یہ کہنا کہ ’’جب تک کہ تم کفراً بواحاً نہ دیکھ لو‘‘، الخطابی نے فرمایا : بواحاً کا معنی نمایاں اور واضح ہے، جیسا کہ وہ کہتے ہیں: باح بالشيء…… جب اس کا انکشاف ہو جائے اور اسے ظاہر کر دیا جائے… یہ حيَّان أبي النضر کی روایت میں بھی منقول ہے: ’’جب تک کہ اللہ کی صریح نافرمانی نہ ہو‘‘ [16]۔
مسند احمد میں عمیر بن ہانی کی روایت سے جنادہ سے مروی ہے کہ «ما لم يأمروك بإثمٍ بواحًا»’’جب تک وہ (حکمران) تمہیں صریح گناہ کا حکم نہ دیں‘‘[17]۔ آپ ﷺ کا بیان کہ، «عندكم من الله فيه برهان» ’’جس کے لیے تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل ہو‘‘ سے مراد کسی آیت کا متن، یا صحیح حدیث ہے، جو تشریح کی محتاج نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے خلاف خروج جائز نہیں ہے جب تک کہ ان کے اعمال تاویل کے لیے کھلے ہوں۔
امام النوویؒ نے فرمایا : «المراد بالكفر هنا المعصية»’’یہاں پر کفر سے مراد نافرمانی ہے‘‘، اور دوسرے علماء نے کہا ہے: «المراد بالإثم هنا المعصية والكفر»’’یہاں جس گناہ کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد نافرمانی اور کفر ہے‘‘۔
ابن التین [18] نےالداؤدي [19] کی سند سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا:
«الذي عليه العلماء في أمراءِ الجَوْر أنه إن قُدِرَ على خلعه بغير فتنةٍ ولا ظلمٍ وَجَب، وإلا فالواجبُ الصبرُ. وعن بعضهم: لا يجوزُ عقدُ الولاية لفاسقٍ ابتداءً، فإن أحدث جورًا بعد أن كان عدلًا، فاختلفوا في جوازِ الخروجِ عليه، والصحيحُ المنعُ إلا أن يكفرَ فيجبُ الخروجُ عليه»
’’ظالم حکمرانوں کے بارے میں علماء کا اتفاق یہ ہے کہ اگر فساد یا ناانصافی کے بغیر انہیں معزول کرنا ممکن ہو تو ایسا کرنا واجب ہے۔ بصورت دیگر صبر کیا جائے۔ بعض نے کہا ہے کہ ابتداء میں ہی کسی فاسق کو قیادت کے منصب پر فائز کرنا جائز نہیں ہے اور اگر ظلم و جور ظاہر ہو جائے، بعد یہ کہ حکمران اس سے قبل عادل رہا تھا تو اس کے خلاف خروج کے جواز میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔ صحیح رائے یہ ہے کہ خروج اس وقت تک کرنا حرام ہے جب تک کہ وہ کفر کا ارتکاب نہ کرے، اگر وہ کفر کا ارتکاب کرتا ہے تو اُس صورت میں اس کے خلاف خروج کرنا واجب ہو جاتا ہے‘‘[20]۔
یہی استدلال ان احادیث پر بھی لاگو ہوتا ہے جو حکمرانوں کے خلاف خروج کو منع کرتی ہیں جب تک کہ وہ نماز قائم کرتے رہیں، جیسے حضرت عوف بن مالک الأشجعيرضی اللہ عنہ سے روایت میں ہے:
« قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَفَلَا نُنَابِذُهُمْ بِالسَّيْفِ؟ فَقَالَ: لَا، مَا أَقَامُوا فِيكُمُ الصَّلَاةَ»
’’عرض کیا گیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم ان سے تلوار سے نہ لڑیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں‘‘۔
اور ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایت میں ہے:
« قَالُوا: أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ: لَا، مَا صَلَّوْا»
’’صحابہؓ نے عرض کی: کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، جب تک کہ وہ نماز کا اہتمام کرتے رہیں‘‘۔
اگر ان احادیث کو ان کے لغوی معنی میں سمجھا جائے تو اس سے دوسری نصوص میں تضاد پیدا ہوگا۔ شریعت کے احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ جو حکمران شریعت کی حاکمیت کی خلاف ورزی کرے، امت کے اختیار کو غصب کرے، اور مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ میں نااہل ہو، اور جو نصیحت اور تنبیہ کے بعد بھی نہ رکے، تو اسے معزول کر دینا لازم ہے۔ اگر وہ انکار کرے اور مزاحمت کرے تو اسے ہٹانے کے لیے خروج کرنا واجب ہو جاتا ہے، جبکہ اس کی کامیابی کا معقول امکان ہو، یا کم از کم اس مقصد کے لیے کوشش کی جائے۔
پس ان احادیث میں صلوٰۃ سے مراد محض وہ نماز نہیں ہے جو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا:
﴿وَأَقِمِ ٱلصَّلَوٰةَۖ إِنَّ ٱلصَّلَوٰةَ تَنۡهَىٰ عَنِ ٱلۡفَحۡشَآءِ﴾
’’اور نماز قائم کرو، بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘‘ [العنکبوت، 45]۔
جب کہا جاتا ہے کہ حاکم نماز قائم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ دین کو قائم رکھتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ نماز وہ ستون ہے جس پر اسلام کی بنیاد ہے۔معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أَلاَ أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الأَمْرِ كُلِّهِ وَعَمُودِهِ، وَذِرْوَةِ سَنَامِهِ؟ قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: رَأْسُ الأَمْرِ الإِسْلاَمُ، وَعَمُودُهُ الصَّلاَةُ، وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الجِهَادُ»
’’کیا میں تمہیں دین کی بنیاد اس کے ستون اور اس کی چوٹی کے متعلق نہ بتاؤں؟‘‘میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! ضرور بتائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’دین کی بنیاد اسلام ہے، اس کا ستون نماز اور اس کی چوٹی جہاد ہے‘‘ (سنن ترمذی) [21]۔
چونکہ نماز اسلام کا ستون ہے، اس لیے یہاں اقامتِ نماز کا لفظ بول کراقامتِ دین مراد لیا گیا ہے(جسے کنایہ کہتے ہیں)۔ لہٰذا جو حکمران اپنی حکومت میں شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے، اور نہ نیکی کا حکم دیتا ہے اور نہ برائی سے منع کرتا ہے، اسے نماز قائم کرنے کا نام نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ اس نے اسلام کو کمزور کیا ہے اور اس کے احکام کو نافذ کرنے کے بجائے ان کو رَد کر دیا ہے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
«فإنّ الصلاةَ إذا أتى بها كما أُمر نهتْه عن الفحشاءِ والمنكر، وإذا لم تنهَه دلَّ على تضييعِه لحقوقِها وإن كان مطيعًا. وقد قال تعالى: ]فَخَلَفَ مِنۢ بَعۡدِهِمۡ خَلۡفٌ أَضَاعُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَٱتَّبَعُواْ ٱلشَّهَوَٰتِۖ فَسَوۡفَ يَلۡقَوۡنَ غَيًّا[ [مريم، 59]، وإضاعتُها التفريطُ في واجباتِها وإن كان يصليها، والله أعلم»
’’اگر نماز حکم کے مطابق ادا کی جائے تو یہ بے حیائی اور برائیوں سے روکتی ہے اور اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ نماز کے حقوق سے غافل ہونے کی طرف اشارہ ہے، چاہے وہ شخص نماز ہی کیوں نہ پڑھتا ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: ’’پھر ان کی جگہ ایسے ناخلف آئے جنہو ں نے نماز ضائع کی اور خواہشات کے پیچھے پڑ گئے پھر عنقریب گمراہی کی سزا پائیں گے‘‘ (سورۃ مریم:59)، اور ضائع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے فرائض میں کوتاہی کی، چاہے کوئی نماز ہی کیوں نہ پڑھتا ہو، اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے‘‘۔ [22]
شیخ عبدالقدیم الذلّومؒ نے فرمایا:
«والمراد بإقامة الصلاة الحكمُ بالإسلام، أي تطبيقُ أحكام الشرع، من باب تسمية الكلِّ باسم الجزء، كقوله تعالى: ]فَتَحۡرِيرُ رَقَبَةٖ[ [النساء، 92] و[المجادلة: 3]، والمراد تحريرُ العبد كلِّه، لا تحريرُ رقبتِه. وقال: «مَا أَقَامُوا فِيكُمُ الصَّلَاةَ»، والمرادُ إقامةُ أحكام الشرع كلِّها، لا إقامةُ الصلاةِ وحدَها. وهذا من قبيل المجاز، من إطلاقِ الجزءِ وإرادةِ الكلّ»
’’نماز قائم کرنے سے مراد اسلام کی حکومت ہے، یعنی شریعت کے احکام کو نافذ کرنا، یہ جزو کا نام لے کر کُل مراد لینا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’پھر (سزا کے طور پر) ایک مسلمان کی گردن آزاد کرے‘‘ [سورۃ النساء، 92 اور سورۃ المجادلہ، 3]، جس کا مطلب ہے صرف اس کی گردن ہی نہیں بلکہ پورے غلام کو آزاد کرنا۔ اور رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان: ’’جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں گے‘‘ سے مراد شریعت کی تمام احکامات کا قیام ہے، صرف نماز کا قیام نہیں۔ یہ ایک مجازی کنایہ ہے، جس میں ایک جزو کا استعمال کرکے کُل کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے‘‘ [23]۔
اور ظالم حکمران کے ساتھ صبر کے بارے میں جو یہ کہا گیا کہ اس کے بارے میں خاموش رہا جائے اور اس سے مطمئن رہا جائے، خواہ وہ کچھ بھی کرے اور اس کو برطرف کرنے کے لیے کام کرنا حرام ہے کیونکہ وہ مسلمان ہے اور نماز قائم کرتا ہے، اور حتیٰ کہ اس کوپیٹھ پر کوڑے مارنے اور مال بٹورنے کی بھی اجازت دے دی جائے، تو یہ ایک مذموم رائے ہے۔
ابن حزمؒ نے کہا:
«أما أمره عليه السلام بالصبر على أخذ المال وضرب الظهر، فإنما ذلك بلا شكٍّ إذا تولى الإمامُ ذلك بحقٍّ، وهذا مما لا شكَّ فيه أنه فرضٌ علينا الصبرُ له. وأما إن كان ذلك بباطل، فمعاذَ الله أن يأمرَ رسولُ الله صلى الله عليه وسلم بالصبرِ على ذلك»
’’جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ مال لینے والے اور (سزا کے طور پر) کوڑے مارنے والے حاکم کے ساتھ صبر کرو، یہ بلاشبہ تب ہے جب امام عدل کرتا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی صورت میں صبر کرنا ہم پر فرض ہے۔ البتہ اگر یہ باطل انداز سے ہو تو اللہ کی پناہ کہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر صبر کرنے کا حکم دیا ہو‘‘ [24]۔
ابن حزمؒ ان لوگوں کے جواب میں اس موضوع پر گراں قدر بصیرت پیش کرتے ہیں جو ظالم حکمران کے خلاف بغاوت سے منع کرتے ہیں، چاہے وہ کچھ بھی کرے، جب تک کہ وہ مسلمان ہو اور نماز پڑھتا ہو۔ وہ فرماتے ہیں:
«ويُقال لهم: ما تقولون في سلطانٍ جعل اليهودَ أصحابَ أمرِه، والنصارى جندَه، وألزم المسلمين الجزيةَ، وحمل السيفَ على أطفالِ المسلمين، وأباح المسلمات للزنا، وحملَ السيفَ على كلّ من وُجِد من المسلمين، وملكَ نساءهم وأطفالَهم، وأعلن العبثَ بهم، وهو في كلّ ذلك مقرٌ بالإسلام، مُعلنٌ به، لا يدع الصلاة؟ فإن قالوا: لا يجوزُ القيامُ عليه. قيل لهم: إنه لا يدعُ مسلمًا إلا قتله جملةً، وهذا إن تُرِك أوجب ضرورةً ألا يبقى إلا هو وحده وأهلُ الكفرِ معه. فإن أجازوا الصبرَ على هذا، خالفوا الإسلامَ جملةً وانسلخوا منه»
’’ان سے کہا گیا کہ: تم اس حکمران کے بارے میں کیا کہتے ہو جو یہودیوں کو اپنا اہلکار، عیسائیوں کو اپنا سپاہی بناتا ہو، مسلمانوں پر جزیہ لگاتا ہو، مسلمان بچوں پر تلوار چلانے کا حکم دے اور مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کی اجازت دیتا ہو،کسی بھی مسلمان کو قتل کرتا پھرے، ان کی عورتوں اور بچوں کو پکڑ لیتا ہو، اور کھلم کھلا ان کا مذاق اڑاتا ہو، جبکہ اسلام کا اعتراف بھی کرتے ہوئے اس کا اعلان بھی کرتا ہو، اور نماز کو بھی نہ ترک کرتا ہو؟ اگر وہ کہتے ہیں کہ اس حکمران کے خلاف اٹھنا جائز نہیں ہے تو ان سے کہا جائے گا: ایسا حکمران کسی ایک مسلمان کو بھی زندہ نہیں چھوڑے گا بلکہ ان سب کو قتل کر دے گا، جس کا لازماًنتیجہ یہ ہوگا کہ وہ حکمران تنہا رہ جائے گا اور کفار اس کے اردگرد ہوں گے۔ اور اگر وہ ایسے معاملے میں صبر کی اجازت دیتے ہیں تو انہوں نے اسلام کی سراسر خلاف ورزی کی اور اسلام سے انکار کیا‘‘ [25]۔
وہ مزید کہتے ہیں:
«ونسألُهم عمَّن قصد سلطانُه الفاجرُ الجائرُ زوجتَه، وابنتَه، وابنَه ليفسقَ بهم، أو ليفسقَ به بنفسه، أهُو في سعةٍ من إسلامِ نفسِه، وامرأتِه، وولدِه، وابنتِه للفاحشة، أم فرضٌ عليه أن يدفعَ من أراد ذلك منهم؟ فإن قالوا: فرضٌ عليه إسلامُ نفسِه وأهلِه، أتوْا بعظيمةٍ لا يقولُها مسلمٌ. وإن قالوا: بل فرضٌ عليه أن يمتنعَ من ذلك ويقاتلَ رجعوا إلى الحق، ولزم ذلك كلَّ مسلم في كلِّ مسلمٍ وفي المال كذلك»
’’ہم ان سے ایسے حکمران کے بارے میں پوچھتے ہیں جو فاسق اور ظالم ہو اور کسی آدمی کی بیوی، بیٹی، یا بیٹے، حتیٰ کہ اس مرد کے ساتھ بدکاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، کیا وہ اپنے آپ کو، اپنی بیوی اور اپنے بچوں کو اس طرح کے فساد کے حوالے کر سکتا ہے، یا کیا ایسے کسی حملے سے ان کا دفاع کرنا واجب ہے؟ اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو حوالے کر دینا واجب ہے تو وہ بہت بڑی بات اپنے منہ سے نکالتے ہیں اور ایسا کرنے کا کوئی مسلمان نہیں کہے گا۔ البتہ اگر وہ کہتے ہیں کہ اس کے خلاف مزاحمت اور لڑائی واجب ہے تو وہ حق کی طرف لوٹ آئے ہیں اور ہر مسلمان پر ہر دوسرے مسلمان اور اس کے مال کے متعلق بھی یہی فرض ہے‘‘ [26]۔
جہاں تک وہ احادیث ہیں جو حکمرانوں اور گورنروں کے ساتھ صبر کا حکم دیتی ہیں جب لوگ ان کی طرف سے جانِب داری اور گناہ کے کاموں کا مشاہدہ کریں ، جیسے:
«أَلَا مَنْ وَلِيَ عَلَيْهِ وَالٍ، فَرَآهُ يَأْتِي شَيْئًا مِنْ مَعْصِيَةِ اللهِ، فَلْيَكْرَهْ مَا يَأْتِي مِنْ مَعْصِيَةِ اللهِ، وَلَا يَنْزِعَنَّ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ»
’’جس شخص کے اوپر کوئی حاکم مقرر ہو اور وہ اسے اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے دیکھے تو وہ اللہ کی نافرمانی کے عمل کو ناپسند کرے، لیکن اس شخص کو اطاعت سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے‘‘[27]۔
اور
«سَتَكُونُ أُمَرَاءُ فَتَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ فَمَنْ عَرَفَ بَرِئَ، وَمَنْ أَنْكَرَ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ. قَالُوا أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ لَا مَا صَلَّوْا»
’’ایسے امیر ہوں گے جن کے (بعض کاموں) کو تم معروف پاؤ گے اور (بعض)کو منکر۔ تو جس نے پہچان لیا (اور اس غلط کام سے دور رہا) وہ بَری ہوا اور جس نے انکار کیا (اس گناہ میں شامل ہونے سے) محفوظ رہا۔ لیکن جو راضی رہا اور تابعداری کی(وہ بَری ہوا نہ محفوظ رہا)۔صحابۂ کرام نے عرض کیا: ’’کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں‘‘۔ (صحیح مسلم میں روایت ہے)
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّهَا سَتَكُونُ بَعْدِي أَثَرَةٌ وَأُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، كَيْفَ تَأْمُرُ مَنْ أَدْرَكَ مِنَّا ذَلِكَ؟ قَالَ: تُؤَدُّونَ الْحَقَّ الَّذِي عَلَيْكُمْ، وَتَسْأَلُونَ اللهَ الَّذِي لَكُمْ»
’’ میرے بعد (کچھ لوگوں سے) ترجیحی سلوک ہو گا اور ایسے امور ہوں گے جنہیں تم برا سمجھو گے‘‘۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! اگر ہم ان حالات کا سامنا کریں تو اس کے بارے میں آپؐ کا کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’تم پر (حکام کا) جو حق ہے تم اس کو ادا کرنا اور جو تمہارا حق ہے وہ تم اللہ سے مانگنا‘‘۔ (صحیح مسلم) [28]
اِن احادیث کو اُن احادیث کے ساتھ ملانے سے، جو غلط کاموں کو دور کرنے اور جب ممکن ہو تو عملی اقدام اٹھانے کا حکم دیتی ہیں، اور ان سب احادیث کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ احادیث خاص طور پر اس امام کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو اسلام کے مطابق حکمرانی کرتا ہے۔ امام کے بہت سے فرائض ہوتے ہیں، جیسے کہ اختلافی معاملات میں ایک رائے اختیار کرنا، گورنر، قاضی اور دیگر عہدیداروں کا تقرر کرنا، ریاستی امور کا انتظام کرنا جن میں مختلف قانونی آراء شامل ہوسکتی ہیں، اور ایسے فیصلے کرنا جو ضروری نہیں کہ ہمیشہ ہی عوام کے سامنے ظاہر ہوں۔ امام کو قابل اعتماد مشیروں اور معتمدوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے فیصلے، چاہے وہ متقی اور مخلص ہو یا چاہے نہ ہو، ہمیشہ لوگوں کے مختلف مکتبہ فکر، فقہی آراء اور فلسفوں کے ساتھ ساتھ ان کے سیاسی مفادات اور وفاداریوں کی بنیاد پر مختلف تشریحات کے حامل ہوں گے۔
اس لیے امام خواہ کتنا ہی متقی، مخلص، دانا اور عقلمند کیوں نہ ہو، اس پر الزام لگانے والے، اسے ایک منحرف اور فاسق شخص کے طور پر دیکھنے والے، یا اس پر جانبداری کا الزام لگانے والے یا اس عہدے کے لیے نااہل سمجھنے والے ہمیشہ موجود رہیں گے۔ کچھ لوگ اسے کافر بھی سمجھ سکتے ہیں۔ اگر ہر ایک کو اپنی بیعت واپس لینے یا اپنی انفرادی رائے کی بنیاد پر خروج کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اس سے بدنظمی اور فساد پیدا ہوگا۔ لہٰذا شریعت نے ان حالات کے احکام مقرر کیے ہیں: اس عمل میں پیش آنے والی کسی بھی مشکل کو برداشت کرتے ہوئے حکمران کی نگرانی اور اس کا احتساب کرنا، یہاں تک کہ حکمران حتمی طور پر اس انداز سے خطاوار نہ ثابت ہوجائے کہ اس کی تشریح کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔
«إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ»
’’مگر جب تک کہ وہ کفرِ بواح (کھلم کھلا کفر) کاارتکا ب نہ کرے،جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل ہو“۔
اس طرح کے شبہات کو شریعت میں قطعی نہیں سمجھا جاتا ہے [29]، اور امام کو معزول کرنا، بیعت کو منسوخ کرنا ، یا مفروضوں اور رائے کی بنیاد پر امام کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہے، وہ مفروضے اور آراء جو شاید ٹھیک بھی ہو سکتے ہیں اور نہیں بھی۔
مزید یہ کہ امام معصوم نہیں ہوتاہے۔ وہ بعض اوقات یا بعض حالات میں اپنی خواہشات کی پیروی کر سکتا ہے، جس کی وجہ سے جانبداری، گناہ کا ارتکاب، یا فیصلے میں غلطی ہو سکتی ہے، جس کے نتیجے میں نقصان ہو سکتا ہے۔ تاہم، ہر گناہ، غلطی، یا ذاتی خواہش کا یہ تقاضا نہیں کہ امام کو عہدے سے ہی ہٹا دیا جائے، کیونکہ اس طرح کے تمام اعمال اسے عادل ہونے سے محروم یا قابلِ اعتبار ہونے سے ساقط نہیں کر دیتے، اور نہ ہی یہ اعمال اس امام کو عہدے کے لئے نا اہل بناتے ہیں۔ بصورتِ دیگر، خلافت کے لیے معصوم ہونا شرط ٹھہرے گا اور کوئی بھی اس شرط پر پورا نہ اتر پائے گا۔ لہٰذا حاکم کے ساتھ ناپسندیدہ معاملات میں صبر و تحمل کرنےکے ساتھ ساتھ اصلاح کی امید میں اس حاکم کو نصیحت اور سرزنش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ حاکم کو اس وقت تک معزول کرنا جائز نہیں جب تک کہ یقینی طور پر اس سے ظلم و جور یا فسق کا وصف ثابت نہ ہو جائے، اور یہ کہ اس حاکم کا عادل ہونا ساقط ہو گیا ہے۔
اس مسئلہ پر مکمل بحث کے لیے ایک حدیث کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔ معاویہ بن سلام نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، انہوں نے فرمایا:
«قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا كُنَّا بِشَرٍّ فَجَاءَ اللهُ بِخَيْرٍ، فَنَحْنُ فِيهِ، فَهَلْ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ نَعَمْ. قُلْتُ هَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الشَّرِّ خَيْرٌ؟ قَالَ نَعَمْ. قُلْتُ فَهَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ نَعَمْ. قُلْتُ كَيْفَ؟ قَالَ يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ، قَالَ قُلْتُ كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟ قَالَ تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ»
’’میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم شر میں مبتلا تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر عطا فرمائی، ہم اس خیر کی حالت میں ہیں، کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”ہاں“ میں نے عرض کی: کیا اس شر کے بعد خیر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ہاں“، میں نے پوچھا: کیا اس خیر کے بعد بھی پھر شر ہو گا؟، فرمایا : ”ہاں“، میں نے پوچھا : وہ کس طرح ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”میرے بعد ایسے امام حکمران اور رہنما ہوں گے جو زندگی گزارنے کے لئے میرے بتلائے ہوئے طریقے پر نہیں چلیں گے اور میری سنت کو نہیں اپنائیں گے اور جلد ہی ان میں ایسے لوگ کھڑے ہوں گے جن کی وضع قطع انسانی ہو گی، دل شیطانوں کے دل ہوں گے‘‘۔حضرت حذیفہ ؓ نےکہا: میں نے عرض کی : اللہ کے رسول! اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”امیر کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا، چاہے تمہاری پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں اور تمہارا مال چھین لیا جائے پھر بھی سننا اور اطاعت کرنا‘‘ [30]۔
اس حدیث کے مستند ہونے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ حدیثِ مرسل ہے۔ جبکہ بعض کہتے ہیں کہ یہ حدیثِ منقطع ہے، جیسا کہ اسے معاویہ بن سلام نے براہ راست حذیفہ سے نہیں سنا تھا۔ الدارقطنیؒ نے اس حدیث پر تنقید کی اور اسے ضعیف قرار دیا ہے، امام نوویؒ نے کہا ہے کہ یہ روایت مرسل ہے البتہ شاھد کی بناءپر اسے صحیح کہا ہے [31]۔
خالد الحايك نے اس حدیث کی تحقیق میں کہا ہے:
«هذه الزيادة في هذا الحديث منكرة، وهي مناقضةٌ للمتنِ نفسِه، فكيف يكون هؤلاء الأئمة الذين لا يهتدون بهديه ﷺ ولا يستنُّون بسنَّتِه، وقلوبُ بعضهم قلوب الشياطين، ثمَّ يأمر النبيُّ صلى الله عليه وسلم بطاعةِ واحدٍ منهم»
’’حدیث میں یہ اضافہ منکر(مسترد) ہے کیونکہ یہ حدیث کے متن سے متصادم ہے۔ ایسے حکمران جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہدایت یا ان کی سنت پر عمل نہ کرتے ہوں اور جن کے دل شیطانوں کی طرح ہوں، ان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اطاعت کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے؟‘‘ [32]۔
انہوں نے مزید کہا:
«وعمومًا فهذا الإسناد منقطع»
’’مجموعی طور پر،اس میں روایت کی کڑی کا سلسلہ منقطع ہے‘‘ [33]۔
وہ جس جملے کو مسترد قرار دیتے ہیں، وہ یہ ہے:
«وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ»
’’چاہے تمہاری پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں اور تمہارا مال چھین لیا جائے پھر بھی سننا اور اطاعت کرنا‘‘۔
یہاں یہ واضح ہوتا ہے کہ حدیث کی یہ تشریح شَر کو دور کرنے اور ظلم کا مقابلہ کرنے کے فریضہ سے متصادم ہے۔ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ان لوگوں کی اطاعت کرنے کا حکم منسوب کرتی ہے جو آپؐ کی ہدایت پر عمل نہ کرتے ہوں یا آپؐ کی سنت پر عمل نہ کرتے ہوں، اور وہ جن کے اقتدار کی بنیاد شیطانی اعمال پر ہو! حدیث کی یہ تشریح اسلامی نصوص سے بھی متصادم ہے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد:
«مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ»
’’جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے‘‘ [34]
نیز یہ کہ، یہ حدیث اس متفق علیہ حدیث کے بھی خلاف ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہے، جسے ابو ادریس الخولانی نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:
«كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنِ الخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ، مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ، فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الخَيْرِ، فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ. قُلْتُ وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَفِيهِ دَخَنٌ قُلْتُ وَمَا دَخَنُهُ؟ قَالَ: قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي، تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ. قُلْتُ: فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا. قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا، قَالَ: هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا، وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ المُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ قُلْتُ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلاَ إِمَامٌ؟ قَالَ فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الفِرَقَ كُلَّهَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ، حَتَّى يُدْرِكَكَ المَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ»
”عام طور پر لوگ رسول اللہﷺ سے خیر کے بارے میں سوالات پوچھا کرتے تھے جبکہ میں آپ سے شر کے بارے پوچھا کرتاتھا کہ مبادا اس میں گرفتار ہو جاؤں۔ چنانچہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! ہم جاہلیت اور شر میں گھرے ہوئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر عطافرمادی،تو کیا اس خیر کے بعد بھی شرہوگا؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ہاں! میں نے کہا: اس شر کے بعد خیر آئے گی؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! اور اس میں دخن (دھواں) ہوگا۔میں نے عرض کیا: اس کا دخن (دھواں)کیا ہوگا؟ فرمایا: ایسی قوم ہوگی جو میری ہدایت کے بغیر ہدایت کرے گی۔ان میں سے کچھ چیزیں تمہیں اچھی لگیں گی اور کچھ بری۔ میں نے کہا: ”کیا اس خیر کے بعد بھی شرہوگا؟ فرمایا: ہاں! جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہوئے داعی (مبلغ)ہوں گے۔ جس نے اس جہنم کی طرف بلانے والے کی پکار کو قبول کیا تووہ اُسے اس میں پھینک دیں گے‘‘۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپﷺ ہمیں ان کے اوصاف بتادیں۔آپﷺ نے فرمایا: ”وہ ہماری چمڑی (مرادہم میں)سے ہوں گے اورہماری زبانیں بولیں گے“۔ میں نے کہا: ”اگر مجھ پریہ زمانہ آئے تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ”مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام (خلیفہ)کے ساتھ چمٹے رہو“۔ میں نے عرض کیا: ”اگر ان کی جماعت اور امام (خلیفہ)نہ ہو؟ آپﷺ نے فرمایا: ”ان تمام فرقوں سے جدارہنا اگرچہ تجھے درخت کی جڑیں ہی چبانی پڑیں۔یہاں تک کہ اسی حالت میں تجھے موت آجائے‘‘[35]۔
معاویہ بن سلام کی حدیث اور شریعت کے قائم کردہ اصولوں کے درمیان تضاد اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اگر ممکن ہو تو اس حدیث کی تشریح ایسے ہو جو شریعت کے مطابق ہو ورنہ اسے رَد کر دیا جائے۔
امام احمدؒ نے بھی اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے:
«ثُمَّ تَكُونُ دُعَاةُ الضَّلَالَةِ، فَإِنْ رَأَيْتَ يَوْمَئِذٍ خَلِيفَةَ اللهِ فِي الْأَرْضِ فَالْزَمْهُ، وَإِنْ نهكَ جِسْمكَ وَأخذَ مَالكَ، فَإِنْ لَمْ تَرَهُ فَاهْرَبْ فِي الْأَرْضِ، وَلَوْ أَنْ تَمُوتَ وَأَنْتَ عَاضٌّ بِجِذْلِ شَجَرَةٍ»
’’پھر گمراہی کی طرف بلانے والے داعی ہوں گے۔ اگر تم ایسے زمانےمیں دیکھو کہ زمین پر اللہ کا ایک خلیفہ موجود ہو تو اس کے ساتھ چمٹے رہو، خواہ وہ تمہیں اتنا تھکا دے کہ چُور ہو جاؤ اور تمہارا مال لے لے۔ اور اگر تم اسے(خلیفہ کو ) نہ دیکھو تو زمین میں بھاگ نکلو، خواہتمہیں درخت کی جڑیں ہی چبانی پڑیں۔یہاں تک کہ اسی حالت میں تمہیں موت آجائے‘‘ [37]۔
اس حدیث کو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ کرنے والی تشریح یہ ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ امامِ حق کی اطاعت کریں، اس سے بیعت کا عہد پورا کریں اور اس کی حمایت کریں، خواہ اس کے لیے انہیں جسمانی طور پر تکلیف اور مالی نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ مسلمانوں کو ان حکمرانوں سے بیعت اور ان کی حمایت نہیں کرنی چاہیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل نہ کرتے ہوں، خواہ وہ انہیں اذیتیں دیں یا ان کا مال چھین لیا جائے۔ اس کی بجائے، انہیں ان حکمرانوں کے ظلم سے بھاگ جانا چاہئے، بھلے ہی یہ موت تک تنہائی کا باعث بنے۔ لہٰذا شریعت سے مطابقت رکھنے والے متن کا مطلب اس معانی کے برعکس ہے جس کا وہ ظالم حکمران اور ان کے پروپیگنڈہ کرنے والے دعویٰ کرتے ہیں۔ اگر حکمران ظلم کرتا ہویا اسلام کے علاوہ کسی اور قانون کے ذریعے حکومت کرتا ہو، چاہے اسلام سے یہ انحراف کسی ایک حکم میں ہی ہو، اور مشورہ اور تنبیہ کے بعد بھی اس انحراف سے پیچھے نہ ہٹے، یا اگر اس میں (اسلام یا عدل جیسی) امام ہونے کی شرائط مفقود ہو جائیں، تو اسے معزول کر دینا لازم ہے۔ اگر وہ انکار کردے تو اس سے خروج کرنا واجب ہو جاتا ہے، اگر اس کی استطاعت موجود ہو۔
درج ذیل میں ایسا کرنے کی وجوہات، قانونی شرائط اور توثیقات بیان کی گئی ہیں۔
حصہ دوم :
خلیفہ کو معزول کرنے کی شرعی وجوہات اور شرائط
خلیفہ کو معزول کرنا قاضی (محکمۃ المظالم) کا اختیار ہے نہ کہ عام عوام کا۔ اور اس اقدام پر عمل کرنے کی مخصوص وجوہات اور شرائط ہیں۔ ان وجوہات میں ایسی کوئی بھی صورتحال شامل ہے کہ جس کے باعث خلیفہ ان بنیادی شرائط میں سے کوئی ایک بھی کھو دےجو کہ خلیفہ کا امیدوار بننے کے لئے ضروری ہوتی ہیں، اسی طرح اسلام کا احسن انداز سے نفاذ نہ ہو نا جبکہ یہ امامت کابنیادی مقصد ہے، یعنی کہ شریعت کی بالادستی اور حکمران کے تقرر کے اختیار کا امت کے پاس ہونا۔ جہاں تک شرائط کا تعلق ہے تو یہ امام کی حکمرانی کی ابتدا اور دوام دونوں کے لیے ہیں، پس خلیفہ کے لئے لازم ہے کہ وہ مسلمان ہو، مرد ہو، بالغ ہو، آزاد ہو (غلام نہ ہو)، عاقل ہو، عادل ہو اور خلافت کے فرائض انجام دینے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اگر خلیفہ مرتد ہو جائے یا اس کی عقل اس حد تک نحیف ہو جائے کہ اس سے اس کے فیصلے اور احکام متاثر ہونے لگیں، یا اس کا عادل ہونا باقی نہ رہے، یا وہ خلافت کے فرائض ادا کرنے کا اہل نہ رہے، خواہ یہ بڑھاپے کے باعث ہو، یادداشت میں کمزوری کے باعث ہو، جسمانی اعضا ء میں سے کسی عضومیں نقصان کی وجہ سے ہو یا کسی موذی مرض کے باعث،جو فرائض کی ادائیگی سے اسے روکے اور شفایاب ہونے کی امید بھی نہ ہو، تو ایسی حالت میں اس کی سبکدوشی فرض ہو جاتی ہے۔
بہرصورت اسلام کا صحیح نفاذ ہی ہر معاملے کی بنیاد ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر خلیفہ کو اطاعت کی بیعت دی گئی تھی۔یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے خالقِ کائنات، اللہ عز وجل، نے نوع انسان کو پیدا کیا، انبیاء علیہم السلام کو بھیجا اور خلافت قائم کی۔ اگر خلیفہ اسلام کے علاوہ کسی اور قانون کو نافذ کرنے کا انتخاب کرتا ہے، چاہے وہ ایک ہی حکم ہو، تو اسے ہٹانا واجب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح، اگر وہ ظلم کرے، کسی کو بے جا ترجیح دے، یا اپنی خواہشات کی پیروی اس طرح سے کرنے لگے کہ اس سے صفتِ عدالت مفقود ہو جائے، تو اس سے یا تو اپنے معاملات درست کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا، یا پھر اسے معزول کر دیا جائے گا۔ اور اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے۔ ذیل میں علماء کے اقوال دئیے گئے ہیں جو ان اسباب کو ثابت کرتے ہیں :
علماء کا اجماع ہے کہ جابر حکمرانوں کو معزول کیا جانا چاہیے، بشرطیکہ یہ فتنے (فساد) کے بغیر ممکن ہو۔ ابن حجر العسقلانیؒ فرماتے ہیں، (نقلَ ابنُ التين عن الداودي قال: الذي عليه العلماءُ في أمراءِ الجوْرِ أنه إن قُدِرَ على خلعه بغير فتنةٍ ولا ظلمٍ وَجبَ، وإلا فالواجبُ الصبر) ’’ابن التین نے داؤدی سے نقل کیا، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’علماء کا کہنا جابر حکمرانوں کے بارے میں یہ ہے کہ اگر انہیں فتنے یا ظلم کے بغیر معزول کیا جا سکتا ہو، تو ایسا کرنا واجب ہے؛ ورنہ صبر کرنا واجب ہے‘‘[1]۔
درج بالا بحث میں جبر اور ظلم کے حوالے سے ابن حزمؒ کی رائے شامل کی گئی۔ اسلام کے نفاذ کی ضرورت اور اسلام کے کسی بھی حکم سے انحراف کو روکنے اور اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی قسم کے ظلم کو روکنے، نیز یہ فرض کہ امام شریعت کے قوانین کے تابع رہے گا، ان امور کے حوالے سے ابن حزمؒ نے فرمایا: (هو الإمامُ الواجبُ طاعتُه ما قادنا بكتاب الله تعالى وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم، فإنْ زاغ عن شيءٍ منها مُنعَ من ذلك، وأقيمَ عليه الحدُّ. والحقُّ: فإنْ لم يؤمَنْ أذاه إلا بخَلْعٍ خُلِعْ، ووُلِّيَ غيره)’’وہ امام، جس کی اطاعت کرنا واجب ہے، وہ ایسا امام ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق ہماری قیادت کرے۔ اگر وہ ان میں سے کسی بات سے انحراف کرے تو اس کو روکا جائے گا، اور اس پر حد لگائی جائے گی۔ اور حق بات یہ ہے کہ اگر اس کا شر اس کو سبکدوش کئے بغیر نہ روکا جا سکے تو اسے معزول کر دیا جائے گا، اور اس کی جگہ دوسرے شخص کو امام مقرر کیا جائے گا‘‘[2]۔
ابن حزمؒ نے یہ بھی فرمایا: (والواجبُ إنْ وقعَ شيءٌ من الجَوْر، وإنْ قلّ، أنْ يُكَلّمَ الإمامُ في ذلك، ويُمنعَ منه، فإن امتنع وراجع الحق، وأذعن للقودِ من البشرة، أو من الأعضاء، ولإقامة حدِّ الزنا والقذف والخمر عليه، فلا سبيل إلى خلعه، وهو إمامٌ كما كان لا يحلُّ خلعُه. فإن امتنع من إنفاذِ شيءٍ من هذه الواجبات عليه ولم يُراجِع، وجب خلعُه وإقامةُ غيره ممن يقوم بالحقِّ) ’’یہ واجب ہے کہ اگر کوئی بھی ظلم واقع ہو، خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، تو امام سے اس بارے میں بات کی جائے، اور اس ظلم سے روکا جائے۔ اگر وہ اس پر رُک جائے اور حق کی طرف رجوع کر لے، اور سزا کو قبول کر لے، چاہے اس میں جسمانی اعضاء کے حوالے سے سزا شامل ہو یا زنا، قذف، اور شراب نوشی کی حدود کی تکمیل کرنا ہو، تو ایسی صورت میں اس امام کو معزول کرنا جائز نہیں ہے، اور وہ امام کے طور پر اپنے منصب پر ویسے ہی قائم رہے گا جیسے پہلے تھا، اس کو معزول کرنا جائز نہیں ہے۔ تاہم، اگر وہ امام ان واجبات کو اپنے اوپر نافذ کرنے سے انکار کرے اور توبہ نہ کرے، تو اسے معزول کرنا واجب ہے، اور اس کی جگہ کسی اور کو مقرر کرنا لازم ہے جو حق کو قائم کرے‘‘[3]۔
امام ماوردیؒ نے امامت کی تنسیخ کے حوالے سے بیان کیا ہے، اگر امام اپنی اہلیت سے محروم ہو جائے، جیسے کہ اگر اس کا عدل وانصاف متاثر ہو جائے اور وہ ایک فاسق بن جائے، (ارتكابُه للمحظوراتِ وإقدامُه على المنكراتِ تحكيمًا للشهوةِ وانقيادًا للهوى، فهذا فسقٌ يمنعُ من انعقادِ الإمامةِ ومن استدامتها. فإذا طرأ على من انعقدت إمامتُه خرج منها)’’اگر وہ محرمات کا ارتکاب کرے اور نفسانی خواہشات کی پیروی میں لگ کرمنکرات و شہوات میں ملوث ہو جائے، تو یہ فسق ہے جو امامت کے قیام اور اس امام کے (عہدہ پر) جاری رہنے کو ناجائز بنا دیتا ہے۔ اگر ایسا فسق، اس امام کے امامت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پیش آئے، تو اس امام کو معزول کر دیا جائے گا‘‘[4]۔
امام جوينیؒ نے مزید وضاحت کی کہ بعض وجوہات ایسی ہیں جو فوراً اور براہ راست خلیفہ کو اس کے عہدے سے معزول کر دیتی ہیں، جیسے کہ مرتد یا مجنوں ہو جانا۔ دیگر وجوہات، جیسے کہ فسق، کے لیے معزولی کا عمل شروع کرنے سے پہلے اہلِ حل و عقد کا فیصلہ درکار ہوتا ہے۔ امام جوینیؒ نے وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا کہ گناہ کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے، کچھ وقتی خطائیں ہوتی ہیں، جبکہ کچھ زیادہ سنگین ہوتی ہیں اور انہیں چھوڑا نہیں جا سکتا سوائے اس کے کہ وہ مشتبہ ہوں۔ وہ فرماتے ہیں، (الجِبـِلَّةُ بالسوء أمّارةٌ، والمرءُ على أرجوحةِ الهوى… فطوبى لمن سلِم، ولا مناصَ ولا خلاصَ إلا لمن عُصِم، والزلاتُ تجري مع الأنفاسِ… فمن الذي ينجو في بياضِ نهارٍ من زلّتِه، ولا يتخلّصُ من حقِّ المخافة إلا يتغمده الله برحمته)’’انسان کی جبلت برائی کی طرف مائل ہوتی ہے، اور انسان اکثر اپنی خواہشات کے زیر اثر ہوجاتا ہے... خوش قسمت ہیں وہ جو محفوظ ہیں، اور بچاؤ یا نجات صرف انہی کے لیے ہے جنہیں اللہ نے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ گناہ اتنے تواتر سے ہو جاتے ہیں جیسے انسان تواتر سے سانس لیتا ہے... ہم میں سے کون ایسا ہے جو دن کے اجالے میں یہ دعویٰ کر سکے کہ وہ لغزشوں سے مبّرا ہے؟ اور کون ایسا ہے جو خوف سے محفوظ ہو، سوائے ان کے جنہیں اللہ اپنی رحمت سے ڈھانپ لے؟‘‘[5]۔
یہ خطائیں ایسے مرض کی مانند ہیں جو حکمران کو اس کے عہدے کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے روک سکتی ہیں، لیکن وہ ان سے شفایاب ہو کر دوبارہ اپنے فرائض سرانجام دے سکتا ہے۔ اگر کوئی فسق ایسا ہو جو امام کے معزول ہونے کا تقاضا نہ کرتا ہو، اور اگر ایسا بھی ہو جو معزولی کا تقاضا کرے، تو حکم یہ ہے کہ امام کو معزول صرف اس صورت میں کیا جائے گا جب معزولی کا فیصلہ صادر ہو جائے۔ امام جوینیؒ نے فرمایا:(الطوارئُ التي توجبُ الخلعَ والانخلاعَ… الإسلامُ… فلو فُرِضَ انسلالُ الإمامِ عن الدينِ لم يَخْفَ انخلاعُه… ولو جُنَّ جنونًا مطبقًا انخلع، وكذلك لو ظهر خبلٌ في عقلِه، وعَتَهٌ في رأيِه … وعَسُرَ بهذا السببِ استقلالُه بالأمورِ… فإنه ينعزل كما ينعزل المجنون)’’وہ صورتیں جو معزولی کے لئے ضروری وجہ ہیں... اسلام... اگر امام دین سے منحرف ہو جائے تو اس کا معزول کر دینا صاف ظاہر ہے ... اور اگر وہ مکمل طور پر مجنون ہو جائے تو اسے معزول کیا جائے گا، اسی طرح اگر اس کی عقل متاثر ہو جائے اور وہ فیصلوں میں غلط ہو، جس کی وجہ سے وہ امور کو سنبھالنے میں قاصر ہو جائے، تو اسے ویسے ہی معزول کیا جائے گا جیسے کسی پاگل کو معزول کر دیا جاتا ہے‘‘[6]۔
جوینیؒ مزید فرماتے ہیں :(ذهب طوائفُ من الأصوليين والفقهاءِ إلى أنِّ الفسقَ إذا تحقق طرءانُه وجبَ انخلاعُ الإمامِ كالجنون، وهؤلاء يعتبرونَ الدوامَ بالابتداءِ )’’کچھ اُصولی اور فقہی علماء کا کہنا ہے کہ اگر فسق (برائی) کا ارتکاب ثابت ہو جائے، تو امام کو معزول کرنا ضروری ہو جاتا ہے، جیسے کہ اگر وہ پاگل ہو جائے، کیونکہ یہ علماء امامت کے جاری رہنے کی حیثیت کو انہی شرائط پر معتبر سمجھتے ہیں جو کہ ابتدا میں درکار ہوتی ہیں‘‘[7]۔
جوینیؒ نے مزید کہا:(وذهبَ طوائفُ من العلماءِ إلى أن الفسقَ بنفسِه لا يتضمّنُ الانخلاعَ، ولكن يجبُ على أهلِ الحلِّ والعقدِ إذا تحققَ خلعُه)’’علماء کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ فسق خود بخود معزولی کا سبب نہیں بنتا، لیکن اگر فسق ثابت ہو جائے تو اہلِ حل و عقد پر واجب ہے کہ وہ امام کو معزول کریں‘‘[8]۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں، (إنَّ السلطان الظالم عليه أن يكُفَّ عن ولايته، وهو إما معزولٌ أو واجبُ العزلِ)’’کسی ظالم سلطان کو لازماً اس کے عہدے سے برطرف کر دینا چاہئے۔ وہ یا تو از خود معزول ہے یا اسے عہدے سے ہٹا دینا واجب ہے‘‘[9]۔
جہاں تک معزولی کی وجوہات کا تعلق ہے، یہ ان عوامل سے متعلق ہیں جو خلیفہ کو اس عہدے کے لیے درکار صلاحیتوں سے محروم کر دیں۔ امام کو معزول کرنے کی شرط یہ ہے کہ اس وجہ کو ناقابلِ تردید شواہد سے ثابت کیا جائے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی بنیاد پر مبنی ہے:
«إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ»
”مگر جب تک کہ تم کفرِ بواح (کھلم کھلا کفر) نہ دیکھ لو،جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل ہو“۔
ابن حجرؒ نے اس حدیث کی تشریح میں فرمایا:(عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ: أي نصُّ آيةٍ أو خبرٌ صحيحٌ لا يحتمل التأويل. ومقتضاه أنه لا يجوز الخروج عليهم ما دام فعلُهم يحتمل التأويل)”تمہارے پاس اللہ کی طرف سے کوئی بالکل واضح دلیل ہو، یعنی کوئی آیت یا صحیح حدیث جو تاویل کی گنجائش نہ رکھتی ہو۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب تک ان کے افعال میں تاویل کی گنجائش ہو، ان کے خلاف بغاوت کرنا جائز نہیں ہے‘‘۔
اس طرح، امام پر یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ فقہی تشریحات میں غلطی یا گناہ کی اجازت دیتا ہے یا جواز پیش کرتا ہے، اور نہ ہی فقہی اختلافِ رائے کی وجہ سے اسے اپنے دین میں سمجھوتہ کرنے کا الزام دیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ریاست ذرائع ابلاغ میں موسیقی کی اجازت دیتی ہے، اور اس کے لیے ادارے قائم کرتی ہے، یا تمباکو کی کاشت، پیداوار اور فروخت کو قانونی حیثیت دیتی ہے، یا اگر قانون خواتین کو عوام الناس میں اپنا چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھنے کی اجازت دیتا ہے، یا اگر امام الہامی اور فلسفیانہ مسائل میں کسی خاص مکتبہ فکر کو اختیار کرتا ہے، تو ان معاملات پر امام سے اختلاف کرنے والوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ امام کو فاسق و گناہ گار قرار دے دیں، یا یہ دعویٰ کریں کہ امام فسق کی اجازت دیتا ہے یا درست عقیدے سے انحراف کرتا ہے۔ حدیث بیان کرتی ہے کہ وہ بالکل واضح معصیت پر کھڑا ہو، یعنی جس کے معصیت ہونے پر دلیل قطعی ہو، جبکہ مندرجہ بالا یہ سب ظنی معاملات ہیں۔
البتہ یہ صورتحال اس سے مختلف ہے جہاں، مثلاً، معاشرے میں سودی بینک کھلے عام موجود ہوں، یا جوئے کے اڈے یا ان جیسے دیگر اڈے کھلے ہوں، یا خواتین بغیر پردے کے عوام میں نظر آئیں اور ان کو اس پر روک ٹوک نہ کی جائے، یا جمہوریت یا آزادیِٔ عقیدہ اور ارتداد کی دعوت دی جا رہی ہو۔ یہ سب برائیاں قطعی شرعی دلائل، یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے برہان پر مبنی ہیں۔ ان برائیوں کا علی الاعلان موجود ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ امام ان کی اجازت دیتا ہے۔
خلیفہ کو سبکدوش کرنے کی شرائط
خلیفہ کو معزول کرنے کے حکم یا اس کے واجب ہونے کی شرط یہ نہیں ہے کہ معزولی کو عمل میں لانے کی صلاحیت موجود ہو، یا فتنے سے محفوظ رہ کر یا خون خرابہ اور فساد سے بچ کر ایسا کیا جائے۔ کیونکہ یہ سب معزولی کے عمل کو عملی جامہ پہنانے کی شرائط ہیں، یعنی اگر خلیفہ اقتدار چھوڑنے سے انکار کرے تو طاقت کے استعمال سے حکمران کو معزول کر دینا۔ جبکہ جو اسباب اور شرائط ذکر کی گئی ہیں، وہ امام کو معزول کرنے کے حکم اور اس کی معزولی کے واجب ہونے کے متعلق ہیں۔ اس معاملے میں کامیابی کی یقین دہانی اور فتنے سے بچنے کا تعلق ان شرائط سے ہے جو خلیفہ کے خلاف خروج کے لیے طاقت کے استعمال کے حوالے سے ہیں۔
خلیفہ کو کیسے ہٹایا جائے
خلیفہ کی معزولی عدالتی فیصلے کے ذریعے کی جاتی ہے۔ وہ عدالت جو خلیفہ کے خلاف اس کی خلاف ورزیوں، اس کے خلاف شکایات، یا اس کے عہدے پر قائم رہنے کے جائز ہونے کے بارے میں فیصلہ کرتی ہے، وہ ’’محکمۃ المظالم‘‘ ہے، جو خاص طور پر عوام اور حکمرانوں کے درمیان معاملات کو دیکھتا ہے۔ اور یہ اس لحاظ سے بھی خاص ہے، کیونکہ یہ خلیفہ کی معزولی کے معاملے کو دیکھتا ہے، جو تمام مسائل کا اصل نکتہ ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد شریعت کی بالادستی اور امت کی اتھارٹی کو محفوظ رکھنا ہے۔ یہ معاملہ ایک خصوصی، بلند مرتبہ، اور باعزت عدالت کے ذریعے حل کیا جاتا ہے۔ یہ عدالتی اجلاس خلیفہ کو اور جتنے بھی افراد کو چاہے، طلب کرتا ہے تاکہ معاملہ کی تحقیق کی جا سکے، اور خلیفہ کو اپنے دلائل پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ یہ تمام عمل شفافیت کے ساتھ ہونا چاہیے، اور امت اور اس کے نمائندوں کے سامنے سرانجام دیا جانا چاہئے۔ اگر عدالت کی کاروائی میں خلیفہ کی معزولی کا فیصلہ صادر کیا جاتا ہے، تو یہ فیصلہ لازمی ہے، اور خلیفہ کو اپنے عہدے سے دستبردار ہونا پڑے گا تاکہ نیا خلیفہ منتخب کیا جا سکے۔
اگر خلیفہ فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے اور اپنے عہدے پر قائم رہتا ہے، تو اس کے ذریعے وہ غاصب بن کر اپنے جائز ہونے کے حوالے سے دلیل کے فقدان میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ اس صورت میں امت کو اس سے اپنی اتھارٹی واپس لے لینی چاہیے، چاہے اس کے لئے اس کے خلاف مسلح ہو کر خروج بغاوت ہی کیوں نہ کرنی پڑے تاکہ اسے زبردستی معزول کیا جا سکے۔ تاہم، اس بغاوت کے اپنے خطرات اور شرائط ہیں۔
حکمران کے خلاف مسلح خروج کی شرائط
حاکم کے خلاف بغاوت کرنے کا حکم، یعنی اسے زبردستی معزول کرنے کا حکم، عدالتی معزولی کے حکم سے مختلف ہے۔ خروج بغاوت کی حقیقت یہ ہے کہ یہ حکمران کے خلاف ایک انقلاب ہوتا ہے تاکہ اسے اقتدار سے ہٹایا جا سکے۔ خروج لازمی طور پر امت میں داخلی تصادم کو جنم دیتا ہے۔ خروج کی ایک تیزترین فوجی انقلاب کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے، یا یہ دھرنوں اور مظاہروں کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے جس سے حکمران کو نسبتاً کم نقصان پر تابع کیا جا سکتا ہے۔ یہ بغاوت مسلمانوں کے درمیان طویل اور خونریز تصادم میں بھی بدل سکتی ہے، جس کے نتیجے میں نقصانات بڑھ سکتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ میں اس نوعیت کی کئی بغاوتیں شامل ہیں، جن میں وہ بغاوت بھی شامل ہے جس کے نتیجے میں تیسرے خلیفۂ راشد، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا قتل ہوا تھا۔ چوتھے خلیفۂ راشد، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی بغاوتیں ہوئیں۔ سب سے اہم انقلابوں میں سے ایک حسین بن علی رضی اللہ عنہ کا یزید بن معاویہ کے خلاف نکلنا تھا، تاکہ اقتدار کو غصب کرنے سے روکا جا سکے اور امت کے حق کو واپس حاصل کیا جا سکے۔ حکمرانوں، ان کے ترجمانوں، اور بعض علماء کی طرف سے حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کے انقلاب اور دیگر بغاوتوں کے حوالہ کو اکثر استعمال کیا گیا ہے تاکہ وہ بغاوت کی برائیوں یا حتیٰ کہ کسی بھی مخالفت کے خلاف انتباہ دے سکیں، جنہیں وہ ہمیشہ انصاف نہ کرنے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ شریعت کے علاوہ کسی اور سے حکمرانی کرنے کے نقصانات سے زیادہ شدید سمجھتے ہیں۔ وہ اکثر فتنے، خون خرابہ، فساد، اور نقصان کے خوف کو ہوا دیتے ہیں! اس میں کوئی شک نہیں کہ خروج کے اپنے خطرات ہیں، اور فطری طور پر خون خرابہ اور فساد اس کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں۔ تاہم، یہ سب خروج سے رکنے کا سبب نہیں ہے۔ بلکہ، یہ خروج کے لیے تیاری کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس لیے خروج کرنے سے پہلے چند شرائط کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے، جو کہ یہ ہیں:
1۔ خروج کے لیے صلاحیت کا موجود ہونا :اس کا مطلب یہ ہے کہ امت میں ایسی قوتیں لازماً موجود ہونی چاہئیں جو ایک طاقتور بنیاد تشکیل دیتے ہوئے باہمی تعاون کریں اور ایک دوسرے کی حمایت کریں تا کہ مطلوبہ مقصد کو حاصل کرنے کے قابل ہوں، کیونکہ یہ معاملہ صلاحیت پر منحصر ہے۔
2۔ غیر اسلامی یا غیر ملکی قوتوں پر انحصار نہ ہو:یہ اس لیے ضروری ہے کہ ایسا کرنے سے کفار کو مسلمانوں پر اختیار حاصل ہو جائے گا، جو کہ ناجائز ہے۔
3۔ خروج کا نتیجہ بڑے فتنے کی شکل میں نہ نکلے:اس کا مطلب یہ ہے کہ بغاوت کی صورت میں اگر غاصب حکمران مزید جابرانہ ہو جائے، یا ریاست اس حد تک تباہ یا کمزور ہو جائے کہ کوئی ریاست یا اس کے اہم اجزاء اپنی سلامتی اور ممکنہ حملہ آوروں کے خلاف قوت و اختیار کو برقرار رکھنے کے قابل نہ رہیں، تو یہ خروج کے نتیجے میں پیدا ہونے والا فتنہ سمجھا جائے گا۔
خروج کا عمل اور اس کی حالتیں
خروج امت کی زندگی میں ایک واقعاتی اور تاریخی عمل ہے۔ فوجی بغاوتیں اور انقلاب بعض حالات اور مسائل کے لیے فطری علاج ہوتے ہیں۔ کوئی بھی گروہ یا قوم ان سے مبرا نہیں ہوتی۔ یہ بغاوتیں ایک عوامی یا اجتماعی صورتحال ہوتی ہے جو رائے عامہ کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ ایک مسلسل آگاہی پیدا کی جائے کہ حکمران کے خلاف خروج کا مقصد شریعت کی بالادستی کی پامالی اور امت کے اقتدار کے غصب کو روکنا ہے۔ اس لیے حکمران کو معزول کرنے کے لیے درج بالا مذکورہ عدالتی فیصلے کا حکم عوامی رائے کو تشکیل دینے میں سب سے اہم عوامل میں سے ایک ہونا چاہیے۔ اسی طرح وہ ذرائع جن کے ذریعے امت اپنے اختیار کو محفوظ رکھتی ہے، عوامی رائے کو تشکیل دینے اور امت کی سرگرمیوں کو متحرک کرنے میں سب سے اہم عوامل میں سے ہیں تاکہ وہ اپنے کردار کا مقام حاصل کر سکیں۔ اس عمل کا سب سے اہم پہلو لوگوں کا اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ ہونا ہے۔ اور یہ امت کا اپنے اختیار کو واپس حاصل کرنے کے راستے کی جانب پہلا قدم ہے۔ لہٰذا حکمران کے خلاف بغاوت کا تصور معاشروں کے اندر موجود رجحانات، لوگوں کی اقتدار کے حق اور اسے برقرار رکھنے کی ذمہ داری کے بارے میں آگاہی، اور شریعت کے قانونی حکم کے عوامی رائے اور رویوں پر اثر انداز ہونے پر منحصر ہے۔
یہ نکتۂ نظر مسلمانوں کے حالات کے لیے دو منظرنامے پیش کرتا ہے۔ پہلا منظرنامہ وہ ہے کہ جہاں مسلمانوں کو اسلام کا علم نہ ہونا اور غیر اسلامی نظاموں کا ان پر لاگو کیے جانا ہے۔ دوسرا منظرنامہ وہ ہے جب ایک اسلامی معاشرہ ایک اسلامی ریاست کے زیر انتظام ہو، جہاں اسلامی ادارے اسلام کے نفاذ میں مشغول ہوں اور جہاں اسلامی تصورات اور اقدار غالب ہوں۔
پہلی صورتحال میں بغاوت کو ممکن یا جائز نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ بغاوت کے لئے درکار ضروری شرائط ہی موجود نہیں ہیں۔ لہٰذا اس بغاوت کا ناکام ہونا لازمی امر ہے۔ اس صورتحال میں درکار عمل یہ ہے کہ اس حکومت کو جو کفر پر قائم ہے، اسے اسلام کی بنیاد پر قائم حکومت میں تبدیل کیا جائے، یعنی اس زمین کو دارالکفر سے دارالاسلام میں بدل دیا جائے۔ اور یہ عمل رسول اللہ ﷺ کے مکہ مکرمہ میں مشن کے عین مطابق ہے، اور اس میں آپ ﷺ کی سنت اور دعوت کے طریقہ سے رہنمائی ملتی ہے۔ اور آپ ﷺ کے اس طریقے یا عمل میں، آپ ﷺ کی بعثت کے آغاز سے لے کر جب تک کہ انہوں نے اقتدار حاصل نہ کر لیا، حکومت قائم نہ کر لی اور مدینہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد نہ رکھ لی، تب تک اس مشن میں کوئی بھی مسلح بغاوت کرنے جیسی کوئی بات نہیں تھی۔
دوسری صورتحال وہ ہے جب حکمران کے خلاف خروج کو ممکن سمجھا جا سکتا ہے، اگر ظلم راسخ ہو گیا ہو، یا حکمران کے اقتدار میں انحراف اور غصب کی نشانیاں ظاہر ہو جائیں۔ یہ صورتحال کفر سے اسلام کی طرف حکومتی تبدیلی والا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ، یہ اس بات کو روکنے کا معاملہ ہے کہ اسلامی حکومت، کفر کی حکومت میں نہ تبدیل ہو جائے، یا زمین کو دار الاسلام سے دار الکفر میں نہ بدل دیا جائے، یا ایسی حکومت نہ قائم ہو جائے جو شریعت کی بالادستی یا امت کے اختیار پر حملہ کرے۔ اس منظرنامے کی صورتحال میں معاملہ خروج کی شرائط کے پورا ہونے پر منحصر ہے۔
آخرمیں، میں اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا گو ہوں کہ ہمیں گنہگار اور فاجر حکمرانوں سے جلدی نجات دے، اور خلافت کے قیام کے ذریعے ایک فیصلہ کن فتح عطا فرمائے، جو ایک خلیفہ کی قیادت میں شریعت کی بالادستی اور امت کے اختیار کو قائم رکھے، اور جو اس خلافت کی امانت کو ادا کرے اور اسلامی دعوت کو دنیا تک لے کر جائے۔
حوالہ جات : حصہ اول
1۔ حوالہ : ابن قتیبہ، الإمامة والسياسة ، صفحہ 263-300، اور السیوطی، تاریخ الخلفاء، صفحہ 150-160
2۔ یہ اس جبری حکومت کا آغاز ہے جس کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کی تھی۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: «تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ ثُمَّ سَكَتَ» ’’جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا تمہارے درمیان نبوت موجود رہے گی پھر اللہ اسے اٹھانا چاہے گا تو اٹھالے گا پھر نبوت کے طریقہ پر خلافت ہوگی اور وہ بھی اس وقت رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا پھر اللہ اسے اٹھانا چاہے گا تو اٹھالے گا پھر کاٹ کھانے والی حکومت ہوگی اور وہ بھی اس وقت رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا پھر اللہ اسے اٹھانا چاہے گا تو اٹھالے گا اس کے بعد ظلم وجبر کی حکومت ہوگی اور وہ بھی اس وقت رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا پھر اللہ اسے اٹھانا چاہے گا تو اٹھالے گا پھر نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہو گی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے‘‘۔ (مسند احمد، حدیث النعمان ابن بشیر، حدیث نمبر 18406، جلد 30، صفحہ 355)
3۔ الماوردی، الاحکام السلطانیہ، صفحہ 40-45۔
4۔ مثال کے طور پر دیکھیں: محمود بن احمد جمعہ، الإلماع في أنَّ المنعَ من الخروجِ على الحاكمِ الجائر فيه إجماع ، طرابلس، امام بخاری مرکز، 1436ھ/2015ء۔ موضوعات یہ ہیں: ’’حکمران کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہے چاہے وہ گناہ گار ہو یا ظالم ہو جب تک کہ وہ مسلمان ہو‘‘ اور ’’حکمرانوں کے ساتھ صبر کرنا واجب ہے چاہے وہ بدعت کرنے والے ہی کیوں نہ ہوں‘‘۔
5۔ متفق علیہ، بخاری، (256ھ/870ء)، الجامع الصحيح جسے صحیح البخاری کہا جاتا ہے، تدوین محمد زھیر بن ناصر الناصر، بیروت، دار طوق النجاۃ، 1422ھ، الجامع الصحيح، كتاب الفتن(92)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال پر باب، ’’تم میرے بعد ایسے معاملات کو دیکھو گے جن کو تم پسند نہ کرو گے‘‘۔ حدیث نمبر 7056، 9، 47۔ اور مسلم، (261 ھ/875ء)، صحیح مسلم کے نام سے مشہور مستند مسند، جس کی تدوین محمد فواد عبدالباقی نےکی ہے، بیروت، دار إحياء التراث العربي ، 1412ھ/1991، مسند الصحیح، كتابالإمارة(33)، باب: حکمرانوں کی اطاعت کا فرض اس عمل میں جس میں گناہ نہیں ہو (8)، حدیث نمبر 1709، جلد 3، صفحہ 470۔ یہ الفاظ بخاری سے ہیں۔
6- المسند الصحیح، كتاب الإمارة (33)، امت میں خیر اور شر (17)، حدیث نمبر 1855، جلد 3، صفحہ 1481۔
7- مسلم، المسند الصحیح، كتابالإمارة (33)، باب: شریعت کے خلاف ہونے والی باتوں میں حکمرانوں کو ناپسند کرنا اور جب تک وہ نماز پڑھتے ہیں ان سے لڑنے سے اجتناب کرنا (16)، حدیث نمبر 1854، جلد- 3، صفحہ- 1480۔
8- متفق علیہ، بخاری، الجامع الصحیح، كتاب المناقب (61)، باب: اسلام میں نبوت کی نشانیاں (25)، حدیث نمبر 3603، جلد 4، صفحہ 199۔ اور مسلم، المسند الصحیح، كتاب الإمارة (33)، باب: پہلے خلیفہ سے عہد پورا کرنے کا حکم (10)، حدیث نمبر 1843، جلد 3، صفحہ1472۔ یہ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔
9- حوالہ : عياض بن نامی السلمی، أصول الفقه الذي لا يسع الفقيه جهله، جس میں وہ فرماتے ہیں: ’’ان میں سے بعض نے اس بات پر اجماع کیا کہ مخصوص متن کو تلاش کرنے سے پہلے، عام متن کے مطابق عمل کرنا جائز نہیں ہے۔ اور دوسروں نے متفقہ طور پر عام متن کے مطابق عمل کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی جب تک کہ کسی کو مخصوص کا پتہ نہ لگ جائے‘‘، صفحہ 364-365۔
10۔ ترمذی، سنن الترمذی، کتاب فتن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (31)، باب: منکر کو تبدیل نہ کرنے کی صورت میں عذاب کا نزول (8)، حدیث نمبر 2168، اور اس کو مستند قرار دیا، جلد 4، صفحہ 37 اور امام احمد، مسند، حدیث نمبر 30، 1، 180، وغیرہ۔
11۔ مسلم، المسند الصحیح، كتاب الايمان (1)، باب: اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ برائی سے منع کرنا (نہی عن المنکر) ایمان کا حصہ ہے اوریہ کہ ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے (20)، حدیث نمبر 49، جلد 1، صفحہ 69۔
12۔ ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی (-279 ہجری / 892 عیسوی)، سنن الترمذی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے فتنوں کے باب (31)، باب: نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے منع کرنا (9) حدیث نمبر 2169، اور فرمایا: یہ حدیث حسن ہے، جلد۔ 4، صفحہ۔ 38۔
13۔ ترمذی، سنن الترمذی، کتاب فتن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (31)، باب: افضل ترین جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا ہے (13)، حدیث نمبر 2174، اور فرمایا: یہ اس نقطہ نظر سے حسن غریب حدیث ہے، جلد 4، صفحہ 41۔ اور ابو عبدالرحمٰن احمد بن شعیب النسائی (303 ہجری/915 عیسوی)، المجتبیٰ من السنن المعروف سنن النسائی، كتابالبيعة (39)، باب: ظالم حکمران کے سامنے سچ بولنے کی فضیلت، حدیث نمبر 4209، جلد 7، صفحہ 161۔ اور ابن ماجہ ابو عبد اللہ محمد بن یزید القزوینی (-273ھ/886 عیسوی)، سنن ابن ماجہ، كتاب الفتن (36)، باب: امر بالمعروف ونہی عن المنکر (20)، حدیث نمبر 4011، جلد 2، صفحہ 1329۔ اور ابو داؤد سلیمان بن اشعث بن اسحاق السجستانی (-275 ہجری / 889 عیسوی)، سنن ابی داود، كتاب الملاحم (36)، باب: امر ونہی (17)، حدیث نمبر 4344 ، اور اس میں ایک اضافہ ہے: "یا ایک ظالم حکمران"، جلد 6، صفحہ 400، اور مسند احمد، حدیث نمبر 11143، 17، 228، اور حدیث نمبر 11587، صفحہ۔ 18، جلد 133۔
14۔ الحاكم، المستدرك على الصحيحين، كتاب معرفة الصحابة (31)، حدیث نمبر 4950، اور فرمایا: اس کی سند صحیح ہے لیکن انہوں نے اسے روایت نہیں کیا، جلد 3، صفحہ 234۔
15۔ ابو زکریا محی الدین یحییٰ بن شرف النووی (-676 ہجری/1278 عیسوی)، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، بيروت، دار إحياء التراث العربي، دوسرا ایڈیشن، 1392ھ/1972 عیسوی ، جلد 12، صفحہ 229۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکمرانوں کے خلاف خروج کے معاملے پر نووی کی رائے متضاد تھی۔ انہوں نے کہا: ’’جہاں تک صحابہ کرامؓ کے اس بیان کا تعلق ہے، "کیا ہمیں ان سے نہیں لڑنا چاہیے؟" نبی کریم ﷺ نے جواب دیا: ’’نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں‘‘، اس کا مطلب ہے، جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، کہ خلفاء کے خلاف محض ظلم یا گناہ کے لیے خروج کرنا جائز نہیں ہے، جب تک کہ وہ اسلام کے بنیادی اصولوں کو تبدیل نہ کریں۔ جلد 12، صفحہ 243۔ اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ اسلام کے بنیادی اصولوں کو بدل دیں تو خروج کرنا جائز ہے۔ ان کا یہ بھی متضاد قول ہے کہ امام کو معزول نہیں کیا جا سکتا، اور اس کے خلاف خروج کرنا بالکل جائز نہیں ہے کیونکہ اس سے بڑے فتنوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا: ’’اسے معزول نہ کرنے اور اس کے خلاف بغاوت سے منع کرنے کی وجہ وہ انتشار، خونریزی اور انتشار ہے جس کے نتیجے میں اسے معزول کرنے کا نقصان اسے رکھنے کے نقصان سے زیادہ ہو جائے گا‘‘ جلد 12، صفحہ 229۔
16۔ وہ ابو سلیمان حمد بن محمد بن الخطاب البستی الخطابی (-388 ہجری/998 عیسوی) ہیں، جو ایک ممتاز عالم، ماہر لسانیات، اور حدیث کے مفسر ہیں، جو اپنی تصانیف مثلاً شرح السنن اورغريب الحديث،وشرح الأسماء الحسنى، والغنية عن الكلام وأهله، والعزلة، وإصلاح غلط المحدثين، وغیرہ کے لیے مشہور ہیں۔ حوالہ ، الذهبي، سير أعلام النبلاء، جلد 17، صفحہ 23-28۔
17۔ احمد، مسند، حدیث عبادہ بن الصامت، حدیث نمبر 22737، جلد 37، صفحہ 404۔ ایک مستند حدیث ہے۔
18۔ وہ ابو محمد عبد الواحد بن التين الصفاقسي (-611 ہجری / 1214 عیسوی) ہیں، ایک حدیث کے اسکالر اور مفسر ہیں جو البخاری کی تفسیر المخبر الفصيح في شرح البخاري الصحيح کے لیے مشہور ہیں۔ -جس پر حافظ ابن حجر اور دیگر نے البخاری کی تفسیر میں اسی پر انحصار کیا ہے۔ حوالہ : مخلوف، شجرة النور الزكية، جلد 1، صفحہ 242۔
19۔ وہ احمد بن نصر الداؤدی (-402 ہجری/1012 عیسوی) ہیں، جو مراکش کے ممتاز مالکی علماء میں سے ایک ہیں، جو النامي في شرح الموطأ، والواعي في الفقه، والنصيحة في شرح البخاري، والإيضاح في الرد على القدرية، وغیرہ کی وجہ سے مشہور ہیں۔ حوالہ : ابن فرحون إبراهيم اليعمري، (799 ہجری / 1397 عیسوی)، الديباج المذهب في معرفة أعيان علماء المذهب، تحقيق محمد الأحمدي أبو النور، القاهرة، دار التراث، جلد۔ 1، صفحہ۔ 166۔
20- ابن حجر العسقلاني، فتح الباري بشرح صحيح البخاري، كتاب الفتن (92)، باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد کہ ’’تم میرے بعد ان چیزوں کو دیکھو گے جن کو تم ناپسند کرتے ہو‘‘۔ (2)، جلد۔ 13، صفحہ۔ 8۔
21- الترمذی، سنن الترمذی، كتاب الايمان (38)، باب: نماز کی حرمت (8)، حدیث نمبر 2616، اور انہوں نے کہا کہ یہ حسن صحیح ہے، جلد 4، صفحہ۔ 308. اور احمد، مسند، معاذ بن جبل کی حدیث، حدیث نمبر 22068، جلد 36، صفحہ۔ 387۔
22- ابن تیمیہ، مجموعہ فتاویٰ، جلد 22، صفحہ 7۔
23۔ عبدالقدیم زلوم ، نظام الحکم فی الاسلام، صفحہ۔ 254۔
24- ابن حزم، الفصل في الملل والأهواء والنحل، جلد 5، صفحہ 24۔
25- وہی ماخذ، جلد 5، صفحہ 28۔
26- ابن حزم، الفصل في الملل والأهواء والنحل، جلد 5، صفحہ۔ 24۔ ان کی قابل قدر بحث کا بھی حوالہ ذکر ہے جس کا عنوان ہے: ’’امربالمعروف ونہی عن المنکر‘‘ جلد 19- صفحہ 28۔
27- المسند الصحیح، كتاب الإمارة (33)، امت میں خیر اور شر (17)، حدیث نمبر 1855، جلد 3، صفحہ۔ 1482۔
28- سابقہ حدیث کے حوالہ جات۔
29- خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ابو سعید خدریؓ نے بیان کیا: ”بَعَثَ عَلِيٌّ وَهُوَ بِاليَمَنِ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا، فَقَسَمَهَا بَيْنَ الأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الحَنْظَلِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي مُجَاشِعٍ، وَبَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الفَزَارِيِّ وَبَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلاَثَةَ العَامِرِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي كِلاَبٍ وَبَيْنَ زَيْدِ الخَيْلِ الطَّائِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ، فَتَغَيَّظَتْ قُرَيْشٌ وَالأَنْصَارُ فَقَالُوا: يُعْطِيهِ صَنَادِيدَ أَهْلِ نَجْدٍ، وَيَدَعُنَا قَالَ: إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ، فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ العَيْنَيْنِ، نَاتِئُ الجَبِينِ، كَثُّ اللِّحْيَةِ، مُشْرِفُ الوَجْنَتَيْنِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، اتَّقِ اللَّهَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم: فَمَنْ يُطِيعُ اللَّهَ إِذَا عَصَيْتُهُ، فَيَأْمَنُنِي عَلَى أَهْلِ الأَرْضِ، وَلاَ تَأْمَنُونِي…“
’’علی رضی اللہ عنہ کو یمن میں مقرر کیا گیا تو انہوں نے یمن سے کچھ سونا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس حنظلی، عیینہ بن بدری فزاری، علقمہ بن علاثہ العامری اور زید الخیل الطائی اور بنی نبھان میں سے ایک شخص میں تقسیم کر دیا۔ اس پر قریش اور انصار ناراض ہوئے اور انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نجد کے رئیسوں کو تو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک مصلحت کے لیے ان کا دل بہلاتا ہوں۔ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، پیشانی ابھری ہوئی تھی، داڑھی گھنی تھی، دونوں کلے پھولے ہوئے تھے اور سر گٹھا ہوا تھا۔ اس مردود نے کہا: اے محمد! اللہ سے ڈر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں بھی اس اللہ کی نافرمانی کروں گا تو پھر کون اس کی اطاعت کرے گا؟ اس نے مجھے زمین پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے... ‘‘
متفق علیہ۔ بخاری، الجامع الصحیح، کتاب التوحید (97)، باب: کلام الٰہی کہ ’’فرشتے اور روح ان پر اترتے ہیں‘‘ (23)، حدیث نمبر 7432، جلد 9، صفحہ 127۔ اور مسلم، المسند الصحیح، کتاب الزكاة (12)، باب: خوارج کا ذکر اور ان کی تفصیل (47)، حدیث نمبر 1064، جلد 2، صفحہ۔ 741۔ یہ الفاظ بخاری سے ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
”لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ آثَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم نَاسًا، أَعْطَى الأَقْرَعَ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ، وَأَعْطَى عُيَيْنَةَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَأَعْطَى نَاسًا، فَقَالَ رَجُلٌ: مَا أُرِيدَ بِهَذِهِ القِسْمَةِ وَجْهُ اللَّهِ، فَقُلْتُ: لَأُخْبِرَنَّ النَّبِيَّﷺ قَالَ: “رَحِمَ اللَّهُ مُوسَى، قَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ.“
’’غزوہ حنین کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کو بہت سے مویشی دے دئیے۔ چنانچہ اقرع بن حابس کو جن کا دل بہلانا مقصود تھا، سو اونٹ دئیے۔ عیینہ بن حصن فزاری کو بھی اتنے ہی دئیے اور اسی طرح دوسرے اشراف عرب کو دیا۔ اس پر ایک شخص نے کہا کہ اس تقسیم میں اللہ کی رضا کا کوئی خیال نہیں کیا گیا۔ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا کہ میں اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کروں گا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمہ سنا تو فرمایا کہ اللہ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے کہ انہیں اس سے بھی زیادہ دکھ دیا گیا تھا لیکن انہوں نے صبر کیا‘‘۔
متفق علیہ۔ بخاری، الجامع الصحیح، کتاب المغازي (64)، باب: شوال 8 ہجری میں غزوة طائف، (56)، حدیث نمبر 4336، جلد۔ 5، صفحہ۔ 159۔ اور مسلم، المسند الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب: ان لوگوں کو زکوٰۃ دینے کے بارے میں جن کو اسلام کی خاطر ان کے دلوں کو مضبوط کرنا مقصود ہو اور ایمان میں پختہ لوگوں کے لیے صبر کرنا (46)، حدیث نمبر 1062، جلد۔ 2، صفحہ۔ 739۔ یہ الفاظ بخاری سے ہیں۔ اسی طرح لوگوں نے خلیفہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ان کے اعمال کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا، ان کے خلاف بغاوت کی اور انہیں شک کی بنا پر اور بغیر جواز کے قتل کر دیا۔ اگر وہ اس معاملے میں احادیث کی ہدایات پر عمل کرتے تو شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کی بنیاد پر بغاوت کرنے سے پہلے تصدیق کر لیتے، جب کہ نصوص میں واضح اور حتمی ثبوت کی ضرورت ہے۔
30- مسلم، المسند الصحیح، کتاب الإمارة (33)، باب: فتنہ ظاہر ہونے پر مسلمانوں کے ساتھ رہنے کی ذمہ داری (13)، حدیث نمبر 1847، جلد 3، صفحہ۔ 1476۔
31- نووی، المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، جلد 12، صفحہ 237۔
32- ایک مضمون بعنوان: ’’القطع بنكارة زيادة وإن ضرب ظهرك وأخذ مالك فاسمع وأطع‘‘ "دار الحديث الضيائية" کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔
https://addyaiya.com/uin/arb/viewdataitems.aspx?productid=347
33- وہی ماخذ۔
34- متفق علیہ، بخاری، الجامع الصحیح، کتاب المظالم (46)، باب: جو اپنے مال کی حفاظت کے لئے لڑے (33)، حدیث نمبر 2480، جلد 3، صفحہ 136۔ اور مسلم، المسند الصحیح، کتاب الإيمان (1)، باب: اس بات کا ثبوت کہ جو کسی کا مال ناجائز طور پر لینے کا ارادہ رکھتا ہے... (62)، حدیث نمبر 141، جلد 1، صفحہ۔ 124۔ اور الفاظ دونوں سے ہیں۔
35- بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الفتن (92)، باب: جماعت نہ ہونے کی صورت میں عمل کرنے کا طریقہ (11)، حدیث نمبر 7084، جلد 9، صفحہ 51۔ اور مسلم، المسند الصحیح، کتابالإمارة (33)، فتنوں کے دوران مسلمانوں کے گروہ کے ساتھ رہنے کی ذمہ داری اور کفر کی دعوت دینے والوں سے تنبیہ (13)، حدیث نمبر 1847، جلد 3، صفحہ۔ 475۔ یہ الفاظ بخاری سے ہیں۔
36۔ مثال کے طور پر جیسے ’’اور اگر آپ کو کوڑے مارے جائیں اور آپ کا مال لے لیا جائے" کی تشریح اس طرح کرنا کہ ’’مارا‘‘ اور ’’لےلیا گیا‘‘ کے الفاظ جامد آواز میں ہوں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکمران جس کی اطاعت کی جائے، وہ ایسا حکمران نہیں ہے جو یہ ظالمانہ کام کرتا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور سنت پر عمل نہ کرے۔
37- المسند، حدیث حذیفہ ابن الیمان، حدیث نمبر 23425، جلد 38، صفحہ 421۔