بسم الله الرحمن الرحيم
روس اور یوکرین کی جنگ کس سمت جا رہی ہے؟
(عربی سے ترجمہ)
یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے جمعرات 17 اکتوبر 2024 کو اعلان کیا کہ روس یوکرینی افواج کے خلاف لڑنے کے لیے 10,000 شمالی کوریائی فوجیوں کو تعینات کرنے کی تیاری کر رہا ہے، ان کے مطابق یہ معلومات انٹیلیجنس کے ذرائع سے حاصل ہوئی ہیں۔ زیلنسکی نے روس کے ساتھ جنگ میں شمالی کوریا کی بڑھتی ہوئی مداخلت کو بیان کرتے ہوئے اس پر شدید بین الاقوامی ردعمل کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیٹلائٹس اور ویڈیو شواہد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شمالی کوریا نے نہ صرف روس کو ساز و سامان بھیجا ہے بلکہ اپنے فوجی بھی تعیناتی کے لئے بھجوائے ہیں۔ جنوبی کوریا کی انٹیلیجنس ایجنسی نے بتایا کہ شمالی کوریا نے 1,500 اسپیشل فورسز کے اہلکار روس کے مشرقی علاقے میں تربیت کے لیے بھیجے ہیں اور امکان ہے کہ یہ اہلکار جلد ہی اگلے محاذوں پر بھیج دئیے جائیں گے، جبکہ مزید ہزاروں فوجی ملک چھوڑ کر محاز پر جانے کے لیے تیار ہیں، اور یہ پیانگ یانگ کی طرف سے بیرونِ ملک تعیناتی کا ایسا پہلا اقدام ہے۔
اگرچہ اس خبر کی تصدیق اور زیلنسکی کے واضح بیانات متعلقہ فریقین یعنی جنوبی کوریا اور یوکرین کی جانب سے سامنے آئے ہیں، لیکن عالمی تنازع کے کسی بھی فریق یا ان کے حامیوں، بشمول نیٹو کے سربراہ میں سے کسی نے بھی ان دعوؤں کی تصدیق نہیں کی ہے۔ گزشتہ جمعرات کو نیٹو کے سیکرٹری جنرل، مارک روٹے Mark Rutte نے کہا کہ اس مرحلے پر شمالی کوریا کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ روس اور شمالی کوریا نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ پیانگ یانگ نے یوکرین کا مقابلہ کرنے میں روس کی مدد کے لیے کچھ فوجی اہلکار بھجوائے ہیں۔ جمعرات 17 اکتوبر کو کریملن کے ترجمان، دمتری پیسکوف سے جب پوچھا گیا کہ آیا شمالی کوریا یوکرین میں لڑنے کے لیے فوج بھیج رہا ہے، تو انہوں نے اسے ”ایک اور جھوٹی خبر“ قرار دیا۔
امریکہ نے اس خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی، تاہم اس نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا کا یوکرین میں روس کی مدد کے لیے فوج بھیجنا ایک ”خطرناک پیشرفت“ ہوگی۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب سفیر، رابرٹ ووڈ نے کہا کہ واشنگٹن نے ایسی رپورٹس دیکھی ہیں کہ شمالی کوریا روس کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے یوکرین میں فوج بھیج رہا ہے اور مزید فوج بھی بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے۔ انہوں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ”اگر یہ سچ ہے تو یہ ایک خطرناک اور نہایت تشویشناک پیشرفت ہوگی اور یہ شمالی کوریا اور روس کے فوجی تعلقات کی نمایاں گہرائی کو ظاہر کرتی ہے“۔ انہوں نے مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ”ہم اس ڈرامائی قدم کے اثرات پر اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں سے مشاورت کر رہے ہیں“۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل Vedant Patelنے کہا کہ محکمہ ابھی اس نکتہ پر نہیں پہنچا کہ وہ ان رپورٹس کی تصدیق کر سکے، اور آیا کہ یہ درست بھی ہیں یا نہیں۔ امریکی سیکرٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے بھی اسی طرح کا بیان دیا۔ اقوام متحدہ میں فرانس کے سفیر نکولس ڈی ریویئر Nicolas de Rivièreنے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے ایک تقریر میں کہا، ”شمالی کوریا کے فوجیوں کی تعیناتی مزید کشیدگی کا باعث بنے گی“۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف ممالک، خصوصاً بڑی طاقتوں جیسا کہ چین اور روس کی طرف سے امریکی اجارہ داری سے آزاد ہونے کے لیے سنجیدہ اقدامات اور کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ کوششیں حالیہ دنوں میں BRICS کے اجلاسوں اور رواں ماہ کے وسط میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاسوں میں سامنے آئی ہیں۔ ان اجلاسوں میں اہم علاقائی طاقتوں نے شرکت کی، جن میں چین، روس، بھارت، پاکستان، ایران، اور کچھ وسطی ایشیائی ریاستیں شامل تھیں۔ اگرچہ ان اجلاسوں کے دوران مغرب، امریکہ اور نیٹو کے خلاف کوئی واضح موقف کا اعلان نہیں کیا گیا، مگر ان میں سے کچھ ممالک امریکی غلبے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقے اور وسائل اختیار کر رہے ہیں۔ ان طریقوں میں روس کی جنگ میں شمالی کوریا کو یوکرین کے خلاف سپورٹ کے لیے استعمال کرنا شامل ہے، جو امریکہ کے خلاف دشمنی کی وجہ سے ہے، نہ کہ روس کے ساتھ محبت کی وجہ سے۔ اسی طرح ایران کو روسی فوج کے لیے ایرانی ڈرونز اور میزائل فراہم کرنے پر آمادہ کرنا بھی شامل ہے، جو یوکرین کی جنگ میں استعمال ہو رہے ہیں۔
اگرچہ چین یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس مداخلت سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور اپنی بزدلانہ اور ناقص کوششوں کے ذریعے امریکہ کا مقابلہ کر رہا ہے، لیکن حقیقت میں وہ کسی حد تک اس کے لیے مجبور بھی ہے تاکہ روس کو مطمئن رکھ سکے۔ مزید یہ کہ وہ یہ قدم اٹھا رہا ہے اور بالواسطہ طور پر امریکہ کو چیلنج کر رہا ہے جبکہ امریکہ مشرق وسطیٰ کے معاملات میں مصروف ہے اور اس کی انتظامیہ صدارتی انتخابات سے قبل آخری مہینوں میں کمزور حیثیت میں ہے۔ مزید برآں، جب بھی اس (روس-یوکرین) جنگ میں یوکرین کو فائدہ پہنچ رہا ہو، تو امریکہ اس طرح کی مداخلتوں پر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ ایسے اقدامات کی اجازت دے دیتا ہے، جیسا کہ ایران کی طرف سے روس کو ڈرونز اور میزائل بھیجنے کے لیے اکسانا وغیرہ۔ یہ اس لیے ہے تاکہ جنگ یوکرین کے میدان جنگ میں جاری رہے، ختم نہ ہو، تاکہ اس مقصد کو حاصل کیا جا سکے جس کے لئے یہ جنگ بھڑکائی گئی تھی، یعنی روس اور یورپ دونوں کو تھکا دینا اور عاجز کر دینا۔
جو عالمی منظر نامہ اس وقت امریکہ کے ذریعہ قائم کیے جانے والے یک قطبی نظام (Unipolar order) پر مبنی ہے، وہ مختلف علاقوں میں جنگوں کے پھوٹنے کا باعث بن رہا ہے، جس کا سب سے زیادہ اثر اسلامی دنیا پر پڑ رہا ہے، خاص طور پر شام پر، جو ان شاء اللہ جلد ہی دار الاسلام کا مرکز بن جائے گا۔ یورپ دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ خطہ رہا ہے۔ یورپ کے اندر جنگوں کی وجہ سے پھیلنے والے اثرات ماضی میں دنیا کے مختلف ممالک پر پڑتے رہے ہیں۔ یہ امریکی پالیسی ہی ہے جس نے عالمی سطح پر نفرت کا ماحول پیدا کر دیا ہے، اور اسے اس قدر بھڑکا دیا ہے کہ دنیا ایک آتش فشاں کے دہانے پر آن پہنچی ہے۔ آج کی یہ صورتحال اسی عالمی منظر نامے کی طرح ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے دوران موجود تھا، جہاں دنیا دو سلطنتوں میں تقسیم تھی، جن کے اپنے اتحاد، ایجنسیاں، فریب کاری کے طریقے، موجودہ دنیا کی صورتحال کے عین مشابہ تھے۔ یہاں تک کہ اسلام نے دنیا کو خونریز جنگوں سے نجات دلائی، اور مظلوم اقوام کو اس وقت کی کفر و شرک کی طاقتوں کے بوجھ سے آزاد کیا۔ اس لیے اسلامی دنیا کے اہلِ قوت و طاقت کے لئے ضروری ہے کہ وہ تاریخ سے سبق حاصل کریں اور اپنے معاملات کو ایسے درست کریں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ، اس کا رسول ﷺ اور تمام انسانیت اس سے راضی ہو۔ کہتے ہیں کہ احمق تجربہ کر کے سیکھتے ہیں، جبکہ دانا وہ ہیں جو تاریخ سے سیکھتے ہیں۔ تو اگر تاریخ ہی شاندار ہو اور بصیرتِ الٰہی کے پیغامات سے بھری ہو، تو کیا ہی کہنا!
الرایہ اخبار کے لئے لکھی گئی تحریر، شمارہ 519
بلال المہاجر، ولایہ پاکستان