بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کا ایجنڈا تباہی اور غلامی ہے
خبر:
نیویارک، 25 ستمبر (اے پی پی) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بدھ کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر کے پیکیج کی منظوری پر اطمینان کا اظہار کیا۔
حوالہ:
https://www.app.com.pk/global/pm-expresses-satisfaction-over-approval-of-imf-package/
تبصرہ:
یہ 23واں موقع ہے جب پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض حاصل کیا ہے، اور ہر پروگرام میں پاکستان کے غریب عوام کے لیے پچھلے سے زیادہ سخت شرائط رکھی گئی ہیں۔ آئی ایم ایف کی مداخلت کی شدت کا اندازہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کے حالیہ بیان سے ہوتا ہے، جہاں انہوں نے تسلیم کیا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے موجودہ مالی بجٹ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
یہ حکمران اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے اور شرمندگی ظاہر کرنے کے بجائے اللہ کے مقرر کردہ احکام اور ممنوعات کو کھلم کھلا نظرانداز کرتے ہیں۔ کیا یہ لوگ قرآن اور سنت میں موجود اللہ کے واضح احکام سے بہرے اور اندھے ہیں؟ کیا یہ نہیں جانتے کہ جو لوگ سودی لین دین کرتے ہیں، قیامت کے دن اس حال میں اٹھائے جائیں گے جیسے شیطان نے انہیں پاگل پن کی حالت میں اپنی گرفت میں لے لیا ہو؟ اللہ نے قرآن میں فرمایا:
ٱلَّذِينَ يَأْكُلُونَ ٱلرِّبَوٰا۟ لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ ٱلَّذِى يَتَخَبَّطُهُ ٱلشَّيْطَـٰنُ مِنَ ٱلْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوٓا۟ إِنَّمَا ٱلْبَيْعُ مِثْلُ ٱلرِّبَوٰا۟ ۗ
"جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر پاگل کر دیا ہو۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ کہتے ہیں، ‘تجارت بھی تو سود جیسی ہے۔” [البقرہ: 275]
اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جنگ کو دعوت دینے کے علاوہ، یہ حکمران ہماری آنے والی نسلوں کو ان امریکی قیادت والے مغربی اداروں اور چین کے قرضوں کے جال میں پھنسا رہے ہیں۔ مارچ 2024 کے لیے اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، عوامی قرضے قوم کی معاشی پیداوار کے تقریباً تین چوتھائی حصے تک پہنچ چکے ہیں۔ مالی سال 2024 کی پہلی ششماہی کے لیے وزارت خزانہ کی بجٹ جائزہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کے سود کی ادائیگیوں میں پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 64 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو 2.57 ٹریلین روپے سے بڑھ کر 4.22 ٹریلین روپے تک پہنچ چکی ہیں، جس سے بجٹ پر مزید دباؤ پڑا ہے اور حکام کو آئی ایم ایف پروگرام کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے ترقیاتی اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اس سال کی سود کی ادائیگیاں کل 7.3 ٹریلین روپے تک پہنچنے کا امکان ہے، جو کہ پورے سال کے بجٹ تخمینے کا تقریباً 58 فیصد ہے۔ مزید برآں، زیادہ تر ریونیو غیر منصفانہ ٹیکسوں کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے، جو غریبوں اور ضرورت مندوں سے وصول کیا جاتا ہے، اور یہ صرف ان قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ کیا جاتا ہے۔
آئی ایم ایف کے دباؤ کے تحت، پاکستانی حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو خودمختار حیثیت دے دی، جس کی سربراہی سابق انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے بینکر ڈاکٹر رضا باقر کر رہے تھے۔ اس اقدام کا مقصد آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنا تھا، جس کے نتیجے میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں آزادانہ گراوٹ شروع ہو گئی۔ خودمختاری کے تحت مرکزی بینک کو بغیر حکومتی مداخلت کے پالیسیوں پر عملدرآمد کی اجازت دی گئی، جو آئی ایم ایف کی طویل عرصے سے جاری مانگ تھی کہ ایک مارکیٹ پر مبنی ایکسچینج ریٹ نافذ کیا جائے۔ نتیجتاً، روپے کی قدر 2021 کے اوائل میں تقریباً 160 (PKR) فی (USD) سے گر کر 2023 کے وسط تک ایک نیا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے تقریباً 299 (PKR) فی (USD) تک پہنچ گئی۔ اس شدید کمی نے مہنگائی کی ایک لہر کو جنم دیا، جس نے عوام کے لیے روزمرہ کے اخراجات پورا کرنا مشکل یا ناممکن بنا دیا۔ گزشتہ سال اکتوبر میں کیے گئے ایک گیلپ سروے کے مطابق، 49 فیصد افراد نے کہا کہ موجودہ آمدنی میں گزارا کرنا "بہت مشکل" ہے، جبکہ ایک ریکارڈ 70 فیصد نے کہا کہ جہاں وہ رہتے ہیں وہاں کے اقتصادی حالات بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کا قدیم نسخہ، جو بروقت سود کی ادائیگیوں کو یقینی بناتا ہے، میں ٹیکس بڑھانا، ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنا، یوٹیلیٹی کی قیمتوں میں اضافہ اور غریبوں کے لیے سبسڈی کا خاتمہ شامل ہے۔ ان تمام اقدامات نے مزید غربت میں اضافہ کیا، ترقی کو روک دیا، بے روزگاری میں اضافہ کیا، اور دولت چند افراد کے ہاتھوں میں مرکوز ہو گئی۔
موجودہ جغرافیائی و سیاسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں، جہاں ناجائز یہودی وجود نسل کشی کر رہا ہے اور ساری دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہماری معیشت کو ایسے دشمن اداروں جیسے کہ آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھنے کے سیکیورٹی سے متعلق نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ پاکستان دنیا کی ساتویں بڑی فوج کا حامل ملک ہے، جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے، لیکن ہمارے حکمرانوں نے اپنےذاتی مفادات کے لیے ہماری خودمختاری کو ان غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں بیچ دیا ہے، جو اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ ہم کبھی کشمیر اور فلسطین میں اپنے بھائیوں کی حمایت میں نہ کھڑے ہوں۔
اے پاکستان کے مسلمانو!
اس میں کوئی شک نہ ہو کہ پاکستان کے معاشی مسائل کا واحد حل اسلام کے معاشی نظام کو نافذ کرنے میں ہے۔ چاہے وہ ٹیکس سے متعلق قوانین ہوں، ملکیت کے اصول، کرنسی کا نظام، کمپنی ڈھانچہ ہو یا زمین کے قوانین، جب تک ہم ان تمام کو مکمل طور پر نافذ نہیں کرتے، ہم ان مغربی ممالک کے غلام ہی رہیں گے۔ اسلام کا نفاذ صرف خلافت راشدہ کے قیام کے ساتھ ہی ممکن ہے، جو نبوت کے نقش قدم پر قائم ہوگی۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے عبدالرزاق قاضی کی تحریر