بسم الله الرحمن الرحيم
بلوچستان میں امن کے لیے ہمیں استعماری نظام کا خاتمہ
اور خلافت راشدہ کا قیام عمل میں لانا ہوگا
خبر:
29 اگست 2024 کوپاکستان کی سرکاری نیوز ایجنسی APP نے رپورٹ کیا، "جمعرات کو وزیراعظم محمد شہباز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے ہر قیمت پردشمن قوتوں کو بلوچستان کے امن اور ترقی میں خلل ڈالنے سے روکنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ بلوچستان میں ہونے والے حالیہ المناک واقعے سے پوری قوم غمزدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ معصوم لوگوں کا خون بہانے والے خوارج کو بخشا نہیں جائے گا۔ [1]
تبصرہ:
بلوچستان میں پرتشدد بدامنی کے واقعات میں حالیہ اضافے نے پاکستان کو شدید حیرت زدہ اور پریشان کر دیا ہے۔ یہ حملے بلوچ قبائلی رہنما اکبر بگٹی کی برسی کے موقع پر ہوئے، جنہیں جنرل مشرف نے 26 اگست 2006 کو قتل کر دیا تھا۔ یہ حملے بلوچستان کے تقریباً ہر علاقے میں بیک وقت ہوئے۔
بلوچستان میں بدامنی کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ یہ سلسلہ برطانوی راج سے پاکستان کی آزادی کے بعد سے جاری ہے۔ بدامنی کی موجودہ لہر، اپنی نوعیت کی پانچویں اور طویل ترین لہرہے،جو 2000 کی دہائی کے اوائل میں جنرل مشرف کے دور میں شروع ہوئی۔ باغیوں اور مظاہرین کے مطالبات متنوع ہیں جس میں زیادہ سے زیادہ صوبائی حقوق سے لے کر ایک آزاد ریاست کے قیام تک سب مطالبات شامل ہیں۔ پاکستانی حکومت نے بدامنی کو دبانے کے لیے سیاسی ہتھکنڈوں اور فوجی آپریشن دونوں کو استعمال کیا ہے، لیکن وہ ابھی تک خطے میں پائیدار امن حاصل نہیں کرسکی ہے۔
حکومت کا یہ دعویٰ کہ غیر ملکی طاقتیں بلوچستان میں بدامنی کا فائدہ اٹھا رہی ہیں، اس کے سخت فوجی ردعمل کو جواز فراہم کرتا ہے۔ تاہم، یہ نقطہ نظر ایک پیچیدہ مسئلہ کو ضرورت سے زیادہ سادہ بنانے کی مثال ہے۔ یہ نقطہ نظربدامنی کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے میں ناکام ہے۔ جب ہزاروں غیر مسلح شہری جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوں، گوادر جیسے اہم مقامات پر احتجاج کرتے ہیں، تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہاں حقیقی اور غیر حل شدہ شکایات ہیں جن کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئٹہ، گوادر، حتیٰ کہ اسلام آباد جیسے شہروں میں خواتین اور بچوں سمیت اتنی بڑی تعداد میں لوگ احتجاج کیوں کر تے ہیں؟ کیا بلوچستان کی مسلم آبادی کے حقوق اور ضروریات کو پورا کرنے میں نظام ناکام ہے؟ اگر حکومت ان شکایات کو مؤثر طریقے سے دور کرتی اور عوام کے حقوق کو یقینی بناتی تو کیا اس سے بیرونی طاقتوں کی صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت بھی کم نہیں ہو جاتی؟
بلوچستان کے لوگوں کی شکایات بہت بڑی ہیں جن کو برطانوی راج اور موجودہ پاکستانی حکمرانوں کے دور میں بھی ختم نہیں کیا گیا۔ نوآبادیاتی دور میں بلوچستان کو کبھی بھی باضابطہ طور پر صوبہ تسلیم نہیں کیا گیا۔ اس کے بجائے، اس پر ایک الگ، خصوصی انتظام کے ذریعے حکومت کی گئی۔ انگریزوں کو یہاں اپنے قبضے کے خلاف مسلسل مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے خطے کے وسائل کا استحصال کیا اور اسے غریب بنا دیا۔ نوآبادیاتی نظام کو اپنی رعایا کی خدمت کے بجائے محکوم بنانے، ان کے حقوق سے انکار اور فوجی طاقت کے ذریعے کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
آج پاکستان میں سیاسی اور عسکری قیادت استعماری وراثت کی پیروی اور برطانوی طرز عمل کی تقلید کرتے ہوئے بلوچستان پر حکومت کر رہی ہے۔ استحصالی اور جابرانہ پالیسیوں کے اس تسلسل نے خطے میں جاری بدامنی اور بے اطمینانی کو جنم دیا ہے۔
مسلم دنیا کی بہت سی ریاستوں کی طرح پاکستان بھی اپنے استعماری نظام کی وجہ سے ایک ناکام ریاست ہے۔ حکمران دھڑے ملکی وسائل کا استحصال کرتے ہیں اور نہ صرف بلوچستان بلکہ تمام صوبوں کو حقوق سے محروم کرتےہیں۔ مایوسی پورے ملک میں موجود ہے، لیکن زیادہ آبادی والے اور زیادہ انتخابی اثر و رسوخ والے صوبے زیادہ توجہ اور وسائل حاصل کرلیتے ہیں۔ نتیجتاً، بلوچستان جیسے چھوٹے صوبے، اور کم انتخابی اثرات رکھنے والے، زیادہ نظرانداز کیے جانےاور استحصال کا شکار ہیں۔
بلوچستان اور پورے پاکستان کے مسلمانوں کو موجودہ استعماری نظام کو ختم کرنے کے لیے متحد ہونا چاہیے۔ انہیں نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اسلامی شریعت کا نفاذ تمام لوگوں کے لیے انصاف اور خوشحالی کو یقینی بناتا ہے۔ تاریخی طور پر، خلافت مختلف ولایتوں (صوبوں) میں اقلیت یا اکثریتی حیثیت سے قطع نظر مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کے ساتھ حسن سلوک کے لیے مشہور تھی۔ صدیوں تک، خلافت نے مختلف نسلوں، زبانوں اور مذاہب کے ساتھ مختلف آبادیوں پر حکومت کی، اور ان کی نظر میں عزت اور ان کی وفاداری حاصل کی۔
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم کس طرح خلافت راشدہ کے وفادار تھے۔ شام کو مسلمانوں نے فتح کیا تھا، لیکن جب رومی عیسائی اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے فوجیں جمع کر رہے تھے، تو اس کےوالی (صوبائی گورنر)، ابو عبیدہ ؓ اس پوزیشن میں نہ رہے کہ وہ اپنے زیر حاکمیت رہنے والے غیر مسلم شہریوں کو تحفظ فراہم کرسکیں ، توانہوں نے جزیہ ٹیکس اس اعلان کے ساتھ واپس کر دیا گیا،
وَإِنَّمَا رَدَدْنَا عَلَيْكُمْ أَمْوَالَكُمْ لِأَنَّا كَرِهْنَا أَنْ نَأْخُذَ أَمْوَالَكُمْ وَلَا نَمْنَعَ بِلَادَكُمْ ،
"ہم آپ کا مال آپ کو واپس کر رہے ہیں کیونکہ ہم یہ ناپسند کرتے ہیں کہ ہم آپ کا مال لیں اور آپ کے علاقے کا دفاع نہ کر سکیں"۔
رومی عیسائیوں کی طرفداری کرنے کی بجائے الشام کے عیسائیوں نے یہ کہا:
رَدَّكُمُ اللهُ إلينا، ولَعَنَ اللهُ الذين كانوا يملكوننا من الروم، ولكن والله لو كانوا هم علينا ما ردُّوا علينا، ولكن غصبونا، وأخذوا ما قدَرُوا عليه من أموالنا، لَوِلايتُكُم وعدلُكم أحبُّ إلينا مما كنا فيه من الظلم والغُشْم ،
"اللہ تمہیں بحفاظت ہماری طرف واپس لوٹائے اور روم سے ہم پر قبضہ کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہو،اللہ کی قسم اگر وہ ہم پر آ جاتے تو واپس نہ آتے بلکہ غصب کرتے اور ہمارے مال میں سے جو پاتے، لے لیتے۔یقیناً،آپ کی سربراہی اور عدل ہمیں اس ظلم اور بدبختی سے زیادہ محبوب ہے جس میں ہم پہلے تھے۔"
ولایہ پاکستان سے شہزاد شیخ نے
حزب التحریر کےمرکزی میڈیا آفس کی ریڈیو نشریات کے لیے یہ مضمون لکھا۔
حوالہ:
Latest from
- موجودہ سیاسی انتشار غداری اور ذلت کے تخت اور اپنے آپ کو...
- قابض فوج کے جانی نقصانات... فوجیوں میں معذوری، دماغی بیماریاں...
- خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) سے پاکستان کو پانچ خطرات درپیش ہیں
- غزہ کا مسئلہ استعمار کے آلہ کار نہیں...
- فلسطین اور غزہ کی آزادی کے لیے خلافت اور جہاد کے لیے وسیع سرگرمیاں