بسم الله الرحمن الرحيم
امریکی صدارتی انتخاب میں مدِمقابل دونوں امیدوار آپس میں مقابلہ کر رہے ہیں
کہ کون فلسطین کی بابرکت سرزمین میں یہودی جرائم کی حمایت میں آگے ہیں
( عربی سے ترجمہ )
خبر:
نائب امریکی صدر اور نومبر میں ہونے والے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کمالا ہیرس نے کہا، "اور مجھے واضح کرنے دیں، میں ہمیشہ اسرائیل کا اپنے دفاع کے حق کے لیے کھڑی رہوں گی اور میں ہمیشہ اس بات کو یقینی بناؤں گی کہ اسرائیل اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتا ہو... کیونکہ اسرائیل کے لوگوں کو دوبارہ کبھی بھی اس ہولناکی کا سامنا نہیں کرنا چاہیےجس کی وجہ حماس نامی دہشت گرد تنظیم 7 اکتوبر کو بنی۔"(نیوز ویک)۔ الجزیرہ نے اپنی ویب سائٹ پر ایک ہیڈ لائن کے تحت جس میں لفظ "غزہ" شامل ہے، جسے شکاگو میں ڈیموکریٹس سرگوشی میں بھی بولنے کی ہمت بھی نہیں کرتے، رپورٹ کیا کہ "الجزیرہ نے شکاگو کی ریلی میں دو حجاب پوش خواتین کی پرتشدد گرفتاری کا مشاہدہ کیا جب ہزاروں لوگ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے مظاہرہ کررہے تھے... تاہم، پولیس اہلکاروں نے (ہزاروں لوگوں میں سے) حجاب پہنی دو خواتین کو نشانہ بنایا اور تھوڑی تفتیش کرنے کے بعد انہیں زمین پر گرا کر ہتھکڑیاں لگائیں۔"(الجزیرہ)
تبصرہ:
کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی انتخابات جیت جائیں گے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ ڈیموکریٹک پارٹی میں اپنے حریف سے زیادہ سخت اور انتہا پسند ہیں، جس کی قیادت امریکی صدارتی انتخاب میں اُس کی مدمقابل امریکی نائب صدر کمالا ہیرس کر رہی ہیں۔ تاہم، ہیرس کے یہ بیانات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ دونوں حریف ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ صرف طریقہ کار اور الفاظ کا اختلاف ہے، چھٹری تو درمیان سے ہی پکڑنی ہے صرف اس کے پکڑنے کے طریقہ کار میں فرق ہے جو کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی پالیسی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ٹرمپ اس بات کو نہیں چھپاتا جس پر وہ یقین رکھتا ہے، حالانکہ ہیریس اور اس کی پارٹی کا بھی وہی موقف ہے جو ٹرمپ کا ہے۔
تاہم، کچھ لوگ یہ نہیں جانتے کہ دونوں جماعتوں اور ان کے امیدواروں کے درمیان ہم آہنگی کی وجہ یہ ہے کہ اندرون اور بیرون ملک امریکی مفادات کا تعین کرنے والے اس کے دو شعبوں میں بیٹھے سرمایہ دار ہیں، ایک توانائی اور صنعت کے شعبہ میں جبکہ دوسرا ٹیکنالوجی کے شعبے میں۔ وائٹ ہاؤس میں حکمرانی کرنے والی انتظامیہ، چاہے ری پبلکن ہو یا ڈیموکریٹک، کچھ نہیں بلکہ ان کی حیثیت مزدوروں کی سی ہے جنہیں ان سرمایہ داروں کے مفادات کی تکمیل کے لیے نوکری پر رکھا گیا ہے۔ ان مفادات کے حصول کے لیے حالیہ عرصے میں آنے والی کسی بھی امریکی انتظامیہ کا کردار ثانوی ہو گیا ہے، کیونکہ ملٹی نیشنل سرمایہ دار کمپنیاں اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے خود آگے آگئی ہیں، جن کی حمایت امریکی فوج اور سیاسی فرنٹ مینوں نے کی ہے، کیونکہ وہ امریکی سیاست میں "ڈیپ سٹیٹ" بن چکی ہیں۔
ہیرس اور ٹرمپ دونوں کی بیان بازی میں فرق کی وجہ اپنی اپنی پارٹیوں کے لیے اُن ووٹروں کو جیتنا ہے جن کا ووٹ کسی بھی جانب جاسکتا ہے۔ ہیرس مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ وہ مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے یہودی وجود کی حمایت میں ٹرمپ سے زیادہ بے غیرت نہیں بننا چاہتی۔ ٹرمپ یورپی نژاد امریکیوں بالخصوص امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں رہنے والے یہودیوں اور انتہا پسند نسل پرستوں کے ووٹ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا، وہ یہودیوں اور یورپی نسل کے سفید فاموں میں ان نسل پرستوں کو خوش کرنے کے لیے نسل پرستانہ بیان بازی کا سہارا لیتا ہے۔ لیکن ووٹروں کی اکثریت محنت کش طبقے سے ہے جنہیں "کارپوریٹ غلام" کہا جاتا ہے جو توانائی اور صنعتی کمپنیوں، اور ٹیکنالوجی کمپنیوں، دونوں میں کام کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے ووٹوں کا فیصلہ ان کے "آقا" کے مطابق ان کمپنیوں میں ہوتا ہے جن کے لیے وہ کام کرتے ہیں۔ انہیں امریکی ووٹر، اصولوں، اخلاقیات، نظریات اور جھوٹے نعروں کی کوئی پرواہ نہیں ہے جو وہ بلند کرتے ہیں، جیسے آزادی، انسانی حقوق، جمہوریت، خواتین کے حقوق وغیرہ۔
امریکہ میں مقیم مسلمانوں کو ان "جھوٹوں" کے لیے انتخابی کارڈ نہیں بننا چاہیے، جو ان سے میٹھی میٹھی باتیں تو کرتے ہیں، لیکن لومڑی کی طرح ٹال مٹول کرتے ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو ایسے انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہیے جس میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو۔ اسی طرح شیوخ، ائمہ مساجد، اور اسلامی اداروں اور انجمنوں کے انچارجوں کو چاہیے کہ وہ لوگوں پر زور دینا چھوڑ دیں کہ وہ خود کو امریکی انتخابات کی دھوکہ دہی اور سازش میں جھونک دیں۔ انتخابات صرف ایک بدمعاش پیدا کرے گا جو اہل ایمان یا ان کے عہد کا احترام نہیں کرتا۔ اس کے بجائے وہ اللہ سے ڈریں، کہ انہوں نے ایسا اسلام ان مسلمانوں تک پہنچایا ہے اور مسلمانوں کو ایسی بری ہدایات اور مشورے دیے ہیں کہ اب انہوں نےامت اسلامیہ کے ساتھ الحاق سے پہلے اپنی امریکی شناخت کو مقدم رکھنا شروع کر دیا ہے۔ یہ بری ہدایات سیکورٹی سروسز کے خیالی خوف اور کفر اور اس کے لوگوں کے سائے میں آرام دہ زندگی گزارنےکی امید ہے۔
انہیں عظیم اسلام کو ایک ایسے پیغام کے طور پر اپنانا چاہیے جو تارکین وطن کو اپنے عظیم دین پر فخر کرنے کی دعوت دیتا ہو اور جو انہیں اس ذمہ داری کا احساس اور ہمت عطا کرے کہ انہیں اپنے اردگرد رہنے والے اہل کتاب تک اسلام کا پیغام پہنچانا ہے، تاکہ انہیں سرمایہ داری اور سرمایہ داروں کی ناانصافی سے بچایا جا سکے، اور انہیں اسلام کے انصاف اور روشنی میں لایا جاسکے۔
اُدۡعُ اِلٰى سَبِيۡلِ رَبِّكَ بِالۡحِكۡمَةِ وَالۡمَوۡعِظَةِ الۡحَسَنَةِ وَجَادِلۡهُمۡ بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِيۡلِهٖ وَهُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُهۡتَدِيۡنَ
"(اے پیغمبر) لوگوں کوحکمت اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ۔ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔ جو اس کے رستے سے بھٹک گیا تمہارا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے اور جو رستے پر چلنے والے ہیں ان سے بھی خوب واقف ہے ۔"(النمل، 16:125)
ولایہ پاکستان سے بلال المہاجر نے
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے لکھا
حوالہ جات:
https://www.newsweek.com/kamala-harris-dnc-speech-israel-gaza-war-1943334